خاک پر سجدہ کی اہمیت

خاک پر سجدہ کی اہمیت

 
 
 

۱۔ عبادت میں سجدہ کی اہمیت
سجدہ اسلام کی نظر سے عبادت کا ایک مہم ترین جزء یا مہم ترین عبادتوں میں سے ہے ، جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان سجدہ کی حالت میں اپنے پروردگار سے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہوتا ہے اسی وجہ سے آنحضرت ۖ اور ائمہ اطہار علیہم السلام طولانی سجدہ کیا کرتے تھے ۔
پروردگار کے لئے طولانی سجدہ انسان کی روح و جان کو متعالی بناتاہے اس لئے کہ سجدہ بارگاہ خداوندی میں خضو ع اور عبودیت کی نشانی ہے ، اسی وجہ سے نماز کی ہررکعت میں دو سجدوں کا حکم دیا گیا ہے ، سجدہ شکر اور قرآن کے مستحب اور واجب سجدے ، سجدہ خالق کے واضح مصادیق میں سے ہیں۔
انسان سجدہ کی حالت میں خد اکے سوا ہر چیز کو بھول جاتا ہے اور اپنے آپ کو حق سے نہایت نزدیک پاتا ہے لہذا اس کی بساط قرب پر جلوہ افروز ہوجاتا ہے ۔
سیرو سلوک اور عرفان کے اساتید اور اخلاق کے معلمین نے سجدہ کی بڑی تاکید کی ہے جو معروف حدیث کی بہترین دلیل ہے کہ سجدہ سے زیادہ کوئی بھی چیز شیطان کو ناراحت نہیں کرتی اور ایک دوسری حدیث میں وارد ہو اہے کہ آنحضرت ۖ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: اگر تم قیامت میں میرے ساتھ محشور ہونا چاہتے ہو تو پھر خدائے قہا ر کے لئے طولانی سجدہ کرو ،’ واذا اردت ان یحشرک اللہ معی یوم القیامة فاطل السجود بین یدی اللہ الواحد القہار’۔ ١
٢۔ غیر خدا کے لئے سجدہ جائز نہیں ہے
ہم معتقد ہیں کہ خدا کے علاوہ کسی غیر کا سجدہ جائز نہیں ہے اسلئے سجدہ نہایت خضوع اور عبادت کا واضح مصداق ہے اور عبودیت صرف اور صرف خدا سے مخصوص ہے۔
آیت ( وللہ یسجد من فی السماوات والارض) ٢ کی تعبیر میں اللہ شروع میں آیا ہے جو حصر پر دلالت کررہا ہے یعنی جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ سب کے سب اللہ کا سجدہ کرتے ہیں !
اسی طرح ( لہ یسجدون) ٣ اس مدعا کی بہترین دلیل ہے کہ سجدہ صرف خدا سے مخصوص ہے۔
اصولاً سجدہ خضوع کا آخری درجہ ہے جو صرف خدا سے مخصوص ہے لہذا اگر ہم نے غیر خدا کسی شخص یا چیز کا سجدہ کیا تو اسے ہم نے خدا کے برابر قراردیا ہے جو درست نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک توحیدکا ایک معنی ‘ توحید میں عبادت’ کے بھی ہیںیعنی پرستش خدا سے مخصوص ہے کہ جس کے بغیر توحید کامل نہیں ہوسکتی یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق : غیر خدا کی پرستش شرک کی ایک قسم ہے اور سجدہ ایک قسم کی پرستش ہے لہذا غیر خدا کے لئے سجدہ جائز نہیں ہے ۔
لیکن فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا کہ جس کا تذکرہ قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے : یہ سجدہ یا تو جناب آدم کی تعظیم کے لئے تھانہ کہ پرستش کے لئے تھا جسے ہم شعر میں کہتے ہیں :
زیبندہ ستائش آن آفریدگاری است
کارد چنین دل آویز نقشی زماء و طینی
یا یہ سجدہ چونکہ خدا کے فرمان سے تھا لہذا حقیقت میں خدا کی عبودیت تھی یا پھر خدا کا سجدہ شکر تھا ۔
یا قرآن کے ایک دوسرے مقام پر جناب یوسف کے بھائیوں کاآپ کو سجدہ کرنے کی گواہی موجود ہے ( وخروالہ سجدا) ۴ یا تو یہ خدا کے لئے سجدہ شکر تھایا ایک قسم کی تعظیم و تکریم تھی ۔
بلکہ ہماری مشہور روائی کتاب ‘ وسائل الشیعہ ‘ میں ایک مستقل باب ‘ عدم جواز السجود لغیر اللہ ‘ کے عنوان کے تحت آیا ہے جس مین پیغمبرۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے سات حدیثوں کو ذکر کیا گیا ہے کہ غیر خدا کے لئے سجدہ جائز نہیں ہے ۔ ۵
یہ نکتہ یاد رہے اس لئے کہ ہمیں اس بحث سے آئندہ بحثوں میں نتیجہ لینا ہے۔
٣۔کن چیزوں پر سجدہ کرنا چاہئے؟
مکتب اہلبیت کے ماننے والو ں کا عقیدہ ہے کہ زمین کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ نہیں ہوسکتا ، اگرچہ زمین سے اگنے والی چیزوں پر بھی سجدہ جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کھانے اور پہننے والی چیزوں سے نہ ہوجیسے پتے ، درختوں کی لکڑیا ِں اور بوریا وغیرہ۔
حالانکہ اہلسنت کے فقہاء کا عقیدہ ہے کہ ہر چیز پر سجدہ کیا جاسکتا ہے البتہ بعض اہلسنت کے فقہاء آستین یا عمامہ کے کسی گوشہ پر سجدہ کو جائز نہیں سمجھتے ۔
اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والے پیغمبر ۖ ، ائمہ اطہار اور صحابہ سے نقل ہونے والی روایتوں کی وجہ سے اپنے عقیدہ میں مستحکم ہیں ، اسی وجہ سے وہ مسجد النبی اور مسجد الحرام میں فرش پر سجدہ نہیں کرتے بلکہ وہ یا تو پتھر پر یا چٹائی پر سجدہ کرتے ہیں ۔
ایران اور عراق کی شیعہ مسجدوں میں چونکہ فرش بچھا ہوتاہے لہذا سجدہ کرنے کے لئے مٹی کا ٹکڑا ( سجدہ گاہ ) ہوتا ہے جس پر وہ سجدہ کرتے ہیں تاکہ پیشانی جو انسانی اعضاء کا شریف ترین عضو ہے ،وہ بارگاہ معبود میں خاک پر رہے اور نہایت تواضع کا اظہار ہوسکے ، سجدہ گاہ کبھی شہیدوں کی مٹی سے بنتی ہے کہ جنہوںنے راہ خدا میں قربانی دی ہے لہذا اس سلسلہ میں کربلا کے شہیدوں کے قبروں کی خاک کو تمام خاکوں پر ترجیح دی جاتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ مٹی پر سجدہ کرتے ہیں بلکہ مسجدوں میں لگے پتھروں پر سجدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود مسجد الحرام اور مسجد النبی میں پتھر بچھے ہوئے ہیں۔( غورکریں)
بہرحال مکتب اہلبیت کے چاہنے والوں کے پاس زمین پر سجدہ کرنے کے بے شمار دلائل ہیں ، جن میں پیغمبر ۖ ، ائمہ اطہار اور اصحاب کی متعدد روایات ہیں جنہیں ہم آئندہ بیان کریں گے ۔
لیکن ہمیں اس وقت بہت تعجب ہوتا ہے کہ جب اہل سنت کے بعض فقہاء فتووں کے متعلق ہمارے فتووں کے خلاف محاذ آرائی کرتے ہیں اور اسے بدعت یا بت پرستی کا نام دیتے ہیں ۔
کیا اگر ہم خود انہیں کی کتابوں سے اس بات کو ثابت کردیں کہ خود آنحضرتۖ اور آپ کے اصحاب زمین پر سجدہ کیا کرتے تھے توپھر بھی ہمارا عمل بدعت کہا جائے گا ؟!
اور اگر ہم اس بات کو ثابت کردیں کہ آنحضرتۖ کے بعض اصحاب جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری چلچلاتی ہوئی دھوپ میں ریگ کے گرم ہوجانے کی وجہ سے ایک مٹھی میں لے کر اسے ٹھنڈا کرتے اور پھر اس پر سجدہ کیا کرتے تھے ۔ ۶ توکیا جابر ابن عبد اللہ بت پرست یا بدعت گذارتھے ؟! کیا وہ شخص جو چٹائی پر سجدہ کرتا ہے یا مسجد الحرام اور مسجد النبی میں پتھر پر سجدہ کرنے کو ترجیح دیتا ہے ، تو کیا وہ چٹائی کی عبادت کرتا ہے یا مسجد کے پتھروں کی پرستش کرتا ہے؟
کیا ان لوگوں کا وظیفہ نہیں ہے کہ وہ فتوا دینے سے پہلے ہماری ہزاروں فقہی کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کا مطالعہ کریں تاکہ کسی پر ناروا نسبت دینے سے بچے رہیں ؟
شیعوں کا زمین پر سجدہ کرنے کا سبب معلوم کرنے کے لئے صرف کافی ہے کہ آپ امام صادق کی روایت کا مطالعہ کریں: جناب ہشام بن حکم جو آپ کے عظیم صحابیوں میں سے ہیں ، امام سے سوال کرتے ہیں کہ کن چیزوں پر سجدہ کیا جاسکتا ہے اور کن چیزوں پر سجدہ نہیں کیا جاسکتا ؟ امام نے جواب میں فرمایا:’ السجود لا یجوز الا علی الارض اوماانبتت الارض الا ما اکل اولبس’ ؛ سجدہ جائز نہیں ہے مگر زمین پر یا ان چیزوں پر جو زمین سے اگتی ہیں سوائے کھانے اور پہننے والی چیزوں کے ۔
جناب ہشام کہتے ہیں : میں دوبارہ سوال کیا کہ اس کی حکمت کیا ہے ؟
حضرت نے فرمایا:’ لان السجود ھو الخضوع للہ عز و جل فلا ینبغی ان یکون علی ما یوکل ویلبس لان ابناء الدنیا عبید ما یاکلون و یلبسون والساجد فی سجودہ فی عبادة اللہ فلا ینبغی ای یضع جبھتہ فی سجودہ علی معبود ابناء الدنیا اغتروا بغرورھا ‘ ؛اس لئے کہ سجدہ خدواند متعال کے لئے خضوع کا نام ہے لہذا کھانے اور پہننے والی چیزوں پر سجدہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ دنیا کی پرستش کرنے والے کھانے اور پہننے والی چیزوں کے بندے ہیں ،پس جو سجدہ کرتا ہے وہ سجدہ کی حالت میں خدا کی عبادت میں مشغول ہے لہذا بہتر نہیں ہے کہ وہ اپنی پیشانی کو ایسی چیز پر رکھے جو دنیا کی پرستش کرنے والوں کا معبود ہے جو دنیا کے زرق و برق پر فریفتہ ہیں ۔
اس کے بعد امام فرماتے ہیں : ‘ والسجود علی الارض افضل لانہ ابلغ للمتواضع والخضوع للہ عزوجل ‘؛ سجدہ زمین پر افضل ہے اس لئے کہ یہ خد ا کے سامنے تواضع اور خضوع کو بہتر پیش کرتا ہے ۔ ۷
٤۔ مدرک
ہمارے مدعا کے متعدد مدارک ہیں کہ جن میںسے سب سے پہلا مدرک آنحضرت ۖ کا نورانی کلام ہے ۔
الف: زمین پر سجدہ کے متعلق آنحضرت ۖ کا کلام
اس حدیث کو شیعہ اور سنی راویوں نے نقل کیا ہے کہ جس میں آنحضرت ۖ فرماتے ہیں: ‘ جعلت الارض مسجدا و طھورا’ ؛ زمین کو میرے لئے سجدہ اور طہارت کرنے کی جگہ قراردی گئی ہے ۔ ۸
اس حدیث سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ پوری زمین خد اکی عبادت کے لئے ہے لہذا خدا کی عبادت کسی خاص مقام سے مخصوص نہیں ہے جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا خیال ہے کہ خدا کی عبادت صرف کلیسا اور کنیسہ میں ہوسکتی ہے۔
لیکن یہ تفسیر حدیث کے واقعی معنا سے سازگار نہیں ہے اس لئے کہ پیغمبر ۖ نے فرمایاہے : زمین پاک کرنے والی بھی اور مسجد بھی ہے ‘ اور ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو چیز طہور ہوتی ہے اور اس پر تیمم کیا جاسکتا ہے وہ خاک اور پتھر ہیں لہذا وہ اس حدیث میں سجدگاہ سے مراد صرف خاک اور پتھر ہونا چاہئے ۔
اس لئے کہ جس معناکو اہلسنت کے بیشتر فقہاء نے بیان کیا ہے اس کے مطابق آنحضرت ۖ کو اس طرح بیان کرنا چاہئے : ‘ جعلت لی الارض مسجدا و ترابا طھورا’ ؛ پوری زمین میرے لئے مسجد ہے اور اس کی خاک میرے لئے طہارت اور تیمم کا ذریعہ ہے ۔ لیکن آنحضرت ۖ نے اس طرح نہیں فرمایا۔
لہذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس حدیث میں مسجد سے مراد سجدہگاہ ہے اور سجدہ گاہ کو ایسی چیز ہونا چاہئے جس پر سجدہ کیا جاسکے۔
پس اگر شیعہ زمین پر سجدہ کرتے ہیں اور فرش وغیرہ پر سجدہ کو صحیح نہیں سمجھتے تو انھوںنے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے اس لئے کہ انھوںنے آنحضرت ۖ کی حدیث پر عمل کیا ہے ۔
ب:پیغمبرۖ کی سیرت
متعدد روایات کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ خود آنحضرتۖ بھی زمین پر سجدہ کیا کرتے تھے ۔
ابوہریرہ سے مروی ایک روایت میں وارد ہوا ہے : ‘ سجد رسول اللہ فی یوم مطیر حتی انی لانظر الی اثر ذلک فی جبھتہ ارنبتہ ‘ میں رسول اللہ ۖ کو دیکھا کہ آپ ۖبارش کے دوران زمین پر سجدہ کررہے ہیں کہ جس کا اثر آپ کی پیشانی اور ناک پر ظاہر ہے ۔ ۹
سجدہ اگر فرش اور کپڑے پر جائز ہوتا تو پھر بارش کے دوران زمین پر سجدہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔
عائشہ سے مروی ایک روایت میں وارد ہوا ہے : ‘ مارایت رسول اللہ متقیا وجھہ بشی’؛ میں نے کبھی بھی آنحضرت ۖ کو نہیں دیکھا کہ آپ ۖ نے سجدہ کے دوران اپنی پیشانی کو چھپالیا ہو۔ ۱۰
ابن حجر اس حدیث کے سلسلہ میں فرماتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ میں پیشانی کو زمین پر ہونا چاہئے لیکن مجبوری میں واجب نہیں ہے ۔ ۱۱
ام المومنین میمونہ سے روایت میں وارد ہوا ہے : ‘ و رسول اللہ یصلی علی الخمرة فیسجد’ ؛ آنحضرت ۖ چٹائی پر نماز پڑھتے اور اسی پر سجدہ کرتے تھے ۔ ۱۲
اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ آنحضرت ۖ اسی چٹائی پر سجدہ کیا کرتے تھے ، اس کے علاوہ اہلسنت کی مشہور کتابوں میں آیا ہے کہ آنحضرت ۖ ‘خمرہ’ ٣پر سجدہ کیا کرتے تھے
لیکن عجیب تو یہ ہے کہ جب شیعہ لوگ آنحضرت ۖ کی پیروی کرتے ہوئے نماز کے دوران اپنی پیشانیوںکے نیچے چٹائی وغیرہ رکھ لیتے ہیں توان پر بعض متعصب حضرات بدعت کی تہمت لگاتے ہیں حالانکہ یہ پیغمبر ۖ کی سنت ہے ۔
٤۔خمرہ ایک چھوٹی چٹائی اور مصلے کو کہتے ہیں جسے کھجور کے پتھوں سے بنایاجاتا ہے
سنتوں کو بدعت کہا جانا کیا ہی دردناک ہے !
مسجد الحرام میں جو کچھ میرے اوپر گذری ہے اسے میں کبھی بھی بھول نہیں سکتا ، جیسے ہی میں نے نماز کے لئے چٹائی بچھائی تو ایک وہابی عالم دین آیا اور چٹائی کو لے کر ایک کونے میں پھینک دیا ، یقینااس کی نظر میں یہ سنت ، بدعت تھی !
ج: صحابہ اور تابعین کی سیرت
ہم جب اصحاب رسول ۖ اور تابعین کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بھی زمین ہی پر سجدہ کیا کرتے تھے بعنوان نمونہ ملاحظہ کریں :
١۔ جناب جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں : ‘ کنت اصلی مع النبی الظھر فآخذ قبضة من الحصی فاجعلھافی کفی ثم احولھا الی الکف الاخری حتی تبرد ثم اضعھا لجبینی حتی اسجد علیہا من شدةالحر’ ؛ میںجب بھی آنحضرتۖ کے ساتھ نماز ادا کرتا تھا تو دھوپ کی شدت کی وجہ سے چند سنگریزوں کو ہاتھوں میں لے کر ٹھنڈا کرتااور پھر اس پر سجدہ کرتا تھا ۔ ۱۳
اس حدیث سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اصحاب زمین پر سجدہ کرنے میں مقید تھے یہاں تک کہ وہ چلچلاتی دھوپ کے باوجود زمین پر سجدہ کرنے کے لئے راہ چارہ تلاش کرتے تھے پس اگر زمین پر سجدہ کرنا ضروری نہیں تھا تو پھر اتنی زحمت برداشت کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ ۔
٢۔ انس بن مالک کی روایت میں وارد ہوا ہے : ‘ کنا مع رسول اللہ ۖ فی شدة الحر فیاخذ احدنا الحصباء فی یدہ فاذا برد وضعہ وسجد علیہ’؛ ایک مرتبہ ہم لوگ کڑی دھوپ میں آنحضرت ۖ کے ہمراہ تھے تو ہم میں سے ایک شخص نے چند سنگریزوں کو ہاتھوں میں لے کر ٹھنڈا کیا اور پھرزمین پر رکھ کراس پر سجدہ کیا ۔ ۱۴
انس بن مالک کی اس تعبیر سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ کام اصحاب کے درمیان رائج تھا
٣۔ابو عبیدہ نقل کرتے ہیں: ‘ ان ابن مسعود لا یسجد ۔ او قال لایصلی۔ الا علی الارض ‘؛ ابن مسعود سجدہ نہیں کرتے تھے مگر زمین پر یا کہا کہنماز نہیں پڑھتے تھے مگر زمین پر ۔ ۱۵
اگر زمین سے مراد فرش ہوتا تو پھر اسے کہنے کی ضرورت نہیں تھی لہذا یہاں پر زمین سے مراد خا ک ،پتھراور ریت وغیرہ ہیں ۔
٤۔ابن مسعود کے دوستوں میں مسروق بن اجدع کے حالات میں نقل ہوا ہے کہ ‘ کان لایرخص فی السجود علی غیر الارض حتی فی السفینة وکان یحمل فی السفینة شیئا یسجد علیہ ‘؛ وہ کسی کو زمین کے سوا کسی دوسری چیز پر سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ جب کشتی کا سفر درپیش ہوتا تو اپنے ساتھ کوئی چیز لے جاتے تھے اور اس پر سجدہ کرتے تھے ۔ ۱۶
٥۔جناب علی ابن عبد اللہ بن عباس نے رزین کو لکھا کہ ‘ ابعث الی بلوح من احجار المروة علیہ اسجد’؛ میرے لئے مروہ کا ایک ٹکڑا بھیجو تاکہ میں اس پر سجدہ کرسکوں ۔ ۱۷
٦۔ایک دوسری روایت میں فتح الباری ( شرح صحیح بخاری ) کی نقل کے مطابق آیا ہے ‘ کان عمر ابن عبد العزیز لایکتفی بالخمرة بل یضع علیہا التراب ویسجد علیہ ‘ ؛ عمر ابن عبد العزیز سجدہ کے لئے چٹائی پر اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر تھوڑی سی خاک رکھتے اور پھر سجدہ کرتے تھے۔۱۸
ان تمام روایات کا مفہوم کیا ہوسکتا ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صدر اسلام میںاصحاب اور تابعین زمین یعنی خاک ، پتھر وغیرہ پر سجدہ کیا کرتے تھے ؟
اب اگر کوئی اس دور میں اسی سنت کو زندہ کرنا چاہے تو کیا اس کے اس عمل کو بدعت کہنا صحیح ہے ؟!
کیا اہلسنت کے فقہاء کا فریضہ نہیںہے کہ وہ اس سنت کو زندہ کرنے کے لئے پیشقدم ہوں جو خدا کی بارگاہ میں نہایت خضو ع کی علامت ہے اور سجدہ کی حقیقت سے سازگار بھی ہے ۔
حوالہ جات
١۔سفینة البحار ، مادہ سجود
٢۔رعد ١٥
٣۔اعراف ٢٠٦
۴۔ یوسف ١٠٠
۵۔وسائل الشیعہ ج ٤ ص ٩٨
۶۔ مسند احمد ج ٣ ص ٣٢٧، سنن بیہقی ، ج ١ ص ٢٣٩
۷۔ علل الشرائع ،ج ٢ ،ص ٣٤١
۸۔ صحیح بخاری ج ١ ، ص ٩١ ، سنن بیہقی ج ٢، ص ٤٣٣
۹۔مجمع الزوائد ،ج ٢ ص ١٢٦
۱۰۔ مصنف ابن ابی شبیہ ، ج ١، ص ٣٩٧
۱۱۔فتح الباری ج ١، ص ٤٠٤
۱۲۔ مسند احمد ج ٦ ص ٣٣١
۱۳۔مسند احمد ج ٣ ، ص ٣٢٧ ، سنن بیقہی ج ١ ص ٤٣٩
۱۴۔ السنن الکبری بیہقی، ج ٢ ، ص ١٠٦
۱۵۔ مصنف ابن ابی شیبہ ، ج ١ ص ٣٩٧
۱۶۔طبقات الکبری، ابن سعد ،ج ٦ ،ص ٥٣
۱۷۔اخبار مکہ ازرقی ج٢، ص ١٥١
۱۸۔فتح الباری ج ١ ص ٤١٠

http://shiastudies.com/ur/547/%d8%ae%d8%a7%da%a9-%d9%be%d8%b1-%d8%b3%d8%ac%d8%af%db%81-%da%a9%db%8c-%d8%a7%db%81%d9%85%db%8c%d8%aa/

تبصرے
Loading...