انسان اسی جگہ دفن ہو تا ہے جس مٹی سے اسے خلق كیا گیا ہے، اس كا كیا مطلب ہے ؟

انسان اسی جگہ دفن ہو تا ہے جس مٹی سے اسے خلق كیا گیا ہے، اس كا كیا مطلب ہے ؟

جواب
اولاً یہ كہ سوال كرنے والے نے ہما رے اوپر جس حدیث كے ذریعہ احتجاج كیا ہے اس كو خود ان كے علما ء نے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ بھی كہاہے كہ یہ حد یث گڑھی ہو ئی ہے ۔
ہیثمی نے مجمع الزوائد پر ایك باب قا ئم كیا ہے جس كا عنوان ہے (باب یدفن فی التربۃ التی منھا خلق) یہ باب اس بارے میں ہے كہ انسان جس مٹی سے خلق كیاجا تا ہے اسی مٹی میں دفن كیا جا تا ہے اس سے متعلق تین حدیثیں بیان كر نے كے بعد ان كوانھوں نے ضعیف قرار دیاہے 1

پہلی حدیث

ابو سعید سے مر وی ہے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مدینہ سے گز رے تو آپ نے دیكھا كہ كچھ لوگ قبر كھود رہے ہیں آپ نے ان سے اس قبر كے متعلق سوال كیا تو انھو ں نے جواب دیا كہ ایك حبشی كا انتقال ہو گیاہے تو نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فر مایا: لا الٰہ الا اللہ اپنی سر زمین سے اسی مٹی كی طرف لایا گیا جس سے اس كو پیدا گیا تھا۔
اسی روایت كو بزار نے نقل كیا ہے لیكن اس كے را ویوں میں علی بن مد ینی كے والد ہیں جو ضعیف ہیں
دوسری حدیث
ابو درداء سے مر وی ہے كہ ایك مرتبہ ہما رے پاس سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم گزرے اس وقت ہم ایك قبر كھو دنے میں مشغول تھے آنحضرت نے فر مایا كہ تم لوگ كیا كر رہے ہو؟ ہم نے كہا كہ اس غلام كے لئے قبر كھو د رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: اس كو موت اسی مٹی میں لے آئی جس سے وہ خلق كیاگیاتھا ۔
ابو اسامہ نے كہا ہے كہ اے اہل كو فہ كیا تمہیں معلوم ہے كہ میں نے تمہا رے سا منے یہ حدیث كیوں بیان كی ہے كیو نكہ ابو بكر اور عمر تر بت رسول اكر م صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے خلق كئے گئے ہیں
اسی روایت كو طبرانی نے اوسط میں بیان كیا ہے اور اس میں احوص بن حكیم كو عجلی نے ثقہ كہا ہے جبكہ مستندمحدثین نے اس كو ضعیف قرار دیا ہے ۔
ابن عمر سے مر وی ہے كہ ایك حبشی مد ینہ میں دفن كیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فر مایاكہ یہ اسی مٹی میں دفن كیا گیاہے جس سے اس كو خلق كیا گیا تھا ۔اسی روایت كو طبرا نی نے معجم كبیر میں نقل كیا ہے اور اس میں عبد اللہ بن عیسیٰ خزاز ہے جو ضعیف ہے 2

ابن حزم كتاب المحلیٰ پر رقمطراز ہیں:
بعض لوگ گڑھی ہو ئی روا یات سے احتجاج كرتے ہیں اس پر ان كو متنبہ كرنا وا جب ہے كہ ان ہی میں سے ایك روایت یہ ہے جس كو ہم نے رو ا یت كیا ہے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ایك میت كو دیكھ كر فر مایا:” یہ اسی خا ك میں دفن كیا گیا ہے جس خا ك سے اسے پیدا كیا گیا تھا” 3
اس سے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ كیا ہے كہ:
“پیغمبر اكرم مدینہ میں دفن كئے گئے لہٰذا اسی مٹی سے آپ خلق كئے گئے تھے اور چونكہ پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم دنیا كی ہر مخلوق سے افضل تھے لہٰذا زمین كاوہ حصہ دنیا كا سب سے افضل حصہ ہے۔
یہ روا یت گڑھی ہو ئی ہے كیو نكہ اس كی ایك سند میں محمد بن حسن بن زبا لہ ہے جو بالكل ناقابل اعتبارہے اس كے با رے میں یحییٰ بن معین نے كہا ہے كہ یہ ثقہ نہیں ہے اور علماء اس كے مترو ك ہونے پر متفق ہیں ۔پھر اسی روایت كو انیس بن یحییٰ نے مر سل طریقہ سے نقل كیا ہے اور یہ كہا ہے كہ ہم كو نہیں معلوم یہ انیس بن یحییٰ كو ن ہے۔
دو سری روایت كو ابو خا لد نے بھی نقل كیا ہے لیكن وہ خودمجہو ل الحال ہے اس لئے كہ اس نے یحییٰ بكاء سے نقل كیا ہے اور وہ ضعیف ہے ۔
بالفرض اگر اس روایت كو صحیح تسلیم كرلیں تو یہ فضیلت صرف پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كی قبر مبا رك كوہی حاصل ہوگی ورنہ اس سر زمین كے آس پاس تو اور دو سرے منافقین بھی دفن كئے گئے ہیں اسی طرح شا م میں جناب ابراہیم علیہ السلام، اسحق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، مو سیٰ علیہ السلام، ہا رون علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام اور دا ود علیہ السلام وغیرہ دفن ہیں لیكن كو ئی بھی مسلمان یہ نہیں كہتا كہ شام مكہ سے زیادہ افضل ہے ۔
شو كانی نے نیل الاوطار پر تحریركیا ہے كہ قا ضی عیاض نے كہا ہے كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كی قبر مبا رك زمین كی سب سے افضل جگہ ہے اور مكہ اور مدینہ زمین كے سب سے افضل حصے ہیں لیكن اس میں اختلاف ہے كہ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كے علا وہ ان دونوں شہروں میں كون افضل ہے چنا نچہ اہل مكہ، اہل كو فہ، شافعی، ابن وہب مالكی اور ابن حبیب مالكی نے كہا ہے كہ مكہ افضل ہے اور اسی طرف جمہور كا بھی میلان ہے اور عمر اور بعض صحابہ، مالك اور اكثر اہل مدینہ نے كہا ہے كہ مدینہ افضل ہے ۔ 4

پہلے نظریہ كے طرفداروں نے عبد اللہ بن عدی كی مذ كو رہ حدیث سے استدلال كیا ہے جس كو ابن خزیمہ نے اور ابن حبان وغیرہ نے بھی نقل كیا ہے۔

ابن عبد البر نے كہا ہے كہ اس اختلافی مسئلہ میں یہ روایت ہمارے مدعا پر واضح دلیل ہے لہٰذا اس سے عدول كر نا صحیح نہیں ہے لیكن اس كے مقابل قا ضی عیا ض نے كہا ہے كہ جس سر زمین پر پیغمبر اكرم دفن كئے گئے ہیں وہ زمین كا سب سے افضل حصہ ہے كیونكہ روایت میں آیا ہے كہ انسان اسی مٹی میں دفن ہو تا ہے جہا ں سے اس كی خلقت كے وقت مٹی لی گئی تھی ۔ اس روایت كو ابن عبد البر نے اپنی تمہید میں عطا خراسانی كی مو قو ف سند سے نقل كیا ہے ۔
اس كا جواب یہ دیا گیا ہے : جس مٹی سے آنحضر ت كی تخلیق ہوئی تھی اس كی افضلیت كا اثبات استنباط كے ذریعہ كیاگیا ہے اور اس كو نص صریح اور صحیح روایت كے مقا بلہ میں پیش كر نا منا سب نہیں ہے ۔
اس كے علاوہ یہ بات اس روایت كے خلاف ہے جس كو زبیر بن بكار نے نقل كیا ہے كہ:
“جبریل امین نے اس مٹی كو جس سے پیغمبر اكرم كو خلق كیا گیا تھا خا نہ كعبہ سے اٹھایاتھا لہٰذا جس مٹی سے آپ كی تخلیق ہو ئی ہے وہ كعبہ كی سر زمین ہے”۔
یہ صحیح روایت اپنی معارض روایت سے ہر اعتبار سے بہتر ہے كیونكہ اس معارض روایت كی سند میں عطا ء خراسانی ہے البتہ اگر اجماع والی قاضی عیاض كی بات صحیح ثابت ہو جا ئے تو وہ صرف انھیں كے لئے معتبر ہو گی جو اجماع كو حجت مانتے ہیں ۔
اور مدینہ كو افضل قرار دینے وا لوں نے چند دلیلیں دی ہیں جن میں سے ایك دلیل یہ حدیث ہے كہ (مابین قبری ومنبری روضۃ من ریاض الجنۃ)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فر مایا كہ میری قبر اور میرے منبر كے در میان جنت كے با غو ں میں سے ایك باغ ہے جیسا كہ صحیح بخا ری وغیرہ میں اس كو نقل كیا گیا ہے اور اس كے ساتھ ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كا یہ قول بھی ہے: (موضع سوط فی الجنۃ خیر من الدنیا و ما فیھا)
لیكن اس كے ذریعہ بھی مدینہ كی افضلیت ثابت نہیں كی جا سكتی ہے چونكہ اس حدیث میں مكہ اور مدینہ كی تمام زمینوں پر افضلیت كو واضح طور پر بیان كیا گیاہے اس كے علاوہ دونوں مذكورہ احادیث اس صحیح حدیث كی معارض نہیں ہو سكتیں كیونكہ یہ صرف مدینہ كے مخصوص حصہ كی فضیلت كوبیان كر رہی ہے جس سے كوئی انكار نہیں كر سكتا لیكن اس میں مدینہ كی مكہ پر افضلیت كے اثبات میں كوئی دلیل نہیں ہے ۔
ابن حزم نے اس حدیث كا یہ جواب دیا ہے كہ اس سے جنت مجازی مراد ہے كیو نكہ واقعاً اگر اس سے جنت كا ٹكڑا مراد ہو تا تو پھر اس میں وہ اوصاف جنت بھی پا ئے جا تے جو خدا وند عالم نے بیان كئے ہیں ۔جیسے:
(اِنَّ لَكَ اَلا تَجُوعَ وَلَا تَعْریٰ )۔ 5

بیشك یہاں جنت میں تمہارا فائدہ یہ ہے كہ نہ بھو كے رہو گے نہ بر ہنہ رہو گے۔
بلكہ اس سے مرا د یہ ہے كہ اس میں نماز پڑھنا جنت میں نمازپڑھنے كے مانند ہے جیسا كہ نیك دنو ں كے با رے میں كہا جا تا ہے كہ یہ جنت كے ایام ہیں اورآنحضرت كابھی فر مان ہے كہ:
(الجنۃ تحت ظلال السیوف)
جنت تلوا روں كے سا یہ میں ہے۔

ابن حزم نے یہ بھی كہا ہے كہ اگر واقعاً یہ ثابت ہو جا ئے كہ یہ وا قعاً جنت كا ٹكڑا قرار دیا گیا ہے تب بھی ا فضیلت اسی ایك خاص حصہ كےلئے ہو گی۔
اگر یہ كہا جا ئے كہ اس سے جوجگہ سب سے زیا دہ قریب ہوگی وہ اس سے دور والی جگہ سے زیادہ با فضیلت ہوگی تو اس كاجواب یہ ہے كہ مسجد جحفہ (جو مدینہ سے زیادہ قریب ہے) مكہ سے افضل ہے جبكہ كو ئی بھی اس كا قا ئل نہیں ہے۔
جن لوگوں نے مكہ كو مدینہ سے افضل قرار دیا ہے ان كی دلیلو ں میں سے ایك دلیل ابن زبیر كی یہ حدیث ہے جس كو احمد، عبد بن حمید، ابن زنجویہ ابن خزیمہ طحاوی، طبرانی، بیہقی اور ابن حبان نے نقل كیا اور اس كو صحیح قرار دیا ہے:
(قال رسول اللّٰہ صلاۃفی مسجدی ھٰذا افضل من الف صلاۃ فیما سواہ الا المسجد الحرام، و صلاۃ فی المسجد الحرام افضل من صلاۃ فی مسجدی بمائۃ صلاۃ)
رسول اللہ نے فرمایاہے كہ: میری مسجد میں ایك نماز پڑ ھنا دو سری جگہ ہزار نماز پڑھنے سے افضل ہے سوائے مسجد الحرام كے اور مسجد الحرام میں ایك نماز پڑھنا میری مسجد میں سو نماز پڑ ھنے سے بہتر ہے
یہ حدیث پندرہ طرق صحابہ سے نقل ہوئی ہے مكہ افضلیت كے قائلین نے اس حدیث سے اس طرح استد لال كیا ہے كہ مسجد النبی كی فضیلت اس جگہ كی فضیلت كی وجہ سے ہے جہا ں پر آپ مدفون ہیں (یہ تھا شوكانی كا بیان) ۔

ابن حجر نے فتح الباری پر تحریركیا ہے كہ :
قاضی عیاض نے اس حصہ كو مستثنیٰ كیا ہے جس میں نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كو دفن كیا گیاہے اور انھوں نے اس بات پر اجماع كا ادعا كیا ہے كہ یہ حصہ روئے زمین پرہرحصہ سے افضل ہے، اس كے بعدقاضی نے یہ كہا ہے كہ یہ بات مذكو رہ بحث سے تعلق نہیں ركھتی كیو نكہ اس كا محل بحث وہ ہے جہاں پر عبادت كر نے كی فضیلت بیان كی جائے۔ 6
قرا فی نے قاضی عیاض كا یہ جوا ب دیا ہے كہ مدینہ كی یہ افضلیت وہاں پرموجودآنحضرت كے كثرت انصار كی وجہ سے نہیں ہے بلكہ یہ ایسے ہے جیسے قر آن كریم كی جلد كودوسری تمام جلدوں پرا فضیلت حاصل ہے ۔
نووی نے شرح مہذب میں كہا ہے كہ ہمارے علماء نے اس با رے میں كوئی روایت نقل نہیں كی ہے اور ابن عبد البر نے كہا ہے كہ: مسجد النبی كی افضیلت كے لئے آنحضرت كی قبر كی افضلیت سے متعلق روایات كی تلاش وہی افراد كرتے ہیں جو اس مسجد كی افضلیت كے قائل نہیں ہیں لیكن اس مسجد كی افضلیت كے معتقدلوگوں كا كہنا ہے كہ :مكہ كے بعد مسجد النبی سے افضل كوئی جگہ نہیں ہے وہ مسجد النبی اور مسجد الحرام كو ایك جیسا سمجھتے ہیں۔نیز دوسرے بعض علماء كا كہنا ہے كہ مدفن نبی كی افضلیت كی دلیل وہ روایت ہے جس میں بیان كیاگیا ہے كہ انسان اسی جگہ دفن كیا جا تا ہے جہا ں سے اس كی مٹی تخلیق كے وقت اٹھا ئی گئی تھی اس روایت كو ابن عبد البر نے اپنی تمہید كے آخر میں عطائے خراسانی كے ذریعہ سے موقوفاً نقل كیا ہے۔
اسی وجہ سے زبیر بن بكار نے یہ روایت نقل كی ہے كہ جس مٹی سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كو خلق كیا گیا جبرئیل نے وہ مٹی كعبہ سے اٹھا ئی تھی لہٰذا جہا ں آپ كو دفن كیا گیا وہ خاك كعبہ كا حصہ ہے۔ اس بنا پر اگر یہ بات صحیح ہوتوحقیقت میں یہ فضیلت مكہ اورخاك كعبہ كو حاصل ہے واللہ اعلم ۔

شہید اول نے قواعد والفوائد پرتحریر فرمایا ہے كہ:
مغر ب كے بعض سنی حضرات (جس سے قاضی عیا ض مولف كتاب الشفا مرادہیں )كا یہ گمان ہے كہ امت كا اس بات پر اجماع ہے كہ جس مقام پر پیغمبر اكر م صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كو دفن كیا گیاہے وہ رو ئے زمین كی سب سے افضل جگہ ہے لیكن اہل سنت كے متعدد علما ء اس افضلیت كے بھی منكر ہیں اور ان كے دعوا ئے اجماع كوبھی قبول نہیں كرتے ہیں^&*^&*۔ 7
یہ اہل سنت علماء كے نظریے تھے جن كا خلاصہ یہ ہے:
1۔ سوال كر نے وا لے نے كا فی كی جس حدیث كے ذریعہ استناد كیاہے اس كو اہل سنت علما ء نے یا ضعیف كہا ہے یاگڑھی ہوئی كہاہے ۔

2۔مدینہ كی افضیلت یا عدم افضیلت كے بارے میں علماء نے بحث صرف اس مقام كے لئے كی ہے جس جگہ پر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كا جسم مبارك ہے اور یہ اس كے اطراف كو شامل نہیں ہے لہٰذا یہ بات قبر ابو بكر اور عمر كو شا مل نہیں ہے اور ان لو گو ں میں سے جن كے نز دیك وہ حدیث صحیح ہے تو وہ صرف اسی حصہ كو با فضیلت سمجھتے ہیں كہ جہاں پر حضور كا جسم مبارك ہے اور اس میں قبر شریف كے اطراف كا حصہ یا مسجد شامل نہیں ہے ۔

3۔ پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كے اس ارشاد:
(مابین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)
میری قبر اور منبر كے در میان جنت كے با غوں میں سے ایك باغ ہے، كے ذریعہ استد لال كر نا صحیح نہیں ہے كیو نكہ وہ دو نوں (ابوبكر اور عمر) منبر اور آنحضرت كی قبركے درمیان نہیں ہیں كہ وہ باغ بہشت میں قرار پائیں بلكہ وہ پشت قبر پیغمبراور باغ بہشتی كے باہر واقع ہیں ۔

4۔ آنحضرت نے جویہ فضیلت بیان فرمائی ہے كہ:
“میری قبر اور منبر كے درمیان جنت كے با غوں میں سے ایك با غ ہے اسی مخصوص بقعہ كے لئے ہے اور اس جگہ كے بارے میں بھی نہیں ہے جس میں خود آپ دفن ہیں اور مسلمانوں میں سے كسی بھی مسلمان نے خود نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم یا صحابہ میں سے كسی نے یہ روایت نہیں كی ہے كہ یہ فضیلت اس بقعہ كے ساتھ ساتھ اس جگہ كو بھی حاصل ہے جہاں خود آنحضرت كو دفن كیا گیا ہے یاجہاں آپ تشریف فرما ہو تے تھے اور اگر یہ فضیلت ایك جگہ سے دو سری جگہ منتقل ہو سكتی ہو تی تو ہر فاسق و فاجر كےلئے یہ صحیح تھا كہ وہ آپ كی جگہ پر بیٹھ جاتا اور ایك یہ دعویٰ كر تا كہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ افضل ہوں كیونكہ میں “روضۃ من ریاض الجنۃ” جنت كے باغ كے اندر بیٹھا ہوا ہو ں اور تمام مسلمان مجھ سے كمتر ہیں كیو نكہ وہ اس با غ میں نہیں ہیں

نتیجہ

علمائے اہل سنت كے مطابق مذكورہ باتوں سے یہ نتیجہ نكلتاہے كہ ابو بكر اور عمر كی افضلیت ان كے جائے دفن سے ثابت نہیں كی جا سكتی ہے ۔
شیعہ حضرات بھی اسی نظریہ كے قائل ہیں ۔
لیكن یہ روایت جس كو كافی پر امام باقراور امام صادق علیہما السلام سے نقل كیا گیا ہے كہ آپ نے فر مایا:
(من خلق من تربۃ دفن فیھا) 8

جوشخص جس مٹی سے خلق كیا گیا ہے اس كو اسی میں دفن كیا جا ئے گا۔
اسی طرح اس كتاب كی دوسری روایت میں حا رث بن مغیرہ سے منقول ہے كہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام كو فرماتے سناكہ:
” جب نطفہ رحم میں قرارپاتا ہے تو پر ور دگا ر عا لم ایك فرشتہ كو حكم دیتا ہے كہ وہ اس جگہ كی تھوڑی سی مٹی جہا ں اس كو دفن ہو نا ہے اٹھاكر لائے اور نطفہ میں ملا دے اور اس كے بعد سے اس كا دل اس مٹی كے انتظار میں رہتا ہے یہا ں تك كہ وہ اس میں دفن كر دیا جا ئے “۔
لیكن ان دونوں ا حادیث كے معنی وہ نہیں ہیں جومقالہ نگار نے مراد لئے ہےں تاكہ اس سے ابو بكر اور عمر كی فضیلت ثا بت كر دی جا ئے بلكہ اس كا مطلب یہ ہے كہ جس ذرہ اصلی سے انسان كو خلق كیا گیا ہے وہ مر تے وقت اس كے بدن سے جدا ہوكراسی سرزمین پر دفن ہوتا ہے جہا ں سے تخلیق كے وقت لیا گیا تھا اور اس كا ثبوت وہ روایت ہے جس كو كا فی پر امام صادق علیہ السلام سے نقل كیا گیا ہے كہ آپ سے میت كے با رے میں سوا ل كیا گیاكہ كیامرنے كے بعد جسم نابود ہوجاتاہے؟ آپ نے فر ما یا:
” ہاں اس كا گو شت اور ہڈی كچھ بھی با قی نہیں رہتا بلكہ اس كی وہی طینت با قی رہ جا تی ہے جس سے اسے خلق كیا گیا ہے اور یہ طینت كہنہ اور بو سیدہ ہو نے والی نہیں ہے اور یہ قبر میں اسی طرح با قی رہتی ہے یہا ں تك كہ اس كودوبارہ اسی سے خلق كیا جا ئے گا جس سے پہلی بار خلق كیا گیا تھا “۔ 9

اس مٹی اور طینت سے مرا د وہی ذرہ ہے جس سے انسان كو خلق كیا گیا ہے اور وہ نیست و نابود ہونے والانہیں ہے اور یہ ذرہ اصلی عالم ذرمیں اس كی خلقت كی اساس و بنیاد ہے ۔
كافی پر اما م جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے :جب پروردگار عالم نے جناب آدم علیہ السلام كو خلق كر نے كا ارادہ كیا توپہلے ان دونوں طینتوں كو پیدا كیا پھر ان دونوں كو دوحصوں میں تقسیم كیا دائیں طرف كی طینت سے كہا تم میرے اذن سے مخلوق بن جا ووہ ذرہ كے مانند مخلوق بن گئی اس كے بعدبائیں طرف والی طینت سے كہا : تومیرے اذن سے خلق ہو جا وہ بھی ذرہ كے مانند خلق ہو گئی پھر خدانے ان كے لئے آگ كو خلق كیا اور ان سے كہا میری اجا زت سے اس میں دا خل ہو جا و چنانچہ اس میں داخل ہونے والاسب سے پہلا گروہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم تھے ان كے بعد اولواالعزم انبیاء، ان كے اوصیا ء اور ان كے پیروتھے۔ پھر بائیں طرف كے گروہ سے كہاكہ: میری اجازت سے اس میں دا خل ہو جا و لیكن انھو ں نے كہا پر ور دگار! كیا تو نے ہم كو اس آگ میں جلا نے كےلئے خلق كیا ہے؟ انھو ں نے خداوند عالم كاحكم نہیں مانا۔تو پر ور دگار عالم نے دائیں طرف والے گروہ سے فرمایا كہ میرے حكم سے اس آ گ سے نكل جا ؤ توچنانچہ جب وہ آگ سے باہر آئے تو آگ نے ان كو ذرہ برابر تكلیف نہیں پہنچا ئی تھی تو بائیں طرف كے گروہ )نے ان كو دیكھا توانھوں نے كہا كہ پر ور دگا ر ہم تو اپنے ان سا تھیو ں كو با لكل صحیح و سلا مت پا رہے ہیں لہٰذاہمیں بھی اس آگ میں دا خل ہو نے كی اجازت دے دے تو ار شاد ہوا میں نے تمہا ری غلطی معا ف كی جاؤ داخل ہو جا و چنا نچہ جب وہ اس كے قریب پہنچے اور انھوں نے اس كی لپٹیں دیكھیں تو كہنے لگے: اے ہما رے رب ہم جلنے كی تاب نہیں ركھتے ہیں۔ چنا نچہ انھوں نے خداوند عالم كی دوسری مرتبہ نا فرمانی كی ۔پر وردگا ر نے انھیں تیسری مر تبہ پھر آگ میں جانے كا حكم دیاتو انھوں نے پھر بھی خدا كی نا فرمانی كی اس كے برعكس خداوند عالم نے دائیں طرف كی جماعت كوجتنی مرتبہ حكم دیا انھوں نے خدا كی اطاعت كی اور ہر مرتبہ سرافراز باہر نكلے تواللہ نے ان سے خطاب كیا كہ: تم میرے اذن سے مٹی میں بدل جا ؤ اس وقت اللہ نے جنا ب آدم علیہ السلام كواس مٹی سے خلق كیا “اسی وقت سے جوشخص جس گروہ میں تھا وہ اسی گروہ میں رہا۔ 10

نہج البلاغہ پر مالك بن دحیہ سے روایت ہے كہ: ہم امیر المومنین كے پاس بیٹھے تھے آپ كے سا منے لو گو ں كے رنگ ونسل كے مختلف ہونے كا تذ كر ہ ہوا آپ نے فر مایا:
” ان كے درمیا ن یہ اختلاف ان كی طینت كی وجہ سے ہو ا ہے كیونكہ انسان آغاز خلقت میں شور و شیریں سخت یا نرم زمین كا ایك حصہ تھا لہٰذا جس حصہ سے وہ قریب رہا اس میں اس نے اثر كیا اور جس قد ر ان كی طینت میں اختلاف ہو گا ان میں اختلاف پایاجائے گایہی وجہ ہے كہ بعض صو رت كے حسین و جمیل لیكن عقل كے نا قص ہیں، بعض قد و قا مت كے طویل لیكن كم ہمت ہیں، بعض سیرت میں اچھے ہیں لیكن ان كی صورت بری ہے، بعض ظاہری طور پر معمولی انسان لگتے ہیں لیكن باطن میں دور اندیش ہو تے ہیں، بعض میدان جنگ میں فولاد كی مانند ہوتے ہیں لیكن اپنی روز مرّہ كی زندگی میں بہت سست ہو تے ہیں بعض فكری اعتبار سے پر یشان توبعض خوش زبان اورخوش اندیشہ ہیں۔ 11

مندرجہ بالا مطالب سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے كہ:”مرنے كے بعد ہر انسان كو اسی مٹی میں دفن كیا جائے گا جس سے اسے خلق كیا گیا ہے اس كا مطلب یہ ہے كہ انسان كا ذرہ اصلی یا پہلی سرشت مرتے وقت اس سے لے لی جاتی ہے اور جہاں سے اس كو خلق كیا گیا ہے وہیں پلٹا دیا جاتا ہے چونكہ انسان كوخلق كرتے وقت جب پرور دگار عالم نے جبرئیل كو بھیجا تو انھوں نے زمین كے مختلف حصوں سے مٹی اٹھائی اور اسی سے انسان كی تخلیق ہوئی۔
لہٰذا صالح اور نیك انسان كو كہیں بھی دفن كیا جا ئے اس كی مٹی اسی جگہ منتقل كردی جاتی ہے جہا ں سے اسے خلق كیا گیاتھا اسی طرح برے انسان كی مٹی بھی اسی جگہ منتقل كر دی جاتی ہے جہاں سے اس كی پہلی بار خلقت ہوئی تھی۔ اس بات كی تا ئید شیعہ اور سنی كتابوں میں موجودحدیث نبوی سے ہوتی ہے ۔
روضۃ الواعظین مولف فتال نیشاپوری پرہے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا:(لماخلق اللہ آدم اشتكت الارض الیٰ ربھا لمااخذمنھا فوعدھاان یردفیھا ما اُخذ منھا فمامن احدالایدفن فی التربۃ التی خلق منھا) 12

جب جناب آدم علیہ السلام كو پروردگار عالم نے خلق كیاتو زمین نے اپنے رب كی بارگاہ میں شكوہ كرتے ہوئے یوں عرض كیا كہ اس كی مٹی كیوں لے لی گئی ہے پروردگار عالم نے اس سے وعدہ كیا كہ وہ اس كو وہیں پلٹا دے گا جہا ں سے اس كو لیا گیا ہے لہٰذا كو ئی مرنے والا ایسا نہیں ہے جس كو دفن كیا جا ئے مگر یہ كہ اس كی مٹی اسی طرف نہ پلٹا ئی جا ئے جہاں سے اس كو خلق كیا گیا ہے۔
اسی روایت كے مثل روایت تفسیر بغوی پر بھی مو جو د ہے۔ 13

اس بنا پر ابوبكر اور عمر كے دفن كے سلسلہ میں مقالہ نگار كا دعویٰ خودانہی كے مذہب كی روسے غلط ہے چونكہ مقالہ نگار كی بات كی نہ اہل سنت كی احادیث تائید كرتی ہیں اور نہ ہی شیعوں كی احادیث اور چونكہ ہما رے علماء كے نظریے كے مطابق اس كے معنی یہ ہیں كہ جس مٹی اور خاك سے ابو بكر اور عمر خلق كئے گئے تھے ان كی موت كے بعد اس كواسی جگہ واپس پلٹا دیا گیا جہاں سے ان كی تخلیق ہوئی تھی جس كو خدا بہتر جا نتا ہے لہٰذا قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كے جوار میں ان كی تدفین سے اس كا كوئی ربط نہیں ہے كیا آپ كے درمیان كوئی ایساشخص ہے جو اس جگہ سے واقف ہے جس سے ان كو خلق كیا گیا تھا ؟

 

ماخذ

 

1. ہیتمی، مجمع الزوائد، جلد ۳، صفحہ ۴۲
2. كتاب المصنف، عبد الرزاق، جلد ۳، صفحہ ۵۱۵۔
3. ابن حزم اندلسی، كتاب المحلیٰ، جلد ۷، صفحہ ۲۸۵
4. شو كانی، نیل الاوطار، جلد ۵، صفحہ۹۹
5. سورہ طہ، آیت ۱۲۳
6. ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، جلد ۳، صفحہ ۵۵
7. محمد بن مكی شہید اول، قواعد والفوائد، جلد ۲ ، صفحہ ۱۲۴
8. محمد بن یعقوب كلینی، الكافی، جلد ۳ ، صفحہ ۲۰۲
9. محمد بن یعقوب كلینی، الكافی، جلد ۳ ، صفحہ ۲۵۱
10. محمد بن یعقوب كلینی، الكافی، جلد 2 ، صفحہ ۱۱
11. نہج البلاغہ، جلد ۲، صفحہ ۲۲۷
12. فتال نیشاپوری، روضۃ الواعظین، صفحہ۴۹۰
13. تفسیر بغوی، جلد ۱، صفحہ ۲۳۴

تبصرے
Loading...