دو مکاتب فکر کا تقابلی جائزہ۔ حصہ اول

دو مکاتب فکر کا تقابلی جائزہ۔ حصہ اول

دو مکاتب فکر کا تقابلی جائزہ۔ حصہ اول

علامہ سید مرتضی عسکری (رح) کی مشہور معروف کتاب سے اقتباسات ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں
یہ کتاب ہم ان حضرات کی خدمت میں، جو ہم سے عقیدے میں اختلاف رکھتے ہیں، اس لئے پیش نہیں کر رہے کہ وہ ہمارا عقیدہ اختیار کریں
بلکہ
اس لئے پیش کر رہے ہیں کہ آپ کے علم میں آجائے کہ ہم بھی اپنے عقیدے پر قرآن و سنت کی ٹھوس دلیل رکھتے ہیں
تاکہ
بہتان تراشیوں کی وجہ سے امت کی وحدت میں حائل رکاوٹ دور ہو جائے
چونکہ علم وسعت نظر کا باعث ہے۔

تمہید

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

اس بحث میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ مکتب امامت اور مکتب خلافت کے درمیان اختلاف کا سرچشمہ کیا ہے۔ اس کے بعد کتاب ہذا کے مباحث دو حصوں میں منقسم ہو جاتے ہیں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

پہلی قسم

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

یہاں اس بات سے بحث کی گئی ہے کہ دونوں مکاتب فکر کے نزدیک شریعت اسلامیہ کے ماخذ و منابع اور ان تک رسائی کے طریقے کیا کیا ہیں۔ یاد رہے کہ اسلامی عقائد و احکام کا دارومدار انہی امور پر ہے۔ یہ امور درج ذیل پانچ بحثوں کو شامل ہیں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

الف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصاحبت اور آپ کے اصحاب کے بارے میں دونوں مکاتب فکر کے نظریات۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ب۔ امامت و خلافت کے بارے میں دونوں مکاتب فکر کے نظریات۔ یہ دونوں اسلامی شریعت تک رسائی اور اسلام کی صحیح شناخت کے ذرائع میں سے ہیں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ج۔ اسلامی شریعت کے ماخذ و منابع کے بارے میں دونوں مکاتب فکر کے نظریات اور یہ کہ مکتب خلفاء نے قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صف میں ذاتی اجتہاد اور رائے کو شریعت اسلامیہ کے مآخذ میں کیونکر شامل کیا ہے۔ یہاں مکتب خلفاء کے نزدیک اسلامی شریعت کے مآخذ اور ان تک رسائی کے راستوں کے متعلق تفصیلی بحث ہو گی۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

د۔ ذاتی اجتہاد اور رائے پر عمل کے نتیجے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو انحراف پیدا ہوا؛ اس کے مقابلے میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا قیام۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ہ۔قیام امام حسین(ع) کے بعد معاشرے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی سیرت کو دوبارہ زندہ کرنے اور اس کی ترویج میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی کامیابی۔ اسی تسلسل کے ساتھ مکتب اہل بیتکے ہاں اسلامی شریعت کے ماخذ اور ان تک رسائی کے طریقوں پر بحث تمام ہو جائے گی۔ یوں دونوں مکاتب فکر کی نظریاتی بنیادیں نکھر کر سامنے آجائیں گی۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

دوسری قسم

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

دونوں مکاتب فکر کے پیروکاروں کی فکری، سیاسی اور اجتماعی جدوجہد سے بحث کی گئی ہے۔ یہ قسم درج ذیل ابواب کو شامل ہے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

الف۔ ایران میں مکتب خلافت کے نظریات کے ترویج اور اس ملک میں اس مکتب فکر کے پیروکاروں کی حکومتوں کا قیام۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ب۔ اسلامی دنیا پر منگولوں کا حملہ اور ان کے ہاتھوں بغداد کے عباسی خلفاء کا خاتمہ۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ج۔ عراق کے شہر کوفہ کے تابع ایرانی علاقوں میں مکتب اہل بیت (ع)کی ترویج اور اس کو پھیلانے میں وہاں کے لوگوں کی جدوجہد اور اس خطے میں شیعہ حکومتوں کا قیام۔

 
 
 
 

 

د۔ مکتب اہل بیتپر کئے گئے بے بنیاد الزامات۔
 
 
 
 
 

مقدمہ

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 

اللہ تعالیٰ نے رب ہونے کے ناطے انسان کے لئے ایک ایسا دین عطا کیا جو اس کی زندگی (کے امور) کو نظم و ضبط دے، اس کی خوش بختی کا سامان کرے اور اسے کمال انسانیت کے مرتبے پر فائز کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علہیم السلام کے ذریعے انسان کو اپنی طرف ہدایت دی اور اس دین کا نام اسلام رکھا۔رب العزت نے فرمایا:

 
 
 
 

 

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ۔ 1
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
فرمایا
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَاِمِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔۲
 
 
 
 
 

اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

اسی طرح خدا وند عالم نے اپنی دیگر تمام مخلوقات کے لئے بھی ایسے ایسے نظام عطا کئے جو ان کی فطرت سے ہم آہنگ ہوں اور ان کو اپنے کمال وجودی تک پہنچائیں۔ اللہ رب العزت نے ان مخلوقات کو ان نظاموں کے مطابق چلنے کے لئے الہامی یا فطری و قہری ہدایت سے نوازا۔ ارشاد ہوتا ہے:

 
 
 
 

 

۱۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ اْلَاعْلَیo الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰیo وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰیo وَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰیo فَجَعَلَہغُثَآءً اَحْوٰیo ۳
 
 
 
 
 

(اے نبی!) اپنے پروردگار اعلیٰ کے نام کی تسبیح کرو۔ جس نے پیدا کیا اور توازن قائم کیا۔ اور جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔ اور جس نے چارہ اُگایا۔ پھر (کچھ دیر بعد) اسے سیاہ خاشاک کر دیا۔

 
 
 
 

 

۲۔ رَبُّناَ الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہثمَّ ھدٰی۔۱ 
 
 
 
 
 

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔

 
 
 
 

 

۳۔ وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْل اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتاً وَّمِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ۔ ۲
 
 
 
 
 

آپ کے رب نے شہد کی مکھی پر وحی کی کہ پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں گھر (چھتے) بنائے۔

 
 
 
 

 

فرمایا:
۴۔ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍم بِاَمْرِہط ۳
اور سورج اور چاند اور ستارے سب اس کے تابع فرمان ہیں۔
 
 
 
 
 

جب بھی کسی انسانی معاشرے سے وہاں کا نبی رحلت فرما جاتا تو اس معاشرے کے صاحبان اقتدار اور با اثر لوگ اپنے نبی کی ان تعلیمات کو جو ان لوگوں کی نفسانی خواہشات سے متصادم ہوتیں فوراً ان میں ردوبدل کرتے یا ان کو چھپادیتے تھے۔ پھر یہ لوگ اپنی طرف سے تحریف شدہ شریعت کو اللہ اور رسول سے منسوب کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 
 
 
 

 

۱۔ وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِیْقاًیَّلْونَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالْکِتَابِ لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْکِتَابِ وَمَا ھُوَ مِنَ الْکِتَابِج وَیَقُوْلُوْنَ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَمَا ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللهِ ج وَ یَقُوْلُوْنَ عَلٰی اللهِ الْکَذِبَ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۔۴ 
 
 
 
 
 

اور (اہل کتاب میں) یقینا کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان کو اس طرح پھیرتے ہیں کہ تمہیں یہ خیال گزرے کہ یہ خود کتاب کی عبارت ہے حالانکہ وہ کتاب سے متعلق نہیں اور وہ کہتے ہیں: یہ اللہ کی جانب سے ہے

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

حالانکہ یہ اللہ کی جانب سے نہیں ہوتی اور وہ جان بوجھ کر اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہیں۔

 
 
 
 

 

۲۔ اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّوٴْمِنُوْا لَکُمْ وَقَدْ کَانَ فَرِیقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلاَمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہمِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۔۱
 
 
 
 
 

کیا تم اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ (ان سب باتوں کے باوجود یہودی) تمہارے دین پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو اللہ کا کلام سنتا ہے پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر اس میں تحریف کر دیتا ہے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

          اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوبارہ نبی بھیج کر دین اسلام کو زندہ کرتا رہا۔ہرنبی تحریف شدہ تعلیمات اور رسوم کو باطل قرار دیتا تھا۔ پھر جب اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کے ساتھ مبعوث کیا تو اس کتاب میں اسلامی عقائد و احکام کی بنیادی باتوں کو آیات محکمات کے ذریعے بیان کیا۔ بعد ازاں آپ(ص) کو قرآن حکیم میں بیان کی گئی باتوں کی تفصیل سے آگاہ کیا تاکہ آپ(ص) لوگوں کو ان باتوں کی حقیقت بتا دیں جو ان کے واسطے نازل ہوئیں۔چنا نچہ فرمایا:

 
 
 
 

 

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ۔۲ 
 
 
 
 
 

اور (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لئے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

یوں رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہوئے لوگوں کو سکھایا کہ نماز کی رکعتیں کتنی ہیں اور ان کو کس طرح بجا لانا ہے۔ روزے میں کن چیزوں سے بچنا چاہیے اور اس کی شرائط کیا ہیں۔ آپ(ص) نے طواف، طواف کے چکروں اور اس کی ابتدا اور انتہا کے بارے میں بتایا۔ ان کے علاوہ دیگر واجب ، مستحب اور حرام امور کے احکام سکھائے۔ یہ تعلیمات احادیث

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

نبوی (ص) کی شکل میں مسلمانوں کے ہاں منصہ شہود پر آگئیں۔ علاوہ بریں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے آئینے میں مجسم کیا اور لوگوں کو سیرت رسول(ص) کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

 
 
 
 

 

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ۱ 
 
 
 
 
 

بتحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسول(ص) میں بہترین نمونہ ہے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

سیرت نبوی(ص) اور احادیث نبوی(ص) دونوں کو مجموعی طور پر اسلامی شریعت میں ”سنت“ کا نام دیا گیا ہے۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سنت رسول(ص) کے اتباع کا حکم دیا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں حکم فرمایا ہے۔

 
 
 
 

 

وَمَآ اٰتٰاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُق وَمَا نَھاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ۲ 
 
 
 
 
 

اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔

 
 
 
 

 

یوں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن و سنت کے ذریعے ہمارے لئے دین اسلام کی تبلیغ کے عمل کو مکمل کیا۔ پھر رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن آپ(ص)نے اپنی رحلت سے پہلے امت کو بتا دیا اور خبردار کیا کہ اس امت کو بھی ان تمام مسائل سے اسی طرح ہو بہو اور حرف بحرف روبرو ہونا پڑے گا جن سے سابقہ امتوں کو واسطہ پڑا تھا۔ آپ فرما گئے تھے کہ اگر سابقہ امتوں کا کوئی فرد کسی گوہ کے بل میں گھسا ہو تو اس امت کا کوئی نہ کوئی فرد بھی ضرور بہ ضرور کسی گوہ کے بل میں داخل ہو کر رہے گا۔ ۳ 
 
 
 
 
 

آخری امت اور تحریف کے حوالے سے یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو تحریف سے محفوظ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:

 
 
 
 

 

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہلَحَافِظُوْنَ ۴ 
 
 
 
 
 

اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

 
 
 
 

 

نیز فرمایا:
لَایَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن م بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہ۱ 
باطل نہ اس کے سامنے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔
 
 
 
 
 

رہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک اور ارشادات سے متعلق روایت شدہ سنت جس کا تذکرہ روایات کثیرہ میں ہوا ہے تو خدا نے ان کو تحریف سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری نہیں لی۔ چنانچہ اس حقیقت کا مشاہدہ ان احادیث نبویہّ کے درمیان موجود اختلاف و تعارض سے ہوتا ہے جو آج تمام مسلمانوں کے سامنے ہے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

احادیث کے درمیان اختلاف کی بات یہاں تک پہنچی کہ بعض علماء نے اس اختلاف کو حل کرنے کی ٹھانی اور اس مقصد کے تحت کتابیں لکھیں مثال کے طور پر حسب ذیل کتب:

 
 
 
 

 

۱۔ ”تاویل مختلف الحدیث“ تالیف ابن قتیبہ عبداللہ بن مسلم (متوفی ۲۸۰ھء یا ۲۷۶ھء)
۲۔ ”بیان مشکل الحدیث“ تالیف ابن فورک محمد بن حسن (متوفی ۴۰۶ھء)
۳۔ ”مشکل الآثار“ تالیف حافظ ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی حنفی(متوفی ۳۲۱ھء)
 
 
 
 
 

احادیث و روایات میں اختلاف کے نتیجے میں امت اسلامیہ قرآن مجید کو سمجھنے میں بھی اختلاف آراء کا شکار ہو گئی اور وہ ہمیشہ کے لئے بٹ کر رہ گئی ہے۔ علاوہ بریں ماحول کے اختلاف نیز دیگر اقوام و ملل اور اجنبی مکاتب فکر کے ساتھ مسلمانوں کی معاشرت نے اسلام کے بارے میں ان (مسلمانوں) کے نقطہ نظر کو پراگندہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ بلکہ بعض مسلمان تو اسلام کے بارے میں قرآنی آیات و صحیح احادیث کی تشریح و تاویل اپنی ذاتی رائے اور سوچ کے مطابق کرنے لگ گئے ہیں بالآخر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان آپس میں فرقوں میں بٹ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی آراء کو سننا چھوڑ دیا اور وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے لگ گئے۔ اس کے بعد اسلام دشمن قوتوں نے انتہائی تباہ کن ہتھیاروں کے ساتھ عالم اسلام پر اپنے حملے شروع کر دئے۔ اور اپنے درآمد شدہ نظریات کے ذریعے اسلام کا مقابلہ کیا۔ ان نظریات و افکار کو مستشرقین کے روپ میں کام کرنے والے یہودی و عیسائی مبلغین نے تیار کیا اورنظریات کے حامیوں نے”عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ترقی یافتہ اسلام“ کے نام سے عالم اسلام میں ان کی خوب ترویج کی۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

اسلام کے خلاف بر سر پیکار ان کافروں نے ہماری سرزمین میں مشرق شناسی کے تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والوں کی ترویج و تشہیر کی اور ان کو بدقسمتی سے نام نہاد مسلمان مصلحین، روشن فکر رہنماؤں اور ترقی پسندوں کے نام سے میدان عمل میں لا کھڑا کیا۔ چنانچہ مصر میں نوجوان نسل کے (نام نہاد) مربی احمد لطفی اور عورتوں کی آزادی کے طرفدار قاسم امین اور عراق میں سوشیالوجی کے

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

استاد علی دردی کا شمار اسی قبیل کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی اسی قسم کے افراد ملتے ہیں۔ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے ان لوگوں کے ہاتھوں میں سب سے تباہ کن ہتھیار یہ تھا کہ انہوں نے اسلام اور اسلامی شخصیات کا تعارف اپنے ڈھنگ سے کرانا شروع کیا۔ یاد رہے کہ ان حضرات اور ان کے مستشرق اساتذہ کی ساری کوششوں کا محور اور ہدف ایک چیز تھی اور وہ یہ کہ ان میں سے کسی کے بقول ”دین کا خاتمہ دین کی تلوار کے بغیر ممکن نہیں“ اس مقصد کے حصول کے لئے یہ لوگ قرآن کی تفسیریں، احادیث کی شرحیں نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر کتابیں لکھتے ہیں اور ہر قدم پر یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کو عالم غیب سے لاتعلق قرار دیں اور انہیں فقط فطرت انسانی کے تقاضوں کی صورت میں پیش کریں۔ پھر یہ لوگ گاہے اشارے کنائے سے اور کبھی واضح طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تمام ہستیاں اور اسلام کی ساری تعلیمات اپنے اپنے دور سے متناسب تھیں اور اپنے دور میں ترقی پسندی کی علمبردار تھیں اور اس دور کے انسانوں کے لئے مفید بھی۔ لیکن آج ہمیں جدید اور ترقی یافتہ اسلام کی ضرورت ہے تاکہ وہ دور حاضر کے تقاضوں اور موجودہ انسانوں کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

یہ وہ اسلحہ ہے جس کے خطرے سے بہت سارے لوگ آگاہ نہیں۔ اس اسلحے سے مسلح مزکورہ افراد مسلمانوں اور خود اسلام کے لئے ان سیاستدانوں سے زیادہ خطرناک ہیں جو عالم اسلام میں کافر حملہ آوروں کے ایجنٹ ہیں اور اسلامی ممالک کے حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ یہ حکمرانی انہیں نظریاتی و فکری جنگ میں گاہے اسلام کا تعارف کرانے کے نام سے اور کبھی عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ترقی یافتہ اسلام کو پیش کرنے کے بہانے اسلام کی حقیقت کو مسخ کرنے کے عوض حاصل ہوئی ہے۔ ہماری ان تمام معروضات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلام پر ہونے والے ان فکری حملوں کے بعد آج مسلمانوں کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ مختلف اسلامی فرقوں کے نظریات و اقوال کا وسیع اور تحقیقی مطالعہ عمل میں لائیں۔ اگرچہ مسلمانوں کا سنجیدہ طبقہ اس کے برعکس یہ خیال کرتا ہے کہ ان تمام باتوں سے چشم پوشی ہی مسلمانوں کی وحدت کو محفوظ رکھنے کے لئے بہتر ہے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

جبکہ مسلمانوں کی اکثریت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی اہل بیت  اور دیگر آئمہ، مسلمین کی قبور مبارکہ کی زیارت کرنے، ان سے تبرک حاصل کرنے ، خدا کے ہاں ان ہستیوں سے شفاعت طلب کرنے اور متوسل ہونے کے مشتاق نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سے ایک گروہ ان سارے امور کو شرک، اسلام کے خلاف بغاوت، بدعت اور حرام قرار دیتا ہے یوں ان کی نظر میں تیسری صدی ہجری سے لے کر اب تک کے سارے مسلمان مشرک ہیں۔ اس گروہ نے غار حرا کے راستے میں اور دوسرے متبرک مقامات پر تعمیر شدہ مساجد کو منہدم کرنے کے علاوہ مسلمانوں کے آئمہ، امہات المومنین، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا، فرزند رسول(ص) ،صحابہ رسول(ص) اور شہداء احد کی قبریں بھی مسمار کر ڈالیں۔ یہ گروہ یہودیوں اور ان کی توراة نیز عیسائیوں، ان کے گرجا گھروں،عبادت گاہوں، ان میں موجود صلیبوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی مورتیوں کے ساتھ مذکورہ سلوک روا نہیں رکھتا جبکہ عیسائی ببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ(ع) ان کا خدا ہے اور نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ تین خداؤں میں سے ایک ہے بلکہ ان کے ساتھ تو معاہدے اور عہد و پیمان کرتے ہیں۔ یہ گروہ ان کو مشرک نہیں کہتا۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

مذکورہ مسائل اور اس طرح کے دیگر مسائل مسلمانوں کے انفرادی امور مثلاً نماز ہاتھ کھول کر پڑھنا جو مکتب اہل بیت اور مالکیوں کے نزدیک درست ہے لیکن حنفیوں اور حنبلیوں کے ہاں ہاتھ باندھنا ضروری ہے یا وضو میں پاؤں دھونے یا ان پر مسح کرنے میں اختلاف وغیرہ ایسے مسائل کے بارے میں ہر مسلمان اجتہاد یا تقلید کی رو سے اپنے ہاں ثابت شدہ حکم کے مطابق عمل کر سکتا ہے اور اختلاف رائے کے باوجود تمام مسلمان باہمی محبت و یگانگت کے ساتھ ایک اسلامی معاشرے میں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ بلکہ یہ وہ مسائل ہیں جن پر انسانی معاشرہ قائم ہے اور لوگوں کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ ان میں سے ایک نظریئے کو چھوڑ کر دوسرے نظریئے کو اپنائیں یا دوسرے نظریئے کو چھوڑ کر پہلے نظریئے کو اپنائیں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

مذکورہ اختلافات خالص سیاسی مسائل نہیں ہیں جن سے اتحاد بین المسلمین کے پیش نظر چشم پوشی ممکن ہو۔ اصل اور جعلی ناموں سے”وجاء دور المجوس“ جیسی کتابوں کے کئی ملین نسخوں کومنظر عام پر لانا اور بعض حکومتوں کی طرف سے اس قسم کے کاموں پر دولت صرف کرکے مسلمانوں کے ایک عظیم حصے کو خارج از اسلام قرار دینا علاوہ ازیں دنیا کے تمام حصوں میں اپنے باطل نظریات کو پھیلانے کے لئے ہزاروں مراکز، مساجد اور مدارس پر کروڑوں اربوں کا خرچ برداشت کر کے یہ بتانا کہ ان کے سوا دیگر تمام مسلمان مشرک و کافر ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں ہزاروں وفود بھیج کر اپنے بے بنیاد نظریات کی ترویج کرنا وغیرہ کسی غیر دینی سیاسی مقصد کے پیش نظر نہیں ہیں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

پھر ایسابھی نہیں کہ یہ مسائل مسلمانوں میں افتراق ڈالنے کے لئے استعمار کے پیدا کردہ ہوں جو ان سے چشم پوشی مستحسن قرار پائے بلکہ یہ مسائل حنبلیوں کے امام احمد( متوفی ۲۴۰ھء) اور ان کے نظریاتی شاگرد شیخ ابن تیمیہ (متوفی۷۲۸ھء) کے دور سے بلکہ اس سے بھی کہیں پہلے سے لے کر آج تک موجود اور رائج رہے ہیں۔ متعدد ادوار میں مختلف مقامات پر لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام اور ان کے کتب خانوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات ہمارے دعوے کی بہترین دلیل ہیں۔ اگر ہم ان مسائل کا حل تلاش نہ کریں گے اس وقت تک مختلف حکومتیں اور استعماری طاقتیں اپنی منشاء کے مطابق ان سے غلط سیاسی فائدہ حاصل کرتی رہیں گی۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

میں اپنے دعوئے کی مزید وضاحت اور اس پر دلیل قائم کرنے کی غرض سے آئندہ صفحات میں امت اسلامیہ کے درمیان معمولی اختلاف کے باعث ظاہر ہونے والے بعض افسوسناک نتائج کے بارے میں اپنے مشاہدات کا تذکرہ کروں گا۔

 
 
 
 

 

——–
 
 
 
 
 

افتراق امت اسلامیہ کے بعض آثار جن کا میں نے مشاہدہ کیا

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

پہلے سفر کا واقعہ

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ملک عبد العزیز آل سعود کے عہد میں میں نے پہلی بار حج کا سفر کیا۔ جب ہمارا (عراقی حاجیوں کا) قافلہ سعودی عرب کے شہر رماح پہنچا تو ہم نے وہاں چوبیس گھنٹے توقف کیا اور سب نے وہاں کی مسجد میں جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھیں۔ جب روانہ ہونے کا وقت قریب آیا تو اس شہر کے کچھ لوگ روانگی کا منظر دیکھنے کے لئے ہمارے ارد گرد جمع ہو گئے۔ اس مجمع سے ایک شخص آگے بڑھا جس کی ظاہری وضع قطع سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان کے دانشمند افراد میں سے ایک ہے۔ اس نے حاجیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:

 
 
 
 

 

”یہ لوگ مشرک ہیں“۔ نیز یہ بھی کہا”یہ لوگ حسن  اور حسین  پر روتے ہیں“۔
میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا:
 
 
 
 
 

یہ ان کا رضا کار کارکن ہے۔ اگر یہ میرے ہاتھ لگ جائے تو اسے قتل کر دوں گا اور اس کا خون پی جاؤں گا۔

 
 
 
 

 

یہ سن کر ایک حاجی بول اٹھا :
 
 
 
 
 

ہم کس لئے مشرک ہیں؟ ہم نے بیت اللہ کا حج کیا اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

یہ سننا تھا کہ وہ برس پڑا اور منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے کہا:

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

اشرکت لو یجیی ابو ابو سعود ما یحامی عنک ویش محمد محمد رجالاً مثلی۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

تم مشرک ہو۔ بادشاہ اور اس کا دادا سعود بھی تجھے میرے ہاتھوں سے نجات نہیں دے سکتا۔ محمد کون ہوتا ہے؟ محمد تو میری طرح کا ایک آدمی تھا۔ ( نعوذ باللّٰہ من ذلک)

 
 
 
 

 

عراقی حاجی کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اس نے کہا:
میں کیا کہوں؟ میں کیا کہوں؟“
وہ بولا:
 
 
 
 
 

کہو وہ ضرر نہیں پہنچا سکتا صرف خدا ہی ضرر پہنچا سکتا ہے۔ وہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا فائدہ پہنچانے والا تو بس خدا ہے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

عراقی حاجی نے اس کے پڑھائے ہوئے کلمات دہرائے۔ یہ دیکھ کر ایک اور عراقی حاجی آگے بڑھا اور اس سے یوں مخاطب ہوا:

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

کیا محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری طرح کے آدمی تھے؟

 
 
 
 

 

اس نے اپنی سابقہ بات کی تاکید کرتے ہوئے کہا:
محمد(ص) میری طرح کے آدمی تھے جو مر گئے۔
عراقی نے اس سے کہا:
 
 
 
 
 

محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو قرآن نازل ہوا تھا۔ کیا تمہارے اوپر بھی قرآن نازل ہوتا ہے؟

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

اس سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ اس کے بعد ہم گاڑیوں پر سوار ہو کر چل پڑے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ہمارے قافلے میں ایک سعودی حاجی بھی تھا جو سعودی پاسپورٹ پر سفر کر رہا تھا اور عراق میں رہتا تھا۔ ہم جب بارڈر پر پہنچے تو سعودی امیگریشن کے مسئول نے اسے جھڑکا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے نفرت آمیز انداز میں کہا:

 
 
 
 

 

اسلامی سرزمین کو چھوڑ کر بلاد شرک میں رہتے ہو؟
 
 
 
 
 

سعودی حاجی نے ذلت و خواری کے ساتھ اسے دعائیں دیتے ہوئے اپنا پاسپورٹ مانگنا شروع کیا یہاں تک کہ اس نے پاسپورٹ واپس کر دیا۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

دوسرے سفر کی روداد

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ان دنوں عراقی علماء معاشرے میں اسلامی احکام کو دوبارہ جاری و ساری کرنے کے لئے کوشاں تھے اور مسلمان عوام کو مساجد، جلسوں اور تقریبات کے ذریعے اس مطالبے کی خاطر بیدار کرنے نیز حکومت کی طرف سے بنائے جانے والے غیر اسلامی قوانین کے خلاف جدوجہد کرنے میں مصروف تھے۔ ہمیں جہاں کہیں سے اس سلسلے میں مسلمانوں کی جدوجہد کی خبریں ملتی تھیں ہم انہیں سن کر محظوظ ہوتے تھے۔ ہم فرانس کے خلاف الجزائری مسلمانوں کے انقلاب کی حمایت کرتے تھے اور اپنی تمام تر قوت کے ساتھ فلسطینی انقلاب کی تقویت کا سامان فراہم کرتے تھے۔ ہم ایتھوپیا کے خلاف اریٹیریا کے عوام کی جدوجہد کی خبروں سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہم معاشرے میں اسلامی احکام کی بازگشت کے لئے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کی خاطر مسلمانوں کی بیداری، ان کے باہمی تعاون اور اختلافی مسائل سے چشم پوشی کو ضروری قرار دیتے تھے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

پھر ان ایام میں ایران کی طاغوتی حکومت اور مسلمان علماء کے درمیان معرکہ آرائی شروع ہوئی۔ شہر قم کی عظیم اسلامی یونیورسٹی کے مرکزی مدرسہ فیضیہ سے ۲۵ شوال ۱۳۸۲ھء اس معرکے کی ابتداء ہوئی۔ ہم نے اس واقعے کو فال نیک قرار دیتے ہوئے اس اسلامی تحریک کی حمایت کے لئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا اور اس کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا۔ ادھر عراقی علماء نے بھی اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ اس تحریک کی حمایت کی۔ خدا ان سب کو بہترین جزا عنایت فرمائے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ان دنوں میں نے بھی تعزیتی مجالس برپا کیں۔ میں نے بغداد میں تین راتوں تک عظیم تعزیتی مجالس کا بندوبست کیا۔ ان مجالس میں ایرانی عوام کی اسلامی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں، اس کے آثار و نتائج اور اس کی حقیقت کو اجاگر کیا گیا۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

میں ان حالات میں ایک پیغام اور ایک تجویز لے کر سفر حج کے لئے روانہ ہوا۔ میرا آفاقی پیغام اسلامی معاشرے میں خالص اسلامی عادلانہ نظام زندگی کے احیاء کی خاطر مسلمانوں کو دعوت اتحاد دینا تھا اور میری تجویز یہ تھی کہ جس تحریک کی ابتدا مسلمان علماء کے ہاتھوں ایران سے ہوئی تھی اسی قسم کی اسلامی تحریکیں دیگر مقامات پر بھی چلیں۔ میں اس بات کی کوشش میں لگا ہوا تھا کہ اس تحریک کے اسباب سے مسلمان قائدین و مفکرین کو تفصیل کے ساتھ آگاہ کروں اور ان کو اس کی حمایت پر آمادہ کروں اور یہ بتا دوں کہ اسلامی احکام کی بازگشت کے لئے مسلمانوں کی جدوجہد مشترک ہے۔ جب کسی اسلامی ملک میں مسلمانوں کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو گی تو اس کے اثرات دوسرے مقامات پر بھی مرتب ہوں گے اور اس کی خبر سب مسلمانوں تک پہنچے گی۔ میری امیدوں کا محور یہی تھا کہ ایرانی مسلمانوں کے المیے اور دوسرے تمام مسلمانوں کے مفادات اور مقاصد کے اشتراک کے بارے میں میری معروضات پر دھیان دیا جائے گا۔ میں نے اس سفر کے دوران شام میں اخوان المسلمین کے قائدین،مکہ معظمہ میں سعید رمضان اور میدان عرفات میں اریٹیریا کے انقلابی قائد محمد آدم، اردن اور بیت المقدس میں فلسطینی دانشوروں، مسلمان صحافیوں، علماء، خطباء اور اسلامی تحریکوں کے قائدین، مثال کے طور پر مولانا ابو الحسن علی ندوی اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق سربراہ ابوالاعلیٰ مودودی وغیرہ سے ملاقاتیں کیں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

میں نے مدینہ منورہ میں اپنے کام کا آغاز کرتے ہوئے ان کتابچوں کی تیاری میں مدد دی جو حاجیوں کے درمیان تقسیم کئے جانے کے لئے بنائے جا رہے تھے۔ میں نے ان پمفلٹوں کے مضامین کو سنوارا، ان میں ایران کی اسلامی تحریک کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کی، ایران کی سابقہ طاغوتی حکومتوں کے ایجنٹوں کے مظالم پر روشنی ڈالی اور ایران کے مسلمان عوام کی مدد کے لئے مسلمانان عالم کو اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی۔ میں چاہتا تھا کہ یہ پمفلٹ عید قربان کی رات مشعرالحرام میں حاجیوں کے درمیان تقسیم ہوں لیکن ساتویں ذی الحجہ کی شام مجھے اچانک افسوسناک خبر ملی کہ ان پمفلٹوں کی تقسیم کے ذمہ دار عالم نے جب یہ پمفلٹ مکہ میں حرم شریف کے اندرتقسیم کئے تو انہیں گرفتار کر کے پس دیوار ڈال دیا گیا ہے اور سارے پمفلٹ ضبط کر لئے گئے ہیں۔ یہ سن کر ہم یعنی عراق اور ایران کے علماء نے عید کے دن اس وقت کے ولی عہد فیصل سے ملاقات کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ گرفتار شدہ شخص کو رہا کرے اور ضبط شدہ مواد واپس کرے۔ اس وقت میں نے فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا:

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

آپ کی حکومت اس ملک میں قرآنی تعلیمات کو نافذ کرنے کا نعرہ لگاتی ہے بنابریں آپ کو ان مسلمانوں کی مدد کرنی چاہئے جو اپنے اپنے ملک میں قرآنی نظام کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں اور اپنے ہاں کی ان حکومتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جو کافرانہ نظام کو مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ مکہ مکرمہ کو ان ممالک سے نکالے جانے والوں کی پناہ گاہ قرار دیں اور ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی مظلومیت کی داستان اپنے حاجی بھائیوں تک پہنچا سکیں اور یہ بات سورة الحج کی اس آیت کی مصداق ہے: لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ۔ ” تاکہ وہ حاضر ہوں اپنے (دینی دینوی) فائدوں کے لیے “

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

پھر میں نے قم کی عظیم درسگاہ کے مسلمان علماء کے قیام کا ذکر چھیڑا اور ایران سے شروع ہونے والی اسلامی تحریک کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کیا اور اس تحریک کے معاملے میں مسلمان سربراہوں خاص کر سعودی حکومت کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ میں نے اپنی گفتگو کا اختتام اس عالم کے ذکر پر کیا جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی داستان پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے گرفتار ہو گیا تھا۔ اس مسئلے پر ہمارے درمیان کافی گفتگو ہوئی جو گرفتار شدہ عالم کی رہائی پر منتج ہوئی۔

 
 
 
 

 

مناسک حج کی ادائیگی اور مکہ واپسی کے بعد اخباروں کے ذریعے لوگوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ جمعة المبارک کی شام مسجد ہندی میں مولانا مودودی کی تقریر سننے کے لئے جمع ہوں چنانچہ ہم نماز عشاء کے بعد اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ علامہ موصوف نے ایک تقریر کی ۱
 
 
 
 
 

جس میں انہوں نے معاشرے میں اسلامی نظام زندگی کو نافذ کرنے کے لئے مسلمانوں کے اوپر آٹھ چیزوں کو لازمی قرار دیا۔ ان کی تقریر کے بعد میں مائیک کے پاس آیا اور ان کی تقریر سے سلسلہ جوڑتے ہوئے کہا:

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

آج مسلمانوں کو اسلامی تحریک چلانے کے لئے تین باتوں کی ضرورت ہے:

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

۱لف۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو چودہ سو سال گزر گئے اور اس دوران مختلف حالات سے دوچار ہونے کے بعد آج مسلمانوں کو اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے ماخذ و منابع سے احکام کے استنباط کی کیفیت سے متعلق جامع، عمیق اور بنیادی تحقیق کریں۔ حدیث اور سنت کو سمجھیں اور ان تمام امور میں گزشتہ علماء کے مقلد محض بن کر نہ رہیں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ب۔ اسلامی ممالک پر حملہ کرنے والے کفار (استعماری طاقتیں) مسلمانوں میں افتراق ڈالنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یوں وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں چلنے والی اسلامی تحریک کو دبانے پر قادر ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد میں نے فرانسیسیوں کے خلاف اریٹیریا کے عوام کی جدوجہد کا ذکر کیا۔ ایران کی طاغوتی حکومت کے خلاف ایرانی علماء کی تحریک کا تفصیلی ذکر کیا اور مسلمانوں کو ان کی مدد کے لئے کمر ہمت باندھنے کی دعوت دی۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ج۔ تیسرا نکتہ یہ بیان کیا کہ آج ہمیں ابوذر ، عماریاسراور سمیہکے ایمان کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے سرزمین مکہ میں ان پر ہونے والے مظالم کا تفصیلی تذکرہ کیا۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

مدینہ منورہ میں اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ شیخ عبدالعزیز بن باز کو مسلمان وفود کے ساتھ میری ملاقاتوں کی خبر ملی اور اسے بتایا گیا کہ بغداد کا ایک عالم ہے جو فلاں فلاں خصوصیات کا حامل

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

ہے۔ موصوف نے مجھے اہل سنت کا کوئی عالم خیال کرتے ہوئے مدینہ کی اسلامی یونیورسٹی کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ اس وقت مدینہ یونیورسٹی تازہ تازہ بنی تھی۔ یونیورسٹی کی گاڑی بھیج کر ہمیں بغداد کے بعض علماء ،دانشوروں اور بزرگوں کی معیت میں وہاں لے گئے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

یونیورسٹی کے اساتذہ ایک بڑے ملاقاتی ہال میں ہمارے منتظر تھے۔ انہوں نے وہاں ہمارا استقبال کیا۔ ہال کی کھڑکیوں پر طلباء کی ایک جماعت ہمیں دیکھنے کے لئے امنڈ آئی تھی۔ جب ہم بیٹھ چکے تو میں نے خدا کی حمد و ثناء کے بعد عراق کے مسلمان علماء کی طرف سے انہیں مدینہ منورہ میں اسلامی یونیورسٹی بنانے پر ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کیا۔

 
 
 
 

 

اس کے بعد میں نے کہا۔
 
 
 
 
 

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقدس شہر میں قیام پذیر ہوئے تو آپ نے مسلمان مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا اور اسی بھائی چارے کی بنیاد پر عظیم اسلامی معاشرے کی عمارت کھڑی کی۔ اس وقت آپ لوگوں کے پاس پینتالیس ممالک کے طلباء تعلیم حاصل کر ہے ہیں۔ آپ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر عمل پیرا ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے لئے یہ عظیم خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ آج مسلمانان عالم کو اس امر کی شدید ضرورت بھی ہے کیونکہ وہ دنیا کے مختلف حصوں میں کافر استعماری طاقتوں کے ہاتھوں گرفتار ہیں۔ مسلمانوں میں سے کچھ تو براہ راست استعمار کے پنجوں میں سسک رہے ہیں اور ان میں سے بعض پر استعماری ایجنٹوں کا تسلط ہے ۔ آج یہ مسلمان استعمار اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف برسر پیکار ہو چکے ہیں۔ الجزائر کے مسلمان فرانسیسیوں سے مصروف جہاد ہیں اور فرانس ان پر ظلم ڈھا رہا ہے۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

اریٹیریا کے مجاہدین شہنشاہ ہیل سلاسی کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور شہنشاہ ایتھوپیا ان پر ظلم و تعدی کر رہا ہے۔ ادھر ایران میں مسلمان علماء وہاں کی طاغوتی حکومت اور اس کے استعماری آقا کے ساتھ مصروف جہاد ہیں۔ وہ اس روئے زمین کی سب سے سخت استعماری طاقت کو نکال باہر کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں تاکہ اس اسلامی سرزمین پر اسلامی احکام کی حکمرانی ہو جبکہ استعمار ان کو تختہ مشق ستم بنائے ہوئے ہیں۔

 
 
 
 

 

 
 
 
 
 

اس سے پہلے میں نے مسلمانوں کے درمیان افتراق کے المیوں پر روشنی ڈالی اور ان کی مثالیں پیش کیں۔حج کے مختلف سفروں کے دوران مکہ اور مدینہ میں ہم نے نماز جمعہ اور نماز جماعت کے خطیبوں کو سنا اور گاہے مسجد خیف میں نماز مغرب اور عشاء کے درمیان خطیبوں کے ساتھ بحث و گفتگو میں بھی شرکت کی۔ بسا اوقات مجھے ایسی باتیں سننے کا اتفاق ہوا جن کا ذکر آج مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ مسلمان مفکرین اور قائدین کے ساتھ تبادلہ خیال کے دوران میں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کی فکری ہم آہنگی اور یکسوئی اس وقت تک ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اختلافی مسائل کا مل کر مطالعہ نہ کیا جائے اور ان کے اسباب کا کھوج لگا کر ان کا علاج کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

 
 
 
 

 

———————————————————————–
۱ سورہ آل عمران آیت ۱۹             
 ۲ حوالہ سابق آیت ۸۵
۳ سورة الاعلیٰ آیت ۱ تا۵
4 سورةطہ آیت۵۰
5 سورة النحل آیت ۶۸
6 سورة الاعراف آیت ۵۴
7 سورة آل عمران آیت۷۸
8 سورة بقرة آیت۷۵۔ مزید تفصیل کے لئے سورة بقرة آیات ۴۲،۱۴۶،۱۵۹،۱۷۴، سورة آل عمران آیت ۱۸۷، سورة النساء آیت ۴۶، سورة المائدہ آیات ۱۳،۱۵،۴۱،۵۹،۶۱ کو ملاخطہ فرمائیں۔
9۔ سورة النحل آیت ۴۴
 
 
 
 
 

10 سورة الاحزاب۔ ۲۱           

 
 
 
 

 

11 سورة الحشر آیت۷
 
 
 
 
 

12 اکمال الدین للشیخ صدوق صفحہ نمبر ۵۷۶، بحار الانوار زیر آیت لترکبن طبقاً عن طبقٍ ج۸ صفحہ۳، صحیح بخاری باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ج۲ صفحہ۱۰۹،سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۳۹۹۴، مسند امام احمد ح۲ صفحہ۳۲۷،۳۶۷،۴۵،مجمع الزوائد ج۷ صفحہ۲۶۱، کنز العمال ح۱۱ صفحہ ۱۲۳    

 
 
 
 

 

13 سورة الحجر آیت ۹
14 سورةحٰم السجدہ آیت ۴۲
 
 
 
 
 

15  انہوں نے یہ تقریر رابطہ ٴعالم اسلامی کی تقریبات کے لئے تیار کی تھی جن میں انہیں شرکت کی دعوت دی گئی تھی جب انہیں اس کا موقع نہ ملا تو وہی تقریر مسجد ہندی میں کی۔

 
 
 
 

 

 

http://shiastudies.com/ur/280/%d8%af%d9%88-%d9%85%da%a9%d8%a7%d8%aa%d8%a8-%d9%81%da%a9%d8%b1-%da%a9%d8%a7-%d8%aa%d9%82%d8%a7%d8%a8%d9%84%db%8c-%d8%ac%d8%a7%d8%a6%d8%b2%db%81%db%94-%d8%ad%d8%b5%db%81-%d8%a7%d9%88%d9%84/

تبصرے
Loading...