آخرت میں اعمال كا محاسبہ كیونكر ہے؟

آخرت میں اعمال كا محاسبہ كیونكر ہے؟

 

تاكہ معلوم ہو كہ ان دونوں كی تطہیر اور خلاصی كیسے ہوگی ۔

پہلے گروہ میں وہ لوگ وہیں جو خدا اور اس كی راہ كے مطیع ہیں اور ان كا نامہ اعمال بھی اچھا ہے نیز خدا پر ایمان اور اسی سے لو لگاتے ہیں مگر لغزشوں اور گناہوں میں گھرے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے كہ ان كا دل ہر وقت اضطراب میں رہتا ہے اور چونكہ وہ لوگ خدا اور قیامت پر ایمان بھی ركھتے ہیں اور خوب جانتے ہیں كہ نیكی اور برائی دونوں كا انجام ثواب و عقاب ہے اگر تو بہ نہیں كی تو ساری ندامت ، اور كف افسوس ملنے كے باوجود منزل میزان سے نكلنے كے بعد مقام حساب میں روك دیا جائے گا ۔ یہی نافرمانیاں عالم حساب میں معذب ہونے كی باعث ہوں گی كہ بالتدریج اس (انسان) كو ایسا پاك و پاكیزہ بنادیا جائے گا كہ پورے وجود میں خدا كے سوا كسی كا جلوہ نہیں دیكھے گا ۔ بعبارت دیگر جو شخص گناہ كرنے كے بعد نادم ہوجائے وہ مقام حساب میں عذاب كا مستحق ہوگا جو بہت خفیف عذاب رہے گا اور اس كو جہنم كے اس طبقے میں ركھا جائے گا جو اس كا حصہ نہ ہوگا ۔
ایك روایت میں مذكور ہے كہ ۔

حضرت امام موسی كاظم علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
خداوند عالم ان ہی لوگوں كو جہنم میں ہمیشہ ركھے گا جو كافر ، مشرك اور باغی ہیں اور مومن كہ جنھوں نے گناہ كبیرہ كو ہاتھ تك نہیں لگایا ہے اگر ان سے گناہ صغیرہ سرزد ہوگیا ہے تو ان سے بازخواست نہیں ہوگی ۔ اور ان كو معذب نہیں كیا جائے گا كیونكہ خداوند عالم كا قرآن كریم میں ارشاد ہے ۔
اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روكا گیا ہے پرہیز كرلو گے تو ہم دوسرے گناہوں كی پردہ پوشی كریں گے اور تہمیں باعزت منزل تك پہونچادیں گے ۔ 1

اس روایت كے راوی محمد بن عمیر كہتے ہیں ۔
میں نے امام موسی كاظم علیہ السلام سے عرض كیا كہ یابن رسول اللہ ۔ پس شفاعت كن گناہ، اور كن لوگوں كے لئے ہے ۔
امام علیہ السلام نے جواب دیا ۔
میرے باپ (امام جعفر صادق علیہ السلام) نے دادا (محمد باقر علیہ السلام) اور انھوں نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل كیا ہے كہ آپ نے فرمایا ۔
میں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے كہ بے شك میری شفاعت امت كے ان ہی لوگوں كے لئے جو نیك ہیں اور انھوں نے گناہ كبیرہ نہ كیا ہو پس میری شفاعت گناہكاروں كے لئے نہیں ہے ۔
یہی ابن عمر نے حضرت اما م موسی كاظم علیہ السلام سے عرض كیا ۔
اے فرزند رسول ۔ گناہ كبیرہ كرنے والوں كے لئے شفاعت كیسی ہے جبكہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے كہ وہ كسی كی شفاعت نہیں كرسكتے مگر یہ كہ خدا پسند كرے اور وہ اس كے خوف سے برابر لرزتے رہتے ہیں اور جو گناہ كبیرہ كا مرتكب ہوا مرضی خدا شامل حال نہیں ہے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا ۔
اے احمد كے باپ ۔ كوئی مومن ایسا نہیں ہے جو گناہ كا مرتكب نہ ہوا ہو مگر یہ كہ برائی كو برا اور اس سے پشیمان ہو (كیونكہ اپنے وجود میں اسی وقت جلوہ الہی اور قیامت میں سرفراز ہوسكتا ہے جب گناہ كے عذاب سے خوف اور اس سے نادم و پشیمان ہو) اور رسول خدا كا ارشاد ہے كہ ۔
تو یہ ندامت ہی تو ہے ۔

پھر امام علیہ السلام نے عرض كیا۔
مومن انسان وہی ہے جو اپنے نیك امور پر خوش و مسرور ، اور برے اعمال پر نادم و پشیمان ہو پس جو شخص اپنے گناہ پر شرمندہ نہیں ہے وہ مومن نہیں ہے اور شفاعت اس كے شامل حال نہ ہوگی اور ایسا شخص ظالم ہے اور اس كے متعلق خدا كا فرمان بھی ہے كہ ۔
ظالمین كے لئے نہ كوئی دوست ہوگا اور نہ ہی شفارش كرنے والا تاكہ بات سن لی جائے ۔ 2 اس روایت كے مطالب پر غور كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ بعض انسان ایسے ہیں جو خدا كی بندگی كے باوجود گناہ میں ملوث ہیں اور اپنے كئے پر نادم و شرمندہ ہوں گے كیونكہ خوب جانتے ہیں كہ گناہ كی سزا ضرورہے ۔
اس قسم كے لوگ مقام (حساب) میں حتمی پاك كئے جائیں گے جو مصائب آلام كے ساتھ قرار پائے گی یہی گناہوں كے عذاب كا باعث ٹھرے گی اور یہ عذاب رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گا لیكن شفاعت ہوجائے تو عذاب سے جلدی چھٹكارا مل جائے گا ۔
دوسرے گروہ میں وہ لوگ آتے ہیں جنھوں نے خدائے متعال كی مخالفت اور گناہ بھی نہیں كیا ہے اگر كیا تھا تو توبہ واقعی كرلی تھی لیكن ہوا وہوس اور خواہشات كے پیرو تھے ۔ جس طرح ایك گروہ عالم حشر میں گناہوں سے پاك كیا جائے گا اور اس كے بعد مقرب بارگاہ بن جائے گا ۔ یہ گروہ بھی پاك ہوگا ۔ تاكہ دل میں خدا كی محبت مامور ہوجائے اور اس كی بارگاہ میں جانے كے قابل بن جائے كیونكہ اس كی بارگاہ میں شرفیاب ہونے كے لئے غیر خدا كی نفی كرنا ضروری و لازم ہے ۔
{لاالہ الا اللہ}

لیكن ہوا وہوس اور خواہشات كا تزكیہ كیسے ہوگا ؟ اس كو سمجھنے كے لئے درج ذیل باتوں پر غور وفكر كرنے كی ضرورت ہے ۔
الف) قرآن كی بعض آیات سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے كہ ۔
انسان زندگانی دنیا میں ظلمت كا شكار ہے وہ جان بوجھ كر ہو یا سہل انگاری سے ، یعنی ظلمتیں بعض پر احاطہ كئے ہوئی ہیں جن كا نتیجہ ہمیشہ خطرناك اور بھیانك ہے۔

{اللہ ولی الذین آمنوا یخرجھم من الظلمات الی النور } 3
ترجمہ : اللہ صاحبان ایمان كا ولی ہے وہ انھیں تاریكیوں سے نكال كرروشنی میں لے آتا ہے ۔ یہ آیت حقیقت كو بیان كررہی ہے نہ كہ ایك اعتباری بات كو ۔ اور وہ یہ كہ اگر انسان ظلمت سے نكل كر ہدایت یافتہ بن جاتا ہے تو اس صورت میں اس كا سرپرست اور ولی خدا قرار پائے گا ۔

ب) بہت ساری آیات ور وایات سے ایسا معلوم ہوتا ہے كہ ظلمتیں دنیا كی خواہشات ، اور آرزوٴں كی بناء پر معرض وجود میں آتی ہیں اور در حقیقت ہوا ہوس ، اور خدا كو بھول بیٹھنا ہی ظلمت ہے شہرت ، عہدہ ، بیوی ، اور اولاد ، مال اور …متعدد نامعلوم آرزوئیں ہیں جنھوں نے انسان كو گھیرركھا ہے ۔
جو اس كو قعر مذلت كی طرف لے جارہی ہیں اور چونكہ اس كا اس پر بس نہیں چل رہا ہے لہذا اندھا ، اور فریفتہ بنا ہوا ہے ۔ جس كا نتیجہ یہ ہے كہ حالت نماز میں ایك لمحہ بھی دل حاضر نہیں رہتا ہے ، ان خواہشات نے انسان كو كچھ اس طرح جكڑركھا ہے كہ اگر وہ نماز ، اور دعا و مناجات میں گریہ و زاری طاری بھی كرنا چاہتا ہے تو وہ ہونے نہیں دیتی كیونكہ انسان نے خواہشات نفسانی كا گندہ پانی پی ركھا ہے ۔ اور اپنے كو تاریكیوں كا دلدادہ ، اندھا اور اسیر بنا لیا ہے ، اہل بصیرت (كہ جنھوں نے اسی دنیا میں ساری خواہشات سے منھ موڑ لیا ہے) كے سامنے تاریكیوں كے عواقب نظر آتے ہیں اور خلوت میں اپنے نفس اور خامیوں پر كڑی نظر ركھتے ہیں اور اس پر نالہ وشیون كیا كرتے ہیں ۔ {انی كنت من الظلمات} 3

جب منزل كمال پر فائز ہوجاتے ہیں تو كبھی خداوند عالم كے اسماء حسنی یا اہلبیت علیھم السلام سے امید لگا كر ایك لمحہ كے لئے ٹمٹماتے ستارے كی مانند جگمگاتے تو كبھی چاند و سورج كی طرح روشن ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح عوالم كے مصائب و آلام كو دیكھتے ہیں اور جب عالم نور میں پہونچتے ہیں تو نورانی بن جاتے ہیں یہاں پہونچ كر دل میں (خدا كے سوا) كسی دوسری چیز كی آرزو نہیں كرتے ہیں ۔

لیكن جن لوگوں نے اس دنیا میں خدا كو چھوڑ ركھا ہے اور ہواہوس كے شكار ہوگئے ہیں اسی مقدار میں مقام (حساب) میں سوا خندہ ، اور جتنی ظلمتوں میں زندگی گذاری ہے ان كو مصائب وآلام كا سامنا كرنا پڑے گا ۔ ایك طرف چونكہ انھوں نے اپنی توجہ كا مركز خدا كو قرار دے ركھا تھا اس لئے عوالم قرب وجود نوری ، موجودات نوری اور عوالم بہجت و سرور كو دیكھیں ۔ تا كہ دل ان چیزوں سے دور ہوجائے اور اس كا تزكیہ ہوجائے اور عوالم نور میں جانے كے لائق بن جائے ۔ كیونكہ انسان خدا سے اسی وقت قریب ہوسكتا ہے جب آرزوٴں ، اور خواہشات سے رشتہ ناطہ توڑلیا ہو ۔

یاد رہے كہ بعض ضروریات زندگانی كا دنیاوی امور سے دلبستگی ، اور آرزو كرنے پر باز پرس نہیں كی جائے گی حتی ان كا حساب و كتاب بھی نہیں لیا جائے گا ۔ جیسا كہ امام جعفر صادق علیہ السلام كی حدیث بھی ہے كہ ۔
لیكن اگر ان چیزوں كے علاوہ خواہشات كی ہے تو معلوم ہونا چاہیئے كہ ان امور میں حساب و كتاب دینا پڑے گا ۔
مقام (حساب) میں كیسے تزكیہ كیا جائے گا اس كو واضح كرنے كے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام كی ایك روایت پیش كرتے ہیں ۔
قیامت كے دن منزل حساب میں دو مومن ایك دنیا میں غریب تھا اور دوسرا ثروتمند دونوں كو لایا جائے گا پس غریب عرض كرے گا ۔ پروردگار تو خوب جانتا ہے كہ دنیا میں نہ میرے پاس حكومت و ریاست تھی اور نہ ہی ہم نے كسی پرظلم كیا ہے اور نہ كسی مجبور كی اعانت كی ہے جتنا ہمارے پاس تھا اسی پر قناعت كی تھی پھر كس بات پر ہمیں روك ركھا ہے ؟

خداوند عالم جواب میں فرمائے گا ۔ میرا بندہ سچ كہہ رہا ہے اس كو چھوڑ دو تا كہ بہشت میں داخل ہوجائے (كیونكہ وہ جب دنیا میں كوئی ایسی چیز نہیں ركھتا تھا جس پر دل دے بیٹھا ہو) اس كو دیكھ كر ثروتمند انسان پسینہ میں اتنا شرابور ہوجائے گا كہ اگر چالیس اونٹ اس كو پی لیں تو سیراب ہوجائیں گے (شاید یہ پسینہ خدائے سبحان كے سامنے شرمندگی كی بناء پر ہو كہ مقام حساب كے فشاروں میں سے ایك ہے) پھر اس كے بعد داخل بہشت كردیا جائے گا ۔

غریب (جو پہلے جنت میں پہونچ گیا ہے) ثروتمند سے كہے گا كہ تم كو كس چیز نے روك ركھا تھا وہ عرض كرے گا ۔ طویل حساب نے جو پئے درپئے پیش آرہے تھے اور میں استغفار كررہا تھا یہاں تك كہ ایك ایك چیز پوچھی گئی اور رحمت خداوندی میرے شامل حا ل قرار پائی اور ہم كو توبہ كرنے والوں میں قرار دیا ۔ 4
یہ روایت بخوبی اس حقیقت كو بیان كررہی ہے كہ ثروتمند انسان كے اوپر مسلسل جو مصائب و آلام پیش آرہے تھے یہاں تك كہ بالتدریج مغفرت الہی مشمول حال قرار پائی اور جنت میں بھیج دیا گیا صرف خواہشات ، امور دنیا كی آرزوئیں اور غیر خدا سے پاك و صاف ہونا ہے ۔ البتہ گرچہ اس روایت نے غریب و امیر كی طرف اشارہ كیا ہے لیكن سیاق روایت سے بخوبی اس حقیقت كا انكشاف ہورہا ہے كہ اصل مسئلہ امور دنیاوی سے دلبستگی ہے نہ كہ ثروتمند ہونا ۔ پس ممكن ہے كہ ایك انسان ثروتمند ہو لیكن دنیا اور مال سے بے غرض ہو ۔ لہذا اس حدیث سے امیر و غریب دونوں كا دنیا سے بے لوث ہونا سمجھ میں آرہا ہے ۔ 5

ماخذ

مرگ تا قیامت (پرسش های دانشجویی)؛ مؤلف: محمد رضا كاشفی؛ مترجم: سید كرار حسین رضوی گوپالپوری

 

1. نساء آیہ ۳۱ ( ترجمہ علامہ جوادی)

 

2. عن محمد بن ابی عمیر، قال: سمعت موسی بن جعفر علیھما السلام یقول: لایخلد اللہ فی النار الااھل الكفر والجحود واھل الضلال والشرك ، ومن اجتنت الكبائر من المومنین لم یساٴل من الصغائر ، قال اللہ تبارك و تعالی ” ان تجتنبوا كبائر ماتنھون عنہ نكفر عنكم سیئاتكم وندخلكم مدخلا كریما ” “قال: فقلت لہ: یابن رسول اللہ فالشفاعة لمن تجب من المومنین ؟ قال: حدثنی ابی عن ابائہ ، عن علی علیھم السلام قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول : انما شفاعتی لاھل الكبائر من امتی ، فاما المحسنون منھم فما علیھم من سبیل ” قال ابن ابی عمیر ، فقلت لہ: یابن رسول اللہ فكیف تكون الشفاعة لا ھل الكبائر واللہ تعالی ذكرہ یقول :” ولا یشفعون الا لمن ارتضت وھم من خشیة مشفعون “ومن یرتكب الكبائر لایكون مرتضی ، فقال : یا ابا احمد ما من مومن یرتكب ذنبا الا سائہ ذلك و ندم علیہ ، و قد قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ : ” كفی بالندم توبہ ” وقال علیہ السلام : ” من سرتہ حسنة و سائتہ سیئتة فھو مومن ” فمن لم یندم علی ذنب یرتكبہ فلیس بمومن ولم تجب لہ الشفاعة وكان ظالما واللہ تعالی ذكرہ یقول : ” ما للظلمین من حمیم ولا شفیع یطاع ” فقلت لہ : یابن رسول اللہ وكیف لایكون مومنا من لم یندم علی ذنب یرتكبہ ؟ فقال یا ابا احمد ما من احد یرتكب كبیرة من المعاصی وھو یعلم انہ سیعاقب علیھا الا ندم علی ما ارتكب و متی ندم كان تائبا مستحقا للشفاعة ، و متی كم یندم علیھا كان مصرا والمصر لا یغفر لہ لانہ غیر مومن بعقوبة ما ارتكب ولو كان مومومنا بالعقوبة لندم (الصدوق ، ابی جعفر محمد ، التوحید ، صص ۴۰۷۔و ۴۰۸ ، روایت ۶)۔
3. بقرہ آیہ ۲۵۷۔ (ترجمه علامہ جوادی)

4. عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال: ثلاثة اشیا لایحاسب العبد المومن علیھن : طعام یاكلہ و ثوب یلبسہ و زوجة صالحة تعاونہ و یحصن بھا فرجہ (بحار الانوار ج ۷ ، ص ۲۶۵ ، ح ۲۳)۔

5. عن الصادق جعفر بن محمد علیھما السلام قال: اذا كان یوم القیامة وقف عبد ان مومنان للحساب كلاھما من اھل الجنة فقیر فی الدنیا و غنی فی الدنیا فیقول الفقیر یا رب علی ما اوقف ؟ فو عزتك انك لتعلم انك لم تولنی ولایة فاعدل فیھا او اجورولم ترزقنی مالا فادی منہ حقا او امنع ولا كان رزقی یاتینی منھا الاكفافا علی ما علمت و قدرت لی ، فیقول اللہ جل جلالہ : صدق عبدی خلوا منہ یدخل الجنة و یبقی الآخرحتی یسیل منہ العرق مالوشربہ اربعون بعیرا كفاھا، ثم یدخل الجنة ، فیقول لہ الفقیر : طول الحساب مازال الشیء یجئنی بعد الشیء یغفرلی ، ثم اسال عن شئی اخر حتی تغمدنی اللہ عزو جل منہ برحمة الحقنی بالتائبین “؛ (بحار الانوار ج۷،ص ۲۵۹ ، ح ۴)

حواله

تبصرے
Loading...