امامت دونوں مکاتب فکر کی نظر میں

اس مضمون میں شامل موضوعات

امامت دونوں مکاتب فکر کی نظر میں

۱۔ خلافت صدر اسلام کی تاریخ کے آئینے میں۔
۲۔ امامت کے بارے میں مکتب خلفاء کے نظریات۔
۳۔ امامت کے بارے میں مکتب اہل بیت(ع) کے نظریات۔
۴۔ امامت کے بارے میں دونوں مکا تب فکر کے نظریات کاخلاصہ ۔

تشکیل خلافت صدر اسلامکی تاریخ کے آئینے میں

امامت و خلافت کے بارے میں مکتب اہل بیت  اور مکتب خلفاء کے موقف اور نظریات کی بحث شروع کرنے سے پہلے ہمیں اسلام کے ابتدائی دور میں تشکیل خلافت کی تاریخی سر گزشت سے بحث کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کے مسئلے پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا سلسلہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے دن سے ہی شروع ہوا۔ رسول الله نے رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے اپنے غلام زید کے بیٹے اسامہ کو اپنے ہاتھوں سے پرچم عنایت فر ما کر ایک ایسے لشکر کاامیر بنا دیا تھا جس میں حضرت ابو بکر  حضرت عمربن الخطاب ‘ ابو عبیدہ‘ سعدبن ابی وقاص اور سعید بن زید وغیرہ کے بشمول مہاجرین اولین اور انصار کی تمام چیدہ چیدہ شخصیات کو شامل ہونے کا حکم فرمایاتھا۔
مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ” جرف “ کے مقام پر اس لشکر نے پڑاؤ کیا ۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا :
اس لڑکے کو مہاجرین اولین کا سر دار بنا یا جارہا ہے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس بات پر سخت غضبناک ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر پر پٹی باندھے اور چادر لپیٹے باہر تشریف لائے اور منبرپر چڑھ کر فرمانے لگے:
میری طرف سے اسامہ کو امیر لشکر بنانے پر تم میں سے بعض لوگوں کو کیوں اعتراض ہے؟ تم لوگوں نے اس سے قبل اس کے باپ کی سر داری پر بھی اعتراض کیا تھا ۔ الله کی قسم !وہ امارت کا سزاوار تھا ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کے لائق ہے۔
اس کے بعد حضورصلی الله علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے ۔ اسامہ کے ساتھ جانے والے آپ کو الوداع کرنے کے لئے آرہے تھے اور لشکر گاہ کی طرف روانہ ہورہے تھے ۔ ادھر آپ کی طبیعت ناساز ہوئی اور آپ اس حالت میں باربار فرماتے رہے: لشکر اسامہ کو جلدی بھجو۔
اتوار کے دن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بیماری شدید ہو گئی ۔

پیر کے دن اسامہ نے لشکر کو کوچ کا حکم دیا ۔ اتنے میں ان لوگوں کو خبر ملی کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت قریب ہے۔ یہ سن کر اسامہ ‘ حضرت عمر  اور ابو عبیدہ مدینہ آگئے۔ ۱

رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم  کی وصیت لکھنے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت قریب ہوئی تو اس وقت گھر میں عمرابن الخطاب کے بشمول کچھ لوگ موجود تھے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
آؤ میں تمہارے لئے تحریر لکھ دیتا ہوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔
حضرت عمر  نے کہا: نبی(ص) پر تکلیف کا غلبہ ہوگیا ہے ۔تمہارے پاس خدا کی کتاب موجود ہے اور ہمارے لئے الله کی کتاب کافی ہے۔
وہاں موجود صحابہ  میں اختلاف ہوگیا۔ ان میں سے کچھ نے حضرت عمر  والی بات دہرائی۔ جب ان کے درمیان شور اور اختلاف میں اضافہ ہونے لگا تو حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قومو عنی لا ینبغی عندی المتنازع۔ ۲
میرے ہاں سے چلے جاؤ ۔ میرے پاس جھگڑا نہیں ہونا چاہیے۔
ایک روایت میں ہے کہ ابن عباساتنا روئے کہ (وہاں پڑے ہوئے ) کنکران کے آنسوؤں سے تر ہوگئے ۔ پھر کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تکلیف میں اضافہ ہوا توآپ نے فرمایا :
میرے پاس کاغذ لے آؤ تمہیں ایسی تحریر لکھ دوں گا کہ اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔
یہ سن کرانہوں نے جھگڑنا شروع کر دیا جبکہ کسی نبی کے پاس نزاع غلط بات ہے۔ پس انہوں نے کہا :
(نعوذباالله)رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ہذیان گوئی کی ہے ۔ 3
ایک روایت ہے کہ ابن عباس  کہا کر تے تھے:
یہ مصیبت کتنی بڑی مصیبت ہے کہ صحابہکے اختلاف او ران کے شور وہنگامے کی وجہ سے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تحریر وصیت کے درمیان رکاوٹ پید ہوگئی۔ 4

رسول الله صلی علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر حضرت عمر  کا موقف

آپ(ص) پیر کے دن نصف النہار کے وقت خالق حقیقی سے جاملے ۔ اس وقت حضرت ابوبکراپنے گھر سنح گئے ہوئے تھے اور حضرت عمرموجود تھے ۔ حضرت عمر نے اذن طلب کیا اور مغیرہ ابن شعبہ کے ساتھ آپ(ص)کے پاس آئے پھر آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر کہنے لگے:
ہائے بے ہوشی! رسول الله صلی علیہ وآلہ وسلم کی بے ہوشی کس قدر شدید ہے؟
مغیرہ نے کہا:
بخدا رسول الله وفات پا گئے ہیں۔
حضرت عمر نے جواب دیا:
توجھوٹ کہتا ہے۔ آپ(ص) نہیں مرے بلکہ تم ایک فتنہ گر انسان ہو۔ آپ ہرگز نہیں مریں گے جب تک منافقین کا خاتمہ نہ کردیں5
پھر حضرت عمر بولنے لگے :
بعض منافقین یہ سمجھتے ہیں کہ رسول الله(ص) وفات پاگئے ہیں۔ رسول الله(ص) نہیں مرے ۔ وہ تو اپنے رب کے پاس گئے ہیں جس طرح حضرت موسیٰ(ع) اپنی قوم کو چھوڑ کر اس کے پاس گئے اور چالیس دن غائب رہے۔ و الله رسول الله(ص) ضرور واپس آئیں گے اور ضرور لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹ کر رکھ دیں گے جو سمجھتے ہیں کہ آپ(ص) مرگئے ہیں۔جو شخص یہ کہے کہ وہ مرگئے ہیں میں اس کے سر پر اپنی تلوار ماروں گا۔ وہ تو بس آسمان پر چلے گئے ہیں۔ 6
پھر مسجد میں حضرت عمر کو یہ آیت سنائی گئی :
وَمَا مُحَمَّدٌاِلَّا رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُط اَفِاْءِ نْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ ط 7
محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں۔ بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟8
حضرت عباس بن عبدالمطلب  نے کہا: بے شک رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم وفات پاچکے ہیں۔ میں نے ان کے چہرہ مبارک پر وہ آثار دیکھے ہیں جو میں آل عبدالمطلب کے چہروں پر ان کی موت کے وقت دیکھتا رہا ہوں ۔ پھر کہا :
کیا تم میں سے کسی کے پاس رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کوئی وصیت یا خاص بات ہے جو آپ(ص) نے اپنی موت کے بارے میں فرمائی ہو؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں بتائے۔
حاضرین نے کہا :
نہیں۔
عباس نے کہا:
لوگوں ! گواہ رہنا کوئی شخص اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اسے کوئی وصیت اپنی موت کے بارے میں فرمائی ہو۔ 9
پھر حضرت عمراس قدر بولتے رہے کہ ان کے منہ کے کناروں سے جھاگ نکلنے لگی یہاں تک کہ حضرت ابوبکر سنح سے آ گئے اور یہ آیت پڑھنے لگے :
وَمَا مُحَمَّدٌاِلَّا رَسُوْلٌ ج قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط الخ
یہ سن کر حضرت عمرنے کہا :
کیا یہ قرآن میں ہے؟
بولے : ہاں
پس حضرت عمر  خاموش ہوگئے ۔ 10

سقیفہ بنی ساعدہ اورحضرت ابوبکر کی بیعت

انصارسقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے ۔ مہاجرین کی ایک جماعت بھی ان کے ہمراہ ہوگئی اور رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پاس ان کے قریبی رشتہ داروں کے سوا کوئی آدمی نہ رہا۔ انہی افراد نے آپ کے غسل و کفن کا بندوبست کیا۔ یہ افراد حضرت علی  ‘عباس‘فضل بن عباس‘ قثمبن عباس ‘اسامہ  بن زید ‘ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے غلام صالح اور اوس بن خولی انصاری تھے۔ 11
سقیفہ بنی ساعدہ کی روداد حضرت عمر  کی زبانی

حضرت عمر  کا بیان ہے کہ جب الله تعالیٰ نے اپنے بنی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاں بلا یا تو ہمیں خبرملی کہ انصارسقفیہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے ہیں حضرت علی مرتضیٰ(ع) ، حضرت زبیر اور ان دونوں کے حامیوں نے ہماری مخالفت کی ہے ۔ میں نے ابو بکر  سے کہا:
ہمیں اپنے انصاری بھائیوں کے پاس لے چلو ۔
پس ہم چلے یہاں تک کہ ہم ان کے پاس پہنچ گئے ۔ہم نے وہاں ایک شخص کو دیکھا جو چادر میں لپٹا ہو اتھا ۔ ہمیں بتا یاگیا کہ یہ سعد بن عبادہ ہے جو بخار کی وجہ سے بے حال ہے۔ ہم تھوڑی دیر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھ کر الله تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی : پھر کہا
اما بعد ہم انصار خدا اور اسلام کے سپاہی ہیں اور اے مہاجرین تم مٹھی بھر ہی تو ہو۔
میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکرنے کہا:
صبرسے کام لو ۔

پس انہوں نے خود گفتگو کی ۔الله کی قسم انہوں نے ہر وہ بات کہ ڈالی جومیں چاہتا تھا۔ بلکہ میری توقع سے بھی بہتر باتیں کیں اور کہا:
تم لوگوں (انصار) نے جن فضائل کا ذکر کیا ہے ان کے تم اہل ہو لیکن منصب خلافت اس خاندان قریش کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے ہر گز سزاوار نہیں ہوسکتا ۔ وہ نسب اور خاندان کے لحاظ سے سارے عرب میں ممتاز ہیں۔
میں تمہارے لئے ان دو افراد کو پسند کر تا ہوں پس ان دونوں میں سے جس کی چاہو بیعت کرلو۔ یہ کہہ کر میرا اور ابوعبیدہ کا ہاتھ پکڑلیا ۔ اس بات کے علاوہ مجھے ان کی ساری باتیں پسند آئیں ۔ اتنے میں ایک انصاری بول اٹھا:
ہم اسلام کے فریاد رس اور پشت پناہ ہیں۔اے قریش! ایک امیر ہم میں سے ہونا چاہئے اور ایک تم میں سے۔
اس بات پر کافی جھگڑا ہوا اور شوروغل کی آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ میں نے جھگڑا نمٹادیا اور کہا:
اے ابو بکر  اپنا ہاتھ دراز کرو۔
پس اس نے ہاتھ بڑھا یا تو سب سے پہلے میں نے ان کی بیعت کی اور میرے بعد انصار نے۔ پھر ہم سعدبن عبادہ پر غالب آگئے۔
پس جو شخص مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے تو نہ اسکی بیعت کی جائے اورنہ اس شخص کی جس کی اس نے بیعت کی ہے اس خوف سے کہ وہ دونوں قتل نہ کر دئے جائیں۔ 12
طبری نے سقیفہ اور بیعت ابوبکر کے واقعے کے بارے میں لکھا ہے کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور جنازہ رسول کو چھوڑگئے جسے آپ کے قریبی رشتہ دار غسل دیتے رہے۔
انصار کہتے تھے :
ہم محمد(ص)کے بعد یہ امارت سعدبن عبادہ کے حوالے کریں گے۔
چنانچہ وہ سعد  کو اپنے ساتھ نکال کر لے گئے، حالانکہ وہ بیمار تھے۔ انہوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں جوتقریر کی وہ یوں ہے ۔
اس نے خدا کی حمد وثنا ء کی اور دین میں انصار کی سبقت ‘اسلام میں ان کی فضیلت‘ ان کی طرف سے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب نبی کی عزت و تکریم حضو ر(ص)کے دشمنوں کے ساتھ اپنی جنگجوں کا ذکر کیا اور کہا:
ان امور کے باعث عرب سدھر گئے اور رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم ان سے راضی رہ کر دنیا سے چل بسے ۔
انہوں نے مزید کہا:
دوسروں کو موقع نہ دواور اس خلافت پر اپنی گرفت مضبوط کر لو۔
ان سب نے جواب دیا:
تیری رائے صحیح اور تیرا قول درست ہے۔ ہم تیری رائے سے تجاوز نہیں کریں گے۔ ہم یہ امارت تیرے سپرد کر یں گے ۔
اس کے بعد ان کے درمیان باتیں ہوتی رہیں اور کہنے لگے :
اگر مہاجرین قریش نے انکار کیا اور کہا کہ ہم مہاجر ہیں، ہم رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اولین اصحاب ہیں آپ کے رشتہ دار اور مدد گار ہیں پس تم رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس معاملے میں کس بات پر ہم سے جھگڑتے ہو؟ تو پھر کیا ہوگا؟
یہ سن کر ان کے ایک گروہ نے کہا:
پس ہم یہ کہیں گے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے۔
یہ سن کر سعد بن عبادہ نے کہا:
یہ کمزوری کی ابتداء ہے۔ 13
جب حضرت ابوبکر  اور حضرت عمرو اس واقعہ کی خبرہوئی پس وہ ابو عبیدہ بن الجراح کے ساتھ سقیفہ کی طرف جلدی چل پڑے ۔ ان کے ساتھ اسیدبن حضیر،عویم بن ساعدہ اور عاصم بن عدی جو بنی عجلان سے تعلق رکھتے تھے بھی چلے گئے ۔ 14
حضرت ابو بکر  نے (حضرت عمر کو بات کرنے سے منع کرنے کے بعد ) خود بات کرتے ہوئے پہلے خدا کی حمد وثناء کی۔ اس کے بعد رسول صلی الله علیہ آلہ وسلم کی تصدیق کرنے میں تمام عرب پر مہاجرین کی سبقت کا ذکر کیا اور کہا :
وہ روئے زمین پر سب سے پہلے خدا کی عبادت کرنے والے اور رسول(ص)کے مددگار اور رشتہ دار ہیں۔ وہ آپ کے بعد امارت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ۔ اس معاملے میں کوئی ظالم ہی ان کے ساتھ نزاع کر سکتا ہے۔
اس کے بعد انصار کی فضیلت کا تذکرہ کرے ہوئے کہا:
مہاجرین اولین کے بعد کسی کا مرتبہ ہمارے نزدیک تمہارے برابرنہیں ہے بنابرا یں ہم امیرہوں گے اور تم وزیر ہوں گے۔
اس کے بعد حباببن منذر نے اٹھ کر کہا :
اے انصار !تم اپنے موقف پر مضبوطی سے ڈٹے رہو۔ یہ لوگ تمھارے زیرسایہ رہ رہے ہیں۔ کسی کو یہ جرات نہیں ہوسکتی کہ تمہارے خلاف کچھ کہے ۔ اختلاف کا شکار مت ہوجاؤ ۔ وگرنہ تمہاری تدبیر بگڑجائے گی اور تم ناکام ہوجاؤگے ۔ اگر وہ لوگ اپنی بات پر اڑے رہیں جسے تم سن چکے ہو تو پھر ایک امیر ہم میں سے ہوگا ایک ان میں سے۔
یہ سن کر حضرت عمربولے:
ہرگز نہیں۔ ایک ہی وقت میں دو امیر نہیں ہوسکتے ۔ الله کی قسم عرب اس بات پر راضی نہیں ہوں گے کہ تمہیں اپنا امیربنائیں جبکہ ان کے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا تعلق تم سے نہیں ہے لیکن اہل عرب کو اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ان کا حاکم اور ولی امر اس گھرانے سے منتخب ہو جس میں نبوت ہے۔ بنابرایں منکرین کے خلاف ہماری دلیل واضح اور ہماری گواہی مضبوط ہے۔ کون ہے جو محمد کی حکومت و امارت میں ہمارے ساتھ نزاع کرے جبکہ ہم آپ(ص)کے حمایتی اور رشتہ دارہیں سوائے اس شخص کے جو غلط کار،بولے، گناہ گار اور آپ اپنے ہاتھوں ہلاک ہونے والاہے؟
پس حضرت حباب  بن منذر کھڑے ہوگئے اور بولے:
اے انصار ! اپنی بات پر قائم رہ اور اس شخص کی بات نہ سنو نہ اس کے ساتھیوں کی بات سنو ۔وہ امارت میں تمہیں کوئی حصہ نہیں دیں گے ۔ اگریہ لوگ تمہارا مطالبہ ماننے سے انکار کریں توانہیں اس علاقے سے نکال باہر کرو اور اقتدارکی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں اپنا تابع بنا لو کیونکہ الله کی قسم تم ان سے زیادہ اس امارت کے مستحق ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہاری تلواروں سے اسلام کونہ ماننے والے اس دین کے مطیع بن گئے۔ ہم ہی اسلام کے دادرس اور پشت پناہ ہیں۔ الله کی قسم اگر تم چاہو تو ہم اسے پہلی حالت پر واپس لائیں گے۔
حضرت عمربولے:
خدا تمہیں ہلاک کرے۔
وہ بولا:
نہیں بلکہ تجھے ہلاک کرے۔
اتنے میں ابوعبیدہ نے کہا:
اے گروہ انصار! بے شک سب سے پہلے (ہماری) نصرت کرنے والے اور ہمیں پناہ دینے والے تم لوگ ہی تھے ۔ اب اپنا طور طریقہ بدلنے میں پہل نہ کرو۔
یہ سن کر بشیر  ابن سعد خزرجی کھڑے ہوگئے اور کہا:
اے انصار ! الله کی قسم اگرمشرکین کے ساتھ جہاد میں ہمیں کوئی فضیلت حاصل ہے یا اس دین میں ہمیں کوئی سبقت حاصل ہے تو اس میں ہمارا مقصد صرف اپنے پروردگار کی خوشنودی ‘ اپنے رسول کی اطاعت اور اپنی بھلائی کے لئے جد وجہد کرنا تھا۔ بنا بریں ہمیں اس کے ذریعے لوگوں پر تسلط جمانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ ہم دنیا کو اس کا عوض قرار دینا نہیں چاہتے کیونکہ دین تو الله تعالیٰ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے۔ جان لو کہ نبی پاک صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا تعلق قریش سے تھا اور آپ(ص)کا قبیلہ امارت کا زیادہ حقدار ہے۔ الله کی قسم میں اس مسئلے میں ان کے ساتھ کبھی نزاع نہ کروں گا پس الله تعالیٰ سے ڈرو‘ ان کی مخالفت نہ کرو اورنہ ان سے نزاع کرو۔
پس ابوبکر  بولے :
یہ عمرہے اور یہ ابوعبیدہ ہے۔ ان میں سے جس کی چاہو بیعت کرلو۔
ان دونوں نے کہا:
الله کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ۔ ہم تو یہ ذمہ داری آپ کو سونپناچاہتے ہیں۔
بعدازاں عبدالرحمان بن عوف نے کھڑے ہوکر کہا:
اے گروہ انصار! اگرچہ تم صاحب فضیلت ہو لیکن تمہارے درمیان ابو بکر، عمراور علی جیسے افراد موجود نہیں۔
پھر منذر بن الارقم کھڑے ہوگئے اور کہا:
ہم تمہاری فضیلت کا انکار نہیں کرتے۔ بلاشک وشبہ ان لوگوں میں ایک شخص ہے کہ اگر وہ اس امارت کو طلب کرے تو کوئی اس سے نزاع نہ کرے گایعنی علی ابن ابی طالب۔15
پس انصاریوں نے یاکچھ انصاریوں نے کہا:
ہم علی بن ابی طالب(ص) کے علاوہ کسی کی بیعت نہیں کریں گے۔ 16
حضرت عمر  کہتے ہیں:
پس جھگڑا بڑھ گیا اور شوروغل بلند ہوگیا یہاں تک کہ مجھے اس اختلاف سے خوف محسوس ہوا۔
پس میں نے ابو بکر سے کہا :
اپنا ہاتھ دراز کرو تاکہ میں تیری بیعت کروں۔ 17
پس جب وہ دونوں ابوبکر  کی بیعت کے لئے بڑھے تو بشیر ابن سعد نے ان دونوں پر سبقت کرتے ہوئے بیعت کی۔ یہ دیکھ کر حباب ابن منذرنے اسے پکار کرکہا:
اے بشیر ابن سعد! کیا تمہیں اپنے بھائی کی امارت پر حسد ہواہے؟ 18
بشیر نے کہا :
الله کی قسم ایسا نہیں بلکہ میں ان لوگوں کے ساتھ اس حق پر نزاع نہیں کرناچاہتا جو خدانے ان کو عطاکیا ہے۔
جب قبیلہ اوس نے ایک طرف سے بشیر کے اس اقدام کو دیکھا دوسری طرف سے قریش کے دعویٰ کو اور تیسری جانب سے سعد ابن عبادہ کوامیر بنا نے کے لئے قبیلہ خزرج کے مطالبے کو تو ان میں سے بعض نے بعض سے (جن میں اسیدبن حضیر بھی جو نقیبوں میں سے ایک تھے شامل تھے ) کہا:
الله کی قسم اگر خزرجیوں کو تمہارے اوپر ایک دفعہ امارت مل گئی تو اس کے سبب انہیں تم پر فضیلت حاصل رہے گی اور وہ ہر گز تمہیں اس میں حصہ دار نہیں بنائیں گے ۔ پس اٹھو اور ابوبکرکی بیعت کرو۔
پس وہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے ابوبکر کی بیعت کرلی ۔ یوں سعد  بن عبادہ اور خزرجی جس مقصد کیلئے جمع ہوئے تھے وہ چکنا چور ہوگیا ۔ پھر لوگ ہر طرف سے ابو بکر  کی بیعت کے لئے آگے بڑھے اور قریب تھا کہ حضرت سعد  بن عبادہ ان کے پاؤں تلے کچلے جاتے ۔ یہ دیکھ کر حضرت سعد  کے کچھ افراد نے کہا:
سعد کاکچھ خیال کرو ‘ اس کو کچل نہ ڈالو ۔
حضرت عمرنے جواب دیا:
اس کو قتل کردو ۔ خدا اس کو ہلاک کردے ۔
پھر وہ حضرت سعدکے سرپر کھڑے ہوگئے اور بولے:
میرا اردہ تھا کہ تمہیں کچل دوں یہاں تک کہ تیرے اعضاء الگ ہوجائیں ۔
یہ دیکھ کر قیس  بن سعد نے حضرت عمرکی داڑھی پکڑلی اور کہا:
بخدا اگرتم نے اس کا ایک بال بھی کاٹ لیا توجب تک تیرے سارے دانت توڑنہ دوں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔
اس وقت ابو بکر  نے کہا:
اے عمر صبر سے کام لو ۔ یہاں نر می زیادہ موثر ہے۔
پس حضرت عمر نے ان سے توجہ ہٹالی ۔ حضرت سعدنے کہا:
الله کی قسم! اگرمیرے اندر اٹھنے کی سکت ہوتی توپھر میری جانب سے مدینہ کے گوشہ وکنار اور گلی کوچوں میں گھن گرج کی وہ آوازآتی کہ تم اور تمہارے ساتھی دم بخود رہ جاتے ۔ الله کی قسم اس صورت میں تمہیں ان لوگوں سے ملحق کرتا جن کے ساتھ تم رہتے تھے۔ پھر تم مطیع ہوتے نہ کہ امیر۔ مجھے یہاں سے اٹھاؤ ۔ پس لوگ اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گئے۔ 19
ابوبکر جوہری نے نقل کیاہے:
اس دن( حضرت ابوبکر کی بیعت کے دن) عمر  کمر بند باندھے ابوبکرکے آگے آگے تیز تیز چل رہے تھے اور کہتے جاتے تھے: سنو! بتحقیق لوگوں نے ابوبکر  کی بیعت کی ہے۔۔۔۔۔الخ 20
لوگوں نے ابوبکر  کی بیعت کی پھر وہ انہیں بیعت کے لئے مسجد لے آئے ۔عباساور حضرت علی نے مسجد سے تکبیر کی آواز سنی جبکہ وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دینے سے فارغ نہیں ہوئے تھے۔ علی نے پوچھا :
کیا ماجرا ہے ؟
حضرت عباس نے کہا :
ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔میں نے آپ سے کیا کہا تھا؟ 21

خطرے کی گھنٹی

حضرت براءبن عازب نے آکر بنی ہاشم کا دروازہ کھٹکھٹا یا او رکہا:
اے بنی ہاشم ابوبکر  کی بیعت ہوگئی ہے۔
یہ سن کر ان میں سے بعض نے بعض سے کہا:
مسلمان ہماری غیر موجودگی میں کوئی نیا اقدام نہیں کرتے تھے جبکہ ہم سب سے زیادہ بنی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے قریبی ہیں۔
حضرت عباسنے کہا:
رب کعبہ کی قسم انہوں نے جو کرنا تھا کر لیا۔
عام مہاجرین اور انصار کی اکثریت کو رسول الله(ص) کے بعد حضرت علی(ع) کی امارت میں کوئی شک نہیں تھا ۔ 22  مہاجرین و انصار کو علی  کے مسئلے میں کوئی تردد نہیں تھا
طبری نے نقل کیا ہے:
قبیلہ اسلم اپنی جماعت کے ساتھ آیا یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی گلیاں کھچا کھچ بھر گئیں اور انہوں نے ابوبکر کی بیعت کی۔
چنانچہ عمر  کہا کرتے تھے:
جب میں نے قبیلہ اسلم کو دیکھا تو مجھے کامیابی کا یقین ہوگیا۔ 23
جب حضرت ابوبکر  کی بیعت ہوگئی تو ان کی بیعت کرنیوالے لوگ انہیں لے کر تیزی سے مسجد کی طرف چلے گئے۔ وہاں و منبر رسول(ص) پر چڑھے پھر شام تک لوگ بیعت کرتے رہے اور انہیں رسول الله(ص) کو دفن کرنے کی بھی فر صت نہ ہوئی یہاں تک کہ منگل کی رات ہوگئی۔ 24

 

عام بیعت

جب سقیفہ بنی ساعدہ میں ابوبکر  کی بیعت ہوئی تو اس کے دوسرے دن حضرت ابوبکر  منبر پر چڑھے ۔ اتنے میں حضرت عمرکھڑے ہوگئے اور حضرت ابو بکر  سے پہلے گفتگو شروع کی۔ انہوں نے خد اکی حمد وثنا ء کے بعد کہا کہ ان کی کل رات والی بات نہ قرآن کی آیت تھی نہ رسول(ص) کی وصیت ۔ ہاں وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے امور کو چلاتے رہیں گے اور سب سے آخر میں آپ کی وفات ہوگی ۔ اس کے بعد کہا :
بے شک الله نے تمہارے درمیان اپنی وہ کتاب چھوڑی ہے جس کے ذریعے اس نے اپنے رسول کو ہدایت دی ۔ اگر تم اس سے متمسک رہو تو تمہیں خدا اس چیز کی ہدایت کرے گا جس کی اپنے رسول کو ہدایت کی۔ الله نے تمہاری امارت تمہارے سب سے بہترین فرد کو دی ہے۔ وہ رسول اللہ(ص)کے ساتھی اور غارمیں آ نحضرت(ص) کے واحد رفیق تھے۔ پس اٹھو اوران کی بیعت کرو۔ پس لوگوں نے بیعت سقیفہ کے بعد ابوبکرکی عام بیعت کی۔
بخاری میں مرقوم ہے کہ بعض لوگوں نے اس سے پہلے سقیفہ بنی ساعدہ میں ان کی بیعت کی تھی لیکن ابوبکر  کی عام بیعت منبر پر ہوئی، انس  بن مالک کا بیان ہے: اس دن میں نے سنا کہ حضرت عمر  ابوبکر  سے کہ رہے تھے: منبر پر چڑھو ۔ وہ یہی کہتے رہے یہاں تک کہ وہ منبر پر چڑھے اور لوگوں نے ان کی عام بیعت کی۔
پھر ابو بکر  گویا ہوئے ۔ پہلے خدا کی حمد وثنا ء کی پھر بولے:
لوگو! بتحقیق مجھے تمہارا امیر بنا یا گیا ہے ۔ حالانکہ میں تم میں سب سے بہترین آدمی نہیں ہوں۔ پس اگر میں صحیح چلوں تو میری مدد کرو اور اگر غلط چلوں تو مجھے ٹھیک کردینا ۔
پھر بولے :
جب تک میں الله اور رسول(ص) کی اطاعت کرتا رہوں تم میری اطاعت کرتے رہو لیکن اگر میں خدا اور رسول (ص)کی نافرمانی کروں تو پھر میری اطاعت نہ کر نا۔ نماز کے لئے اٹھو، خدا تم پر رحم کرے۔ 25

جب حضرت ابوبکر  کی عام بیعت ہوچکی

پیر کے دن زوال شمس کے بعد امام الانبیاء حضورنبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا اور لوگوں کو آپ کے دفن کی فر صت نہیں ہوئی۔ 26  پیر کے دن کے باقی حصے میں بلکہ منگل کی عصر تک لوگوں کو رسول الله(ص) پر توجہ دینے کی فرصت نہ ملی ۔پہلے تو لوگ سقیفہ بنی ساعدہ کی تقریروں میں پھنسے رہے پھر حضرت ابوبکر  کی پہلی بیعت میں مشغول رہے اور اس کے بعد عام بیعت میں۔ بعدازاں حضرت ابوبکراور حضرت عمر  کے خطبے سنتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر نے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کی۔ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکرکی بیعت ہوچکی تب کہیں جاکے لوگ منگل کے دن رسول الله صلی علیہ وآلہ وسلم کے جنازے پر آئے۔27  پھر لوگ آتے اور آپ(ص) پر نماز پڑھتے گئے۔ رسول الله پرا مام کے بغیر نماز پڑھی گئی ۔ مسلمان مختلف دستوں کی صورت میں آتے اور نماز پڑھتے جاتے تھے۔28

تدفین رسول(ص) اور اس کے شرکاء

جن افراد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو غسل دیا انہوں نے ہی آپ(ص) کو لحد میں اتارنے کی ذمہ داری نبھائی۔ وہ یہ تھے :
حضرت عباس، علی(ع)، فضلاور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے غلام صالح۔ مگر بعض افراد رسول اللہ کو آپ(ص) کے گھر والوں کے پاس چھوڑ کر خلافت کے لئے سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے اورآپ(ص) کے اہل بیت (ع)نے آپ(ص) کی تکفین و تدفین کی ذمہ داری نبھائی۔ 29
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر میں حضرت علی  ، داخل ہوئے۔ فضل  بن عباس، قثم  بن عباس اور ان کے غلام شقران اور بروایت دیگر اسامہ  بن زید ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے آپ(ص) کے غسل و کفن اور دیگر تمام امور کو انجام دیا۔
حضرت ابو بکراور حضرت عمرنبی کی تدفین میں شریک نہیں ہوئے۔ 30
حضرت عائشہکہتی ہیں:
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کا علم ہی نہیں ہوا یہاں تک کہ ہم نے بدھ کی شب رات گئے بیلچوں کی آواز سنی۔ 31
اس کام کی ذمہ داری فقط آپ(ص) کے رشتہ داروں نے نبھائی اور بنی غنم نے وصال رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس وقت بیلچوں کی آواز سنی جب وہ اپنے گھروں میں تھے۔ 32
بنی غنم کے انصاری بزرگوں کا بیان ہے:
ہم نے بیلچوں کی آواز رات کے آخری حصے میں سنی۔ 33

 

تدفین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد رونما ہونے والے واقعات

حضرت سعدبن عبادہ اور ان کو نامزد کرنے والے صحابہ کرامناکام ہو گئے۔ اس کے بعد
علی(ع) اور آپ کے افراد حضرت ابو بکر  کی جماعت کے مقابلے میں باقی رہ گئے۔ ان میں سے ہر ایک کی کوشش یہ تھی کہ انصاریوں کو اپنا حامی بنا لیں زبیر بن بکار ”الاخبار الموفقیات“ میں لکھتے ہیں:
جب حضرت ابوبکرکی بیعت ہو گئی اور ان کا کام پکا ہو گیا تو اس کے بعد انصار کے بہت سے لوگ ان کی بیعت سے پشیمان ہو گئے اور ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ وہ علی ابن ابی طالب کو یاد کرتے اور آپ کا نام لے کر پکارتے تھے۔ 34
مہاجرین و انصار کی ایک جماعت نے حضرت ابو بکر  کی بیعت نہیں کی اور وہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کی طرف مائل ہوئے۔ ان لوگوں میں عباسبن عبدالمطلب، فضلبن عباس، زبیر  بن عوام، خالدبن سعید مقدادبن عمرو، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، براء  بن عازب اور ابی بن کعب وغیرہ شامل تھے۔ پس حضرت ابو بکرنے حضرت عمراور ابو عبیدہ جراحاور مغیرہ بن شعبہ کو بلا بھیجا اور پوچھا:
کیا رائے ہے؟
وہ بولے:
رائے یہی ہے کہ تم عباسبن عبدالمطلب سے ملو اور اس حکومت میں اس کے اور اس کے بعد اس کی ذریت کے لئے کچھ حصہ مقرر کر دو۔ اس طرح تم لوگ علی ابن ابی طالب  کے حامیوں میں پھوٹ ڈال سکو گے اور اگر وہ تمہاری طرف مائل ہو جائے تو یہ بات حضرت علی  کے خلاف تم دونوں کے حق میں ایک دلیل بن جائے گا۔
پس ابوبکر، عمر،ابوعبیدہ  بن الجراح اور مغیرہ رات کو حضرت عباسکے ہاں چلے گئے۔ ابوبکرنے اللہ کی حمد و ثناء کی پھر بولے:
اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور مومنین کا حامی بنا کر بھیجا۔ آپ(ص) کا لوگوں کے درمیان موجود ہونا اللہ کا احسان تھا۔ یہاں تک کہ اس نے آپ کو اپنے ہاں بلا لیا اور لوگوں کے امور انہی پرچھوڑ دیے تاکہ وہ اپنی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی کو اپنے لئے احتیاط کے ساتھ چنیں۔ پس لوگوں نے اپنے سرپرست، والی اور اپنے امور کے نگہبان کی حیثیت سے مجھے چنا۔ یوں میں نے یہ عہدہ سنبھالا۔ اللہ کی مدد اور توفیق کے سہارے مجھے نہ کسی کمزوری کا خوف ہے نہ حیرانی و پریشانی کا اور نہ بزدلی کا۔ میری کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی پر توکل کرتا ہوں اور اسی کو پکارتا ہوں۔ مجھے ایک طعنہ دینے والے شخص کے بارے میں خبریں مل رہی ہیں کہ وہ عام مسلمانوں کے درمیان غلط باتیں کر رہا ہے اور آپ لوگوں کو اپنا پشت پناہ بنا رہا ہے تاکہ آپ لوگ اس کے لئے مضبوط قلعہ ثابت ہوں۔ پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ جس امر پر لوگوں نے اتفاق کر لیا ہے اسے ان کی طرح قبول کر لیں یا انہیں اپنے ارادوں سے باز رکھیں۔ ہم آپ کے پاس آئے ہیں اور یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ آپ کو بھی اس (حکومت) میں سے ایک حصہ دیں جو آپ اور آپ کی اولاد کے لئے ہو۔ کیونکہ آپ رسول اللہ(ص) کے چچا ہیں۔ اگرچہ لوگ آپ کے اور آپ کے ساتھی کے مقام اور مرتبے کو پہچانتے ہیں لیکن انہوں نے امارت آپ کو نہیں دی۔ اے بنی ہاشم نرمی سے کام لو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ہیں۔ اگر چہ لوگ آپ کے اور آپ کے ساتھی کے مقام اور مرتبے کو پہچانتے ہیں۔ لیکن انہوں نے امارت آپ کو نہیں دی۔ اے بنی ہاشم! نرمی سے کام لو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہم سے بھی ہے اور آپ سے بھی۔
تب عمرابن خطاب نے کہا:
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے پاس کوئی چیز مانگنے نہیں آئے لیکن ہم نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے متفقہ فیصلے کو دھچکا آپ کی طرف سے لگے اور نتیجتاً آپ کا اور ان کا معاملہ خراب ہو جائے۔ پس اپنے بارے میں غور و فکر کر لیں۔
پھر حضرت عباسنے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور کہا:
جس طرح تو نے کہا اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور مومنین کے لئے سرپرست بنا کر بھیجا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر آپ(ص) کے ذریعے احسان کیا یہاں تک کہ اللہ نے آپ کی روح قبض کر لی اور آپ کو اپنے ہاں بلا لیا۔ پھر مسلمانوں کے امور انہی پر چھوڑ دئیے تاکہ وہ حق کے مطابق اپنا حق انتخاب استعمال کریں نہ کہ گمراہ کن خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے۔ پس اگر تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر مانگا تھا تو پھر تو نے ہمارا حق غصب کر لیا ہے اور اگر مومنین کے ذریعے حاصل کیا ہے تو ہمارا شمار بھی مومنین میں ہے۔ ہم نے نہ تو تیرے انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور نہ ہی درمیان میں آٹپکے بلکہ ہم خشمگین اور ناراض ہیں اور اگر یہ کام مومنین کی وجہ سے تمہارے اوپر لازم قرار پایا ہے تو ہماری خوشنودی کے بغیر تمہارے اوپر لازم نہیں ہے۔ ایک طرف سے تمہارے اس قول کہ ” انہوں نے تیری عیب جوئی کی ہے۔“ اور دوسری طرف سے تمہارے اس قول کہ ”انہوں نے تجھے چنا ہے اور وہ تیری طرف مائل ہوئے ہیں“ کے درمیان کس قدر تضاد ہے؟ تمہاری ان دونوں باتوں میں بھی کس قدر تضاد ہے کہ ایک طرف سے اپنے آپ کو خلیفہ رسول کہتے ہو اور دوسری طرف سے یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے امور ان پر چھوڑ دیئے ہیں تاکہ کسی کا انتخاب کریں؟ پس انہوں نے تجھے چن لیا۔ رہا تیرا یہ کہنا کہ تم حکومت مجھے دو گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر حکومت مومنین کا حق ہے تو تجھے اس بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں اور اگر یہ ہمارا حق ہے تو پھر ہم اس میں سے تھوڑا چھوڑ کر تھوڑا قبول نہیں کریں گے۔ پس ہوش سے کام لو۔ یقینا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق اس درخت سے ہے جس کی ٹہنیاں ہم ہیں اور تم تو اس کے ہمسائے ہو۔ یہ سن کر وہ حضرت عباسکے ہاں سے چلے گئے۔ 35

حوالہ جات

۱        طبقات ابن سعد ج۲صفحہ۱۹۰ ‘۱۹۲طبع بیروت، دیگر مصدر و ما ٓخذ کے لئے کتاب عبدالله بن سبا جلد اول باب بعث اسامة کو دیکھا جائے۔
۲       صحیح بخاری باب کتابة العلم ج صفحہ ۲۲،۳۳
3        صحیح بخاری باب جوائز الوفد ج ۲صفحہ ۱۲۰،باب اخراج الیھودمن جزیرةالعرب ،صحیح مسلم باب ترک الوصیة انکے علاوہ دیگر حوالہ جات دیکھنے کیلئے کتاب” عبدالله بن سبا ج صفحہ۹۸، ۱۰۲طبع بیروت ۱۴۰۳ئھ ملاحظہ فرمائیں
4        صحیح بخاری باب کراھیة الخاف ، باب قول المریض قومو اعنی ازکتاب المرضیٰ۔
5        مسند امام احمد ج ۲صفحہ ۲۱۹
6        تاریخ طبری ج ۱ صفحہ ۱۸۱۸ مطبوعہ یورپ ، تاریخ ابوالفداء ج ۱صفحہ ۱۶۔       7 سورة اٰل عمران آیت ۱۴۴
8        طبقات ابن سعد ج ۲ صفحہ ۵۷، کنزالعمال ج ۴ صفحہ ۵۳ حدیث نمبر ۱۰۹۲، البدایہ والنھایہ ج ۵صفحہ ۲۴۳،شرح المواھب اللدنیہ للزرقانی ج ۸صفحہ ۲۸۱، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۶۲۷۔
9        طبقات ابن سعد ج ۲صفحہ ۵۷، البدایہ والنہار ج ۵صفحہ ۲۴۳، سیرت حلبیہ ج۳ صفحہ ۳۹۰،کنزالعمال ج ۴ صفحہ ۵۳ حدیث نمبر ۱۰۹۲، تمہد للباقلانی صفحہ ۱۹۲، ۱۹۳۔
10      انساب الاشراف ج ۱صفحہ ۵۶۷،طبقات ابن سعد ج ۲صفحہ ۵۳، ۵۴، کنزالعمال ج۴ صجحہ ۵۳ تاریخ الخمیس ج ۲صفحہ ۱۸۵، سیرت حلبیہ ج۳صفحہ ۳۹۲، تاریخ طبری ج ۱صفحہ ۱۸۱۷،البدایہ والنہایہ ج ۵ صفحہ ۲۴۳۔
11      طبقات ابن سعد ج ۲صفحہ ۷۰ ‘کنزالعمال ج۴صفحہ ۵۴، ۶۰، العقدالفرید ج ۳ صفحہ ۶۱،تاریخ الاسلام للذہبی ج ۱صفحہ۱۲۳، ۳۲۴،۳۲۶۔
12      صحیح بخاری باب رجم لحبلی من الزنا ج ۴ صفحہ ۱۲۰۔
13      تاریخ طبری حوادث سنة ۱۱ھ ج۲صفحہ ۴۵۶طبع یورپ ۔ اسدالغابہ ج۲صفحہ۱۲۵الامامةواسیاسة ج ۱صفحہ ۵طبع مصر۔
14      سیرت ابن ہشام ج ۴ صفحہ ۳۳۹طبع مصر ۔
15      الموفقیات لابن بکار صفحہ ۵۷۹ بغداد ، تاریخ یعقوبی ج ۲ صفحہ ۱۰۳طبع بیروت ۔ الاخبار
16      تاریخ طبر ی ج ۳صفحہ ۲۰۸طبع یورپ ۔ اسدلغابہ ابن اثیر ج ۲صفحہ ۱۲۳۔
17      سیرت ہشام ج ۴ صفحہ ۳۳۲۔
18      تاریخ طبری ج ۱ صفحہ ۱۸۴۲۔
19      تاریخ طبری ج ۳ صفحہ ۴۵۵، ۳۵۹۔
20      کتاب السقیفہ صفحہ ۲۷، شرح ابن ابی الحدید ج ۱ صفحہ ۱۳۳ طبع مصر۔
21      العقد الفرید ج ۴ صفحہ ۲۵۸، ابن ابی الحدید ج ۱ صفحہ ۱۳۲ ، الاخبار الموفقیات لابن بکار صفحہ ۵۷۷، ۵۸۰، ۵۸۳، ۵۹۲مطبوعہ بغداد ۔
22      الاخبار الموفقیات للزبیر بن بکار صفحہ ۵۸۰طبع بغداد۔
23      تاریخ طبری ج ۲ صفحہ ۴۵۸، اسدالغابہ ج ۲صفحہ ۲۲۴،
24      الاخبار الموفقیات صفحہ ۵۷۸، الریاض النغرہ ج ۱ صفحہ ۱۲۴ ، تاریخ الخمیس ج ۱ صفحہ ۱۸۸ طبع بیروت ۔
25      سیرت ابن ہشام ج ۴ صفحہ ۳۴۰ ، تاریخ طبری ج ۳ صفحہ ۲۰۳، عیون الاخبارالابن قیبہ ج ۲ صفحہ ۲۳۴، الریاض النضرہ ج ۱ صفحہ ۱۲۷، البدایہ والنہایہ ج ۵ صفحہ ۲۴۸ ، تاریخ الخلفا السیوطی صفحہ ۴۷، کنزالعمال ج ۳ صفحہ ۱۲۹ حدیث نمبر ۲۲۵۳، سیرت حلفیہ ج ۳صفحہ ۳۹۷ ، صحیح بخاری ج ۴ صفحہ ۱۲۵ خطبہ عمر ۔ صفوة الصفوة ج ۱صفحہ ۹۸۔

تبصرے
Loading...