اس کى کیا وجه هے که حضرت على (ع) اور امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے زمانه میں امام جعفر صادق (ع) کے زمانه کے مانند اماموں کى عصمت اور ان کى پیرووں کے موضوع پر بحث نهیں هوئى هے؟

اس کى کیا وجه هے که حضرت على (ع) اور امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے زمانه میں امام جعفر صادق (ع) کے زمانه کے مانند اماموں کى عصمت اور ان کى پیرووں کے موضوع پر بحث نهیں هوئى هے؟

 

اس کى کیا وجه هے که حضرت على (ع) اور امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے زمانه میں امام جعفر صادق (ع) کے زمانه کے مانند اماموں کى عصمت اور ان کى پیرووں کے موضوع پر بحث نهیں هوئى هے؟ اور حقیقت میں ، امام على (ع) اور ان کى اولاد کے زمانه میں امام معصوم کى پیروى کے موضوع کے بارے میں کیوں کوئى ایسى اهمیت نهیں ملتى جیسى آج شیعوں میں پائى جاتى هے؟

ایک مختصر

اہل سنت کے برخلاف شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امام ، مسئلہ وحی کے بغیر تمام امور میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برابر ہے ، اس بنا پر پیغمبر (ص) کے مانند خطا ، لغزش اور گناه سے پاک و منزه یعنی معصوم ہیں. پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام بہی ایسے ہی تہے۔ٓ

 

لیکن اہل سنت ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی کو ایک اجتماعی عطیہ و مقام جانتے ہیں نہ کہ ایک الہی منصب، ان کی نظر میں یہ منصب لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو عطا ہوتا ہے اور خلیفہ لوگوں کی طرف سے اس منصب پر فائز ہوتا ہے اس لئے ان کے اعتقاد کے مطابق خلیفہ کیلئے معصوم ہونا ضروری نہیں ہے

شیعوں کے عقلی و روایتی دلائل

۱۔ عقل سلیم کے حکم کے مطابق ، امام کو ہر حیثیت میں لوگوں کی طرف سے سو فیصدی قابل اعتماد اور ہر قسم کی خطاء و انحراف سے معصوم ہونا چاہئے. کیونکہ وه انبیاء کی شریعت و رسالت کو بیان کرنے والا ہوتا ہے. تا کہ وه انبیاء علیہم السلام کے دین اور ان کے احکام کی حفاظت کرسکے چونکہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کو بہیجنے کا مقصد تعلیم و تربیت ہے. اور اس کیلئے خداوند متعال کی طرف سے ان کو عطا ہونے والے سرشار علم کی ضرورت ہے تا کہ یہ الہی علم کسی کمی بیشی کے بغیر لوگوں تک پہنچایا جاسکے اور یہ علم ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہونا چاهیئے. مزید منصب امامت متقاضی ہے کہ امام معصوم ہو.

 

۲۔ آیات و روایات پر مشتمل ایسے قابل اعتبار دلائل موجود ہیں، جن سے امام کی عصمت ثابت ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں ، آیہ تطہیر ، آیہ امامت و اطاعت کے علاوه حدیث ثقلین اور حدیث منزلت قابل ذکر ہیں ۔

اس کے علاوه شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امامت ، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی ہے ، نبوت کے مانند ایک انتصابی مقام ہے نہ کہ انتخابی ، اور اس منصب کا عہده دار خداوند متعال کی طرف سے ( نصب ) معین و مقرر ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں معصوم وه ہے جو کہلم کہلا یا مخفی طورپر کسی گناه و خطا کا مرتکب نہ ہو اوریہ بدیہی بات ہے کہ خداوند متعال کے علاوه کوئی شخص کسی کی عصمت کو بیان نہیں کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ عصمت کی تشخیص صرف نص اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے۔

تفصیلی جوابات

۱۔ لغت کی کتابوں میں ” امام” کے معنی ہیں پیشوا اور امام  اسے کہتے ہیں جو رہنما ہو اور دوسرے اس کی پیروی کرتے ہوں۔

راغب ، اپنی کتاب ” مفردات” میں لکہتے ہیں: امام وه ہے جس کی پیروی کی جائے[1]۔

۲۔ امامت کے بارے میں اصطلاحا علم کلام میں گوناگوں تعریفیں کی گئی ہیں۔

شیعوں کے نقطہ نظر سے امامت کی تعریف یہ ہے کہ: دین کا عام پیشوا لوگوں کی دینی و دنیوی مصلحتوں کے تحفظ کا ذمہ دار ہوتا ہے اور انہی مصلحتوں کے پیش نظر لوگوں کو نقصانات سے بچاتا ہے۔[2]

لیکن اہل سنت کے نقطہ نظر کے مطابق امامت کی یوں تعریف کی گئی ہے کہ امام پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کے عنوان سے لوگوں کے دینی و دنیوی امور کے بارے میں ایک عام اور وسیع پیشوائی و سرپرستی ہے۔[3]

۳۔ عصمت کے معنی و مفہوم : لغت میں عصمت ، تحفظ اور روکنے کے معنی میں ہے۔ اور علم کلام کی اصطلاح میں اس کی تعریف ہے : ایسا نفسانی ملکہ جو احکام الہی کی خلاف ورزی نہ کرنے کا سبب بن جاتا ہے اور یہ نفسانی ملکہ انسان کو خطا اور بہول چوک سے محفوظ رکہتا ہے ۔

عصمت ایک ایسا ملکہ ہے جو لازمی احکام کی خلاف ورزی (عمدا یا سہوا) نہ کرنے کا سبب بن جاتا ہے باوجودیکہ انسان ان تکالیف (احکام ) کی خلاف ورزی کرنے کی قدرت بہی رکهتا ہے۔[4]

شیعوں کا اعتقاد ہے کہ : امامت اسی رسالت و نبوت کا سلسلہ ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریعت کے بانی ہیں اور ان پر وحی نازل ہوتی تہی لیکن امام شریعت کو بیان کرنے والا او اس کا محافظ اور رکہوالا ہوتا ہے۔ اس بناء پر ، امام علیہ السلام نزول وحی کے بغیر تمام امور میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمقدم ہوتا ہے۔[5]

معارف اسلامی ، اصول و فروع اسلامی سے مربوط علم ، ظاہری و باطنی گناه، خطا اور بہول چوک ، میں عصمت جیسی شرائط ، جو پیغمبر کیلئے ضروری ہیں ، بالکل وہی شرائط امام کیلئے بہی ضروری ہیں۔ چونکہ عصمت کی صفت کو حاصل کرنے کیلئے نص اور خداوند متعال کے امر کے علاوه کوئی طریقہ نہیں ہے، اس لئے شیعہ امامت کو نبوت کے مانند ایک انتصابی مقام جانتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ : اس منصب کا مالک خداوند متعال کی طرف سے مقرر و معین ہوتا ہے۔ لیکن شیعوں کے بر عکس ، اہل سنت ، اس عظیم دینی اور اجتماعی منصب کو ایک اجتماعی عطیہ جانتے ہیں، جو لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو عطا کیا جاتا ہے۔اور خلیفہ انتخاب کے ذریعہ اس منصب پر فائز ہوتا ہے مذکوره دو گروہوں ( شیعہ و سنی ) کی طرف سے پیش کی گئی تعریفوں پر غور و خوض کرنے کے نتیجہ میں یہ معنی حاصل ہوتے ہیں۔

ذیل میں مذکوره دو گروہوں کے بعض دلائل پر توجہ فرمائیں۔

الف ) امام کےلئے عصمت کی ضرورت کے عقلی دلائل

 

۱۔ چونکہ امام شرع محافظ اور انبیاء کی رسالت کو بیان کرنے والا اور انسانوں کی تربیت کرنے والا ہوتا ہے اسی لئے لوگوں کیلئے سو فیصدی قابل اعتماد ہونا چاہئے اور معصوم نہ ہونے کی صورت میں یہ اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔

۲(اگر امام گناه کا مرتکب ہوجائے تو لوگوں کے دلوںمیں اس کا احترام زائل اور محبوبیت ختم ہوجاتی ہے اور اس کی اطاعت و پیروی نہیں کی جاتی اور اس طرح امام کے منصوب ہونے کا فائده مفقود ہوجاتا ہے[6] ۔

۳)اگر امام معصوم نہ ہو اورگناه کا مرتکب ہوجائے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مطابق اسے سزا دینا واجب بن جاتا ہے ، جبکہ امام کے ساتہه ایسا برتاؤ کرنا اولا: امام کو منصوب کرنے کے مقصد سے متناقض ہے۔ ثانیا : آیہ شریفہ اطاعت ( سوره نساء /۵۹) کے خلاف ہے ، کیوں کہ مذکوره آیہ شریفہ میں امام کی اطاعت کرنے اور اس کے منصب و مقام کے احترام کا مطلق صورت میں ذکر کیا گیا ہے۔ [7]

 

۴) امام ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مانند شرع کا محافظ ہوتا ہے ، لہذا اسے بہی معصوم ہونا چاہئے ، کیونکہ حفاظت اور نگرانی سے مراد علمی و عملی حفاظت ہے اور یہ ظاہر ہے کہ علم و عمل کے ذریعہ شریعت کا تحفظ صرف معصوم ہونے کی صورت میں ممکن ہے کیوں کہ غیر معصوم کم از کم خطا سے دوچار ہوتا ہے اور اگر ہم شریعت کے ایک حصہ کی حفاظت پر اکتفا کریں تو اس صورت میں اس کے دوسرے حصہ کو شارع کے مطابق ناقابل اعتبار جاننا چاہئے جب کہ ضرورت اس کے بر خلاف ہے، کیوں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام احکام کی تعلیم دینے کیلئے تشریف لائے ہیں۔

 

۵)مذکوره بیان کے مطابق امام کے منصوب ہونے کا فلسلفہ عام طور پر فکری و عملی انحراف کا سبب بننے والی خطا و اشتباه سے پرہیز کرنے کے لئے لوگوں کی ہدایت کرنا ہے اگر خود امام بہی غلطی سے دوچار ہوجائے اور اس سے محفوظ نہ ہو تو وجوب نصب امام کے فلسفہ کے مطابق ، اس کی ہدایت اور راہنمایی کےلئے کسی امام کا ہونا ایک ضروری امر بن جاتا ہے تا کہ اس کی غلطیوں اور خطاؤں کے سلسلہ میں اس کو متنبہ کرے اور صحیح طریقہ پر اس کی ہدایت کرے ، لہذا اس دوسرے امام کو معصوم ہونا چاہئے اور اگر وه بہی معصوم نہ ہو تو کسی اور امام کی ضرورت ہے اور اس طرح امام کی ضرورت لا متناہی صورت میں جاری رہتی ہے اور یہ وہی تسلسل ہے جو عقل کے حکم سے محال اور باطل ہے اس لئے ایک ایسے امام پر منتہی ہونا ضروری ہے جو صاحب عصمت ہو اور دوسروں کی ہدایت کرنے کی توانائی رکہتا ہو اس طرح کہ اس میں کسی قسم کی خطاء و و انحراف کا نشان تک نہ پایا جاتا ہو۔[8]

ب ۔ روایتی دلائل

قرآن مجید میں ، انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی عصمت کے بارے میں کئی آیات موجود ہیں۔ ہم ان میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشاره کرتے ہیں:

۱۔ آیہ امامت

” اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا اور وه کامیاب ہوگئے تو خدا نے ان سے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا اما اور قائد بنا رہے ہیں انہوں نے عرض کی کہ کیا میری ذریت کو بہی؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہده امامت ظالمین تک نہیں جائے گا”[9] یہ آیہ شریفہ وضاحت کرتی ہے کہ الہی عہده، جو وہی امامت کا منصب ہے ، ظالموں کو نہیں ملتا ہے۔

یہ ایک جانب سے ہو یا دوسری جانب سے ، ہر گناه ، خواه صغیر ہو یا کبیره ، ظلم ہے اور خدا کو پسند نہیں ہے ، اس لئے کہ خدائے تعالی فرماتا ہے : ” یہ حدود الہیہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور جو حدود الہی سے تجاوز کرے گا وه ظالمین میں شمار ہوگا”[10]۔

اس آیہ شریفہ کے مطابق ، گناه ، خواه صغیره ہو یا کبیره ، ظلم شمار ہوتا ہے کیوں کہ آخر کار تو یہ خدا کے حکم کی نافرمانی ہے یہاں پر مندرجہ ذیل دو مطلب قطعا حکمی ہیں:

الف : ہر گناه ( صغیره یا کبیره) خدا کے حکم کی نافرمانی کے سبب ظلم شمار ہوتا ہے ۔

ب: خدائی عہده ظالموں تک نہیں پہنچتا ہے۔

 

نتیجہ یہ نکلا کہ امامت کا عہده و منصب ایک خدائی منصب ہے[11] اور قرآن مجید نے الہی منصب کو ان لوگوں کے لئے مخصوص کیا ہے جو ظلم سے آلوده نہ ہوں۔ دوسری جانب ،ہم جانتے ہیں کہ ہر گناه، کم از کم اپنے نفس پر ظلم ہے اور قرآن مجید کے مطابق ہر گناه گار کو ظالم کہا جاتا ہے۔ اس لئے ، ائمہ اطہار علیهم السلام جو منصب الہی کے مالک ہیں، ہر قسم کے ظلم اور گناه سے پاک و منزه ہیں۔[12]

۲۔آیہ تطہیر

“بس اللہ کا اراده یہ ہے،که اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی دور رکہے اور اس طرح پاک و پاکیزه رکہے جو پاک و پاکیزه رکہنے کا حق ہے”[13]۔

یہ آیہ شریفہ ، اہل بیت علیہم السلام کی عصمت پر یوں دلالت کرتی ہے کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ہر قسم کی برائی سے پاک ہونے کے سلسلہ میں مشیت الہی کا تعلق ان کے گناه سے منزه اورپاک ہونے کے مساوی اور لازم و ملزوم ہے، کیوں کہ آیت میں “رجس” سے مراد ہر قسم کی فکری اور روحی برائی ہے کہ گناه اس کا ایک واضح مصداق ہے اور چونکہ یہ اراده خاص افراد سے متعلق ہے، نہ کہ امت کے تمام افراد سے ، اس لئے قدرتی بات ہے کہ آیہ تطہیر ، عمومی تطہیر سے متعلق اراده سے فرق رکہتی ہے، تمام مسلمانوں پر مشتمل تطہیر کا اراده ایک تشریعی اراده ہے،[14] ممکن ہے افراد کی نافرمانی کے سبب حاصل نہ ہو جبکہ یہ اراده ، ایک تکوینی اراده ہے جو اراده (گناه سے پاکی ) کے مراد و متعلق سے جدا نہیں ہوسکتا۔[15]

 

۳۔ آیہ اطاعت

” ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو ، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمهیں میں سے ہیں”[16]

یہ آیہ شریفہ بہی ان آیات میں سے ہے جو ائمہ اطہار علیهم السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے کیوں کہ اس میں رسول (ص) اور اولی الامر کی اطاعت کو مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے اور کسی شرط کی قید نہیں لگائی گئی ہے رسول اور اولی الامر کی مطلق اطاعت اسی صورت میں صحیح ہے جب وه خدا کی اطاعت کی ایک کڑی ہو اور انکی پیروی کرنا خدا کی اطاعت سے ٹکراؤ کی صورت میں نہ ہو ، ورنہ خداوند متعال کی طرف سے مطلق اطاعت کا حکم اور جائز الخطا افراد کی طرف سے اطاعت کا مطلق حکم تناقض کا سبب بنے گا۔[17]

 

۴۔ حدیث ثقلین

یہ حدیث ایک متواتر حدیث ہے اور شیعہ اور سنی دونوں نے اس کی روایت کی ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی انہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض”۔

” میں ( اس حالت میں تم لوگوں سے رخصت ہوتا ہوں جبکہ ) تمہارے درمیاں دو گراں قیمت امانتوں کو چہوڑ رہا ہوں، یہ دو چیزیں خدا کی کتاب اور میرے اہل بیت ہیں، یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجہه سے ملیں گے۔

اس حدیث کے حکم سے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کو قرآن مجید کے برابر قرار دیا ہے اور تاکید فرمائی ہے کہ یہ دونوں کبہی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، اہل بیت علیہم السلام کی عصمت پر ایک واضح دلیل ہے، کیونکہ چہوٹے سے چہوٹے گناه کا مرتکب ہونا ، اگرچہ خطا اور غلطی کے سبب ہی ہو ، قرآن مجید سے عملا جدا ہونے کے مترادف ہے ،اس لئے ، جس طرح قرآن مجید ہر قسم کی خطا و اشتباه سے پاک اور محفوظ ہے ، اسی طرح ائمہ اطہار علیہم السلام بہی ہر قسم کی فکری و عملی خطا سے منزه و پاک ہیں۔

جب یہ واضح ہوا کہ امام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ کی حیثیت سے گناه و خطا سے معصوم ہونا چاہئے تو ظاہر ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کے لئے عصمت کی صفت حاصل کرنے کے سلسلے میں نص اور خدا وند متعال کے ارشاد گرامی کے علاوه کوئی اور صورت نہیں ہے ،کیونکہ صرف خداوند متعال ہی اسرار اور مخفی چیزوں اور دلوں کے احوال کا عالم ہے۔

اب ہم اس سلسلہ میں اجمالی   طور پر ان نصوص پر ایک نظر ڈالتے ہیں جں میں امام کے معصوم ہونے کے موضوع کو واضح کیا گیا ہے:اس نص اور وضاحت کا اعلان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے بارے میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے ، جسے شیعہ اور سنی سب مانتے ہیں اور دونوں فرقوں کی حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ ان واقعات میں سے ایک واضح ترین واقعہ غدیر خم ہے، جہاں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خداوند متعال کے حکم سے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے جانشین کے عنوان سے پہچنواتے ہوئے فرمایا : “جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بہی مولا ہیں[18] ”

 

ایک اور جگہ پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا : “مؤمنین کی حکومت اور امارت میں اس (علی) کی اطاعت کرو” [19]

اس کے علاوه ایک اور مقام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتہه کو پکڑ کر اشاره کرتے ہوے فرمایا : ” یہ (علی ) میرے بعد تمہارے درمیان میرے خلیفہ اور جانشین ہیں ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو”۔[20]

 

امام علی علیہ اسلام کے بعد والے اماموں کو بہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور پہلے والے امام ، اپنے بعد والے معصوم کو پہچنواتے اور معین فرماتے ہیں۔ مثال کے طورپر حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: “یہ میرے فرزند ہیں ، امام ہیں ، امام کے بیٹے ہیں امام کے بہائی ہیں نو اماموں کے باپ ہیں کہ ان میں سے نویں قائم ہیں یہ حجت ہیں حجت کے بیٹے ہیں ، حجت کے بہائی ہیں نو حجتوں کے باپ ہیں[21]

 

اختصار کے پیش نظر ہم اسی ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے قارئیں کرام سے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں ” النجاۃ فی القیامۃ ” تالیف ابن میثم بحرانی ، ” منتخب الاثر ” تالیف صافی گلپائیگانی ، ” الغدیر” تالیف علامہ امینی ، اس کے علاوه اسی سائٹ میں بعض عنوان موجود ہیں: جیسے:

۱۔ “قرآن مجید کی نظر میں انبیاء کی عصمت” ، سوال نمبر ۱۱۲ (ساتٹ: )

۲۔ عام انسانوں کی عصمت ” سوال نمبر ۱۰۴ ( سائٹ : )

۳۔ “اہل بیت علیہم السلام کو چند افراد تک محدود کردینے کی وجہ” سوال نمبر ۲۴۳ ( سائٹ : )

حواله

[1]  راغب اصفہانی ، مفردات الفاظ قرآن ، لفظ امام۔

[2]الامامۃ رئاسۃ عامۃ دینیۃ مشتملۃ علی ترغیب عموم الناس فی حفظ مصالحہم الدینیۃ و الدنیا و بہ و زجرہم عما یضرہم بحسبہا” خواجہ نصیر طوسی ، قواع العقائد ، ص ۱۰۸۔

[3]  الامامۃ رئاسۃ عامۃ فی امور الدین و الدنیا خلافۃ عن النبی ،قوشجی ، علاء الدین ، شرح تجرید ص ۴۷۲ “۔

[4]  اں العصمۃ ملکۃ تقتضی عدم مخالفۃ التکالیف اللزومیۃ عمدا و خطاء مع القدرۃ علی الخلاف” ، مظفر، محمد رضا ، دلائل الصدق ، ج ۲ ص ۴۔

[5]  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فرمایا” انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی ” مجہه سے تیری نسبت ، ہارون (ع) کی موسی (ع) سے نسبت کے مانند ہے ، البتہ صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے ” سیرۃ ابن ہشام ، ج ۲ ص ۵۲

[6] مظفر ، محمد رضا، دلائل الصدق ، ج ۲ ص ۸ ۔ ۱۰۔

[7]  ایضا

[8]  مختاری ، مازندرانی، محمد حسین ، امامت و رہبری ، ص ۵۹

[9]  “و اذ ابتلی ابراہیم ربہ ۔۔۔۔ قال لا ینال عہدی الظالمین “۔ بقره /۱۲۴

[10]  “۔۔۔ تلک حدود اللہ فلا تعتدوہا و من یتعد حدود اللہ فأولئک ہم الظالمون” بقره ، ۲۲۹۔

[11]  لہذا لوگوں کے توسط سے منتخب کرنے سے کوئی ربط نہیں ہے ، بلکہ یہ منصب خداوند متعال کی طرف سے ان لوگوں کو سونپا جاتا ہے جو اس عہده کا حق اور صلاحیت رکہتے ہوں لیکن امامت کے مقام کے نفاذ اور اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے لوگوں کی بیعت ضروری ہے۔

[12]  انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی عصمت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مثال کے طور پر جبرئیل علیہ السلام ان کے هاتہه کو پکڑے ( البتہ اگر جبرئیل شمر کے ہاتہه کو پکڑ لیتے تو وه ہرگز گناه کا مرکتب نہ ہوتا) بلکہ عصمت ایمان کی پیداوار ہے۔ اگر انسان خداوند متعال پر ایمان رکہتا ہو اور اپنے دل کی آنکہوں سے خداوند متعال کا سورج کے مانند مشاہده کرے ، تو ممکن نہیں ہے کہ وه گناه و معصیت کا مرتکب ہوجائے ، معصومین علیہم السلام پاک طینت سے پیدا ہونے کے بعد ، ریاضت ، نورانیت اور روحانی فضیلت کے سبب ، اپنے آپ کو ہمیشہ خدا کے حضور پاتے ہیں ، کیونکہ خدا ہر چیز کو جانتا ہے اور تمام امور پر احاطہ رکہتا ہے ، اور مشاہده کرتا ہے ۔( امام خمینی ، امام خمینی کی نطر میں نبوت (تبیان ) ص ۱۲۴)

[13]  “۔۔۔ انما یرید اللہ لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطہرکم تطہیرا “، احزاب / ۳۳۔

[14]  احزاب / ۳۳، مائده /۶، وضو سے مربوط آیت کے ذیل مین فرماتا ہے :”۔۔۔ ولکن یرید لیطہرکم ۔۔۔” ” خداوند متعال ( آپ لوگوں کیلئے مشکل پیدا کرنا نہیں چا ہتا ہے بلکہ ) آپ کو پاک کرنا چاہتا ہے اور نعمتوں کو آپ پر تما م کرنا چاہتا ہے۔

[15]  سبحانی ، جعفر ، منشور عقاید امامیہ ، ص ۱۶۸، ۱۶۹۔قابل ذکر بات ہے کہ اہل بیت (ع) کی عصمت کے سلسلہ میں خداوند متعال کا تکوینی اراده ، ان کے اختیارات کو سلب کرنے کا سبب نہیں بنتا ہے ، جس طرح انبیاء میں عصمت کا ہونا ان کے اختیارات کو سلب کرنے کا سبب نہیں بنتا ہے۔

[16]  ” یا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم۔۔۔۔” نساء / ۵۹۔

[17]  مصباح یزدی، محمد تقی ، آموزش عقائد ، ص ۳۰۳۔

[18]  ” من کنت مولاه ، فہذا علی مولاه” علامہ امینی ، الغدیر ، ج ۱ ، ص ۲۰۷، ابں میثم بحرانی ، النجاۃ فی القیامۃ فی تحقیق امر الامامۃ ص ۸۱۔

[19] “سلموا علیہ بامرۃ المؤمنین” ایضا

[20]  “ہذا خلیفتی من بعدی فاسمعوا لہ و اطیعوا ” ایضا۔

[21]  ابنی ہزا امام ابن امام اخوا امام ابو ائمہ تسعۃ ، تاسعهم قاءمهم ، حجۃ ابں حجۃ اخو حجۃ ابو حججج تسع” ابن میثم بحرانی ۔ النجاۃ فی القیامۃ فی تحقیق امر الامۃ ، ص ۱۶۷

 

تبصرے
Loading...