انتخاب خلیفہ جبر یا اختیار

انتخاب خلیفہ جبر یا اختیار

١۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ خلیفہ کو انتخاب کرنے کا حق صرف خدا و ر رسول (ص )کو ہے اور لوگوں کو ہر حال میں اس انتخاب کو قبول کرناچاہیے۔ آیا یہ جبر اور زبردستی نہیں ہے کہ جو تعلیمات اسلامی کے خلاف ہے کہ جو جبر کو مکروہ و غلط سمجھتا ہے ۔ القرآن:” لا اکراہ فی الدین”۔

جواب

آیہ شریفہ لا ِاکراہ فِی الدِینِ قد تبین الرشد مِن الغیِ فمن یکفر بِالطاغوتِ و یؤمِن بِاللہِ فقد استمسک بِالعروةِ الوثقیٰ لا انفِصام لہا و اللہ سمیع علیم (بقرہ ٢٥٦)) دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیںیقینا ہدایت اور ضلالت میںفرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے یقیناً اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیااور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے

(یہاں زور و زبردستی سے ایمان کسی پر تھوپنے کی مذمت کی جا رہی ہے اور ہمیں یہ پتہ ہے کہ ایمان دل کا معاملہ ہے اور دلوں کے معاملات زور و زبردستی سے پیدا نہیں کئے جاسکتے۔

ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی سے زبردستی ایمان کا اقرار کرالیا جائے لیکن کسی بھی صورت زبردستی ایمان دل میںاتارا اور باقی نہیں رکھا جاسکتا ۔ دوسری طرف ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ انسان اس دنیا میں بااختیار خلق ہوا ہے اور اس روشنی میں ایمان کو بھی اس نظام ہستی میں عقل و تدبر کے ساتھ مربوط ہونا چاہیے ۔

عقل اور یکتا پرستی کی فطرت سے درست راستہ کو انتخاب کیا جاسکتا ہے اور درست راستہ پر ایمان بھی رکھا جاسکتا ہے ۔

درج ذیل آیہ شریفہ اسی نکتہ پر روشنی ڈالتی نظر آتی ہے ۔لا ِاکراہ فِی الدِینِ قد تبین الرشد مِن الغیِ فمن یکفر بِالطاغوتِ و یؤمِن بِاللہِ فقد استمسک بِالعروةِ الوثقیٰ لا انفِصام لہا و اللہ سمیع علیم )بقرہ (265” لا اکراہ فی الدین ”کے بیان کے بعد اِس جملہ کے مقصد کو”قد تبین الرشد من الغی کی روشنی میں بیان کیا جا رہا ہے یعنی ہر شخص یہ قدرت رکھتا ہے کہ درست و نادرست راہ کو پہچان سکے، اپنی عقل کی مدد سے راہ رشد یعنی درست راہ اور خدا کے انتخاب کو اختیار کرے، “عرو الوثقی “یعنی خدا کی سب سے مضبوط رسی کو تھام لے ۔ اس طرح وہ نجات پا جائے گا۔ یہ محال ہے کہ کوئی شخص عقل سلیم رکھتا ہو اور خدا پر دل سے ایمان نہ رکھے۔

ایسی صورت میں اس کا دل ضرور خدا کی حقانیت کی گواہی دیگا۔ جب کوئی شخص دل سے با ایمان ہوگیا اور خدا کی صفات مثلا اس کے حکیم ہونے ،اس کے عادل ہونے یا اس کے ہادی (ہدایت کرنے والا)ہونے کو دل سے تسلیم بھی کرلیا تو پھر لازم ہے کہ وہ شخص خدا اور اس کے رسول (ص) کے احکامات پرمضبوطی کے ساتھ عمل پیر اہو۔ اس میں شک نہیں ہے کہ خدا اور رسول (ص) کے سامنے اس طرح سر تسلیم خم کرنا عقل کا تقاضہ ہے اور یہ عین ایمان ہے کہ اختیار و آزادی سے اِس کی طرف بڑھا جائے ۔

من یطِعِ الرسول فقد اطاع اللہ (نسائ80)) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی(و قرن فی بیوتِکن و لا تبرجن تبرج الجاہِلِیةِ اولیٰ وا قِمن الصلاة و آتین الزکوة وا طِعن اللہ و رسولہ ا ِنما یرید اللہ لِیذہِب عنکم الرِجس ا ہل البیتِ و یطہِرکم تطہیرا)احزاب(33(اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو نیز نماز قائم کرو اور زکوة دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے(ما افاء اللہ علیٰ رسولِہِ مِن ا ہلِ القریٰ فلِلہِ و لِلرسولِ و لِذِی القربیٰ و الیتٰمیٰ و المسٰکینِ و ابنِ السبیلِ کی لا یکون دولة بین الاغنِیائِ مِنکم و ما ء اتٰکم الرسول فخذوہ و ما نہٰکم عنہ فانتہوا و اتقوا اللہ ا ِن اللہ شدید العِقاب(حشر 7)(اللہ نے ان بستی والوںکے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جا اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے)

یا یہا الذین آمنوا أطیعوا اللہ و رسولہ و لا تولوا عنہ وا نتم تسمعون (انفال (20/) اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد تم اس سے روگردانی نہ کرو

(اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پیامبر (ص)کا خود اپنے خلیفہ کا انتخاب کرنا اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دینا اور نما ز، جہاد، روزہ، زکواة، خمس اور دسیوں دیگر احکام کی بجاآوری کا پابند کرنا آزادی کے خلاف ایک جبر ی عمل ہے ۔ کیونکہ لوگوں نے خود قرآن اور رسول (ص) اور دوسرے دین کے احکامات کو اپنے یے خود انتخاب نہیں کیا ہے اور اس طرح کی دلیل لانا کہ رسول کی طرف سے خلیفہ مقرر کرنا زور و زبردستی ہے، بالکل ایک خلاف عقل بات ہے۔

جب عقل خداوند متعال کو اور اس عالم کو بہترین خلقت کے نظام کے طور پر قبول کرتی ہے اور خدا کی اطاعت کرنے کو انسانیت کی نجات کا ذریعہ سمجھتی ہے تو پھر عقل کا یہ تقاضہ ہے کہ خدا کی ہر بات کے سامنے بہ رضا ورغبت سر تسلیم خم کیا جائے ۔جب خداوند متعال نے رہبروں اور حکومت کرنے کے اہل لوگوں کی پہچان کرائی ہے تو پھر لوگوں پر لازم ہے کہ ان کی اطاعت کریں اور ان کی حکومت کو دل و جان سے مانیں۔ ایسی اطاعت کوہر گز زور و زبردستی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا

انما ولِیکم اللہ و رسولہ و الذین ء امنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزکوٰة و ہم راِکعون( مائدہ (55/) تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکو دیتے ہیں)یا یہا الذین ء امنوا أطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولِی الامرِ مِنکم فاِن تنٰزعتم فی شی ئٍ فردوہ اِلیَ اللہِ و الرسولِ ا ِن کنتم تؤمِنون بِاللہِ و الیومِ الآخِرِ ذلکِ خیر وا حسن تأویلاً  (نساء/ (59)اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا)

یا جیسا کہ خود پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا: “من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ و من اطاع علیا فقد اطاعنی و من عصی علیا فقد عصانی ”((1رہبر کے انتخاب کے دو طریقے ہوسکتے ہیں۔

یا تو خداو رسول(ص) انتخاب کریں یا لوگ اپنی رائےVote) )دے کر رہبر کا انتخاب کریں۔

دوسری بات یہ کہ اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر ایک شخص بھی کسی کی خلافت کے لیے اس کی بیعت کرے تو خلافت نافذ ہو جائے گی۔ اب اہل سنت کے اس اعتقاد کے لیے کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ باقی لوگوں کا ایسے خلیفہ کی اطاعت پر مجبور ہونا کہ جو صرف ایک شخص کی بیعت سے خلیفہ بنا ہے، زور و زبردستی ہے؟

یا مغرب کی جمہوریت کہ جس میں کبھی 30% لوگ ووٹ دیتے ہیں کبھی 40% اور کبھی 50% تو جو لوگ Vote نہیں دیتے تو ان پر مثلا Prime Minister کی حکومت کی اطاعت کولازم قراردینا زور زبردستی نہیں ہوگی؟

اب ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ اس بات کو قبول کرلیں۔ کیونکہ سوسائٹی (معاشرہ )پر ایسے حکمران کا کہ جس کو لوگوں نے انتخاب نہیں کیا ہے، حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

پس معاشرہ خلیفہ یا رہبر یا امام کے بغیر رہے انسانی فطرت اور (Society)معاشرے کے تقاضوں سے متصادم بات ہے ۔

جیسا کہ کہا گیا کہ جب خدا اپنے بندوں کے لیے حاکم کو منتخب کرتا ہے تو اس میں کسی بھی قسم کی زور و زبردستی نہیں ہے لیکن جب عوام اپنے لیے حاکم کومنتخب کرتے ہیں تو اس میں زور و زبردستی ہے کیونکہ مخلوق کومستقل طور پر لوگوں پر حکومت کرنے کا حق نہیں ہے۔

ان نکات بالا کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ جناب عمرکا ابوبکر کو منتخب کرنا زور و زبردستی کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور اس طرح جناب ابوبکر کی جانب سے خلیفہ کے لئے عمر کونامز د کرنا بھی زور و زبردستی پر مبنی عمل تھا۔

اسی طرح جناب عثمان کا انتخاب چھ لوگوں کی شوریٰ کے ذریعہ بھی زور و زبردستی و اجبار ہے اور اسلحہ کے زور پر معاویہ کا مسلط یا اس کا اپنے نا ہنجاربیٹے یزید کو بزور طاقت جانشین مقر ر کرنا بھی زبر دستی کا مظہر ہے ۔

ازیں قبیل بنی امیہ اور عباسیوں اور ترکوں کی موروثی حکومتیں کہ جن کو اہل سنت برادران صحیح و جائز مانتے ہیں سب کی سب زور و زبردستی ،اجباری اور طاغوتی تھیں کہ یہ تمام حکومتیں اسلام کی نظر میں غلط تھیں۔

اسلام آزادی کا دوست اور زور و زبردستی کا دشمن ہے۔اگر بالفرض ہم اس اعتراض کو قبول کرلیں کہ اسلام کے احکامات اکراہ اور زور و زبردستی کے حامی ہیں یہاں تک کہ خدا اور رسول کی طرف سے کسی کو منتخب کرنا بھی زور و زبردستی ہے تو پھر درج ذیل آیات کہ جو حکم دے رہی ہیں جہاد کااس ااعتراض کی روسے اجبار و زور و زبردستی کی ہی علامت قرار پائینگی ۔

و قٰتِلوہم حتیٰ لا تکون فِتنة و یکون الدِین لِلہِ فاِنِ انتہوا فلا عدوان ِلا علیَ الظٰلِمین (بقرہ ١٩٣)(اور تم ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے، ہا ں اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموںکے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو گی)یا یہا النبِی جٰہِدِ الکفار و المنٰفِقین و اغلظ علیہِم و مأواہم جہنم و بِئس المصیر (التوبہ ٧٣)(اے نبی ! کفار اور منافقین سے لڑو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے)فلا تطِعِ الکٰفرین و جٰہِدہم بِہِ جِہادا کبیراً (فرقان ٥٢)( آپ کفار کی بات ہرگز نہ مانیں اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر جہاد کریں)

و جاہِدوا فِی اللہِ حق جِہادِہِ

و جاہِدوا فِی اللہِ حق جِہادِہِ ہو اجتبٰکم و ما جعل علیکم فِی الدِینِ مِن حرج مِلة ا بیکم ا ِبراہیم ہو سمٰکم المسلِمین مِن قبل و فی ہذا لِیکون الرسول شہیداً علیکم و تکونوا شہداء علیَ الناسِ فأقیموا الصلاة و آتوا الزکٰوة و اعتصِموا بِاللہِ ہو مولٰکم فنِعم المولیٰ و نِعم النصیر (الحج ٧٨)(اور راہ خدا میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا، یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس (قرآن)سے پہلے اور اس (قرآن)میں بھی تاکہ یہ رسول تم پر گواہ رہے اور تم لوگوں پر گواہ رہو،

لہذا نماز قائم کرو اور زکواة دیا کرو اور اللہ کے ساتھ متمسک رہو، وہی تمہارا مولا ہے سو وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے)یا یہا النبِی حرِضِ المؤمِنین علی القِتالِ ا ِن یکن مِنکم عِشرون صابِرون یغلِبوا مِائتینِ وا ِن یکن مِنکم مِائة یغلِبوا الفاً مِن الذین کفروا باِنہم قوم لا یفقہون (انفال ٦٥)(اے نبی ! مومنوں کو جنگ کی ترغیب دیں، اگر تم میں بیس صابر (جنگجو) ہوں تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سو افراد ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیںجو سمجھتے نہیںہیں)ملعونین ا ینما ثقِفوا أخِذوا و قتِلوا تقتیلا (احزاب٦١)(لعنت کے سزاوار ہوں گے، وہ جہاں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح سے مارے جائیںگے)

و ِان نکثوا یمٰنہم مِن بعدِ عہدِہِم و طعنوا فی دینکِم فقٰتِلوا أئِمة الکفراِ ِنہم لاأ یمٰن لہم لعلہم ینتہون(التوبہ ١٢)(اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ لوگ اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین کی عیب جوئی کرنے لگ جائیں تو کفر کے اماموں سے جنگ کرو، کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں شاید وہ باز آجائیں)

اگر ہم یہ کہیں کہ یہ مشرکین کو قتل کرنے کے احکامات اس لیے ہیں کہ خدا کے دین کی حکمرانی ہو اور لوگ دین کو قبول کریں، تو اس طرح بھی اس آزادی پرحرف آتا ہے جسے معترضین بطوردلیل سامنے لاتے ہیں۔

معترضین

اگرمعترضین کی یہ بات مان لی جائے توپھریہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ خدا کی کتاب میں تناقض (اختلاف)پایا جاتا ہے کہ ایک طرف اس میں کہاجارہا ہے” لا اکراہ فی الدین ”اور دوسری طرف” قاتلوا ھم ”اور یوں ایسی کتاب کہ جو تناقض رکھتی ہے معجزہ نہیں ہوسکتی۔اس قسم کے اشکالات اورمغالطوں سے بچنے کے لیے ”لا اکراہ فی الدین” کی ہماری یہ تفسیر قبول کر نی ہوگی کہ خدا اور رسول پر ایمان لانا قلبی معاملہ ہے اور اس کی جڑ عقل ہے کہ جو اپنے اختیار سے ایمان کو قبول کرتی ہے ۔

چنانچہ خدا کے احکامات مثلاًجہادوغیرہ کی اطاعت بھی اسی ایمان کا حصہ ہے۔ یعنی اگر لوگ چاہتے ہیں کہ اس ایمان کی حفاظت کریں اور دوسری اقوام کی طرف سے اس ایمان کی قبولیت کے راستہ میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو دور کریں تو پھر خدا کے حکم کے مطابق کفر کی جڑوں کو کاٹنا ہوگا تاکہ ایمان کی راہ میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں دور ہوں۔

یہ حکم عادل اور حکیم خدا کا ہے اور اس میںآزادی کی ہرگز کوئی نفی نہیں پائی جاتی ۔پس ثابت ہوا کہ امام کا منتخب کرنا خدا اور رسول کی طرف سے زور و زبردستی نہیں ہے اور ناہی لوگوں پرزبردستی کسی امام کوتھونپناہے بلکہ ائمہ کی حاکمیت اور ولایت کو قبول کرنا ہی عین آزادی ہے جسے مکلفین اپنے اختیار اور عقل سے قبول کرتے ہیں۔

تبصرے
Loading...