نماز تراویح، جو اہل سنت کے درمیان مختلف صورتوں میں رائج ھے، کیا مذہب اہل بیت (ع) میں اس کی کوئی حیثیت ھے؟

نماز تراویح، جو اہل سنت کے درمیان مختلف صورتوں میں رائج ھے، کیا مذہب اہل بیت (ع) میں اس کی کوئی حیثیت ھے؟

 

رمضان کے مہینے میں عشاء کی نماز کے بعد اور وتروں،سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جو بیس/آٹھ رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد وقف ہوتا ہے۔ جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں رات کی عبادت کو بڑی فضیلت دی ہے۔ حضرت عمر نے سب سے پہلی تروایح کے باجماعت اور اول رات میں پڑھنے کا حکم دیا اور اُس وقت سے اب تک یہ اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار سنت ہے اور زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کیا جا سکتا ہے حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی حضرات بیس رکعت پڑھتے ہیں اور اہل حدیث آٹھ رکعت، تروایح کے بعد وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں۔

 

تراویج،  نوافل نمازوں کو کہا جاتا ھے، جو رمضان المبارک کی شبوں میں نماز عشاء کے بعد پڑھی جاتی ھیں-[1]

اہل سنت نے ان نمازوں کو خلیفہ دوم کے حکم سے پڑھنا شروع کیا ھے اور با جماعت پڑھتے ھیں[2]

جیساکہ آپ نے اشارہ کیا ھے، ان نمازوں کی رکعتوں کی تعداد متفاوت ھے-[3]

لیکن اھلبیت (ع)کی طرف سےنقل کی گئی ایک روایت کے مطابق،پیغمبر اسلام (ص) نےاس قسم کی کوئی نماز نھیں پڑھی ھے ، اسی طرح ان احادیث کے مطابق نافلہ نمازوں کو با جماعت پڑھنا بدعت اور ناجائز ھے-[4] اور[5]

حواله

[1] سعدی،ابوحبیب،القاموس ا لفقھی لغہ و اصطلاحا،ص۱۵۵

[2] ملاحظہ ھو: ابن الشرق النووی،شرح  الاربعین ا لنوویہ فی ا لاحادیث ا لصحیحہ النبویہ،ص۲۵

[3] خلفاء کی پوری تاریخ کے دوران اور ان کے بعد نماز تراویح کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میںں آگاھی حاصل کرنے کے لئے کتاب ” الفقہ علی مذاھب الاربعہ ومذھب اھلبیت{ع}” ج۱،ص۴۷۴ ملاحظہ ھو-

[4] شیخ حر عاملی،وسائل الشیعہ،ج۸،ص۴۴،باب عدم جوازالجماعہ فی صلاہ نوافل فی شھر رمضان ولا فی غیرہ

[5] آیت اللہ جعفر سبحانی،الانصاف فی مسائل دام فیھاالخلاف،ص۳۸۱

تبصرے
Loading...