قاتلین حسین (ع) کی حقیقت

قاتلین حسین (ع) کی حقیقت

 

امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی حقیقت کے سلسلے میں ایک مناظرہ

وہابی: ” شیعہ لوگ جو امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور ان پر گریہ کرتے ہیں وہ اس لئے کہ اپنے اباء واجداد کے گزشتہ ظلم کا جبران کریں کیونکہ انھیں کے باپ داداوٴں نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو قتل کیا ، اور پھر ان لوگوں نے توبہ کی اور اس طرح انھوں نے توابین (زیادہ توبہ کرنے والوں) کے عنوان سے اپنے گزشتہ ظلم و ستم کا جبران کرنا چاہا “۔

 

شیعہ: ”تم شیعوں پر یہ تہمت کس ماخذاور حوالہ سے پر لگار ہے ہو؟ “

وہابی: ”جو لوگ کربلا میں امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے آئے تھے وہ شام و حجاز اور بصرہ کے نہیں تھے بلکہ سب کے سب کوفہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت کوفہ میں اکثر شیعہ ہی رہتے تھے، انھیں لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا“۔

شیعہ: ”اولاً اگر بفرض محال شیعوں ہی میں سے کچھ لوگ خوف و فریب سے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے مقابلہ میں جنگ کے لئے آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہب شیعہ اور اس کے تمام ماننے والوں نے امام حسین علیہ السلام سے منحرف ہو کر یزید کے راستہ کو اختیار کر لیا تھا ،عموما ً یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر مذہب وملت میں کچھ نہ کچھ لوگ اپنے مذہب سے منحرف ہوجاتے ہیں لیکن ان کا عمل مذہب کے بے بنیاد ہونے پر دلیل نہیں بن سکتا ہے ،ثانیا ً یہ کہ حقیقت میں یہ سب باتیں محض تہمتیں ہیں جو بالکل بے بنیاد اور جھوٹی ہیں“۔

 

وہابی: ”کیوں اور کس دلیل سے ؟ “

شیعہ: ”سپاہیوں کا وہ لشکر جو کوفہ سے کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام سے لڑنے آیا تھا ان میں اکثر خوارج ، بنی امیہ اور وہ منافق تھے جو حضرت علی علیہ السلام حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس سے بھگائے گئے تھے اور اس لشکر کے تمام سردار حکومت علی علیہ السلام کے مخالفین میں سے تھے جن کو حضرت علی علیہ السلام نے معزول کر دیا تھا اور وہ لوگ خاندان رسالت علیہم السلام کے معتوب شمار کئے جاتے تھے جن سے ابن زیاد نے نا جائز فائدہ اٹھا یا۔

 

اور زیادہ تر اس گروہ مرتزقہ(خریدے ہوئے غیر عرب افراد)سے تعلق رکھتے تھے ،جنھیں بنی امیہ نے اپنی داخلی شورش کے کارکنوں کی سرکوبی کے لئے محفوظ کر رکھا تھا اس بنیاد پر کربلا میں جنگ کرنے والے شیعہ ہر گز نہیں تھے۔[1]

 

وضاحت: اگرچہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ میں شیعوں کی اکثریت تھی لیکن آپ کی شہادت کے بعد معاویہ کی حکومت کے زمانہ میں اس کے جلادوں کی اذیت اور سزاوٴں کے خوف کی وجہ سے وہ بھاگ گئے اور ادھر ادھر بکھر گئے تھے اور معاویہ کے خریدے ہوئے ظالموں نے اکثر کو قتل کر دیا تھا اور بہت سے بچے ہوئے لوگوں کو کوفہ سے نکال دیا تھا یہاں تک کہ زیاد ابن ابیہ (عراق میں معاویہ کا گورنر) کے زمانہ میں تمام شیعوں کو قتل کر دیا گیا یا زندان میں ڈال دیا گیا تھا اور یا تو وہ لوگ کوفہ سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے، معاویہ کے زمانہ میں اگر کسی پر کفر والحاد اور شرک کا جرم عائد ہوتا تو اس کے لئے نہ کوئی سزا تھی اور نہ کوئی خوف تھا لیکن کسی کو شیعہ کہنا اس کے جان ومال اور اس کے گھر کو ویران کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا ،زیاد ابن ابیہ ”سمیہ روسپی“کا بیٹا تھا جب یہ کوفہ کے دار الامارة میں مقرر ہو گیا تو معاویہ نے اسے لکھا: ”اے زیاد ! جو لوگ علی( علیہ السلام) کے مذہب پر زندگی گزار رہے ہیں انھیں قتل کردو اور قتل کے بعد ان کے ناک کان کاٹ لو“۔زیادنے مسجد میں اہل کوفہ کو بلوا کر کہا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کریں اگر کوئی ان پر لعنت نہیں کرے گا تو اس کی گردن اڑادی جائے گی۔[2]

 

منقول ہے کہ زیاد ابن ابیہ ”سعد بن سرح “نامی شخص کے قتل کے کے درپے تھا ،امام حسن علیہ السلام نے زیاد کو اپنے خط کے آخر میں لکھا کہ سعد بن سرح بے گناہ مسلمان ہے اس کا پیچھا چھوڑ دے۔

 

زیاد نے امام حسن علیہ السلام کے خط کے جو اب میں لکھا: ”کہیں نہ کہیں وہ میرے ہاتھ لگ ہی جائے گا اور اسے میں اس لئے قتل کردوں گا کہ وہ تمہارے (نعوذ باللہ )فاسق باپ سے محبت کرتا ہے“۔[3]

زیاد ابن ابیہ کی ایک ظلم یہ تھا کہ اس نے” سمرہ بن جندب “کو کوفہ اور بصرہ میں اپنا جانشین بنا دیا تھا اور زیاد ابن ابیہ کے مرنے کے بعد معاویہ نے سمرہ کو اس کے عہدہ پر باقی رکھا ،سمرہ کی خونخوار ی کی انتہا یہ تھی کہ اس نے ایک مرتبہ ۸۰ ہزار افراد کو نہایت دردناک طریقہ سے موت کے گھاٹ اتا ر دیا تھا۔[4]

عدوی کہتے ہیں: سمرہ نے ایک دن صبح کو ہمارے ۱۴۷/ افراد کو بے رحمی سے قتل کردیا جو سب کے سب حافظ قرآن تھے۔[5]

سر فہرست افراد جیسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھی ،مالک اشتر، محمد بن ابی بکر ،عمر بن حمق وغیرہ معاویہ کے خرید ہوئے مزدوروں کے سبب شہید کردیئے گئے۔

معاویہ کی بھیانک اور خطرناک حکومت ایسی تھی کہ عمربن حمق کا کٹا ہو اسر زندان میں ان کی بیوی کے لئے بھیجا گیا،[6] اور کوفہ کی فضا اتنی خطرناک حد تک دل ھلا دینے والی تھی کہ لوگ اپنے نزدیک ترین افراد پر بھی اس وجہ سے اطمینان نہیں رکھتے تھے کہ کہیں یہ معاویہ کا جاسوس نہ ہو۔

 

علامہ امینی لکھتے ہیں: ”اس بات کی طرف توجہ رہے کہ زیاد بن ابیہ کوفہ کے تمام افراد کو پہچانتا تھا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں وہ انھیں لوگوں کا جزء تھا اور وہ تمام شیعوں کو جانتا تھا جس کہ وجہ سے اگر کسی شیعہ نے پتھر کی آڑ میں یا کسی بل میں بھی پناہ لے رکھی تھی تو وہ اسے تلاش کروا کر قتل کردیتا اور ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیتا اور ان کی آنکھوں کو پھوڑ کر پھانسی پر چڑھا دیتا اور بعض کو شہر بدر کروا دیتاتھا نتیجہ میں شیعہ نام کا ایک شخص بھی کوفہ میں باقی نہیں رہ گیا تھا۔[7]

مختصر یہ کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ امام حسین علیہ السلام کے زمانہ میں چار ہزار یا پانچ ہزار شیعہ کوفہ میں نہیں بچے تھے اور ابن زیاد جب تخت پر آیاتو ان افراد کو بھی پکڑوا لیا اور امام حسین علیہ السلام کے عراق میں داخل ہونے سے پہلے پہلے ان سب کو جیل میں ڈال دیا شیعوں کی تعداد اس زمانہ میں بس انھیں افراد پر مشتمل تھی جو یزید کے مرنے اور زیاد ابن ابیہ کے بصرہ جانے کے بعد زندان کے دروازوں کو توڑ کر باہر نکل آئے تھے اور امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کیا تھا لیکن اس وقت تک امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو چار سال گزر چکے تھے اور جناب مختار کا قیام اس وقت تک عمل میں نہیں آیا تھا۔

زندان سے نکلے ہوئے یہ تمام شیعہ ۹۳ سالہ ”سلیمان بن صرد خزاعی “کی قیادت میں سپاہ شام سے جنگ کے لئے روانہ ہوگئے نتیجہ میں سلیمان اور اس کے بہت سے ساتھی اس دلیرانہ جنگ میں شہید ہوگئے۔

 

علامہ مامقانی لکھتے ہیں:

”امام حسین علیہ السلام کے عراق میں وارد ہونے سے پہلے ابن زیادہ نے ۴۵۰۰ شیعوں کو جیل میں ڈال دیا تھا جن میں سلیمان بن صرد خزاعی تھے جنھوں نے چار سال تک جیل کے کوٹھڑیوں میں زندگی گزاری ،اس طرح جو مشہور ہے اور ابن اثر سے نقل ہوا ہے کہ شیعہ اپنی جان کے خوف سے امام حسین علیہ السلام کی حمایت میں نہیںکھڑے ہوئے لیکن وہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد کافی شرمندہ ہوئے اور سلیمان بن صرد کی قیادت میں توابین نامی ایک گروہ کو تشکیل کیا تاکہ گزشتہ گناہ کی تلافی کر سکیں، یہ سراسر جھوٹ بات ہے۔[8]

 

اس طرح پتہ چلتا ہے کہ قاتلین امام حسین علیہ السلام کو فہ کے شیعہ نہیں تھے بلکہ خوارج، مرتدین اور منافقین تھے جو حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت میں معزول کردئے گئے تھے اور یہ امام حسین علیہ السلام کی حکومت کے بھگوڑے اور غیر عرب کے خریدے ہوئے پٹھو تھے۔

 

حوالہ جات

[1] اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام نے ان لشکریوں کو عاشورا کے دن ”شیعیان آل ابی سفیان“کہہ کر بلایا تھا جب دشمن خیموں پر حملہ کر نے لگے تو آپ نے فرمایا: ”ویلکم یا شیعة آل ابی سفیان“تمہارا برا ہواے ابو سفیان کے اولاد کے پیروکارو! اگر تم دین نہیں رکھتے اور تمہیں آخرت کا کوئی خوف نہیں تو کم از کم اس دنیا میں ہی آازاد زندگی گزارو،”اللہوف“سید ابن طاووٴس ص۱۲،

لہٰذا اس بنا پر یہی نہیں کہ وہ حقیقتاً شیعیان علی نہیں تھے بلکہ وہ ظاہراً بھی شیعان علی نہیں تھے ۔

[2] مروج الذہب ج۲، ص۶۹، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳، ص۱۹۹، الغدیر ج۱۱، ص۲۳و۳۹۔

[3] تاریخ طبری،ج۶،ص۱۳۲۔کامل بن اثیر ،ج۳،ص۱۸۳۔

[4] تاریخ طبری،ج۶،ص۱۳۲۔کامل بن اثیر ،ج۳،ص۱۸۳۔

[5] تاریخ طبری،ج۶،ص۱۳۲۔کامل بن اثیر ،ج۳،ص۱۸۳۔۔

[6] الغدیر ج۱۱، ص۴۴۔

[7] الغدیر ج۱۱، ص۲۸۔

[8] تنقیح المقال ،ج۲،ص۶۳۔

 

اور اگر فرض کریں اس کے درمیان کچھ لوگ برائے شیعہ تھے بھی تب بھی انھیں شیعہ کہنا کسی طرح درست نہ ہوگا البتہ ممکن ہے کہ کچھ افراد ایسے رہے ہوں جن کو سیاسی اور حکومتی حالات کا بالکل اندازہ نہ رہا ہو اور اعتقاد میں بھی وہ ضعیف رہے ہوں لہٰذا یزید کی دھمکیوں سے ڈر گئے ہوں اور پیسے کی لالچ میں آگئے ہوں مگر اس طرح کے چند افراد کی موجودگی سے یہ کہنا کہ امام حسین کو شیعوں نے قتل کیا ہے ہر گز درست نہ ہوگا جو واقعاً شیعہ تھے وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے

 

کیونکہ سارے حالات ان کے سامنے تھے سیاسی حکومتی تغیرات سے وہ پوری طرح آگاہ تھے ،اس وقت کوفہ میں موجود سارے شیعہ اسی نوعیت کے تھے ،اس طرح کی تمام باتیں بکے ہوئے راویوں اور درباری ملاوٴں کے دین ہیں۔جس کی اصلاح ہونا چاہئے۔

تبصرے
Loading...