كیوں شیعہ لوگ سنت صحابہ حجت نہیں مانتے؟

كیوں شیعہ لوگ سنت صحابہ حجت نہیں مانتے؟

1) ابن قیم جوزیہ كا كہنا ہے: ابو حنیفہ، آثار صحابہ كو قیاس اور رائے پر مقدم كرتے تھے، 1
2) شاطبی كہتے ہیں: امام مالك، قول صحابی كو سنت سے ملحق كرتے تھے، بلكہ نقل ہوا ہے كہ، امام مالك، خبر واحد كو صحابہ میں سے ایك صحابی كے قول كی مخالف سے رد كر دیا كرتے تھے، 2
3) امام شافعی نے قول صحابی كو نص اور اجماع كے بعدكی منزل دی ہے اور اسے قیاس پر مقدم كیا ہے ۔3
4) احمد ابن حنبل نے صحابی كے فتوے كو نص كے بعد قرار دیا ہے اور منابع تشریع میں صحابی كے فتوے كو دوسری اصل قرار دیا ہے، ابن قیم كہتے ہیں: احمد ابن حنبل كے فتوے دو اصل پر استوار تھے، الف، نصوص، ب، فتاوائے صحابہ پر بشرطیكہ كوئی مخالف اس كا موجود نہ ہو ۔ 4
5) ابن تیمیہ كہتے ہیں: احمد ابن حنبل اور بہت سے علمائے اہل سنت نے حضرت علی علیہ السلام كی اسی طرح پیروی كی ہے جس طرح انھوںنے سنت عمر وعثمان كی متابعت كی ہے، لیكن ودسرے بعض علماء جیسے كہ مام مالك نے سنت علی علیہ السلام كی پیروی نہیں كی ہے اور اس میں اتفاق ہے كہ: سنت عمر وعثمان حجت ہے- 5
حجت سے كیا مراد ہے
سنت صحابہ كی حجیت كے سلسلے میں دو احتمال ہیں:
الف: یا حجیت مو ضوعی مراد ہے یعنی جس طرح سنت پیغمبرمو ضوعیت ركھتی ہے سنت صحابہ بھی مو ضوعیت ركھتی ہے، حجت مو ضوعی یعنی جوذاتی طور پر حجت ہے اور حكم وجوب متابعت اور فرمان تعبد كے لئے جسے موضوع قراردیاجائے۔نہ یہ كہ حجت تك پہنچنے كی راہ یا كاشف حجت ہو۔
ب: دوسرا احتمال سنت صحابہ كی حجیت كے سلسلے میں یہ ہے كہ: مراد حجیت طریقی ہو یعنی سنت صحابہ چونكہ حجت ذاتی ”سنت نبوی، ، تك پہنچنے كی راہ ہے اس لئے حجت ہے پھر ایسی صورت میں خبر صحابی، خبر واحد كی تمام شرطوں كی حامل ہو نا چاہیے مثلا ثقہ ہونا، عادل ہونا وغیرہ، لہٰذا اگر صحابی كا قول حجت ہے تو مخبر كے ثقہ ہونے كی وجہ سے ہے بشرطیكہ اس كا عادل یا ثقہ ہونا ثابت ہوجائے۔
اہل سنت كے اصولی علماء كے كلام سے ظاھر ہوتاہے كہ وہ سنت صحابہ كے سلسلے میں حجیت موضوعی كے قائل ہیں نہ كہ حجیت طریقی كے، در حقیقت علمائے اہل سنت میں سے جولوگ سنت صحابہ كی حجیت كے قائل ہیں وہ سنت صحابہ كے لئے قرآن وسنت رسول كی سی شانیت كے قائل ہیں، ،
1۔ ابن قیم جو زیہ كہتے ہیں: اگر كو ئی اقوال صحابہ كی پیروی كرے بغیر اس كے كہ اس كی صحت و سقم كے بارے میں تحقیق كرے ۔ قابل مدح و ستائش ہے ۔ 6

2۔ شاطبی كہتے ہیں: روایات سے استفادہ ہو تا ہے كہ جو شخص سنت صحابہ كی پیروی كرے وہ سنت رسول كی پیروی كرنے والے شخص كے ما نند ہے۔ 7

بعض كا خیال ہے كہ: سنت صحابہ كی حجیت سے اہلسنت كی مراد حجیت طریقی ہے نہ مو ضو عی اور اس كا معتبر ہو نا اس صورت میں ثابت ہو گا كہ یاتوسارے اصحاب نے انجام دیا ہو یا بعض نے انجام دیا ہو لیكن ان كاعمل مشہور ہو اور دوسرے اصحاب نے یا سكو ت اختیاركیا ہو اور یا تو كم از كم اس كی تردید نہ كی ہو یہ مسئلہ در حقیقت، اجماع حقیقی، تقدیری اور سكو تی كی طرف پلٹ جاتا ہے جو سنت نبوی كا یقین آور راستہ ہے لیكن یہ تو جیہ اہل سنت كے مقصود ومراد كے خلاف ہے كیو نكہ بعض علماء اہل سنت كے كلام سے ظاہر ہو تا ہے كہ سنت صحابہ كی اس طرح حجیت تسلیم نہیں كرتے ۔

ابن قیم جوزیہ كہتے ہیں: صحابہ كا قول دو حال سے خالی نہیں ہے یا دوسرے صحابہ نے اس كی مخالفت كی ہے یا نہیں كی ہے پہلی صورت میں اس كا قول حجت نہیں ہے ۔اور دوسری صورت میں یاتو اس كا قول اصحاب كے درمیان مشہور ہو جائے اور كوئی اس كی مخالفت نہ كرے یا ایسا نہ ہو پہلی صورت میں فقہاء كی اكثریت آراء كے مطا بق صحابہ كا قول اجماع كا حكم ركھتا ہے اور حجت ہے ۔ لیكن بعض فقہاء نہ اسے حجت جا نتے ہیں اور نہ ہی اسے اجما ع ساز ما نتے ہیں اور اگر صحا بی كا قول مشہو ر نہ ہو اہو یا اس كے مشہور ہونے یا نہ ہو نے كے بارے میں اطلاع نہ ہو اس صورت میں اصولیین نے اس كی حجیت كے بارے میں اختلاف كیا ہے جمہو راہل سنت كا كہنا ہے كہ اس صورت میں بھی صحابی كا قول حجت ہے ۔ 8

ابن قیم كی آخری عبارت سے بخوبی استفادہ ہو تا ہے كہ وہ قول صحابی كی حجیت، سنت نبوی كی كا شفیت كے لحاظ سے تسلیم نہیں كرتے بلكہ قول صحابی كو سنت نبوی كے ما نند حجت مو ضوعی كا درجہ دیتے ہیں۔

مقابل میں شیعہ امامیہ صحابہ كو اس جہت سے بقیہ افراد كے ما نند سمجھتے ہیں كہ ان كی سنت كی حجیت، ہر ایك صحابی كی و ثاقت و عدالت كے اثبات پر مو قوف ہے ۔ اس لئے كہ تمام صحابہ كلی طور سے عادل نہیں ہیں اور اس پر كوئی دلیل بھی نہیں ہے بلكہ اس كے بر خلاف دلیلیں مو جود ہیں۔

صحابہ كے سلسلے میں غزالی كا نظریہ شیعہ امامیہ كے مو قف كے مطابق ہے وہ كہتے ہیں: جس شخص سے غلطی اور سہو كا امكان ہے وہ معصوم نہیں ہے لہذا اس كا قول حجت بھی نہیں ہے ایسی صورت میں اس كے قول سے كس طرح استناد و احتجاج كیا جا سكتا ہے ؟ كس طرح كچھ لو گوں كے لئے عصمت كا تصور كیا جا سكتا ہے جبكہ ان كے درمیان بہت سے اختلافات مو جود تھے؟ بھلا عصمت كا احتمال كیو نكر دیا جا سكتا ہے جبكہ خود ہی صحابہ اس بات پر متفق ہیں كہ، صحابی كے اقوال و رفتار كی مخالفت كی جا سكتی ہے ۔ 9

سنت صحابی كی عدم حجیت پر دلیلیں

آیا ت و روایات اور تاریخ كی طرف مرا جعہ كرنے سے پتہ چلتا ہے كہ سنت صحابی كی حجیت مو ضو عی یا طریقی پر بطور مطلق كوئی دلیل نہیں ہے بلكہ عدم حجیت پر بے شمار دلیلیں مو جود ہیں جن میں سے بعض كی طرف اشارہ كیا جاتا ہے۔

الف) آیات

آیات قرآنیہ سے استفادہ ہو تا ہے كہ صحابہ شریعت اسلامی كی مخالفت كیا كرتے تھے۔

1۔: بتحقیق كہ خدا نے اپنا وہ و عدہ جو اس نے تم سے كیا تھا اس و قت پورا كردیا جس و قت تم نے یہ احساس كر لیا كہ ہم غالب آگئے اور حكم خدا سے تم نے كا فروں كو خاك و خون میں غلطاں كردیا اور تم ہمیشہ دشمن پر غالب رہے یہاں تك كہ تم نے جنگ میں سستی دكھائی ۔اختلاف كیا اور حكم رسول كی نا فرمانی كی جبكہ اپنی آرزو ں كو تم پہنچ چكے تھے لیكن كچھ دنیا كے لئے اور كچھ آخرت كے لئے كو شش میں لگے تھے۔ 10

2۔: یقینا جن لو گوں نے جنگ احد میں پشت دكھائی اور واپس بھاگ لئے انھیں شیطان نے ان بد كا ریوں اور نا فرمانیوں كی وجہ سے گمراہ كردیا ہے ۔ 11

3۔: اے ایمان لا نے والو كیوں ایسی باتیں كہتے ہو جس پر عمل نہیں كرتے ؟یہ عمل كے خلا ف كہنے كے خلاف عمل كرو خدا كو بہت سخت غیض و غضب میں لا تا ہے ۔ 12

4۔: اور جس وقت تجارت یا كھیل تما شہ دیكھ لیتے ہیں اسی كی طرف لوٹ پڑتے ہیں اور آپ كو اكیلا كھڑا چھوڑكر چلے جاتے ہیں۔ 13

ب) روایات

اسی طرح روایات سے بھی آشكا ر ہو تا ہے كہ صحابہ صاحب عصمت اور گنا ہوں سے پاك نہیں تھے ۔امام بخاری اپنے سلسلہٴ سند سے ابو حازم سے نقل كرتے ہیں میں نے سہل ابن سعد سے سنا ہے كہ پیغمبر نے فرمایا: میں حو ض كو ثر پر تمہاری راہ دیكھوں گا جو وہاں پہنچ جائے گا آب كو ثر سے سیراب ہو گا اور جو اس سے سیراب ہو جائے گا وہ كبھی تشنہ نہ ہو گا كچھ لوگ میرے پاس آئینگے جن كو میں پہچا نتا ہونگا وہ بھی مجھے پہچا نتے ہو نگے اس كے بعد میرے اور ان كے درمیان حائل آ جائے گا۔میں كہو نگا یہ لو گ میرے ہیں جواب ملے گا اے پیغمبر آ پ نہیں جا نتے كہ كس طرح آپ كے بعد ان لو گوں نے دین كو بد ل ڈالا میں بھی كہو نگا: وائے ہو اس شخص پر جس نے میرے بعد دین كو بدل ڈالا ۔ 14

علامہ تفتازانی فرماتے ہیں كہ: بعض صحابہ حق سے منحرف ہو گئے اور ظلم و فسق میں گرفتار ہو گئے تھے اور اسی كی وجہ ایك دوسرے بغض و حسد و كینہ، لج بازی، ریاست طلبی، شہوات و لذات كی طرف میلان تھا كیو نكہ تمام صحابہ معصوم نہیں تھے نیز جو شخص بھی رسول سے ملا قات كرلے وہ خیرونیكی والا نہیں ہو جاتا مگر علماء اصحاب رسول پر حسن ظن كی وجہ سے صحابہ كے اقوال و اعمال كی تو جیہ و تاویل كرتے آئے ہیں۔ 15

ج) سیرت صحابہ

سیرت صحابہ كی طرف مراجعہ كرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے كہ نہ صرف یہ كہ وہ معصوم ازخطا اور گناہوں سے پاك و پا كیزہ نہیں تھے بلكہ وہ خود بھی صحابہ رسول كی خطا و غلطی كے معترف تھے اسی لئے اہلسنت حضرات بعض صحابہ كے باطل و خلاف شرع اعمال كی حد سے زیادہ جو تو جیہ كر سكتے ہیں وہ یہ ہے كہ وہ لو گ مجتہد تھے اور مجتہد اپنے اجتہاد میں كبھی غلطی بھی كرتا ہے ۔

علا وہ سید محمد تقی حكیم فرماتے ہیں: آپ كے لئے سنت صحابہ كی عدم حجیت پراتنی ہی دلیل كا فی ہے كہ شوریٰ كے دن حضرت علی علیہ السلام كے سامنے سیرت ابو بكر و عمر پیش كی گئی اور امام علی علیہ السلام نے قبول نہیں كیا اور اسی لئے خلافت كو بھی چھوڑ دیا لیكن عثمان نے اسے قبول كركے خلافت پر قبضہ جمالیا جس وقت امام علی علیہ السلام منصب خلا فت پر پہنچے تو آپ نے بھر پور كو شش كی كہ سابق خلفاء كے تمام غیر شرعی كا موں كو جو لو گوں كے درمیان سنت و سیرت بن چكے تھے ختم كردیں اگر چہ ان میں سے بعض میں آپ كامیاب نہ ہو سكے كیو نكہ سابق خلفاء كی سنت نے لو گوں میں بڑا گہرا اثر ڈال دیا تھا۔

سنت صحابہ كی حجیت نہ ماننے كے اسباب و علل

1۔ صحابہ كا وہ مخالف گروہ جس كا صرف ریاست حكو مت اور سلطنت اسلا می پر پہنچنا تھا پیغمبر رحلت كے بعد پہلے سے تیار نقشہ كے تحت اپنے برے اہداف تك پہنچ گیا اور چو نكہ وہ لو گ دینی مرجعیت كو كو ئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے اہلبیت علیہم السلام كے حوالے كردیا لیكن تھوڑی ہی مدت كے بعد انہوں نے احساس كر لیا كہ لو گوں كا اپنے مسائل میں اہلبیت علیہم السلام كی طرف رجو ع كرنا بھی ان كی حكو مت وسلطنت كے ضرر میں ہے كیو نكہ لوگ كہتے ہیں كہ: اگر سنت پیغمبر اور دینی معارف اہل بیت علیہم السلام كے پاس ہے تو آپ لوگ كس كا م كے ہیں؟سیاست و مقام حاكمیت و حكو مت اس كے اہل كے حوالے كیوں نہیں كردیتے ؟ اس لئے ان لوگوں نے سنت صحابہ كی حجیت كا مسئلہ چھیڑا تاكہ صحابہ كی مر جعیت كی تثبیت كے سا تھ اہل بیت علیہم السلام سے لوگوں كو دور كردیں۔

2۔گزرتے زمان كے ساتھ جہاں ایك طرف اسلامی فتو حات كے پھیلاؤ اور جگہ جگہ سے سیكڑوں سوالات كا سلسلہ شروع ہوااور دوسری طرف كتاب وسنت رسول میں محدود منابع استنباط كی وجہ سے انھیں یہ فكر لا حق ہو ئی كہ كسی طرح اس خلاء كو پر كیا جائے اسی لئے سنت و سیرت اہل بیت علیہم السلام كے مقابلہ میں مجبور ہو كر انھوں نے صحابہ كی سنت كو دینی و فقہی معاشرہ كے سا منے ایك منبع ومصدراجتہاد كے طورپر پیش كیا ۔

ادلہٴ اہل سنت كی تحقیق

اہل سنت نے سنت صحابہ كی حجیت پركچھ دلیلیں پیش كی ہیں جنھیں نقل كرنے كے بعد ہم ہر ایك كو نقدو باطل كریںگے۔

الف) آیات

1) اللہ كا ارشاد ہے: مہا جرین و انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے اسلام لانے میں سبقت كی اور وہ لوگ جنھوں نے ان كا نیكی كے ساتھ اتباع كیا ہے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اللہ سے راضی ہیں اور اللہ نے ان كے لئے باغات آمادہ كر ركھے ہیں جن كے نیچے نہر یں جاری ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہی تو عظیم كا میابی ہے۔ 16

ابن قیم جوزیہ كہتے ہیں: اللہ سبحانہ تعالیٰ نے صحابہ كی پیروی كرنے والوں كی مدح كی ہے پس جو كوئی صحابی كے كلام كی صحت و كمزور ی كی پرواہ كئے بغیر اسے قبول كرے اور اسی كی پیروی كرے خدا وند متعال كے نزدیك قابل مد ح و ستا ئش ہے ۔ 17

جواب:

نمبر۱: آیت شریفہ بطور مطلق سبقت كرنے والے صحابہ كی پیروی كو لازم قراردیتی ہے بلكہ خصوصی طور پر ایمان بہ پیغمبر میں سبقت لینے والوں كی پیروی كرنے كے لزوم پر دلالت كرتی ہے در حقیقت لو گوں سے خطاب كیا گیا ہے كہ صحابہ میں سے صرف انھیں لو گوں كے ما نند ہو جائیں جنھوں نے پیغمبر پر ایمان لا نے میں ایك دوسرے پر سبقت لی ہے۔

نمبر ۲: آیت شریفہ كا ذیل، آیت كے صدر كو قید لگا تا ہے كیو نكہ انھیں صحابہ كے بارے میں ارشاد ہو تا ہے جس نے بھی خدا و رسول كی نافرمانی كی وہ كھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا ہے ۔ 18

اس آیت سے استفادہ ہو تا ہے كہ صحابہ كی اطاعت و پیروی اسی حد تك ہے كہ جب تك انھوں نے خدا ورسول كی نا فرمانی نہ كی ہو ورنہ ان كی اطاعت لازم نہیں ہے اور یہ مطلب سنت صحابہ كی مطلق حجیت سے منا فات ركھتا ہے۔

نمبر ۳: آیت شریفہ مد عا سے اخص اور محدود تر ہے كیو نكہ صرف صحابہ میں سے سابقین كے متعلق ہے عموم صحابہ سے آیت كا كوئی تعلق نہیں ہے ۔

2) ارشاد رب العزت ہو تا ہے ان لوگوں كی پیروی كر جو تم سے اجرت طلب نہیں كرتے درحالا نكہ وہ ہدایت یافتہ بھی ہیں۔ 19

ابن قیم كا كہنا ہے ۔لا زم ہے كہ صحابہ میں سے جو بھی اجرت كا طالب نہ ہو اور ہدایت یافتہ بھی ہواس كی پیروی كی جائے 20

جواب:

نمبر ۱: سے مراد انبیا ء و مرسلین ہیں دلیل اسی آیات كا صدر ہے جس میں ارشاد ہو تا ہے اور اس بات میں كسی شك و شبہ كی گنجائش ہے ہی نہیں كہ ہدایت انبیاء عصمت كے سا تھ ہو تی ہے ۔ 21

نمبر ۲: یہ آیت مد عاسے اخص اور محدود ہے اس لئے كہ صرف انھیں صحابہ سے متعلق ہو سكتی ہے جو اجرت بھی طلب نہ كریں اور خود بھی ہدایت یافتہ ہوں۔

نمبر ۳: اللہ تعالیٰ كا ارشاد ہے كہدو كہ حمد وستائش اللہ سے مخصوص ہے اور درود و سلام ہے ان كے نبیوں پر جنھیں اللہ نے منتخب كر لیا ہے ۔ 22

3) ابن عباس كہتے ہیں كہ: آیت كا مقصود اصحاب پیغمبر ہیں كیو نكہ وہی وہ لو گ ہیں جنھیں اللہ نے ہر قسم كے رجس و كدو رت سے پاك صاف ہو بنایا ہے۔ 23

جواب:

نمبر ۱: جناب ابن عباس كی حدیث ثابت نہیں ہے كیو نكہ صحاح ستہ اور دیگر معتبر كتابوں میں سے كسی ایك میں بھی نقل نہیں ہوئی ہے اور اہل حدیث میں سے كسی نے بھی اس حدیث سے تمسك نہیں كیا ہے۔

نمبر ۲: ایك صحابی كے قول سے دوسرے صحابی كے قول كی حجیت ثابت نہیں ہو سكتی كیو نكہ اس سے دور لازم آتا ہے جو باطل ہے۔

نمبر ۳: صحابہ میں اختلاف خود خطا و غلطی سے معصو م و منزہ نہ ہو نے كی دلیل ہے ۔

4) اللہ تعالیٰ كا فرمان ہے تم بہترین امت ہو كہ جنھوں نے لو گوں كو نیكو كاری كا حكم دیااور بد كاریوں سے باز ركھا ہے ۔ 24

شاطبی كہتے ہیں: آیت شریفہ اس امت كی ساری امتوں پر برتری او رفضیلت ثابت كرتی ہے اور اس سے نتیجہ نكلتا ہے كہ اصحاب پیغمبر بہر حال دین میں استقامت و پا ئدار ی ركھتے تھے۔ 25

جواب:

نمبر ۱: آیت شریفہ میں جس نسبی استقامت كا تذكرہ ہے وہ امت اسلامی كے كچھ افراد سے متعلق ہے جو سابقہ امتوں كی بہ نسبت ركھتے ہیں نہ یہ كہ امت اسلامی كے تمام افراد ہر حال میں استقامت و پائداری ركھتے ہیں۔

نمبر ۲: آیت شریفہ برتری بیان كرنے كے مقام میں ہے سنت صحابہ كی حجیت ثابت كرنے كے درپئے نہیں ہے۔

5) اللہ كاا رشاد ہے كہاے ایمان لانے والوخدا سے ڈرو اور سچو ں كے ساتھ ہو جاؤ ۔ 26

ابن قیم كہتے ہیں: سلف كی ایك بڑی جماعت اس بات كی معتقد ہے كہ: صادقین سے مراد كہ جن كی پیروی كرنا لازمی ہے وہی اصحاب پیغمبر ہیں۔ 27

جواب:

صحیح روایات اور متعدد تفاسیر كے مطابق صادقین سے مراد معصو مین ہیں كہ جن كا مصداق سوائے اہلبیت پیغمبر كے اور كوئی نہیں ہے۔ 28

6) ارشاد خداوند متعال ہو تا ہے كہ اور اس طرح ہم نے تمہیں امت و سط قرار دیا تاكہ تم لو گوں كے گواہ اور رسول خدا تمہارے گواہ رہیں۔

علامہ شاطبی كہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مطلق طور پر اس آیت شریفہ میں صحابہ كی عدالت كو ثابت كردیا ہے اور یہ اس بات كی دلیل ہے كہ اصحاب ہر حال میں استقامت و پائداری كے حامل تھے۔ 29

ابو حاتم رازی كا كہنا ہے كہ: اللہ تعالیٰ صحابہ كی ”امت عدل“ كے عنوان تو صیف كی ہے لہٰذا وہ سب كے سب امت كے عدول افراد، ائمہ ہدایت، دین كی حجت اور ناقلین كتاب و سنت ہیں 30

جواب:

نمبر ۱: صرف عدالت ہی عصمت كا باعث نہیں ہے ورنہ لازم آئے گا كہ ہر عادل شخص كی سیرت حجت بن جائے چاہے وہ صحابی نہ بھی ہو اور ظاہر ہے كو ئی بھی اس لزوم كا قائل نہیں ہے ۔

نمبر ۲: اس آیت كا خطاب تمام امت اسلامی سے ہے اور اگر یہ آیت حجیت كی دلیل بن سكتی ہے تو یہ حكم تمام امت پر سرایت كرے گا اور ساری امت كے اقوال و كردار حجت ہو جائیں گے اور كو ئی بھی اس لزوم كو قبول نہیں كرسكتا ہے ۔

7) اللہ تعالیٰ كا ارشاد ہے اور اللہ كی راہ میں جہاد كا حق ادا كردو كہ اس نے تمہیں اپنے دین كے لئے منتخب كیا ہے ۔ 31

ابن قیم كہتے ہیں كہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبردی ہے كہ صحابہ اس كے خاص بر گزیدہ ہیں اور ایسے افراد كی سنت و سیرت حجت ہے۔ 32

جواب:

آیت كی مراد تمام امت یاتمام صحابہ نہیں ہیں بلكہ مجموع امت یا مجمو ع صحابہ ہیں اس واسطے كہ ان كے درمیان لائق اور مطیع خدا و رسول افراد بھی مو جود ہیں نہ كہ وہ لو گ جو كہ روایات اور صریحی آیات كے مطابق معصیت كے مرتكب اور احكام الٰہی كی نا فرمانی كرنے والے تھے۔

ب) روایات

1) ابن قیم جوزیہ كہتے ہیں: صحیح روایت میں پیغمبر خدا سے مروی ہے كہ آپ نے فرمایا: بہترین صدی وہ صدی ہے كہ جس میں میں مبعوث ہواہوں ۔ اس كے بعد وہ لوگ ہیں جو كہ اس صدی كے بعد آئیں گے اور تیسرے مرتبہ میں وہ لو گ ہیں جو اس كے بعد آئیں گے۔

اس كے بعد اس حدیث كی تو جیہ كرتے ہو ئے كہتے ہیں كہ مطلق خیر كا تقاضہ یہ ہے كہ وہ تمام امور خیر میں آگے ہوں اور اس كا نتیجہ یہ ہے كہ ان كی سنت حجت ہے۔ 33

جواب:

نمبر ۱: عمو م خیریت پر حمل كرنا روایت كے متبادر معنی كے خلاف ہے كیو نكہ اگر كوئی یہ كہے كہ زید عمر سے اعلم ہے تو اس كا مطلب یہ نہیں ہو تا كہ زید تمام مسائل میں عمر سے اعلم ہے ۔

نمبر ۲: خیریت، حجیت كی دلیل نہیں ہے اس لئے كہ جس حجیت كی ہم بحث كررہے ہیں یعنی حجیت مو ضوعی صرف عصمت سے سازگار ہے بغیر عصمت كے حجیت بے معنی ہے۔

نمبر ۳: پہلی صدی كی خیریت و بہتری دوسری صدیوں كے مقابلہ میں نسبی ہے نہ مطلق ایسی صورت میں جو لوگ پیغمبر كے زمانے میں تھے وہ دوسری صدیوں كے مقابل نسبتاً بہتر ہو نگے نہ یہ كہ وہ بطور مطلق بہتر ہو نگے۔

2) امام مسلم اپنی صحیح میں اپنے سلسلہ سند سے سعید بن ابی بردہ سے اور وہ اپنے باپ سے نقل كرتے ہیں كہ میں نے نماز مغرب كو رسول خدا (ص)كے ساتھ جماعت میں ادا كیا پھر اس كے بعد سو چنے لگا كہ بہتر ہے میں مسجد ہی میں رہوں تا كہ نماز عشاء كو بھی رسول خدا (ص)كے سا تھ بجالاؤں اسی دوران رسول خدا ہمارے پاس تشریف لا ئے اور فرمایا ابھی تك یہاں بیٹھے ہو ہم نے كہا كہ نماز مغرب آپ كے ہمراہ ادا كرلی ہے ہم چاہتے ہیں كہ نماز عشاء كو بھی آپ كے ساتھ بجا لائیں آنحضرت نے ہماری تعریف كی اور سر آسمان كی طرف بلند كركے فرمایا: ستارے آسمان والوں كے لئے امن ہیں اگر وہ ختم ہو جائیں تو آسمان كا نظام بگڑجائے گا میں بھی اپنے اصحاب كے لئے امان ہوں اگر میں ان كے درمیان سے اٹھ جاؤں تو جو ان سے وعدہ دیا جا چكا ہے ان پر طاری ہو جائے گا اور میرے اصحاب میری امت كے لئے امن ہیں اگر وہ امت كے درمیان سے چلے جائیں تو جو امت كو وعدہ دیا گیا ہے ان پر نازل ہو جائے گا۔ 34

جواب:

نمبر ۱: مذكورہ حدیث كے سلسلہ سند میں ابی بردہ كا وجود حدیث كے ضعیف ہو نے كا باعث ہے كیو نكہ وہ سنگین جرائم كا مرتكب ہو چكا ہے یہی وہ شخص ہے جو بزرگ صحابی جناب حجر بن عدی اور ان كے ساتھیوں كے قتل میں ملو ث تھا اسی نے ان كے خلاف جھو ٹی گواہی دی تھی۔ 35

علامہ ابن ابی الحدید نے ابو بردہ پسر ابو مو سیٰ اشعری كو حضرت علی علیہ السلام سے منحرف لو گوں كے طور پر معرفی كرایا ہے ۔یہی ابو بردہ ہے جس نے ابو غادیہ كا ہاتھ چو ما اور اس كے حق میں دعا كی تھی كہ اس نے عمار یاسر كو قتل كردیا تھا۔ 36

نمبر ۲: مذكورہ بالا حدیث میں یہ آیاہے كہ جب رسول خدا (ص)اصحاب كے درمیان سے رحلت كر جائیں گے تو اصحاب پر عذاب الٰہی آجائے گا اور یہ بات اصحاب كی سنت كی حجت ہو نے سے سازگار نہیں ہے۔

نمبر ۳: پیغمبر كا فرمان اصحاب كی عصمت پر دلالت نہیں كرتا اس لئے كہ اس طرح كے بیان تو بچوں عورتوں اوربو ڑھوں كے سلسلہ میں بھی آن حضرت سے صادر ہو ئے ہیں كہ اگر یہ لو گ” بچے عورتیں اور بوڑھے “نہ ہو تے تو روئے زمین پر عذاب الٰہی آجاتا اور لو گ عذاب سے دو چار ہو جاتے۔

نمبر ۴: پیغمبر كے فرمان كا مقصد یہ ہے كہ میرے اصحاب كے درمیان ایسے لو گ مو جود ہیں كہ جو میری سنت نقل كركے لو گوں پر حجت تمام كردیں گے اور یہ بات اصحاب كی روایت كے سلسلہ میں حجت طریقی ثابت كرتی ہے نہ موضوعی۔

3) بعض نے حدیث ”اہتدا“سے تمسك كیا ہے ابن عباس سے نقل ہو ا ہے كہ پیغمبر نے فرمایا میرے اصحاب ستاروں كے ما نند ہےں جس سے بھی تمسك كرو گے (جس كسی كی بھی پیروی كروگے )ہدایت پا جاؤگے۔

جواب:

نمبر ۱: یہ حدیث سند كے اعتبارسے ضعیف ہے اور اس كے ضعف كی تصریح كرنے والوں میں امام احمد ابن حنبل (۴۵)شافعی كے شاگرد مزنی 37 ابو بكر بزاز 38 ابن قطان 39 دارقطنی40 ابن حزم 41 حافظ بہیقی42 ابن عبد البر43 ابن عساكر 44 ابن جوزی 45 ابو حیان اندلسی46 ابن تیمیہ47 البانی48 شمس الدین ذہبی49 ابن قیم جوزیہ50 ابن حجر عسقلانی 51 جلال الدین سیو طی52 متقی ہندی 53 قاضی شو كانی 54 اور دیگر علماء شامل ہیں ۔

نمبر ۲: یہ حدیث تاریخی بداہت و ضرورت كے اعتبار سے بھی مخالف ہے اس لئے كہ بطور مسلم و قطعی بہت سے صحابہ چاہے زمانہ پیغمبر میں اور چاہے ان كی حیات كے بعد دین میں پائدارنہ تھے اس لئے دوسروںكے لئے منشاٴ ہدایت نہیں بن سكتے۔

نمبر ۳: اس حدیث كے اندر ایسا قرینہ مو جود ہے جو اس كے تما م صحابہ كے اندر ظہور پزیرہونے سے ما نع ہے كیو نكہ صحابہ كو ستاروں سے تشبیہ دی گئی ہے اور ہم جا نتے ہیں كہ سارے ستارے ہدایت كا باعث نہیں ہیں بلكہ كچھ خاص ستارے وہ بھی خاص مو قع و محل كے اوپر لو گوں كی ہدایت كرسكتے ہیں۔

نمبر ۴: صحابہ بعد آیتوں كے سمجھنے میں غلطی پر تھے ۔لہذا لو گوں كے مر جع دینی نہیں بن سكتے ۔امام غزالی كہتے ہیں: جو شخص جائز الخطا ء ہو جس سے غلطی ہو تی ہو اور جس كی عصمت ثابت نہ ہو تی ہو اس كے اقوال حجت نہیں ہیں بھلاكس طرح بغیر كسی دلیل و مدرك كے ان كے حق میں عصمت كا دعویٰ كیا جا سكتا ہے ۔

ابو بكر سے ”كلا لہ“ كے متعلق سوال ہو اتو جواب میں انھوں نے كہا كہ اپنی رائے بتلاتاہوں اگر صحیح ٹھہری تو خدا كی طرف سے ہے اور اگر غلط ٹھہری تو میری اور شیطان كی طرف سے ہے اور خدا و رسول اس سے بیزار ہیں۔۔ 55

قبیلہ جہنیہ كی ایك عورت نے چھٹے مہینہ ایك بچہ جنا ۔اسے عثمان كے پاس لا یا گیا شو ہر نے اس كے خلاف شكایت درج كی كہ عورت نے زنا كیا ہے اور عثمان نے بھی اسے سنگسار كرنے كا حكم دے دیا مو لا علی ابن ابی طالب علیہ السلام كو جب خبر ہوئی تو حضرت نے فرمایا: یہ حكم باطل ہے كیو نكہ آیت 56 اور كے جمع سے یہ حكم اخذ نہیں ہو تا كیو نكہ حمل كی كمترین مدت چھ مہینہ ہے۔

عثمان نے كہا: خدا كی قسم میں نہیں جا نتا تھا پھر حكم دیا كہ عورت كو واپس كردو ۔ لیكن كام تمام جو چكا تھا اور بے چاری مظلوم عورت بے جرم و خطا صرف ایك جاہل خلیفہ كی جہالت و نادانی كی وجہ سے سنگساركردی گئی۔ 57

حدیث كی تطبیق اہل بیت علیہم السلام پر

جناب شیخ صدوق ۺنے حدیث” اھتداء “اپنے سلسلہٴ سند سے حضرت امام محمد باقر علیہ اسلام سے نقل كیا ہے كہ جناب رسول خدا (ص)نے فرمایا: میرے اصحاب تمہارے درمیان ستاروں كے مانند ہیں ان میں سے جسں كسی كی اقتداء كر لو ھدایت پاجاؤ گے جس كسی كی بھی گفتار كو اپنا لو ھدایت یافتہ ہو جاؤ گے میرے اصحاب كا اختلاف تمہارے حق میں رحمت ہے، سوال كیا گیا كہ آپ كے اصحاب كون ہیں، آنحضرت نے فرمایا: میرے اہل بیت (ع) ۔ 58

جناب شیخ صدوق اس حدیث پر اپنے تعلیقہ میں فرماتے ہیں “اہلبیت” ہرگز اختلاف نہیں كرتے اور اپنے شیعوں كے لئے حقیقی حكم صادر كرتے ہیں مگر تقیہ كے باعث ان كے حكم میں اختلاف ہو سكتا ہے اور تقیہ شیعوں كے لئے رحمت ہے ۔ 59

4) ابن قیم جوزیہ، انس بن مالك سے نقل كرتے ہیں كہ ر سول خدا (ص)نے فرمایا میرے اصحاب میری امت كے درمیان كھانے میں نمك كے مانند ہیں اور كھانا بغیر نمك كے بے فائدہ ہے ۔ 60

جواب:

نمبر ۱: یہ حدیث بھی سند كے اعتبار سے ضعیف ہے۔

نمبر ۲: صحابہ كی جانب سے امت كی مصلحت واصلاح پایا جانے كا مطلب ہرگز ان كی عصمت اور اطاعت كے وجوب كے معنی میں نہیں ہے كہ آپ ان كی سنت و سیرت كو حجت قرار دے دیں بلكہ رسول خدا كے تذ كرات ہی كا فی ہیں كہ اتنا تذ كر اصحاب كے حجت طریقی سے ساز گار ہے بس۔

5) ابن مسعود فرماتے ہیں: اصحاب رسول خدا كی پیروی كرو كیو نكہ وہ پاك ترین قلب اور سب سے زیادہ اعمال و ہدایت كے مالك ہیں ۔ 61

جواب:

نمبر ۱: یہ حدیث مصادرہ بہ مطلوب كی حیثیت ركھتی ہے كیو نكہ صحابی كے قول كے ذریعہ قول صحابی كی حجیت ثابت كرنا باطل ہے۔

نمبر ۲: اگر پیروی كرنے سے مراد ہر ہر فرد كی پیروی كرنا ہو تو واقعات خارجی سے ساز گار نہیں ہے اور اگر مراد عام مجموع ہو كہ جن میں اہلبیت رسول بھی شامل ہوں تو اس صورت میں كو ئی اشكال نہیں ہے۔

6) ابن مسعود فرماتے ہیں: اللہ نے تمام انسانوں كے دلوں كا جائزہ لیا تو جناب رسول خدا(ص)كے قلب مبارك كوسب سے بہتر دل پایا پھر حضرت كے بعد دوسرے بندوں كے دلوں كا جائزہ لیا تو اصحاب پیغمبر كے دلوں كو بہتر پایا اس لئے انھیں پیغمبر كی نصرت و یاری كے لئے پیغمبر كا صحابی انتخاب كر لیا لہٰذا جسے مسلمان حسن سمجھے وہ حسن اور جسے قبیح جانیں وہ قبیح ہے ۔ 62

جواب:

نمبر ۱: اس حدیث سے استدلال بھی اس سے پہلے والی حدیث كی طرح مصادر بہ مطلوب ہے۔ 63

نمبر ۲: حدیث زیادہ سے زیادہ صحابہ كے خوش نفس ہو نے پر دلالت كرتی ہے نہ یہ كہ وہ ہر قسم كی خطا و غلطی سے معصوم ہوں۔تاكہ ان كی سیرت حجت بن جائے ۔ 64

نمبر ۳: قرآن مجید سے اس حدیث كا ذیل میل نہیں كھاتا كیو نكہ اللہ تعالیٰ كاارشاد ہے ہو سكتا ہے كہ تم كسی چیز كو نا پسندكرواور وہی تمہارے لئے بہتر ہو اور یہ بھی ہو سكتا ہے كہ تم كچھ چیزوں كو پسند كرو درحالیكہ وہی چیزتمہارے لئے بُری ہو اللہ جا نتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ 65

منبع: شیعہ شناسی و پاسخ بہ شبہات؛ علی اصغر رضوانی، ج 1، ص 345 ۔ 362 ۔ ترجمہ اردو: نور محمد ثالثي

1. اعلام الموقعین، ج۱، ص۷۷.
2. الموافقات، ج۴، ص۴۲.
3. مناہج الاجتہاد فی الاسلام، ص۶۳۶.
4. اعلام الموقعین، ج۱، ص۲۹. ۳۲.
5. منہاج السنة، ج۳، ص۲۰۵.
6. اعلام موقعین، ج۴، ص۱۲۴.
7. الموافقات، ج۴، ص۷۶.
8. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۱۹ و ۱۲۰.
9. المستضعفی، ج۱، ص۲۶۱.
10. آل عمران (۳) آیہ ۱۵۲.
11. ہمان، آیہ ۱۵۵.
12. صف (۱۶۱) آیات ۲ و ۳ .
13. جمعہ (۶۲) آیہ ۱۱.
14. صحیح بخاری، كتاب الفتن .
15. شرح مقاصد، ج۲، ص ۳۰۶. ۳۰۷، مبحث امامت .
16. توبہ (۹) آیہ ۱۰۰.
17. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۲۴.
18. احزاب (۳۳) آیہ ۳۶.
19. یس (۳۶) آیہ ۲۱.
20. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۰.
21. یس (۳۶) آیہ ۱۳.
22. نمل (۲۷) آیہ ۵۹.
23. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۱.
24. آل عمران (۳) آیہ۱۱۰.
25. الموافقات، ج۴، ص۷۴.
26. توبہ (۹)آیہ ۱۱۹.
27. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۲.
28. ر.ك: الغدیر، ج۲، ص۳۰۶.
29. الموافقات، ج۴، ص۷۴.
30. رازی، مقدمہٴ كتاب الجرح و التعدیل .
31. حج (۲۲) آیہ ۷۸.
32. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۴.
33. ہمان، ص۱۳۶.
34. صحیح مسلم، ج۲، ص۲۷۰، اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۷.
35. تاریخ طبری، ج۴، ص۲۰۰.
36. شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص ۹۹.
37. التقریر و التحبیر فی شرح التحریر، ج۳، ص۹۹ .
38. جامع بیان العلم، ج۲، ص۸۹.
39. ہمان، ج۲، ص۹۰.
40. الكامل.
41. لسان المیزان، ج۲، ص۱۳۷.
42. البحر المحیط، ج۲، ص۵۲۸.
43. تخریج احادیث الكشاف در حاشیہٴ كشاف، ج۲، ص۶۲۸.
44. جامع بیان العلم، ج۲، ص۹۰.
45. فیض القدیر، ج۴، ص۷۶.
46. ہمان .
47. بحر المحیط، ج۵، ص۵۲۷.
48. المنتقی، ص۵۵۱.
49. سلسلة الاحادیث الضعیفة، ج۱، ص۷۸.
50. میزان الاعتدال .
51. اعلام الموقعین، ج۲، ص۲۲۳.
52. تخریج احدیث الكشاف، ج۲، ص۶۲۸.
53. جامع الصغیر، ج۴، ص۷۶.
54. كنز العمال، ج۶، ص۱۳۳.
55. ارشاد الفحول، ص۸۳.
56. سنن دارمی ج۲، ص۳۶۵، تفسیر طبری، ج۶، ص۳۰، تفسیر ابن كثیر، ج۱، ص۲۶.
57. احقاف (۴۶) آیہ ۱۵.
58. موطا مالك، ج۲، ص۷۶، سنن الكبری، ج۷، ص۴۴۲، تفسیر ابن كثیر، ج۴، ص۱۵۷، عمدة القاری، ج۹، ص۶۴۲و در المنثور، ج۶، ص۴۰.
59. معانی الاخبار، ص۱۵۶- ۱۵۷.
60. ہمان، ص۱۵۷.
61. الاصول الستۃ عشر، ص۱۶، لسان المیزان، ج۱، ص۱۳۶.
62. اعلام الموقعین، ج۴، ص۱۳۷.
63. ہمان، ص۱۳۹.
64. ہمان، ص۱۳۸.
65. بقرہ (۲) آیہ ۲۱۶.

http://shiastudies.com/ur/528/%d9%83%db%8c%d9%88%da%ba-%d8%b4%db%8c%d8%b9%db%81-%d9%84%d9%88%da%af-%d8%b3%d9%86%d8%aa-%d8%b5%d8%ad%d8%a7%d8%a8%db%81-%d8%ad%d8%ac%d8%aa-%d9%86%db%81%db%8c%da%ba-%d9%85%d8%a7%d9%86%d8%aa%db%92%d8%9f/

تبصرے
Loading...