غیر مسلم كا عمل صحیح ھے یا باطل؟

غیر مسلم كا عمل صحیح ھے یا باطل؟

غیر مسلم كا عمل صحیح ھے یا باطل؟ كیا حق اور صحیح دین صرف اسلام ھے اور غیر مسلم كا عمل قابل قبول نہیں ھے؟ *یہ سوال معاشرہ كے مختلف طبقات، جاھل و عالم، انگوٹھا چھاپ اور تعلیم یافتہ، یونیورسٹی اور غیر یونیورسٹی تمام لوگوں كے درمیان ھمیشہ اٹھتا رھا ھے۔ اور آج كل یونیورسٹیوں میں خصوصی طور پر دوبارہ پوچھا جارھا ھے كہ كیا غیر مسلم لوگوں كے نیك اعمال قابل قبول ھیں یا نہیں؟ (اگر ان كے اعمال قابل قبول مان لئے جائیں تو پھر) مسلمان اور غیر مسلمان ھونے سے كیا فرق پڑتا ھے كیونكہ اصل یہ ھے كہ دنیا میں كار خیر كرے بالفرض مسلمان نہ ھو یا كسی دین كو نہ مانتا ھو تو اس نے كوئی نقصان نہیں كیا۔ اور اگر (ان كے اعمال) قبول نہ كئے جائیں اور بالكل بے ارزش بیہودہ و باطل اور خدا كے نزدیك اجر كے لائق نہ ھوں تو یہ خدا كے عدل سے كیسے سازگار ھوگا؟
بالكل یہی سوال شیعیت كے اعتبار سے نیز دائرہ اسلام میں اٹھایا جاسكتا ھے كہ كیا غیر شیعہ مسلمان كا عمل درگاہ خداوندی میں قابل قبول ھے یا بالكل بے ارزش و باطل ھے؟ اور اگر خدا كی بارگاہ میں (ان كے اعمال) قابل قبول ھیں تو پھر شیعہ مسلمان یا غیر شیعہ مسلمان ھونے سے كیا فرق پڑتا ھے؟ اھم یہ ھے كہ انسان مسلمان ھو، بالفرض شیعہ نہ ھو اور اھل بیت (ع) كی ولایت كو قبول نہ كرتا ھو تو اس نے كوئی ضرر نہیں كیا ھے لیكن اگر قابل قبول نہ ھو تو یہ خدا كے عدل سے كیسے سازگار ھوگا؟ اس سوال كے تفصیلی جواب سے پہلے ایك دوسرے سوال كا اجمالی جواب بھی لازم ھے كہ كیا دین اسلام كے علاوہ كوئی اور دین قابل قبول ھے یا نہیں صرف قابل قبول دین اسلام ھی ھے؟ انھی دو سوال كا جواب ھم آپ قارئین كرام بالخصوص معارف اسلامی سے متعلق اساتیذ كے سامنے شہید مطہری كی نگاہ سے پیش كر رھے ھیں۔
اس سلسلہ میں اجمالی طور پر كہنا چاھئے كہ ھر زمانہ میں حق دین، صرف ایك ھی عدد رھا ھے جس كی پیروی كرنا ھر ایك پر ضروری ھے اور یہ خیال جو بعض آزاد فكر دعویداروں كے ذھن میں كچھ عرصہ قبل آیا ھے كہ تمام آسمانی ادیان اعتبار كے لحاظ سے تمام وقت (ھمیشہ) ایك جیسے ھیں۔ یہ خیال بالكل غلط ھے۔ یقیناً خدا كے پیغمبروں كے درمیان كوئی نزاع اور اختلاف نہیں رھا ھے اور تمام الہی پیغمبر ایك ھدف اور ایك خدا كی دعوت دیتے رھے ھیں۔ لیكن اس كا مطلب یہ نہیں ھے كہ ھر زمانہ میں كئی عدد حق دین موجود رھے ھیں۔ لھٰذا انسان جس زمانہ میں جو بھی دین قبول كرنا چاھے قبول كرسكتا ھے۔ بلكہ نتیجہ اس كے برعكس ھے كیونكہ مطلب یہ ھے كہ انسان كو چاھئے كہ تمام پیغمبروں كو قبول كرے اور اس كو معلوم ھونا چاھئے كہ سابق كے تمام پیغمبر اپنے بعد كے پیغمبروں بالخصوص خاتم اور افضل كیلئے مبشر تھے اور بعد كے پیغمبر سابق كے پیغمبروں كے لئے مصدق (تصدیق كرنے والے) تھے۔ لھٰذا تمام پیغمبروں پر ایمان ركھنے كا لازمہ یہ ھے كہ ھم ھر زمانہ میں اسی پیغمبر كی شریعت كو تسلیم كریں جس كے زمانہ میں ھیں۔ یہی وجہ ھے كہ خاتمیت كے زمانہ میں ھمیں ان آخری قوانین پر عمل كرنا چاھئے جو خدا كی جانب سے آخری پیغمبر كے ذریعہ آئے ھیں اور یہ اسلام كا لازمہ یعنی خدا كے سامنے تسلیم ھونا اور اس كے پیغمبروں كی رسالتوں كو قبول كرنا ھے۔
ھمارے زمانہ كے بعض لوگ اس فكر كے حامی ھوگئے ھیں كہ انسان كے لئے یہی كافی ھے كہ خدا كی پرستش كرے اور خدا كی جانب سے آئے ھوئے كسی دین سے منسلك ھوجائے اور اس كے قوانین پر عمل كرے۔ قوانین كی شكل (یعنی قوانین كیسے اور كیا ھیں) اس كی كوئی خاص اھمیت نہیں ھے حضرت عیسیٰ (ع) بھی پیغمبر ھیں۔ حضرت محمد (ص) بھی پیغمبر ھیں۔ اگر عیسیٰ مسیح آئین كے مطابق عمل كریں اور ھفتہ میں ایك بار كلیسا چلے جائیں تو صحیح ھے اور اگر حضرت خاتم الانبیاء كے آئین كے مطابق عمل كریں اور ھر دن پانچ مرتبہ نماز پڑھ لیں تو صحیح ھے۔ ان لوگوں كے كہنے كے مطابق، اھم یہ ھے كہ انسان خدا پر ایمان ركھتا ھو اور الٰہی ادیان میں سے كسی ایك دین كے قوانین پر عمل كرتا ھو۔
كتاب “الامام علی (ع)” كے مؤلف جرج جرداق اور لبنان كے معروف و مشھور عیسائی محرّر جبران خلیل جبران اور ان كے جیسے افراد اسی فكر و نظریہ كے حامی ھیں۔ یہ دونوں حضرت رسول خدا (ص) اور امیر المومنین (ع) امیر بالخصوص حضرت امیرالمومنین (ع) كے سلسلہ میں ایك ایسے مومن كیطرح گفتگو كرتے ھی جو ان كا معتقد ھو۔ بعض لوگ سوال كرتے ھیں یہ لوگ امیر المومنین (ع) اور پیغمبر اكرم (ص) پر عقیدہ ركھنے كے باوجود پھر بھی عیسائی ھیں یہ كیسے؟ اگر یہ لوگ سچ بولتے ھوتے تو اب تك مسلمان ھوجاتے۔ اور جب مسلمان نہیں ھوتے تو اس كا مطلب یہ ھوا كہ كچھ دال میں كالا ضرور ھے۔ یہ لوگ مكار ھیں اور حضرت پیغمبر (ص) و حضرت علی پر عقیدہ اور محبت كا اظھار سچ نہیں ھے۔
تو اس سوال كا جواب یہ ھے كہ وہ لوگ پیغمبر (ص) اور حضرت امیر المومنین پر عقیدہ و محبت كے اظھار میں سچے نہیں ھیں لیكن اتنا ضرور ھے كہ ادیان كی پابندی اور قبولیت كے سلسلہ میں ایك خاص طریقہ كی فكر ركھتے ھیں۔ ان لوگوں كا ماننا ھے كہ انسان كسی خاص دین سے وابستہ رھنے پر مجبور نہیں ھے بلكہ ادیان میں سے جس دین كو قبول كرلے كافی ھے۔ لھٰذا یہ لوگ عیسائی ھونے كے باوجود خود كو حضرت علی علیہ السلام كا محب اور مقرب مانتے ھیں حتی معتقد ھیں كہ حضرت بھی یہی فكر و نظر ركھتے تھے۔ جرج جرداق كہتا ھے: “حضرت علی ابن ابی طالب بھی لوگوں كو حتما كسی ایك خاص دین كے قبول كرنے پر مجبور كرنے كو پسند نہیں كرتے”۔
لیكن ھم اس فكر و نظر كو غلط اور باطل مانتے ھیں۔ یہ صحیح ھے كہ دین میں زبردستی اور دباؤ نہیں ھے جیسا كہ ارشاد ھے (لا اكراہ فی الدین) 1 لیكن اس كا مطلب یہ بھی نہیں ھے كہ خدا كا دین ھر زمانہ میں متعدد ھے اور ھمیں اختیار دیا گیا ھے جس كو چاھیں قبول كرلیں۔ ھرگز ایسا نہیں ھے۔ ھر زمانہ میں حق دین صرف ایك رھا ھے اور بس۔ ھر زمانہ میں صاحب شریعت پیغمبر خدا كی جانب سے آیا اور لوگ اس كی رھنمائی پر عمل كرنے اور عبادات و غیر عبادات سے متعلق اپنے احكام و قوانین كو اسی سے سیكھنے پر پابند تھے۔ (یعنی تمام مسائل میں اس كی رھنمائی سے آگے بڑھنا لوگوں كی ذمہ داری تھی) یہاں تك كہ حضرت خاتم الانبیاء (ص) كا زمانہ آگیا۔ اس زمانہ میں اگر كوئی شخص خدا كی جانب جانے كے لئے راستہ تلاش كرتا ھے تو اسے انہی كے دین كے قوانین پر عمل كرنا چاھئے۔ قرآن كریم میں ارشاد ھوتا ھے: (ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ و ھو فی الاخرة من الخاسرین) 2 اگر كوئی شخص اسلام كے سوا كسی اور دین كو قبول كرتا ھے تو ھرگز اسے قبول نہ كیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ھوگا۔
اگر یہ كہا جائے كہ اسلام سے مراد، خاص طور پر ھمارا دین نہیں ھے بلكہ خدا كے سامنے تسلیم ھونا ھے تو جواب یہ ھے اسلام كا مطلب ھی تسلیم ھونا ھے۔ دین اسلام ھی دین تسلیم ھے۔ لیكن تسلیم كی حقیقت ھر زمانہ میں ایك خاص شكل و صورت پر مشتمل تھی اور اس زمانہ میں اس كی شكل وھی گرا نمایہ و عظیم دین ھے جو حضرت خاتم الانبیاء (ص) كے دست مبارك پر ظھور پایا ھے۔ اور كلمہ اسلام صرف اسی پر منطبق ھوتا ھے اور بس۔ بالفاظ دیگر خدا كی بارگاہ میں تسلیم ھونے كا لازمہ ھی اس كے قوانین كا قبول كرنا ھے۔ اور واضح و روشن ھے كہ ھمیشہ خدا كے آخری قانون پر عمل كرنا چاھئے۔ اور خدا كا آخری قانون وھی ھے جو اس كے آخری رسول لیكر آئے ھیں۔
دو طرح كی طرز فكر
عام طور پر روشن فكر اور آزاد خیال كے مدعی حضرات قاطعیت و یقین كے ساتھ كہتے ھیں: مسلمان اور غیر مسلمان بلكہ موحد اور غیر موحد كے درمیان كوئی فرق نہیں ھے۔ جو شخص بھی نیك عمل انجام دے گا۔ ایك فلاحی ادارہ، یا كشف و اختراع یا كسی اور طریقہ سے كوئی خدمت انجام دے گا وہ خدا كی جانب سے مستحق اجر و ثواب ھے۔
ان كا كہنا ھے كہ خدا عادل ھے اور عادل خدا اپنے بندوں كے درمیان اونچ نیچ، بھید بھاؤ كا قائل نہیں ھے۔ خدا كے لئے كیا فرق پڑتا ھے كہ اس كا بندہ اسے پہچانے یا نہ پہچانے۔ اس پر ایمان ركھے یا نہ ركھے۔ خدا كبھی كبھی اس بندہ كے نیك عمل كو اس وجہ سے كم اھمیت اور اس كے اجر كو ضایع و برباد نہیں كرتا كہ بندہ اس سے آشنائی اور دوستی نہیں ركھتا۔ اور اگر كوئی بندہ خدا كو پہچانتا ھو، نیك عمل انجام دیتا ھو لیكن انبیاء كو نہ پہچانتا ھو اور ان سے پیمان دوستی اور رابطہ آشنائی نہ ركھتا ھو تو بطریق اولیٰ خدا اس كے نیك عمل كو ضایع و برباد نہیں كرے گا۔
ان لوگوں كے مقابلہ میں ایك دوسرا گروہ ھے جو تقریباً تمام لوگوں كو مستحق عذاب مانتا ھے اور بہت مختصر لوگوں كے عمل كی قبولیت كا عقیدہ ركھتے ھیں وہ اپنی بات كو اس محور كے پیش نظر بیان كرتے ھیں كہ لوگ یا مسلمان ھیں یا غیر مسلمان۔ دنیا كی تین چوتھائی آبادی غیر مسلم ھے اور چونكہ مسلمان نہیں ھیں اس لئے وہ سب دوزخی ھیں۔ مسلمان بھی یا شیعہ ھیں یا غیر شیعہ۔ تمام مسلمانوں كی تقریباً تین چوتھائی صرف نام كی شیعہ ھے اور ان میں سے بہت كم ایسے ھیں جو اپنی سب سے پہلی ذمہ داری یعنی كسی مجتہد كی “تقلید” كرنے سے واقف ھیں تو پھر ان تمام اعمال كا كیا ھوگا جن كا صحیح اور كامل ھونا اسی فریضہ پر موقوف ھے۔ تقلید كرنے والے بھی غالباً اھل عمل نہیں ھیں۔ اس بنیاد پر بہت كم لوگ ایسے ھیں جنھیں نجات ملے گی۔
تیسری منطق
اس مقام پر ایك تیسری منطق ھے جسے قرآن كریم كہتے ھیں۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں ھمیں ایسی فكر دیتا ھے جو مذكورہ دونوں فكروں سے جدا ھے اور صرف یہ قرآن سے ھی مخصوص ھے۔ قرآن كا نظریہ نہ تو آزاد خیالوں كے بے حد و حصر افكار سے مطابقت ركھتا ھے اور نہ ھی خشك اور تنگ نظر مقدس لوگوں كے نظریہ سے۔ قرآن كا نظریہ ایك خاص منطق پر استوار ھے اور جو بھی اس سے با خبر ھوتا ھے وہ یہ اعتراف كئے بغیر نہیں رہ پاتا كہ اس سلسلہ میں صحیح نظریہ اس كے سوا كچھ اور ھو ھی نہیں سكتا۔ اسی وجہ سے اس تعجب خیز اور عظیم كتاب پر ھمارا ایمان روز بروز بڑھتا جارھا ھے اور ساتھ ساتھ اس بات كا بھی بھرپور یقین ھوجاتا ھے كہ اس كے عالی معارف زمین پر بسنے والوں كے افكار سے جدا اور آسمانی سرچشمہ سے وابستہ ھیں۔یہاں پر ھم دونوں فریق (روشن فكروں اور خشك مقدسوں مآب) كے دلائل كو ذكر كركے تجزیہ و تحلیل كرتے ھیں تاكہ ان پر تنقید كركے تیسری منطق یعنی اس سلسلہ میں منطق قرآن اور اس كے خاص فلسفہ سے آھستہ آھستہ نزدیك ھوسكیں۔
روشن فكروں كے دلائل
یہ گروہ اپنے لئے دو طرح كی دلیل پیش كرتا ھے: عقلی اور نقلی
1۔ دلیل عقلی
منطقی برھان اور عقلی دلیل جو كہ كہتی ھے “جو بھی نیك عمل انجام دے گا اسے اجر ملے گا” یہ دلیل دو مقدمہ پر قائم ھے:
الف: خدا كی نسبت تمام مخلوقات سے مساوی اور ایك جیسی ھے۔ اسی طرح خدا كی نسبت تمام زمان اور مكان كے لحاظ سے بھی مساوی ھے خدا جس طرح مشرق میں ھے اسی طرح مغرب میں ھے۔ جس طرح سے اوپر (كی سطح میں) ھے اسی طرح نیچے بھی ھےَ خدا زمان حال میں ھے، زمان ماضی میں بھی رھا ھے اور آیندہ بھی رھے گا۔ خدا كے لئے ماضی، حال اور مستقبل سب برابر ھے جس طرح سے اس كے لئے اوپر، نیچے اور مشرق و مغرب سب برابر ھے۔ بندے اور مخلوقات بھی ا سكے لئے مساوی ھے وہ كسی سے رشتہ داری یا خصوصی تعلقات نہیں ركھتا اس بنیاد پر خدا كی نظر رحمت اور نظر غیض و غضب دونوں بندوں كی نسبت یكساں ھے۔ مگر یہ كہ بندوں كی جانب سے كوئی برتری اور امتیاز دركار ھو۔ 3
اسی بنیاد پر كوئی بلا وجہ خدا كے نزدیك عزیز نہیں ھے اور كوئی بھی بغیر دلیل كے خوار و متروك بھی نہیں كیا جاتا۔ خدا نہ تو كسی كا رشتہ دار ھے اور نہ ھی كسی كا ھم وطن۔ كوئی شخص بھی خدا كی بارگاہ میں (یوں ھی) عزیز و مقرب بھی نہیں ھے۔
توجہ: تمام مخلوقات سے خدا كی نسبت یكساں ھے تو پھر اس بات كی كوئی دلیل نہیں كہ ایك شخص كا نیك عمل قابل قبول ھو اور دوسرے شخص كا نیك عمل قابل قبول نہ ھو۔ اگر اعمال ایك جیسے ھوں تو ان كی جزا بھی ایك جیسی ھی ھوگی۔ كیونكہ فرض یہ ھے كہ خدا كی نسبت تمام لوگوں سے یكساں ھے۔ لھٰذا عدالت كا تقاضا یہ ھے كہ خدا بھی تمام نیك كام انجام دینے والوں كو (چاھے مسلمان ھوں یا غیر مسلمان) ایك جیسا اجر دے۔
ب: دوسرا مقدمہ ھے كہ اعمال كی اچھائی اور برائی خیالی اور فرضی نہیں ھے بلكہ واقعی ھے علمائے كلام اور علمائے اصول فقہ كی اصلاح میں اعمال كی “اچھائی” اور “برائی” (یعنی حسن و قبیح افعال) ذاتی ھے۔ یعنی اچھے اور برے اعمال ذاتی طور پر متمایز و جدا ھیں۔ اچھے كام ذاتی طور پر اچھے ھیں اور برے كام ذاتی طور پر برے ھیں۔ سچائی، بھلائی، احسان، مخلوق كی خدمت… ذاتی طور پر نیك ھیں اور جھوٹ، چوری اور ظلم فطری طور پر برے ھیں۔ “سچائی” كا اچھا ھونا اور “جھوٹ” كا برا ھونا اس وجہ سے نہیں ھے كہ خدا نے اس كا حكم دیا ھے اور اس سے منع كیا ھے بلكہ برعكس ھے (یعنی) “سچائی” چونكہ خوب تھی اس لئے خدا نے اس كا حكم دیا اور “جھوٹ” چونكہ برا فعل تھا اس لئے خدا نے اس سے منع كیا ھے۔ مختصر لفظوں میں یوں كہا جائے كہ خدا كا امر اور نہی “حسن” و “قبح” ذاتی افعال كے تابع ھے نہ كہ اس كے بر عكس۔
ان دو مقدموں سے ھمیں یہ نتیجہ ملتا ھے كہ چونكہ خدا بھید بھاؤ (اونچ نیچ) كا قائل نہیں ھے اور چونكہ ھر ایك كا نیك عمل نیك ھے لھٰذا جو بھی نیك كام انجام دے گا حتماً خدا كی جانب سے اجر پائے گا۔
2۔ دلیل نقلی
قرآن كریم بہت سی آیات میں عمل خیر پر اجر پانے اور عمل شر پر سزا پانے كے سلسلہ میں اصلاً بندوں كے درمیان بھید بھاؤ نہ ھونے كی (جیسا كہ مذكورہ عقلی استدلال میں بیان كیا گیا ھے) تائید كرتا ھے۔ یہودی چونكہ بھید بھاؤ والی فكر ركھتے تھے لھٰذا قرآن نے ان كی شدید مخالفت كی ھے۔ یہودی معتقد تھے (اور اب بھی اسی نظریہ پر عقیدہ ركھتے ھیں كہ) قوم اسرائیل، محبوب خدا ھے۔ وہ كہتے تھے ھم خدا كی اولاد اور اس كے دوست ھیں۔ بالفرض اگر خدا ھمیں جہنم بھی بھیج دے تو زیادہ دیر تك وھاں نہیں ركھے گا۔ قرآن نے اس طرح كے افكار كو “آرزؤں” اور “باطل خیالات” كا نام دیا ھے اور شدت كے ساتھ اس كا مقابلہ كیا ھے۔ جو مسلمان اس قسم كے غرور و تكبر كا شكار ھوئے ھیں قرآن نے بھی انھیں غلط كہا ھے۔
ھم یہاں پر اس سلسلہ میں كچھ آیتوں كو پیش كر رھے ھیں۔
1۔ وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ اِلا أیّاماً مّعۡدُودَةً، قُلۡ أتَّخَذتُمۡ عِندَ اللہِ عَھۡداً فَلَن یُخۡلِفَ اللہُ عَھۡدَہُ، أمۡ تَقُولُونَ عَلَی اللہِ مَا لا تَعۡلَمُون۔ بَلَیٰ مَن كَسَبَ سَیِّئَۃً وَ أحَاطَتۡ بہ خَطِیئَتُہُ فَأوۡلَٰئِكَ أصۡحَابُ النّارِ ھُمۡ فِیھَا خَالِدُونَ۔ وَالّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّالِحَاتِ اُوۡلٰئِكَ أصۡحَابُ الجَنّۃِ ھُمۡ فِیھَا خَالِدُونَ4
“(یہودیوں) نے كہا كہ جہنم كی آگ كبھی بھی ھمیں اپنے دامن میں نہیں لے گی اور لے بھی لیا تو صرف كچھ دنوں كے لئے ھی ھوگا۔ (اے رسول ان سے) كہدو، كیا تم لوگوں نے اس كے بارہ میں خدا سے عہد و پیمان لیا ھے؟ (كیونكہ اگر عہد و پیمان لیا ھے تو خدا عہد كی مخالفت نہیں كرتا) یا خدا كی طرف ایسی نسبت دے رھے ھو جس كو تم جانتے بھی نہیں؟ تمہیں معلوم ھونا چاھئے كہ جو گنہگار ھوگیا اور خطا و لغزشوں نے اسے اپنے قبضہ میں كر لیا ھوگا وہ ھمیشہ جہنم میں رھے گا۔ اور جو لوگ مومن ھیں اور نیك عمل بجالاتے ھیں وہ اھل بہشت ھیں اور اسی میں ھمیشہ رھیں گے۔”
2۔ یہودیوں كے اسی خیال كے جواب میں ایك دوسرے مقام پر قرآن میں ارشاد ھوتا ھے:
“وَ غَرّھُمۡ فِی دِینِھِم مَا كَانُوا یَفۡتَرُونَ ۔ فَكَیۡفَ اِذَا جَمَعۡنَاھُمۡ لِیَوۡمٍ لا رَیۡبَ فِیہِ وَوُفِّیَتۡ كُلُّ نَفۡسٍ مَّا كَسَبَتۡ وَھُمۡ لا یُظۡلَمُونَ” 5
“ان كی الزام تراشیاں ان كے دینی عقائد میں غرور كا سبب بن گئی ھیں تو اس دن ان كا كیا حال ھوگا جس دن كی آمد میں شك و شبہ كی گنجائش نہیں (یعنی قیامت میں) ھم ان كو اكٹھا كریں گے اور جس نے جو كچھ كیا ھے اسی كے مطابق اسے اجر و ثواب دیا جائے گا اور اس سلسلہ میں كسی پر كوئی ظلم و ستم نہیں كیا جائے گا۔”
3۔ ایك دوسرے مقام پر عیسائیوں كو بھی یہودیوں كے ساتھ شامل كر كے قرآن نے مذمت كی ھے:
“وَقَالُوا لَن یَدۡخُلَ الۡجَنّۃَ الا مَنۡ كَانَ ھُوداً أوۡ نَصَارَیٰ، تِلۡكَ أمَانِیُّھُمۡ، قُلۡ ھَاتُوا بُرۡھَانَكُمۡ اِنۡ كُنتُمۡ صَادِقِینَ۔ بَلیٰ مَنۡ أسۡلَمَ وَجۡھَہُ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہُ أجۡرُہُ عِنۡدَ رَبِّہِ وَلا خَوۡفٌ عَلَیۡھِمۡ وَلا یَحۡزَنُونَ 6
“وہ لوگ كہتے ھیں كہ یہودیوں اور عیسائیوں كے علاوہ كوئی دوسرا بہشت میں نہیں جائے گا۔ یہ ان كی “خیالی تمنائیں” ھیں۔ (اے حبیب ان سے كہدیں) اگر تم لوگ (اپنے دعوے میں) سچے ھو تو دلیل لے آؤ۔ كیونكہ جو شخص بھی خود كو بارگاہ خدا میں تسلیم كردے اور نیك عمل انجام دیتا ھو اس كا اجر و ثواب خدا كے نزدیك محفوظ ھے۔ ایسے لوگوں پر نہ تو كوئی خوف طاری ھوگا اور نہ ھی غمگین ھوں گے۔”
4۔ سورۂ نساء میں مسلمانوں كو بھی یہودیوں اور عیسائیوں كے زمرہ میں ركھكر بیان كیا گیا ھے كیونكہ جہاں كہیں بھی بغیر سبب بھید بھاؤ كے افكار ھوں گے چاھے كوئی بھی ھو قرآن اس كی مذمت كرتا ھے۔ گویا اھل كتاب كے افكار سے مسلمان متاثر ھوگئے اور ان كے دعووں كے مقابلہ میں جس میں وہ لوگ بے وجہ خود كو عزیز سمجھتے تھے ان لوگوں نے بھی اپنے بارے میں ایسے ھی دعوے كرنا شروع كردیئے تھے۔ قرآن كریم ان خام خیالوں كو غلط بتاتے ھوئے اس طرح فرماتا ھے:
لَیۡسَ بأمَانِیِّكُمۡ وَلا أمَانِیِّ أھۡلِ الۡكِتَابِ ۔ مَنۡ یَعۡمَلۡ سُوءً یُجۡزَ بہِ وَلا یَجِدۡ لَہُ مِن دُونِ اللہِ وَلِیّاً وَلا نَصِیراً۔ وَمَن یَعۡمَلۡ مِن الصّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أوۡ أنثَیٰ وَھُوَ مُؤمِنٌ فَاُولٰئِكَ یَدۡخُلُونَ الۡجَنَّۃَ وَلا یُظۡلَمُونَ نَقِیراً۔ 7
“نہ ھی آپ كی آرزووں كے مطابق ھے اور نہ ھی اھل كتاب كی تمناؤوں كے مطابق ھے۔ (لھٰذا) جو شخص بھی برا عمل انجام دے گا اسے سزا دی جائے گی اور خدا كے مقابلہ میں كسی كا نہ كوئی حامی ھوگا اور نہ ھی مدافع۔ اور جو شخص بھی اچھا عمل انجام دے گا چاھے وہ مرد ھو یا عورت (اور ایسے لوگ اگر) مومن بھی ھوئے تو بہشت میں جائیں گے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم و ستم نہ ڈھایا جائے گا۔”
5۔ بے وجہ عزتوں اور تقرب كی نفی اور مذمت كرنے والی آیتوں كے علاوہ دوسری آیتیں بھی ھیں جس میں بیان ھوا ھے كہ خدا كسی بھی نیك عمل كے اجر كو ضائع و برباد نہیں كرے گا۔
ان آیتوں كو بھی تمام لوگوں كے اعمال كی قبولیت پر (چاھے مسلمان ھوں یا غیر مسلمان) ، دلیل مانا گیا ھے۔ سوۂ “زلزلت” میں ھم پڑھتے ھیں: “فَمَن یَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَیۡراً یَرَہُ وَمَن یَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرّةٍ شَرّاً یَرَہُ” 8 جو شخص بھی ذرہ برابر نیكی كرے گا اسے دیكھے گا (یعنی اس كا اجر پائے گا) اور جو شخص ذرہ برابر برائی كرے گا اسے بھی دیكھے گا (یعنی اس كی سزا پائے گا)۔
ایك دوسری جگہ پر قرآن میں ارشاد ھوتا ھے: “اِنّ اللہَ لا یُضِیعُ أجۡرَ الۡمُحۡسِنِینَ” 9 بے شك خدا نیكی كرنے والوں كے اجر كو ضائع و برباد نہیں كرتا۔
نیز ایك مقام پر فرمایا: “انّا لا نُضِیعُ أجۡرَ مَنۡ أحۡسَنَ عَمَلاً” 10 جو شخص نیك عمل انجام دیتا ھے ھم اس كے اجر كو ضائع نہیں كرتے۔ ان آیتوں كا لحن اس طرح ھے كہ اس كے عموم كو تخصیص نہیں دیا جاسكتا ۔ (یعنی اس كی عمومیت كو مخصوص و محدود نہیں كیا جاسكتا ھے)۔
علمائے علم اصول فرماتے ھیں: بعض عموم ایسے ھیں جنھیں استثناء نہیں كیا جاسكتا اور تخصیص (و محدودیت) كو قبول نہیں كرتے۔ یعنی عام كا لحن اور بیان اس طرح ھے كہ اسے تخصیص و استثناء كیا ھی نہیں جاسكتا۔ جس وقت كہا جاتا ھے كہ “ھم نیكی كرنے والے كا اجر و ثواب ضائع نہیں كرتے ھیں” اس كا مطلب یہ ھے كہ ھمارے منصب الٰہی كا تقاضا یہ ھے ھم نیك عمل كو محفوظ كریں۔ لھٰذا محال ھے كہ خدا كہیں بھی اپنے منصب الٰٰہی سے دست بردار ھوجائے اور نیك عمل كو ضائع و برباد كردے۔
1. بقرہ، آیت ۲۵۶
2. آل عمران، آیت ۸۵
3. البتہ اس كا مطلب یہ نہیں ھے كہ تمام اشیاء كی نسبت بھی خدا سے یكساں ھے اور ان سب كو برابر كا حق حاصل ھے۔ خدا سے اشیاء كی نسبت یكساں نہیں ھے لیكن خدا كی نسبت اشیاء كے ساتھ یكساں ھے۔ خدا ایك طرح سے تمام اشیاء سے نزدیك ھے لیكن اشیاء قرب و بعد كے اعتبار سے خدا سے مختلف و متفاوت ھیں۔ اس سلسلہ میں ایك دلكش جملہ دعائے افتتاح میں آیا ھے “الذی بعد فلا یریٰ و قرب فشھد النجویٰ” اس جملہ میں خدا كی صفت كو اس طرح بیان كیا گیا ھے:
وہ ذات جو دور ھے تو اتنی كہ اسے دیكھا نہیں جاسكا۔ اور نزدیك ھے تو اتنی كہ نجویٰ اور كانا پھونسی تك كی گواہ ھے۔
در حقیقت ھم اس سے دور ھیں لیكن وہ ھم سے نزدیك ھے۔ یہ ایك عجیب معمہ ھے كہ یہ كیسے ھوسكتا ھے كہ دو چیزیں قرب و بعد كے لحاظ سے ایك دوسرے كی بہ نسبت دو مختلف نسبتیں ركھتی ھوں؟ جی ھاں، یہاں ایسا ھی ھے۔ خدا تمام اشیاء سے قریب ھے لیكن اشیاء اس سے قریب نہیں ھیں یعنی مختلف اعتبار سے دور یا نزدیك ھیں۔ اس جملہ میں سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ھے كہ حب خدا كو “دوری” سے متصف كرتا ھے تو مخلوقات كی صفتوں میں سے ایك صفت كو اس كی دلیل ذكر كرتا ھے اور وہ خدا كا حاضر و ناظر اور واقف ھونا ھے۔ لھٰذا جہاں ھمارے كام سے متعلق گفتگو ھوتی ھے وھاں ھم خدا كی “دوری” سے منسوب كرتے ھیں اور جب اس كے كام سے متعلق گفتگو ھوتی ھے تو ھم صفت “قرب” كی نسبت اس كی طرف دیتے ھیں۔یار نزدیك تر از من بہ من است
و این عجب تركہ من از وی دورم
چہ كنم باكہ توان گفت كہ دوست
در كنار من و من مھجورم
“وہ مجھ سے بھی زیادہ مجھ سے نزدیك دوست ھے
اور یہ عجیب اتفاق ھے كہ میں اس سے دور ھوں
آخر كیا كروں كس سے كہہ سكتا ھو كہ دوست تو
میرے نزدیك ھے لیكن میں ان سے محروم و مھجور ھوں”
4. بقرہ، آیت ۸۰۔ ۸۲
5. آل عمران، آیت ۲۴۔ ۲۵
6. بقرہ، آیت ۱۱۱ و ۱۱۲۔
7. نساء، آیت ۱۲۳۔ ۱۲۴
8. زلزلت (زلزال، آیت ۷۔ ۸
9. توبہ، آیت ۱۲۰۔
10. كھف، آیت ۳۰
 

http://shiastudies.com/ur/148/%d8%ba%db%8c%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d9%83%d8%a7-%d8%b9%d9%85%d9%84-%d8%b5%d8%ad%db%8c%d8%ad-%da%be%db%92-%db%8c%d8%a7-%d8%a8%d8%a7%d8%b7%d9%84%d8%9f/

تبصرے
Loading...