صحابہ دونوں مکاتب فکر کی نظر میں

صحابہ دونوں مکاتب فکر کی نظر میں

مصاحبت رسول(ص) اور صحابہدونوں مکاتب فکر کی نظر میں
 
 
 

 

 
 
 
 
 

۱۔       دونوں مکاتب فکر کے ہاں صحابی کی تعریف

 
 
 

 

 
 
 
 
 

۲۔       عدالت صحابہ دونوں مکاتب فکر کی نظر میں

 
 
 

 

 
۳۔       دونوں مکاتب فکر کے ہاں صحابہ کا خلاصہ
 
 
 
 

دونوں مکاتب فکر کے ہاں صحابی کی تعریف

 
 
 

 

 
صحابی کی تعریف مکتب خلفاء کی نظر میں
 
 
 
 

علامہ ابن حجر عسقلانی صحابی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 
 
 

 

 
 
 
 
 

صحابی وہ ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی، ان پر ایمان لایا اور اس کی موت حالت ایمان پر ہوئی ہو۔

 
 
 

 

 
اس تعریف کی رو سے صحابی ہونے کی ایک شرط ملاقات رسول(ص) ہے خواہ ملاقات طویل مدت تک رہی ہو یا مختصر رہی ہو اور اس ملاقات کرنے والے نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں جنگ کی ہو یا نہ کی ہو خواہ اس نے آپ کو دیکھا ہو (اگرچہ مجالست نہ کی ہو) یا کسی مانع کے باعث نہ دیکھ سکا ہو مثلاً اندھے پن کی وجہ سے۔,۱ 
 
 
 
 

علامہ ابن حجر نے ایک ایسا ضابطہ بھی بیان کیا ہے جس کی رو سے بہت سے لوگ صحابہ کے زمرے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

 
 
 

 

 
 
 
 
 

حضور مفتوحہ علاقوں میں صرف صحابہ کو ہی امارت کا عہدہ سونپتے تھے۔

 
 
 

 

 
اور یہ کہ ہجرت کے دسویں سال تک مکہ اور طائف کے سارے لوگ مسلمان ہو گئے تھے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حجة الوداع میں شرکت کی۔ مزید براں نبی کے آخری دور میں اوس و خزرج قبیلے کے سارے لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے وقت کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو کفر کا اظہار کرتا ہو۔,۲ 
 
 
 
 

اگر کوئی شخص ہماری کتاب ”ایک سو پچاس جعلی اصحاب“ کا مطالعہ کرے تو اسے ان کی اس غیر ذمہ دارانہ موقف اور احادیث پر اس کے منفی اثرات کا اندازہ ہو گا۔

 
 
 

 

 
 
 
 
 

 

 
 
 

 

 
 
 
 
 

 

 

 

 

مکتب اہل بیت  کی نظر میں صحابی کی تعریف

 
 
 
 

          الصاحبکی جمع صحب، اصحاب، صحاب اور صحابہ ہے۔ 3 الصاحب سے مراد ہے ساتھ زندگی گزارنے والا یا ساتھی۔ صحابی صرف اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کی مصاحبت زیادہ ہو۔ طویل عرصے تک ساتھ رہنے کی صورت میں ہی مصاحبت صادق آتی ہے۔ 4  چونکہ مصاحبت دو آدمیوں کے درمیان ہوتی ہے اس لئے واضح ہے کہ لفظصاحب یااس کی جمع صحب یا اصحاب وغیرہ کی اضافت اس اسم کے ساتھ ہونی چاہیے اور کلام میں مذکور ہو۔ چنانچہ قرآن میں اسی طرح استعمال ہوا ہے۔ مثال کے طور پر فرمایا گیا ہے: یا صاحبی السجن اور اصحاب موسیٰ وغیرہ۔

 
 
 

 

 
 
 
 
 

آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ”صاحب رسول اللہ(ص) “ و ” اصحاب رسول اللہ (ع) “ استعمال ہوتے تھے۔ یعنی لفظ صاحب اور اصحاب کو مضاف اور رسول اللہ (ص) کو مضاف الیہ قرار دیا جاتا تھا۔ اسی طرح اصحاب الصفة میں بھی اصحاب کو مضاف کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ان دنوں لفظ صاحب یا لفظ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کے لئے ان سے مختص نام کے طور پر استعمال نہیں ہوئے تھے۔ لیکن مکتب خلافت سے تعلق رکھنے والے مسلمان آہستہ آہستہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کو ” صحابی “اور ”اصحاب“ کے نام سے یاد کرنے لگے۔ بنا بریں اس اصطلاح کا تعلقتسمیة المسلمین یا بالفاظ دیگر ”اصطلاح متشرعہ“سے ہے۔یہ ہیں صحابی کی تعریف کے بارے میں دونوں مکاتب فکر کی آراء

 
 
 

 

 
 
 
 
 

صحابی کی تشخیص کا معیار

 
 
 

 

 
 
 
 
 

مذکورہ عرائض کے علاوہ مکتب خلفاء سے تعلق رکھنے والے حضرات، جنہوں نے صحابہ  کے حالات رقم کئے ہیں، صحابی کی پہچان کے لئے ایک ضابطے کی نشاندہی کی ہے، جسے ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں بیان کیا ہے اور کہا ہے:

 
 
 

 

 
 
 
 
 

صحابی کی پہچان کے بارے میں بڑے بڑے علماء کی بیان کردہ علامات میں سے ایک (اگرچہ اس بارے میں کوئی تصریح موجود نہیں ہے) وہ ہے جسے ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ”المصنف“ میں ایک قابل قبول سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ وہ یہ ہے:

 
 
 

 

 
انھم فی الفتوح لا یومرون الا الصحابة
وہ مفتوحہ علاقوں میں صرف صحابہ  کو امیر بناتے تھے۔5
 
 
 
 

قابل قبول سند کے ساتھ نقل ہونے والی یہ روایت وہی ہے جسے طبری اور ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ سیف ابن عمر سے اس نے ابو عثمان سے، اس نے خالد اور عبادہ سے نقل کیا ہے۔ وہ روایت یہ ہے:

 
 
 

 

 
وکانت الروساء تکون من الصحابة حتی لم یجدوا من یحتمل ذالک 6
 
 
 
 

یعنی رؤساء کا تعلق اصحاب سے ہوتا تھا مگر یہ کہ اس صفت کا حامل شخص نہ مل سکے۔

 
 
 

 

 
 
 
 
 

طبری نے سیف ابن عمر سے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتا ہے:

 
 
 

 

 
حضرت عمرمفتوحہ علاقوں میں اصحاب میں سے ہی کسی کو امیر بناتے تھے بشرطیکہ وہ صحابی اس کا اہل ہو۔ اگر ایسا صحابی نہ مل سکتا تو پھر کسی اچھے تابعی کو لیتے تھے۔ اچانک راوی بننے والے قیادت کی طمع نہ کرتے تھے۔7
 
 
 
 

 

 
 
 

 

 
 
 
 
 

صحابی کی تشخیص کے معیار کا تنقیدی جائزہ

 
 
 

 

 
مذکورہ بالا دونوں روائتیں سیف بن عمر سے مروی ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا اور زندیق تھا۔8
سیف نے مذکورہ اصول کو ابو عثمان سے نقل کیا ہے۔ ابو عثمان جو سیف کی روایات میں خالد اور عبادہ سے روایت کرتا ہے سے مراد، بقول سیف کے یزید بن اسید غسانی ہے اور یہ سیف کے وضع کردہ جعلی راویوں میں سے ایک کا نام ہے۔ 9
 
 
 
 

بہر حال ان روایات کے راویوں کی حقیقت کچھ بھی ہو لیکن تاریخی واقعات ان کی ذکر کردہ باتوں کی نفی کرتے ہیں۔ چنانچہ اغانی کے مصنف روایت کرتے ہیں کہ امرؤ القیس حضرت عمرکے ہاتھوں مسلمان ہوا۔ انہوں نے اسے اپنے دور حکومت میں گورنر بنایا قبل اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک رکعت نماز ادا کرتا۔10

 
 
 

 

 
 
 
 
 

اس روایت کی تفصیل اس کے بعد عوف بن خارجہ المری سے مروی روایت میں موجود ہے۔ وہ کہتا ہے: خدا کی قسم میں عمر بن خطابکے دوران خلافت میں اس کے پاس تھا۔ اتنے میں ایک شخص جس کے پاؤں کا اگلا حصہ نزدیک تھا اور ایڑی دور تھی سر کے دونوں طرف کے بال گرے ہوئے اور کم تھے لوگوں کی گردنوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے آیا یہاں تک کہ وہ حضرت عمر  کے سامنے کھڑا ہو گیا اور آداب خلافت بجا لایا۔ حضرت عمر  نے اسے پوچھا: تم کون ہو؟ وہ بولا: میں ایک نصرانی ہوں۔ میں امرؤ القیس بن عدی کلبی ہوں۔ تب عمرنے اسے پہچانا اور کہا: کیا چاہتے ہو؟ بولا: مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ پس حضرت عمرنے اسے اسلام کی دعوت دی اور اس نے قبول کیا۔ قضاعہ 11 کی امارت بخش دی۔ جب وہ بزرگ جانے لگا تو اس کے اوپر (امارت کا) پرچم لہرا رہا تھا 12 اس کے علاوہ علقمہ بن علاثہ الکلبی کو ارتداد کے بعد حاکم بنانے کا واقعہ بھی مذکورہ بات کی نفی کرتا ہے۔ علقمہ کا واقعہ الاغانی اور الاصابہ میں اس کے حالات زندگی کے ضمن میں یوں مذکور ہے:

 
 
 

 

 
 
 
 
 

علقمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں مسلمان ہوا اور اسے آپ کی صحبت نصیب ہوئی۔ پھر حضرت ابو بکرکے دور میں مرتد ہو گیا۔ پس ابو بکرنے خالد کو اس کے پیچھے بھیجا تو وہ بھاگ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ دوبارہ مسلمان ہو گیا تھا۔

 
 
 

 

 
 
 
 
 

الاصابہ میں مذکور ہے کہ اس نے حضرت عمرکے دور میں شراب پیا۔ حضرت عمرنے اس پر حد جاری کی تو وہ مرتد ہو کر روم چلا گیا۔ روم کے بادشاہ نے اس کو عزت و احترام سے نوازا اور کہا: تم عامر بن طفیل کے چچازاد بھائی ہو۔ یہ سن کر وہ ناراض ہو گیا اور بولا: میں یہ دیکھتا ہوں کہ میری پہچان صرف عامر کے حوالے سے ہوتی ہے۔ 13 اس کے بعد وہ واپس لوٹا اور مسلمان ہو گیا۔ نیز الاغانی اور الاصابہ میں مذکور ہے کہ جب علقمہ بن علاثہ ارتداد کے بعد مدینہ واپس آگیا تو عمر  بن الخطاب سے آدھی رات کو مسجد میں اس کی ملاقات ہو گئی۔ علقمہ خالد بن ولید کا دوست تھا۔

 
 
 

 

 
 
 
 
 

حضرت عمرخالد سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ علقمہ نے ان کو خالد سمجھتے ہوئے اسے سلام کیا اور کہا:

 
 
 

 

 
تجھے اس نے معزول کر دیا؟
حضرت عمرنے کہا:
ایسا ہی ہوا۔
علقمہ نے کہا:
 
 
 
 

بخدا اس کی وجہ تجھ پر رشک اور تجھ پر حسد کے علاوہ کچھ نہیں۔

 
 
 

 

 
عمرنے اس سے کہا:
تم اس سلسلے میں کیا مدد کرسکتے ہو؟
علقمہ بولا:
 
 
 
 

نعوذ باللہ ہم عمرکے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ ہم اس کے خلاف اقدام نہیں کریں گے۔

 
 
 

 

 
 
 
 
 

جب صبح ہوئی تو حضرت عمرنے لوگوں کو اپنی ملاقات کرنے کی اجازت دی۔ خالد اور علقمہ بھی آ گئے۔ علقمہ خالد کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ حضرت عمرنے علقمہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا:

 
 
 

 

 
ہاں اے علقمہ! تم تھے جو خالد سے بات کر رہے تھے؟
علقمہ نے خالد کی طرف متوجہ ہو کر کہا:
اے ابو سلیمان! یہ تیری کارستانی ہے؟
خالد بولا:
 
 
 
 

وائے ہو تجھ پر۔ اللہ کی قسم میں نے اس سے قبل تجھ سے ملاقات نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ تم نے اس سے ملاقات کی ہے۔

 
 
 

 

 
بولا:
و اللہ میرا بھی یہی خیال ہے۔
اس کے بعد علقمہ نے حضرت عمرکی طرف رخ کیا اور کہا:
اے امیرالمومنین!آپ نے اچھی ہی سنی۔ کہا: ہاں کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تجھے حوران کا والی بناؤں؟ 14
کہا:
کیوں نہیں۔
پس حضرت عمرنے اسے وہاں کا حاکم بنایا اور وہ وہیں مر گیا۔ حطیئہ نے اس موت پر مرثیہ کہا۔ الاصابہ نے مزید لکھا ہے: پس عمرنے کہا:
 
 
 
 

جولوگ میرے پیچھے ہیں اگر وہ بھی تیری جیسی رائے کے حامل ہوں تو یہ میرے لئے زیادہ پسندیدہ ہے۔ فلاں فلاں چیزوں سے۔

 
 
 

 

 
 
 
 
 

یہ ایک تاریخی سرگزشت ہے لیکن مکتب خلفاء کے علماء نے ان کے روایات پر استناد کیا ہے او ان کی روایات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی پہچان کا معیار دریافت کیا ہے۔ انہوں نے سیف بن عمر کی خود ساختہ شخصیات کو اصحاب میں شمار کیا ہے۔ جبکہ سیف بن عمر کو زندیق کہا گیا ہے جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب“ میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے۔

 
 
 

 

 
صحابی کی تعریف کے مسئلے میں دونوں مکاتب فکر کی آراء کا مطالعہ کرچکنے کے بعد اب ہم ان دونوں کے ہاں صحابہکی عدالت کے نظرئیے پر بحث کریں گے۔
حوالہ جات
 
 
 
 

۱ الاصحابہ فی تمییز الصحابہ ج۱ صفحہ ۱   

 
 
 

 

 
۲ الاصابہ فی تمیز الصحابہ ج۱ صفحہ ۱۳،۱۶۔
3 لسنا العرب مادہ ”صحب“   
4 مفردات القران للراغب اصفہانی مادہ ”صحب“
5 الاصابہ ج۱ صفحہ ۱۳      
6 تاریخ طبری ج۱ صفحہ ۲۱۵۱ طبع یورپ  
7 تاریخ طبری ج۱ صفحہ ۲۴۵۷ تا ۲۴۵۸
 
 
 
 

8        سیف ابن عمر کے بارے میں مصنف (علامہ سید مرتضی عسکری) کتاب ”عبد اللہ بن سبا“ کا مطالعہ کریں

 
 
 

 

 
9        ملاحظہ ہو۔ کتاب ”رواة مختلقون“قلمی اور” عبداللہ بن سبا “ج۱ صفحہ ۱۷ طبع بیروت ۱۴۰۳ئھ
10       کتاب الاغانی ج۱۴ صفحہ ۱۵۸ طبع بیروت
11       قضاعة: بڑے بڑے قبایل پر مشتمل تھا جن میں خیدان، بہراء ،بلی اور جہینہ وغیرہ شامل ہیں جمہرة انساب العرب لابن حزم صفحہ ۴۴۰ ت ۴۶۰ مطبوعہ مصر، یہ لوگ پہلے ”شجر“ میں رہتے تھے۔ اس کے بعد نجران اور پھر شام میں رہنے لگے ان کا ایک بادشاہ جو شام و حجاز سے لے کر عراق تک حکمرانی کرتا تھا (معجم قبائل العرب مادہ ”قضاعة“ ج۳ صفحہ ۹۵۷)
12        کتاب الاغانی ج۱۴ صفحہ ۱۵۷، جمہرة انساب العرب صفحہ ۲۸۴
13        الاصابہ ج۲ صفحہ ۴۹۸ تا ۴۹۸، الاغانی ج۱۵ صفحہ ۷۵۶، جھرة انساب العرب صفحہ ۲۸۴
14 حوران دمشق کا ایک وسیع صوبہ ہے جو بہت سی بستیوں او زرعی زمینوں پر مشتمل ہے۔ (معجم البلدان ج۲ صفحہ ۳۵۸)
 

http://shiastudies.com/ur/309/%d8%b5%d8%ad%d8%a7%d8%a8%db%81-%d8%af%d9%88%d9%86%d9%88%da%ba-%d9%85%da%a9%d8%a7%d8%aa%d8%a8-%d9%81%da%a9%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d9%86%d8%b8%d8%b1-%d9%85%db%8c%da%ba/

تبصرے
Loading...