آذادی انسان

آذادی انسان

فقہ کا ایک ماٴخذ عقل ہےہمارا عقیدہ ہے کہ:دین اسلام کا ایک بنیادی ماٴخذ مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں عقل ہے۔یعنی یہ کہ عقل ےقینی طور پر کسی چیز کو درک کرے اور اسکے بارے میں فیصلہ کرے۔مثال کے طور پر اگر( بطورفرض)قرآن اور سنت میں ظلم و خیانت ،جھوٹ ،قتل،چوری اور لوگوں کے حقوق پامال کرنے کی حرمت پر کوئی دلیل ہی نہ ہوتی و ہم دلیل عقلی کے ذریعہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے اور ےقین رکھتے کہ اس عالم اور حکیم خدا نے ہم پر یہ چیزیں حرام کر دی ہیں اور وہ ان کی انجام دہی پر راضی نہیں ہے۔عقل کا یہ حکم ہمارے اوپر حجت محسوب ہوتا۔
عدل الھٰی پر ایک نظرجیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے ہم خدا کے عادل ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ ےقین رکھتے ہیں کہ خدا اپنے کسی بندہ پر کوئی ظلم نہیں کرتا کیونکہ ظلم ایک برا اور نا پسندیدہ کام ہے اور خدا کی ذات اس طرح کے کام سے پاک اور منزہ ہے(ولا یظلم ربّک احدا)یعنی تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا۔(سورئہ کہف ،آیت ۴۹)اگر دنیا اور آخرت میں بعض افراد کو سزا ملے گی تو اس کااصل سبب وہ خود ہیں۔(فما کان اللہ لیظلمھم ولکن کانوا انفسھم یظلمون )یعنی خدا نے عذاب الہٰی میں مبتلا ہونے والی گزشتہ (اقوام )پر ظلم نہیں کیا (سورئہ توبہ،آیت ۷۰)بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کیا کرتے تھے۔نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی کسی چیز پر بھی خدا ظلم نہیں کرتا ۔(وما اللہ یرید ظلما للعالمین)یعنی خدا اہل عالم پر ظلم کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتا۔(سورئہ آل عمران ،آیت ۱۰۸)یاد رہے کہ یہ تمام آیات حکم عقل کی طرف راہنمائی کر رہی ہے اور اسی کی تاکید کر رہی ہیں۔تکلیف مالا یطاقتکلیف مالا یطاق کی نفی مذکورہ وجوہات کی بنا پر ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ہر گز تکلیف مالا یطاق (انسان کی طاقت سے باہر کاموں ) کا حکم نہیں دیتا (لایکلّف اللہ نفسا الّا وسعھا)(سورئہ بقرہ،آیت ۲۸۶)
المناک حادثات کا فلسفہہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں جو المناک واقعات رو نما ہوتے ہیں (مثلا زلزلے ، مصیبتیںاور مشکلات)مذکورہ بالا وجوہات کی روشنی میں وہ کبھی تو خدا کی طرف سے سزا کے طور پر واقع ہوتے ہیں جیسا کہ قوم لوط کے متعلق فرمایا ہے(فلمّا جآء امرنا جعلنا عٰالیھا سافلھا وامطرنا علیھم حجارة من سجّیل منضود) یعنی جب عذاب کے بارے میں ہمارا حکم آگیا تو ہم نے انکے شہروں کو ملیا میٹ کر دیا اور ان پر پتھروں کی موسلا دھار بارش نازل کر دی۔(سورئہ ہود ،آیت ۸۲)اور “سبا” کے سرکش اور ناسپاس لوگوں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے(فاعرضوا فارسلنا علیھم سیل العرم)(سورئہ سبا ،آیت ۱۶)یعنی انہوں نے خدا کی اطاعت سے منہ موڑ لیا اور ہم نے تباہ کن سیلاب انکی طرف بھیج دیا۔نیز ان میں سے نعض واقعات انسانوں کو بیدار کرنے کے لئے ہوتے ہیں تاکہ وہ حق کے راستے کی طرف لوٹ آئیں ۔(ظھر الفساد فی البرّ والبحر بما کسبت اید النّاس لیذیقھم بعض الّذی عملوا لعلّھم یرجعون) خشکی اور سمندروں میں لوگوں کے کاموں کی وجہ سے خرابی آشکار ہو گئی۔خدا چاہتا ہے کہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے ۔شاےد وہ لوٹ آئیں۔(سورئہ روم ،آیت ۴۱) لہٰذا اس طرح کی مصیبتیں حقیقت میں خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ ہیں۔بعض مصیبتیں ایسی ہیں جو انسان خود اپنے لئے ڈھونڈ لاتا ہے۔با الفاظ دیگر وہ اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتتا ہے۔(انّ اللہ لا یغیّر ما بقوم حتّیٰ یغیروا ما بانفسھم )یعنی یقینا اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔(سورئہ رعد ،آیت ۱۱)(ما اصابک من حسنة فمن اللہ وما اصابک من سیّئة فمن نفسک)یعنی جو نیکی تجھے نصیب ہو وہ خدا کی طرف سے ہے (اور اس کی مدد سے ہے)اور جو برائی تجھے لاحق ہو وہ خود تیری طرف سے ہے۔(سورئہ نساء،آیت ۷۹)
کائنات کا نظام سب سے بہترین نظام ہےہمارا عقیدہ ہے کہ :یہ کائنات عالی ترین نظام کا نظارہ پیش کر رہی ہے ۔یعنی اس کائنات کا موجودہ نظام ممکنہ نظاموں میں سب سے بہتر نظام ہے۔ہر چیز حساب کتاب کے مطابق ہے اس میں حق ،عدل ،انصاف اور نیکی کی منافی کوئی بات موجود نہیں ہے۔اگر انسانی معاشرہ میں کوئی برائی نظر آرہی ہے تو یہ خود انکی طرف سے ہیں۔ہم یہ بات دہراتے ہیں کہ ہمارے عقیدہ کی رو سے کائنات کے بارے میں اسلامی نظریہ کہ ایک اصلی بنیاد عدل الہٰی ہے۔اس کے بغیر توحید ،نبوّت اور معاد کا نظریہ بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے،ذرا غور کیجئے۔ایک حدیث میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے پہلے فرمایا”انّ اساس الدین التوحید والعدل “یعنی دین کی بنیاد توحید اور عدل ہیں ۔اس کے بعد فرمایا”امّا التوحید فان لا تجوزعلیٰ ربّک ما جاز علیک و امّا العدل فان لا تنسب الیٰ خٰالقک ما لامک علیہ”یعنی توحید یہ ہے کہ جو باتیں تیرے کئے روا نہیں ہیں ،انہیں خدا کے لئے روا نہ سمجھ۔(اسے ممکنات کی تمام صفات سے پاک و منزہ سمجھو)اور عدل یہ ہے کہ تم خدا کی طرف کسی ایسے کام کی نسبت نہ دوجسے اگر تم انجام دو تو وہ اس پر تمہاری مذمت کرے۔غور کیجئے(بحار الانوار ،جلد ۵صفحہ۱ حدیث ۲۳)
فقہ کے چار ماٴخذجیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہمارے فقہی منابع(ماٴخذ)چار ہیں ۔۱۔”کتاب اللہ”یعنی قرآن مجید جو اسلامی معارف اور احکام کی بنیاد ہے۔۲۔پیغمبر اسلام (ص) اور آئمّہ معصومین علیہم السلام (اہل بیت) کی سنت۔۳۔علماء اور فقہاکا اجماع و اتفاق جو معصوم کی رائے کا مظہر ہو۔۴۔عقل،عقل یا دلیل عقلی سے مراد ےقینی اور قطعی دلیل عقلی ہے۔جو دلیل عقلی ظنّی ہو(مثلا قیاس ،استحسان وغیرہ )وہ ہمارے نذدیک کسی بھی فقہی مسئلہ میں قابل قبول نہیں ہے ۔لہٰذا اگر فقیہ اپنے گمان کے مطابق کسی چیز میں مصلحت دیکھے لیکن اس کے مطابق قرآن اور سنت میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ اپنے گمان کو حکم خدا کے طور پر پیش نہیں کر سکتا۔اسی طرح شرعی احکام اٴخذ کرنے کے لئے ظنّی قیاسات اور اس طرح کی چیزوں کا سہارا لینا ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے۔لیکن جن مقامات پر انسان کو ےقین حاصل ہو جائے (جیسے ظلم،جھوٹ ،چوری اور خیانت کی برائی کا ےقین)تو ان مقامات پر عقل کا حکم معتبر ہے۔عقل کا یہ قطعی حکم “کلّ ما حکم بہ العقل حکم بہ الشرع”(عقل جس چیز کا حکم دے شرع کا حکم بھی وہی ہوگا) کے قاعدہ کے تحت حکم شرعی محسوب ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ عبادتی،سیاسی ،اقتصادی اور سماجی امور میں مکلّف لوگوں کے لئے ضروری مسائل کے متعلق پیغمبر (ص) اور آئمّہ علیہم السلام کی احادیث ہمارے یہاں موجود ہیں اور ظنّ اور گمان پر مشتمل دلیلوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہاں تک کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ مسائل مستحدثہ (یعنی وہ مسائل جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو پیش آتے ہیں ) کی پہچان کے سلسلہ میں بھی کتاب خدا نیز رسول (ص) اور آئمّہ (ع) کی سنت میں اصول اور ضوابط بیان کر دئے گئے ہیں،جن کے بعد ہمیں اس طرح کے ظنّی مسائل کی ضرورت نہیں رہتی ۔یعنی ان قواعد اور ضوبط کی طرف رجوع کرنے سے مسائل مستحدثہ کا حکم معلوم ہو جاتا ہے۔(اس مسئلہ می تفصیل بیان کرنے کی گنجائش اس مختصر سی کتاب میں نہیں ہے،کتاب “المسائل المستحدثة”میں ہم نے یہ بات تفصیل سے بیان کی ہے )۔
اجتھاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہےہمارا عقیدہ یہ ہے کہ:شریعت کے تمام مسائل میں اجتھاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہو ا ہے۔تمام صاحب نظر فقہاء مذکورہ بالا چار فقہی ماٴخذ سے احکام خداوندی کا استنباط کر سکتے ہیں جو استنباط کی قدرت نہیں رکھتے ،اگر چہ انکی آراء سے بطور کامل مطابقت نہ رکھتی ہوں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ:جو لوگ فقہ میں صاحب نظر نہیں ان کو ہمیشہ ایسے زندہ فقہاء کی طرف رجوع کرنا چاہئے جو زمانہ کے تقاضوں اور مسائل سے آگاہ ہوں ۔یعنی انکی تقلید کریں ۔فقہ ست نا بلد لوگوں کا فقہ کے ماہرین کی طرف رجوع کرنا ہمارے نزدیک ایک بدیہی ضرورت ہے۔ان فقہاء کو مرجع تقلید کہتے ہیں ،اسی طرح ہم مرد ہ فقیہ کی تقلید ابتدائی طور پر جائز نہیں سمجھتے۔لوگوں کو زندہ فقیہ کی تقلید کرنی چاہئے تاکہ فقہ ہمیشہ ترقی اور تکامل کی طرف رواں دواں رہے۔
قانون سازی کی ضرورت نہیںہمارا عقیدہ ہے کہ:اسلام میں قانونی خلا موجود نہیں ہے۔یعنی اسلام نے قیامت تک کے لوگوں کے لئے ضروری احکام بیان کر دئے ہیں ،البتّہ گاہے خاص صورت میں اور کبھی ایک عام اور کلّی حکم کے ضمن میں۔اسی وجہ سے ہمارے نزدیک فقہاء کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں ۔بلکی ہم انکی ذمّہ داری سمجھتے ہیں کہ وہ مندرجہ بالا چال ماٴخذ سے احکام اخذ کریں اور سب کے سامنے رکھیں ۔کیا خود قرآن نے سورئہ مائدہ (جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہونے والی آخری سورت یا آخری سورتوں میں سے ایک ہے)میں یہ نہیں فرمایا (الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا)یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کر دی اور اسلام کو تمہارے دین کے طور پر قبول کر لیا (سورئہ مائدہ ،آیت ۳)اگر اسلام تمام زمانوں اور ادوارکے لئے مکمل فقہی احکام کا حامل نہ ہو تو وہ کامل دین کیسے ہو سکتا ہے؟کیا ہم پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّمکی یہ حدیث نہیں دیکھتے”یا ایّھا النّاس واللہ ما من شئی یقرّبکم من الجنّةو یباردکم عن النّار الّا وقد امرتکم بہ وما من شئی یقرّبکم من النّار و یباعد کم عن الجنّة الّا و قد نھیتکم عنہ”یعنی اے لوگوں ؛ہر وہ چیز جو تمکو بہشت سے نزدیک کرتی ہے اور دوزخ کی آگ سے دور کرتی ہے میں نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے اور ہر وہ چیز جو تمہیں جہنم کی آگ سے نزدیک کرتی ہے اور جنت سے دور کرتی ہے میں نے تمہیں اس سے روکا ہے۔(اصول کافی ،جلد ۲ صفحہ ۷۲اور بحار الانوار ،جلد ۶۷صفحہ ۹۶)۔حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ایک مشہور حدیث ہے “ما ترک علیّ شئیاالّا کتبہ حتّیٰ ارش الخدش”یعنی حضرت علی (ع) نے اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں چھوڑا جسے آپ نے (حضور کے حکم سے اور آپ کے لکھوانے پر)لکھ نہ لیا ہو ۔یہاں تک کہ ایک معمولی سی خراش (کہ جو انسانی بدن پر آتی ہے) کی دیت بھی(جامع الاحادیث ،جلد اول ،صفحہ ۱۸ حدیث ۱۲۷،اسی کتاب میں اس سلسلہ کی اور بھی روایات مذکور ہیں )۔بنابریں ظن وگمان پر مبنی دلائل اور قیاس و استحسان کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
تقیہ اور اس کا فلسفہہمارا عقیدہ ہے کہ:جب بھی انسان متعصب ،ہٹ دھرم اور غیر معقول افراد کے درمیان اس طرح پھنس جائے کہ ان کے درمیان اپنے عقیدہ کا اظہار اس کے لئے جانی یا مالی خطرہ کا باعث ہو اور عقیدہ کے اظہارکا کوئی خاص فائدہ بھی نہ ہو تو وہاں اس کی یہ ذمّہ داری ہے کہ اپنے عقیدہ کا اظہار نہ کرے اور نہ اپنی جان گنوائے۔اس عمل کا نام” تقیہ ” ہے۔ہم نے یہ بات قرآن مجید کی دو آیتوں اور عقلی دلیل سے اخذ کی ہے۔قرآن مومن آل فرعون کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے ۔(وقال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ ا تقتلو ن رجلاان یقول ربّی اللہ و قد جآئکم بالبینآت من رّبکم )یعنی آل فرعون میں سے ایک مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپاتا تھا (موسیٰ(ع) کا دفاع کرتے ہوئے ) کہا :کیا تم اس مرد کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے؟حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے واضح دلائل لیکر آیا ہے۔(سورئہ مومن ،آیت ۲۸)ےکتم ایمانہ کا جملہ صریح الفاظ میں تقیہ کا مسئلہ بیان کر رہا ہے ۔کیا یہ درست تھا کہ مومن آل فرعون اپنا ایمان ظاہر کرتے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے جبکی کوئی فائدہ بھی نہ ہوتا؟صدر اسلام کے بعض مجاہد اور مبارز مومنین کو جو متعصب مشرکین کے چنگل میں پھنس چکے تھے ،ا ن کو تقیہ کا حکم دیتے ہوئے قرآن یوں فرماتا ہے(لا یتخذ المومنون الکافرین اولیآء من دون المومنین و من یفعل ذٰلک فلیس من اللہ فی شئی الّا ان تتّقوا منھم تقاة)یعنی با ایمان لوگ مومنین کو چھوڑ کر کافروں اور مشرکوں کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کریگا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوگا مگر یہ کہ (تم خطرہ کے وقت)ان سے تقیہ کرو۔(سورئہ آل عمران ،آیت ۲۸)بنابر ایں تقیہ (یعنی عقیدہ کو چھپانا)وہاں جائز ہے جہاں انسان کی جان ، مال اور عزت کو متعصب اور ہٹ دھرم دشمنوں سے خطرہ ہو اور وہاں عقیدہ کے اظہار کا فائدہ بھی کچھ نہ ہو۔ایسے موقعہ پر بلا وجہ انسان کو خطرہ میں ڈالنا اور افردای قوّت کو ضائع کرنا صحیح اور معقول نہیں ہے۔بلکہ اسے محفوظ رکھنا چاہئے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔اسی لئے حضرت امام جعفر صادق (ع) کی مشہور حدیث ہے۔”التقیة ترس المومن”یعنی تقیہ مومن کی ڈھال ہے(وسائل ،جلد ۱۱ صفحہ ۴۶۱حدیث ۶ باب ۲۴۔بعض احادیث میں “ترس اللہ فی الارض”یعنی زمین میں خدا کی ڈھال کے الفاظ مذکور ہیں۔)یعنی ترس(ڈھال ) کا استعمال اس لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ تقیہ دشمن کے مقابلہ میں دفاع کا ایک ذیعہ ہے۔مشرکین کے مقابلہ میں عمار یاسر کے تقیہ کرنے اور پیغمبر اسلام (ص) کی طرف سے اس پر ان کی تائےد فرمانے کا واقعہ بہت مشہور ہے۔(بہت سے مفسرین، مورّخین اور ارباب حدیث نے اپنی مشہور کتاب میں یہ حدیث بیان کی ہے ۔واحدی نے اسباب النزول میں اور طبری ،قرطبی ،زمخشری ،فخر رازی ،بیضاوی اور نیشاپوری نے اپنی تفسیر کی کتابوں میں ،سورئہ نحل کی آیت۱۰۶کے ذیل میں اسکا تذکرہ کیا ہے۔)جنگ کے میدانوں میں دشمن سے اسلحہ اور سپاہیوں کو چھپانا اور جنگی رازوں کو مخفی رکھنا وغیرہ سب کے سب انسانی زندگی میں ایک قسم کا تقیہ ہیں۔بہر حال جہاں حقیقت کا اظہار خطرہ کا یا نقصان کا باعث ہو اور اظہار کا کوئی فائدہ بھی نہ ہو وہاں تقیہ کرنا (یعنی چھپانا)ایک عقلی اور شرعی حکم ہے جس پر نہ فقط شیعہ بلکہ دنیا کے تمام مسلمان ،بلکہ دنیا کے تمام عقلاء ضرورت کے وقت عمل پیرا ہوتے ہیں ۔اس کے باوجود تعجب خیز بات یہ ہے کہ بعض لوگ تقیہ کو شیعوں اور مکتب اہل بیت کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں اور اسے ان کے خلاف ایک اہم اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔حالانکہ بات بالکل واضح ہے۔تقیہ کا سرچشمہ قرآن ،سنّت ،نبی (ص)کے صحابہ کی سیرت اور دنیا کے تمام عقلاء کا طرز عمل ہے۔
تقیہ کہاں حرام ہے؟ہمارا عقیدہ ہے کہ:مذکورہ بدگمانیوں کی وجہ ،شیعہ عقائد سے نا آگاہی یا شیعہ دشمن عناصر سے شیعہ عقائداٴخذ کرنے کا عمل ہے۔ہمارا خیال ہے کہ مذکورہ بالا وضاحت سے بات مکمل طور پر صاف ہو گئی ہو گی۔البتّہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض جگہوں پر تقیہ حرام ہے۔یہ وہاں ہے جہاں تقیہ کرنے سے دین،اسلام اور قرآن کی بنیاد یا اسلامی نظاموں کو خطرہ لاحق ہو جائے ۔ایسی جگہوں پر عقیدہ کا اظہار ضروری ہے۔اگر چہ انسان اس اظہار عقیدہ کی وجہ سے جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ہمارا عقیدہ ہے کہ عاشورہ کے دن کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے اسی نظرئے پر عمل کیاکیونکہ بنی امیہ کے حکمرانوں نے اسلام کی اساس کو خطرہ میں ڈال دیا تھا۔امام حسین علیہ السلام کے قیام نے ان کے کرتوتوں کا پردہ چاک کردیا اور اسلام کو خطرہ سے بچا لیا۔۶۸۔ اسلامی عبادات قرآن و سنت نے جن عبادتوں پر زور دیا ہے ہم ان پر عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے پابند ہیں ، مثلا نماز پنجگانہ جوخالق اور مخلوق کے درمیان رابطہ کی کڑی ہے ۔اسی طرح رمضان المبارک کے روزے جو ایمان کی تقویت ،تزکیہ نفس اور تقویٰ کا بہترین ذریعہ ہے اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کا ہتھیار ہیں۔ہم صاحب استطاعت افراد پر زندگی میں ایک بار حج خانہ خدا کو واجب سمجھتے ہیں جو تقویٰ اختیار کرنے اور باہمی محبت کے بندھنوں کو مضبوط کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے نیز مسلمانوں کی عزت کا باعث ہے ۔ہم زکات المال ،خمس ،امر بالمعروف ،نہی عن المنکر نیز اسلام اور مسلمانوں پر حمل ور ہونے والوں کے خلاف جھاد کو بھی مسلمات میں شمار کرتے ہیں ۔ہمارے اور بعض دوسرے اسلامی فرقوں کے درمیان ان مسائل کے بعض جزئیات میں اختلاف ہے ،بالکل اسی طرحجس طرح اہل سنت کے چار فرقے بھی عبادات میں اور دوسرے احکامات میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ۔

http://shiastudies.com/ur/1101/%d8%a2%d8%b0%d8%a7%d8%af%db%8c-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86/

تبصرے
Loading...