اعمال كے مجسم ہونے اور اس كی حقیقت

اعمال كے مجسم ہونے اور اس كی حقیقت

اعمال كے مجسم ہونے اور اس كی حقیقت كے سلسلے میں وضاحت كریں؟

قیامت كے مسائل میں سے ایك اہم مسئلہ عمل، افكار، اوصاف اور كردار كا مجسم ہونا ہے یہ بات اس وقت سمجھ میں آئے گی جب اس مقدمہ پر غور كریں گے ۔ اور وہ ہے ”عوالم وجود كا تطابق “عوالم ہستی خدائے سبحان كے ذات سے ایك خاص نظام كے تحت (جو اسی كے اسماء كے مظہر ہیں) نشوونما پاتے ہیں اور اسی كے آثار و مظہر ہیں ۔
سب سے پہلا عالم ”عالم تجرد و جبروت“ ہے جو بلند مرتبہ اور خدائے سبحان سے قریب ہے اس عالم سے جو جتنا قریب ہوگا اتنا ہی عدم و نستی سے دور رہے گا ۔ اسی وجہ سے اس كو ”عالم جبروت“ كہا گیا ہے ۔ یعنی وہ عالم ہے جس میں ساری چیزوں (جو عوالم دیگر میں نہیں پائی جاتی ہیں) قرب خداوندی كی بناء پر مطلق كمال، مظہر الہی اور خداداد صلاحتیوں سے منزل كمال پر پہونچی ہوئی ہیں ۔
دوسرا عالم ” عالم مثال یا ملكوت “ ہے جو عالم تجرد سے نشوونما اور دوسرے مرتبہ پر ہے ۔
یہ عالم تجرد كے لحاظ سے سب سے پست، اور یہاں كی مخلوقات قدر ومنزلت كے اعتبار سے ”عالم برزخ“ كی طرح بعض بعض پر فوقیت ركھتی ہیں اورایك دوسرے كی وجہ سے نشوونما پاتی ہیں ۔
تیسرا عالم ”عالم جسم یا عالم مادی“ ہے جو كو ”عالم ناسوت“ اور قرآن كے رو سے ”شہادت“ بھی كہا گیا ہے یہ عالم برزخ كے بعد ہے اور اسی سے نشوونما پاتا ہے جو بہت پست اور خدائے سبحان سے دورہے ۔ درحقیقت عالم جسم و مادہ محدود، اور مثالی حقائق كا مظہر ہے ۔جو اس میں جلوہ نماہوتا ہے ۔
اس ترتیب كے لحاظ سے جو چیز عالم مادہ میں پائی جاتی ہے وہی عالم مثال میں موجود ہے لیكن ان دونوں میں فرق صرف اتنا ہے كہ ان كے قوانین، اور احكام جدا جدا ہیں ۔
اسی طرح جو كچھ عالم مثال میں پایا جاتا ہے بلكل وہی چیز عالم تجرد میں بھی پائی جاتی ہے لیكن اس كے قوانین اسی سے مخصوص ہیں جس طرح عالم تجرد میں ساری چیزیں موجود ہیں عالم -” اسماء حسنی “ میں بھی پائی جاتی ہیں لیكن اس كے قوانین اسی عالم سے مخصوص ہیں جو حقائق عالم مادہ میں پائے جاتے ہیں عالم (مثال، تجرد) اور عالم اسماء حسنی میں بھی كامل طور پر پائی جاتی ہے ۔ پس جو چیز وہاں پائی جارہی ہیں وہی چیز یہاں بھی موجود ہے ۔ عالم مثال كا مادے كی ساری كیفیتوں كو لینے كے باوجود عالم برزخ سے مشابہت ركھنا اور عالم تجرد كا ہر چیز سے بے نیاز ہو كر عالم اسماء كے قوانین سے مشابہ ہونا حقیقت پر مبنی ہے ۔ اس كی مثال پانی ہے لیكن اس دنیا كے پانی میں اور وہاں كے پانی میں آسمان زمین كا فرق ہے اور سب كے ذائقے بھی الگ الگ ہیں ۔ اس پانی كو سب لوگ نہیں پی سكتے ہیں اور نہ ہی دوسرے عالم میں جاسكتا ہے ۔ لیكن اس پانی كا اس دنیا سے اسی طرح ربط ہے جس طرح آگ كا رشتہ مٹی سے ۔ اور پانی كا آگ سے ۔
عوالم ہستی كے مطالبقت كی بنیاد پر انسان بارگاہ خداوندی میں جانے كے بعد اپنے اعمال، كردار اور عقائد كو عوالم دیگر میں شكل و صورت میں دیكھ سكتا ہے ۔ خواہ وہ اچھے اعمال، اور عقائد ہوں یا برے ۔
جب آپ نے ان مطالب كو سمجھ لیا ہے تو جو كچھ انسان اس عالم میں انجام دیتا ہے وہ عوالم دیگر میں ہے یعنی جو كچھ بیان كرتا ہے سب كچھ اس عالم میں ثبت اور لكھ دیا جاتا ہے ۔
اگر ہم نے اچھے امور اور نیك چیزوں سے ارتباط ركھا تو در حقیقت یہ ساری خصوصیتیں اور ہماری روح (عالم ہستی كی مطابقت كے قانون پر) دیگر عوالم تجرد، برزخ اور اسماء كے موافق ہے ۔ البتہ ہماری اس دنیا كی یہی خوبی ہے كہ وہ دیگر عوالم كے قوانین، دستورات اور احكام كے معیار پر ہے ۔ پس ہماری نیكی بھی بالكل وہاں كی طرح ہے چونكہ جسم و روح دونوں ایك دنیا كے ہیں تو پھر عوالم دیگر كے قوانین و دستورات كے مطابق ہوں گے ۔
مثال كے طور پر ایك شخص سخاوت كرتا ہے یہ صفت عوالم دیگر (برزخ)، تجرد، نیز اسماء میں پائی جاتی ہے ان میں كا ہر ایك كے نزدیك ” سخاوت “ ہے مگر یہ كہ قوانین و دستورات كے مطابق ہو یا اگر كسی شخص میں بری عادت اور برا ہے تو یہ چیز برزخ اور عوالم دیگر میں بھی پائی جاتی ہے ۔ لیكن اسی صورت میں جب كہ اس كے قوانین اور معیار پر صحیح اتررہی ہو ۔ غور طلب بات ہے كہ ہمارے اندر اچھے اور برے اعمال، كردار اور عقیدے سب پائے جارہے ہیں اور اس سے كوئی بھی مستثنی نہیں ہے یعنی اس دنیا میں برزخی، تجردی، اسمائی اوصاف، اعمال، كردار اور عقیدے پائے جاتے ہیں لیكن ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ۔ بعبارت دیگر ۔ اس دنیا میں دنیاوی شكل میں ہمارے لئے مشہور ہے اور حجاب اٹھ جانے كے بعد ہم اس كو برزخی صورت میں دیكھ سكتے ہیں ۔
جب روح عالم برزخ میں میں جاتی ہے تو اس كا جانا ہی درحقیقت اعمال، كردار، عقائد اور رفتار سے پردہ ہٹنا ہے جو پہلی منزل اور عوالم باطن سے دوبارہ ملاقات ہے ۔
مثال كے طور پر اس دنیا میں سخاوت كے آثار ہم سے پوشیدہ ہیں لیكن جب مرنے كے بعد دوسرے عالم میں پہونچیں گے تو اس كی ساری خوبیاں نظروں كے سامنے آجائیں گی ۔
یا جو شخص براكردار والا تھا اس دنیا میں اس بری صفت سے غافل تھا اور ہر وقت اسی كی غن میں تھا اور جو خواہشات كہتی تھیں اسی كو انجام دیتا تھا اور ذرہ برابر بری عادت سے منھ نہیں موڑا اور جو دل میں آیا اس كو انجام دیا ۔ یہ بے احتیاطی اس بات كی واقعیت ہے كہ وہ حقیقت سے كوسوں دور رہا ہے ۔ لیكن اس دنیا سے بڑھ كر دیگر عوالم ہیں جو ہماری ہر چیز پر نظر ركھے ہوئے ہیں ۔ لیكن ہم ان كو دیكھنے سے عاجز ہیں ۔
جب روح پرواز كرجائے گی تو یہی بدخلقی مختلف صورتوں میں نظر آنے لگے گی ۔ مثال كے طور پر كتا، سانپ، یا بچھو كی صورت میں دیكھے گا ۔
انسان جتنا عالم نور سے ارتباط بڑھاتا چلاجاتا ہے اتنا ہی پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں ۔ اور اپنے اعمال، كردار، عقیدے اور رفتار كو اچھی صورتوں میں دیكھتا ہے ۔ اور خود كو منزل معراج پر پاتا ہے، ان مذكور مطالب سے دو حقیقت معلوم ہوتی ہے ۔
1. انسان كے اعمال اصلی اور حقیقی شمائل میں پائے جاتے ہیں اور یہی انسان كی روح (جو حقیقی ہے) جسم مادی سے قطع تعلق كركے عالم برزخ میں پہونچتی ہے اور جو كچھ اس كے نظام اور قوانین ہیں روح متحمل ہوتی ہے ۔ انسان كے اعمال اسی كے قانون كے لحاظ سے مشكل و شمائل میں رونما ہوں گے ۔ یعنی ہر عمل كی برزخی صورت انسان كی روح كے مطابق اور اسی كی دیگر خصوصیات كے ساتھ ظاہر ہوگی ۔
ہر عمل نیك كی برزخی صورت اسی كے موافق اور اچھی آئے گی اسی كے برعكس جتنا برا عمل ہوگا برزخی صورت اتنی ہی بری اور انسان كے عادات كے مطابق ہوگی ۔ مثال كے طور پر اگر كوئی انسان بدخلقی كے علاوہ رذیل بھی تھا تو اس كی برزخ میں عمل كی صورت كئے كے مانند ہوگی یا كوئی انسان بدخلقی كے ساتھ شریف تھا تو اس كا برا فعل شیر كی صورت میں آئے گا ۔ شہوات نفسانی كے بھی مختلف العباد ہیں خصائل كے مختلف قسمیں ہیں ان میں كا ہر ایك عمل، كردار، رفتار اور عقیدے ( خواہ اچھے ہوں یا برے ) عالم برزخ میں مختلف صورت و شكل میں مجسم ہوگا یہ اس دنیا كے علاوہ دیگر عوالم یعنی عالم تجرد، اسماء میں بھی ہر عمل، عادت، رفتار اور عقیدے ان عوالم كے قوانین و دستورات كے مطابق مجسم ہوتے ہیں اور جتنا ان چیزوں سے دور ہوتا چلاجائے گااتنا ہی پردہ اٹھتا چلاجائے گا اور نظروں كے سامنے تصاویر آنے لگے گیں۔
2. جہاں تك انسان كے سارے اخلاقی صفات، اعمال، كردار، اور اچھی رفتار كا مسئلہ ہے تو یہ حقیقت واقعیت (جو باطن میں موجود ہے) سے قریب ہیں ۔ یعنی جس دن سے ہم نے اس دنیا میں سخاوت كرنا شروع كردیا یہ پہلے بھی اچھی اور بہشت میں جانے كے لئے ضامن ہے اسی كے مقابلہ میں جس دن سے ہم نے برائی كرنا شروع كردیا جو روح كی بیماری كا نتیجہ ہے یہ چیز ہمارے ” جہنم “ تك كھینچ لے جانے كے لئے كافی ہے ۔ بعبارت دیگر ۔
انسان كا ہر عمل، كردار، اور رفتار كا سرا جنت كی طرف ہے یا جہنم كی طرف ۔ كیونكہ ہر برائی كی جڑ جہنم ہے اور ہر اچھائی كی جڑ جنت ہے۔
حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔
جب ماہ شعبان كی پہلی تاریخ آتی ہے تو خداوند عالم جنت كے دروازے كھول دیتا ہے اور شجرہ طوبی جس كی پہلی شاخین اس دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں منادی دیتی ہیں كہ اے خدا كے بندو !ان شاخوں كو پكڑلو تا كہ جنت كے مستحق بن جاوٴ ۔ اسی طرح ایك اور ندا آتی ہے كہ درخت زقوم كی شاخوں كو نہ تھامنا (اور اس سے دور رہنا) ورنہ تمہیں جہنم میں ڈھكیل دیں گے ۔ پھر آنحضرت نے فرمایا ۔
قسم ہے اس ذات كی جس نے مجھے درجہ رسالت پر مبعوث كیا ہے ۔
در حقیقت اس روز برائی كرنا گویا درخت زقوم كی كسی ایك شاخ كو پكڑنا ہے پس وہ جہنم كی آگ میں جلے گا اور اس كو اوندھے منھ اس میں گرادیا جائے گا ۔
بخدا قسم جس نے مجھے پیغمبر بنایا ہے كہ جس شخص نے واجبی نماز میں تساہلی كی یا اس كو قضا كیا گویا اس نے درخت زقوم كی ایك شاخ كو پكڑلیا ہے ۔ جو فقیر و غریب كی بد حالی كو دیكھنے كے بعد اس كی مدد نہ كرے گویا وہ ہلاك ہوا پھر ایك ایك برے اعمال كو بیان كیا پھر آسمان كی طرف سر اٹھاتو ہنس پڑے اور جب زمین كی طرف دیكھا تو چہرہ سرخ ہوگیا اس كے بعد اصحاب سے فرمایا ۔
اس ذات كی قسم جس نے مجھ (محمد) كو نبوت و رسالت پر فائز كیا ہے ۔
جب میں نے شجرہ طوبی كی بلند ڈالیوں كو دیكھا تو ہر انسان كواپنے اپنے اعتبار سے اس كی كسی نہ كسی ڈالی كو پكڑا ہوا جو جنت كی طرف جارہے ہیں ۔
حتی زید بن حارثہ كو شجرہ طوبی كی ساری ڈالیوں كو پكڑا ہوا دیكھا جس سے ہم خوش و مسرور ہوئے لیكن جب زمین كی طرف دیكھا تو خدا كی قسم جس نے مجھے نبی بناكر بھیجا ہے ۔
درخت زقوم كو بھیلاہو دیكھا كچھ اپنی بد اعمالی كی بناء پر اس كی شاخوں كو تھامے ہوئے ہیں، جہنم میں جارہے ہیں ۔ حتی بعض منافقین كو بھی دیكھا جو درخت زقوم كی پوری شاخوں كو پكڑے ہوئے ہیں اور ان كو جہنم كے سب سے نچلے طبقے میں ركھا گیا ہے جس سے بہت رنجیدہ ہو ا 1 2
حوالہ جات
1. ”الی ان قال : وان اللہ عزوجل اذا كان اول یوم من شعبان امر بابواب الجنة فتفتح، و یامر شجرة طوبی فتطلع اغصانھا علی ھذہ الدنیا، ثم ینادی منادی ربنا عزوجل، یا عباداللہ ھذہ اغصان شجرة طوبی فتعلقوا بھا تودیكم الی الجنان و ھذہ اغصان شجرة الزقوم فایاكم و ایاھا لاتوٴدیكم الی الجحیم، ثم قال: فوالذی بعثنی بالحق نبیا ان من تعامل بابامن الخیر فی ھذا الیوم فقد تعلق بغصن من اغصان شجرة طوبی فھو موٴید الی الجنان، ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ : فمن تطوع للہ بصلاة فی ھذا الیوم فقد تعلق منہ بغصن ومن تصدق فی ھذا الیوم فقد تعلق منہ بغصن ومن عفا عن مظلمة فقد تعلق منہ بغصن و من تعلق یصلح بین المرء و زوجہ و الوالد و ولدہ القریب قریبہ والجار و جارہ والا جنبی اجنبیہ فقد تعلق منہ بغصن … وكذلك من فعل شیئا من سائر ابواب الخیر فی ھذا الیوم فقد تعلق منہ بغص، ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ : والذی بعثنی بالحق نبیا و ان من تغاطی بابامن الشر و العصیان فی ھذا الیوم فقد تعلق من اغصان الزقوم فھو مودیہ الی النار ثم قال رسول اللہ : والذی بعثنی باالحق نبیا فمن قصر فی صلاتہ المفروضة و ضیعھا فقد تعلق بغصن منہ، و من جائہ فی ھذا الیوم فقیر ضعیف یشكواالیہ سوء حالہ و ھو یقدر علی تغییر حالہ من غیر ضرر یلحقہ و لیس ھناك من ینوب عنہ و یقوم مقامہ فتركہ یضیع و یعطب ولم یاخذہ بیدہ فقد تعلق بغصن منہ …ثم رفع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طرفہ الی السماء ملیا وجعل یضحك و یستبشر ثم خفض طرفہ الی الارض فجعل یقطب و یعبس ثم اقبل علی اصحابہ ثم قال: والذی بعث محمد ا بالحق نبیا لقدرائت شجرة طوبی ترفع اغصانھا و ترتفع المتعلقین بھا الی الجنة، ورائت منھم من تعلق منھا بغصن و منھم من تعلق بعامة اغصانھا فھی ترفعہ الی اعلی علائھا فبذلك ضحكت و استشرت، ثم نظرت الی الارض فوالذی بعثنی بالحق نبیا لقد رائت شجرة الزقوم تنخفض اغصانھا و تحفض المتعلقین بھا الی جحیم، ورائت منھم من تعلق بغصن ومنھم من تعلق بغصنین او باغصان علی حسب اشتغالھم علی التباع، وانی لاری بعض المنافقین قد تعلق بعامة اغصانھا فھی تخفضہ الی اسفل دركاتھا فلذالك عبست وقطبت“؛ (بحار الانوار ج ۸، صص۱۶۶۔ ۱۶۸)۔

2. تجسم عمل اور شفاعت ص ۴۱ ۔ ۵۸ ۔ اور معاد یا خدا كی طرف بازگشت ج ۲ ص ۳۰ ۔ ۸۲۔

http://shiastudies.com/ur/575/%d8%a7%d8%b9%d9%85%d8%a7%d9%84-%d9%83%db%92-%d9%85%d8%ac%d8%b3%d9%85-%db%81%d9%88%d9%86%db%92-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b3-%d9%83%db%8c-%d8%ad%d9%82%db%8c%d9%82%d8%aa/

تبصرے
Loading...