صيغہ خطاب کے ساتھ صلاۃ و سلام شرک نہيں

صيغہ خطاب کے ساتھ صلاۃ و سلام شرک نہيں

صيغہ خطاب کے ساتھ صلاۃ و سلام شرک نہيں ۔

بعض لوگ جوشِ توحيد ميں صيغۂ خطاب کے ساتھ آقائے دوجہاں حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام کو استعانت بالغير کہہ کر شرک قرار ديتے ہيں اوراسے ناجائز سمجھتے ہيں جو سراسر غلط ہے۔ اللہ تعاليٰ نے حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو پکارنے سے منع نہيں کيا بلکہ پکارنے کے آداب سکھائے ہيں، ارشادِ ربّاني ہے :
لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌO
’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس ميں ايک دوسرے کو بلانے کي مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمي بلاوے کي مثل نہيں تو خود رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي ذاتِ گرامي تمہاري مثل کيسے ہو سکتي ہے)، بيشک اللہ ايسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم ميں سے ايک دوسرے کي آڑ ميں (دربارِ رسالت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہيں، پس وہ لوگ ڈريں جو رسول ( صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کے امرِ (ادب) کي خلاف ورزي کر رہے ہيں کہ (دنيا ميں ہي) انہيں کوئي آفت آپہنچے گي يا (آخرت ميں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گاo‘‘
النور، 24 : 63
اس آيت کے شانِ نزول کے بارے ميں ائمہ تفسير نے حضرت سيدنا عبداﷲ بن عباس رضي اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضي اللہ عنھم حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو پکارتے وقت ’’يا محمد‘‘ اور ’’يا ابا القاسم‘‘ کہا کرتے تھے۔
1۔ امام محمود آلوسي رحمۃ اللہ عليہ لکھتے ہيں :
فنهاهم اﷲ تعالي عن ذالک بقوله سبحانه : لا تجعلوا. . . الآية إعظاما لنبيه صلي الله عليه وآله وسلم، فقالوا : يا نبي اﷲ يا رسول اﷲ.
’’پس اللہ عزوجل نے انہيں اپنے اس فرمان ’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ‘‘ کے ذريعہ اپنے نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي تعظيم و تکريم کي خاطر منع فرمايا۔ پس صحابہ نے بوقت نداء يا نبي اﷲ، يا رسول اللہ ( صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کہنا شروع کر ديا۔‘‘
آلوسي، روح المعاني، 18 : 204
تمام علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو لاپرواہي اور بے توجہي و بے اعتنائي کے طور پر ذاتي نام سے پکارنا حرام ہے اور يہ حکم حياتِ ظاہري کے ساتھ مختص نہيں بلکہ قيامت تک کے لئے ہے۔ تمام اہلِ ايمان کے لئے آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو پکارنا جائز ہے خواہ قريب ہوں يا بعيد اور خواہ حياتِ ظاہري ہو يا بعد از وصال۔ آيتِ مبارکہ ميں وارد ہونے والي نہي کا محل دراصل وہ عاميانہ لہجہ اور طرزِ گفتگو ہے جو صحابہ اور اہلِ عرب ايک دوسرے سے بلا تکلف اختيار کرتے تھے۔ اس حکمِ نہي ميں مطلق ندا سے منع نہيں کيا گيا اس ليے تعظيم و تکريم پر مشتمل ندا جائز ہے۔
دوسري اور اہم بات يہ ہے کہ مدعائے کلام بارگاہِ نبوي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي تعظيم و توقير کي تعليم ہے لہٰذا اگر صيغہ خطاب کے ساتھ ادب و تعظيم کا تقاضا پورا نہ ہو اور عرفاً و معناً اس ندا سے گستاخي اور اہانتِ رسول کا پہلو نکلتا ہو تو وہ ندا ممنوع اور حرام ہوگي وگرنہ نہيں۔ اہلِ ايمان حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي ذاتِ گرامي کو آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا نام ليے بغير، منصبِ نبوت و رسالت کے ساتھ پکارتے ہيں تو اس ميں محبت، ادب، تعظيم اور توقير مراد ہوتي ہے۔
نداء کے جواز کا تيسرا سبب يہ ہے کہ حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے قريب و بعيد اور حياتِ ظاہري اور بعد از وصال تمام اہلِ ايمان کو تشہد ميں سلام پيش کرنے کا جو طريقہ تعليم فرمايا اس ميں دعا و پکار اور نداء بطريقِ خطاب ہي وارد ہے۔ يہ تلفّظ محض حکايۃً نہيں کہ اللہ تعاليٰ عزوجل نے شبِ معراج حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرمايا تھا بلکہ ضروري ہے کہ ہر نمازي اپني طرف سے بارگاہِ نبوي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. (يا نبي! آپ پر خاص سلامتي، اور اللہ تعاليٰ کي رحمت اور اس کي برکات ہوں) کے کلمات کے ساتھ سلام پيش کرے۔ تمام اہلِ ايمان کو اپني طرف سے بطور انشاء بارگاہِ نبوي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں سلام بھيجنا لازم ہے۔ ذيل ميں ہم اس سلسلے ميں محدثين و محققين کي آراء پيش کرتے ہيں۔
2۔ علامہ ملا علي قاري رحمۃ اللہ عليہ لکھتے ہيں :
اجمع الأربعة علي أن المصلي يقول : أيُّهَا النَّبِيُّ. وأن هذا من خصوصياته عليه السلام، إذ لو خاطب مصلٍ أحدًا غيره و يقول السلام عليک بطلت صلاته.
’’ائمہ اربعہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ نمازي تشہد ميں ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ کہے اور يہ اندازِ سلام آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خصوصيات ميں سے ہے۔ اگر کوئي نمازي آپ کے علاوہ کسي ايک کو بھي خطاب کرے اور ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ‘‘ کہے تو اس کي نماز باطل ہو جائے گي۔‘‘
ملا علي قاري، شرح الشفاء، 2 : 120
3۔ امام جلال الدين سيوطي رحمۃ اللہ عليہ نے الخصائص الکبريٰ ميں ايک مکمل باب قائم کيا ہے اور اس خصوصيت کو درج ذيل عنوان سے تعبير کرتے ہوئے لکھا ہے :
باب اختصاصه صلي الله عليه وآله وسلم بأن المصلي يخاطبه بقوله ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ ولا يخاطب سائر الناس.
’’يعني آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس امر کے ساتھ مختص ہيں کہ نمازي آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو صيغہ خطاب کے ساتھ اس طرح سلام پيش کرتا ہے ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ اور وہ تمام لوگوں کو مخاطب نہيں ہو سکتا۔‘‘
سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 253
4۔ امام قسطلاني رحمۃ اللہ عليہ المواہب اللدنيہ ميں اور امام زرقاني شرح المواہب ميں اسي خصوصيت کو بيان کرتے ہوئے لکھتے ہيں :
ومنها أن المصلي يخاطبه بقوله : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه کما في حديث التشهد والصلوٰة صحيحة. ولا يخاطب غيره من الخلق ملکا أو شيطانا أو جمادًا أو ميتاً.
’’حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خصوصيات ميں سے يہ بھي ہے کہ نمازي آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه‘‘ کے کلمات کے ساتھ خطاب کرتا ہے جيسا کہ حديثِ تشہد ميں ہے اور اس کے باوجود اس کي نماز صحيح رہتي ہے۔ وہ آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے علاوہ مخلوق ميں سے کسي فرشتے يا شيطان اور جماد يا ميت کو خطاب نہيں کر سکتا۔‘‘
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 308
5۔ امام غزالي رحمۃ اللہ عليہ نے احياء العلوم ميں کيا ايمان افروز عبارت لکھي ہے فرماتے ہيں :
واحضر في قلبک النبي صلي الله عليه وآله وسلم وشخصه الکريم، وقُلْ : سَلَامٌ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. وليصدق أملک في أنه يبلغه و يرد عليک ما هو أوفٰي منه.
’’(اے نمازي! پہلے) تو حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي کريم شخصيت اور ذاتِ مقدسہ کو اپنے دل ميں حاضر کر پھر کہہ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. تيري اميد اور آرزو اس معاملہ ميں مبني پر صدق و اخلاص ہوني چاہيے کہ تيرا سلام آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خدمت اقدس ميں پہنچتا ہے اور آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس سے کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہيں۔‘‘
غزالي، إحياء علوم الدين، 1 : 151
اس عبارت سے يہ امر واضح ہوا کہ اگر خطاب اپنے ظاہري معني و مفہوم ميں نہ ہوتا تو آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي ذاتِ مقدسہ کو مستحضر سمجھ کر سلام پيش کرنے کي تلقين نہ کي جاتي۔
6۔ نماز ميں صيغۂ خطاب سے حضور اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو مخاطب ہونے کي حکمت امام طيبي نے بھي بيان کي ہے جسے امام ابنِ حجر عسقلاني نے فتح الباري ميں نقل کيا ہے :
إن المصلين لما استفتحوا باب الملکوت بالتحيات أذن لهم بالدخول في حريم الحي الذي لا يموت، فَقَرَّت أعينهم بالمناجاة. فنبهوا أن ذلک بواسطة نبي الرحمة وبرکة متابعته. فالتفتوا فإذا الحبيب في حرم الحبيب حاضر فأقبلوا عليه قائلين : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَة اﷲِ وَ بَرَکَاتُه.
’’بے شک نمازي جب التحيات سے ملکوتي دروازہ کھولتے ہيں تو انہيں ذاتِ باري تعاليٰ حَيٌّ لَا يَمُوْتُ کے حريمِ قدس ميں داخل ہونے کي اجازت نصيب ہوتي ہے، پس مناجاتِ رباني کے سبب ان کي آنکھوں کو ٹھنڈک عطا ہوتي ہے۔ پھر انہيں متنبہ کيا جاتا ہے کہ يہ سب کچھ حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي وساطت اور آپ کي متابعت کي برکت سے حاصل ہوا ہے۔ پس وہ ادھر توجہ اور التفات کرتے ہيں تو ديکھتے ہيں کہ سرکارِ دو عالم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اپنے کريم رب کے حضور ميں موجود ہيں تو وہ آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي طرف يوں سلام پيش کرتے ہوئے متوجہ ہوتے ہيں : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه.‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 2 : 314
7۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوي رحمۃ اللہ عليہ صيغہ خطاب کي وجہ پر محققانہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہيں :
و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ايں خطاب بجہت سريان حقيقۃ محمديہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات۔ پس آن حضرت در ذات مصليان موجود و حاضر است۔ پس مصلي بايد کہ ازيں معني آگاہ باشد وازين شہود غافل نبود تا بانوار قرب و اسرار معرفت متنور و فائز گردد۔
’’بعض عرفاء نے کہا ہے کہ اس خطاب کي جہت حقيقتِ محمديہ کي طرف ہے جو کہ تمام موجودات کے ذرہ ذرہ اور ممکنات کے ہر ہر فرد ميں سرايت کيے ہوئے ہيں۔ پس حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نمازيوں کي ذاتوں ميں حاضر و موجود ہيں لہٰذا نمازي کو چاہئے وہ اس معني سے آگاہ رہے اور اس شہود سے غافل نہ ہو يہاں تک کہ انوارِ قرب اور اسرارِ معرفت سے منور اور مستفيد ہوجائے۔‘‘
عبد الحق الدهلوي، اشعة اللمعات، 1 : 401
8۔ شيخ عبدالحق محدث دہلوي ايک اور مقام پر لکھتے ہيں :
ذکر کن او را و درود بفرست بروے صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم و باش در حال ذکر گويا حاضر است پيش تو در حالتِ حيات، و مي بيني تو او را امتادب با جلال و تعظيم و ہيبت وحياء۔ بد آنکہ وے صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مي بيند ترا و مي شنيد کلام ترا زيرا کہ وے متصف است بصفات اﷲ تعاليٰ۔ ويکے از صفات الٰہي آنست کہ انا جليس من ذکرني و پيغمبر را نصيب وافر است ازيں صفت.
’’(اے مخاطب!) تو حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا ذکر کر اور ان پر درود بھيج اور حالتِ ذکر ميں اس طرح سمجھ کہ گويا آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم حيات ظاہري ميں تيرے سامنے موجود ہيں، اور تو جلالت و عظمت کو ملحوظ رکھ کر اور ہيبت و حياء کو پيشِ نظر رکھتے ہوئے آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو ديکھ رہا ہے۔ يقين جان کہ آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم تجھے ديکھتے ہيں اور تيرا کلام سنتے ہيں کيونکہ حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اللہ تعاليٰ کي صفات کے ساتھ موصوف و متصف ہيں۔ ان صفاتِ رباني ميں سے ايک صفت يہ بھي ہے کہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَکَرَنِيْ (ميں اس کا ہم نشين ہوں جو مجھے ياد کرے) اور آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو اس صفتِ الہٰيہ سے وافر حصہ حاصل ہے۔‘‘
عبد الحق الدهلوي، اشعة اللمعات، 2 : 621

ايک شبہ اور اس کا ازالہ
بعض لوگوں کا کہنا يہ بھي ہے کہ صحابہ کرام بعد از وصالِ نبوي اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کي بجائے اَلسَّلَامُ عَلَي النَّبِيِّ کہتے تھے لہٰذا اب سلام بصيغہ خطاب کہنا جائز نہيں ہے اس لئے شرک ہے۔ ذہن نشين رہے کہ حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے صرف اور صرف اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه کے اندازِ نداء و خطاب ميں ہي سلام پيش کرنے کا طريقہ سکھلايا ہے۔ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے قطعاً يہ نہيں فرمايا کہ ميري ظاہري حيات ميں تو مجھ پر سلام نداء و خطاب کے ساتھ پيش کريں اور بعد از وصال بدل ديں۔ اگر بعد از وصال نداء و خطاب کے انداز ميں سلام پيش کرنا جائز نہيں تھا تو گويا حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي تشہد کے بارے ميں تعليم ادھوري اور ناقص رہ گئي؟ (معاذ اﷲ) کيا کوئي عام مسلمان بھي يہ تصور کر سکتا ہے؟ ہر گز نہيں۔
حضرت سيدنا عمر فاروق رضي اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت ميں منبر پر بيٹھ کر نداء و خطاب پر مشتمل تشہد و سلام کي تعليم دي اور اکابر صحابہ کي موجودگي ميں يہ تلقين فرمائي اور کسي صحابي نے اس کا انکار نہيں کيا۔ خطاب کے صيغہ کے ساتھ سلام پيش کرنے پر اجماعِ صحابہ ہے۔ خلفائے راشدين اور ديگر اکابر صحابہ نے اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کے صيغہ خطاب کے ساتھ سلام پيش کيا ہے۔ تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ نداء و خطاب کے صيغہ کے ساتھ سلام پيش کرنا واجب نہيں ہے ليکن وجوب کي نفي سے جواز بلکہ استحباب کي نفي بھي لازم نہيں آتي کيونکہ خلفائے راشدين اور اہلِ مدينہ کا اجماع اور جمہور امت کا اسي پر مداومت کے ساتھ عمل اس پر شاہدِ عادل اور دليلِ صادق ہے۔ علامہ ملا علي قاري رحمۃ اللہ عليہ کا اس پر قول بطور دليل ہم پچھلے صفحات ميں نقل کر آئے ہيں کہ جمہور امت کے نزديک حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو بصيغہ نداء و خطاب کے ساتھ سلام پيش کرنا بالکل جائز ہے۔
حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو آپ کي ظاہري حياتِ طيبہ اور بعد از وصال صحابہ کرام رضي اللہ عنہ سلف صالحين نے قريب اور بعيد کي مسافت کے فرق کے بغير بصيغہ نداء و خطاب پکارا۔ مستند کتبِ احاديث اور سير ميں درجنوں واقعات اس بات کي دليل ہيں کہ اکابر اور سلف صالحين کبھي بھي آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو بصيغہ خطاب پکارنے ميں کسي قسم کے الجھاؤ اور شک و شبہ ميں مبتلا نہيں رہے۔ انہوں نے اپني اپني کتب ميں اس عقيدہ صحيحہ کو بڑي شرح و بسط کے ساتھ واضح کيا ہے۔
 بشکریہ الحسنین ڈاٹ کام

 

http://shiastudies.com/ur/577/%d8%b5%d9%8a%d8%ba%db%81-%d8%ae%d8%b7%d8%a7%d8%a8-%da%a9%db%92-%d8%b3%d8%a7%d8%aa%da%be-%d8%b5%d9%84%d8%a7%db%83-%d9%88-%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%b4%d8%b1%da%a9-%d9%86%db%81%d9%8a%da%ba/

تبصرے
Loading...