نظام ولایت فقیہ، اہلبیت اطہار علیہم السلام کا پیش کردہ الہی سیاسی نظام

اسلامی دنیا میں مختلف قسم کے مکاتب فکر، مسالک اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ ہر مسلک اور مکتب فکر اپنی نظریاتی بنیادوں کی روشنی میں سماجی زندگی کے مختلف شعبوں کیلئے مطلوبہ نظام پیش کرتا ہے۔ عالم اسلام دو بڑے مسلک یعنی اہل تشیع اور اہلسنت پر مشتمل ہے۔ اس تقسیم کی بنیادی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی معاشرے کیلئے دو مختلف قسم کے سیاسی نظام متعارف کروانے پر استوار ہے۔ اہل تشیع جو مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام کے عنوان سے جانا جاتا ہے، نظام امامت جبکہ اہلسنت نظام خلافت کے قائل ہیں۔ نظام امامت کی بنیاد اس عقیدے پر استوار ہے کہ نبی اکرم ص نے اپنی زندگی میں اپنی وفات کے بعد امت مسلمہ کی سیاسی اور علمی سربراہی اور سرپرستی کیلئے بارہ معصوم ہستیوں کو متعارف کروا دیا تھا جن میں سے پہلی ہستی امام علی علیہ السلام اور بارہویں ہستی امام مہدی عج کی ہے۔
 
پیغمبر اکرم ص کی وفات کے بعد اسلامی معاشرے میں موجود مختلف زمینی حقائق کے باعث نظام امامت نافذ نہ ہو سکا اور معصوم ہستی کی سربراہی میں الہی حکومت تشکیل نہ پا سکی۔ امام علی علیہ السلام کی عمر کے آخری چند سالوں میں انتہائی محدود مدت کیلئے نظام امامت اسلامی معاشرے پر نافذ ہوا لیکن درپیش رکاوٹیں اور چیلنجز اس قدر شدید اور وسیع تھے کہ امت مسلمہ میں اس الہی سیاسی نظام کی جڑیں مضبوط نہ ہو پائیں۔ جب اڑھائی صدیوں تک اسلامی معاشرے میں نظام امامت کے نفاذ کیلئے مناسب زمینہ فراہم نہ ہو سکا تو خاص مصلحت الہی کے تحت غیبت صغری اور اس کے بعد غیبت کبری کا دور شروع ہو گیا۔ غیبت کبری سے مراد ایسا زمانہ ہے جس میں معصوم ہستی یعنی امام مہدی عج پردہ غیبت میں ہیں اور ظہور کیلئے خدا کے حکم کی منتظر ہے۔ غیبت کبری کے زمانے میں مسلمانوں کو امام معصوم تک رسائی حاصل نہیں ہے جبکہ دوسری طرف دین مبین اسلام آخری اور ہمیشگی دین ہے اور اس کے احکام اور قوانین قیامت تک جاری و ساری ہیں۔
 
لہذا امام مہدی عج نے مختلف احادیث کے ذریعے اپنے پیروکاروں کو بدلتے حالات کے تناظر میں درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے ایسے فقہاء کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا جو متقی، عالم، نفسانی خواہشات کی مخالفت کرنے والے اور عادل ہوں۔ مثال کے طور پر ایک خط میں امام مہدی عج نے فرمایا: “واَمّا الحَوادِثُ الواقِعَهُ فَارُجِعُوا فیها اِلى رُواهِ اَحادیثِنا فَأِنَّهُمْ حُجَّتى عَلَیْكُمْ وَاَنَا حُجَّهُ اللّهِ عَلَیْهِم” (کمال الدین و تمام النعمه، ج 2، ص 483)
ترجمہ: “نئے پیش آنے والے حالات میں ہماری احادیث کے راویوں (فقہاء) سے رجوع کرو۔ پس وہ تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی جانب سے ان پر حجت ہوں۔”
یوں نظام مرجعیت کا آغاز ہوا اور پیروان اہلبیت علیہم السلام نے شرعی احکام کیلئے مراجع تقلید سے رجوع کرنا شروع کر دیا۔ مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام میں غیبت کبری کے دوران عادل، متقی اور عالم فقیہ کو نائب امام مہدی عج کی حیثیت حاصل ہے۔
 
غیبت کبری کے آغاز سے لے کر آج تک ہر دور میں ایسے بزرگ فقیہ موجود رہے ہیں جنہوں نے حالات کی مناسبت سے اپنی دینی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ میں مکتب اہلبیت علیہم السلام کی حقیقی تعلیمات وسعت اختیار کرتی گئیں اور اہل تشیع کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور یوں اسلامی معاشرے میں امام مہدی عج کے نائب کے طور پر شیعہ فقہاء اور مجتہدین کے اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ دین مبین اسلام درحقیقت ایک جامع نظام حیات ہے جس میں انسان کی فردی اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کیلئے مکمل لائحہ عمل موجود ہے۔ دوسری طرف ایک انسانی معاشرے میں کوئی بھی سماجی نظام یعنی تعلیمی نظام، اقتصادی نظام، ثقافتی نظام یا سیاسی نظام نافذ کرنے کیلئے خاص قسم کے حالات کی ضرورت ہوتی ہے جو اس نظام کے نفاذ کا زمینہ فراہم کرتے ہیں۔ ان ضروری حالات میں سے ایک عوام کی جانب سے فقہاء کی اطاعت اور پذیرائی ہے جو “مقبولیت” یا محبوبیت کی راہ ہموار کرتا ہے۔
 
بیسویں صدی تک شیعہ فقہاء مختلف انداز میں سیاسی شعبے سے متعلق حقیقی اسلامی تعلیمات مسلمانوں تک پہنچاتے رہے۔ اس دوران مختلف شعبوں میں ترقی کے باعث اسلامی علوم بھی اعلی سطح تک پہنچ چکے تھے اور اسلامی معاشروں میں سیاسی شعور بھی بہت حد تک ترقی پا چکا تھا۔ ایرانی معاشرے کے تاریخی پس منظر کے باعث عوام کی اکثریت شیعہ مذہب اختیار کر چکی تھی اور اسے سرکاری مذہب کا بھی درجہ مل چکا تھا۔ ایسے حالات میں مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام کے سیاسی نظام کو متعارف کروانے اور نافذ کرنے کا بہترین موقع فراہم ہو چکا تھا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فقیہ اور مجتہد عصر امام خمینی رح نے عصر غیبت کے دوران اسلامی تاریخ میں پہلی بار الہی مشروعیت کے حامل نظام ولایت فقیہ کی بنیاد رکھی اور اس نظام کے سائے تلے ایران میں اسلامی جمہوریہ تشکیل پائی۔
 
نظام ولایت فقیہ کی مشروعیت الہی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس نظام کی سربراہی ولی فقیہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ولی فقیہ ایسا مجتہد ہے جس میں دین مبین اسلام کی گہری سوجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ اجتہاد، تقوی، سیاسی بصیرت، علم، مدیریت، زمانے کے حالات سے بھرپور آگاہی اور اعلی درجے کی معنویت جیسی خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ یہ خصوصیات بھی امام مہدی عج اور دیگر ائمہ علیہم السلام کی احادیث میں اسلامی حکمران کی ضروری شرائط کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ نظام ولایت فقیہہ ایسے حالات میں ابھر کر سامنے آیا جب مغربی دنیا میں دین کا فاتحہ پڑھ دیا گیا تھا اور سماجی نظامات سے دین کو حذف کر کے سیکولر نظامات متعارف کروا دیے گئے تھے۔ یوں یہ نظام خداوند متعال کی جانب سے پوری عالم بشریت کیلئے ایک قیمتی تحفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر اتمام حجت بھی ثابت ہوا ہے۔

تبصرے
Loading...