نجف میں امام خمینی کے ساتھ وابستگی شهيد عارف حسين الحسيني

جس زمانہ میں آپ نجف اشرف میں تعلیمی مراحل تیزی سے طے کر رہے تھے ان ایام میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت اما م خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ بھی نجف میں جلا وطنی کے دن کاٹ رہے تھے۔ آپ مدرسہ آیت اللہ بروجردی میں نماز مغربین کی امامت فرماتے اور چند لوگ آپ کی اقتداء میں نماز بجا لاتے تھے۔ پاکستانی طلباء میں سید عارف حسین الحسینی واحد طالب علم تھے جو باقاعدگی سے امام خمینی کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے۔ نماز کے بعد امام خمینی کے دروس کو انتہائی انہماک سے سنتے اور ذہن کی لوح پر نقش کر لیتے۔ آپ واپس اپنے ہاسٹل لوٹتے تو ہاں پر موجود تمام احباب کو امام خمینی کے درس کا خلاصہ پیش کرتے اورانہیں امام خمینی کے دروس میں شرکت کی اپیل کرتے۔

یہ وہ دور تھا جب امام خمینی پر سامراج کی نظریں لگی ہوئی تھیں اور لمحہ بہ لمحہ آ پ کی کاروائیاں جاسوس ادارے نوٹ کررہے تھے۔ حکومت عراق اور حکومت ایران دونوں کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ امام خمینی کے پیروکاروں میں اضافہ نہ ہونے پائے اور آپ کے افکار کو پھیلنے کا موقع نہ ملے۔ لہذا حکومت عراق آپ اور آپ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے والوںپر کڑی نظررکھتی تھی اور اسی ضمن میں آپ کے رفقاء کوآپ سے جدا کرنے کا ہر طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ علماء اور اکثر طلباء امام خمینی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے سے گریز کرتے تھے ۔ مگر سید عارف حسین الحسینی کے عشق کی یہ حد تھی کہ آپ امام خمینی کی جماعت کی پہلی صف میں بیٹھتے ، ذہن کے دریچوں کو کھول کر امام خمینی کا ہر فرمان سنتے اور امام خمینی کے چہرے پر نظریں جما کر مہتاب انقلاب کی شعاعوں سے آنکھوں کومنور اور دل کو تازگی بخشتے۔ جب کبھی وقت اور حالات کی نزاکتوں میں شدت آتی تو آپ اپنے رفقاء سے التجا کرتے کہ امام خمینی کی درازی عمر کی دعا کریں اور خود روضہ حضرت علی علیہ السلام پر حاضری دیتے اور گڑ گڑا کر امام خمینی کے لئے دعائیں مانگتے۔

ایک بار کسی دوست نے آپ سے کہا کہ ہم پاکستانی طلباء یہاں اپنی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں لہذا ہمیں ایران عراق اور یہاں کی سیاسی متنازعہ شخصیات سے کوئی سروکار نہیںہوناچاہیے۔ ایک تو یہ غیر ملکی معاملات ہیں اور دوسرا یہاں کے امور میں مداخلت سے ہمارے لئے مشکلات پید اہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ سنتے ہی آپ کاچہرہ جلال سے سرخ ہو گیا اور دیگر احباب کے سامنے اسی دوست سے فرمایا” اے دوست آپ کا مذہبِ شیعہ پاکستان سے تخلیق نہیں ہوا۔ یہ چشمہ ہدایت بھی عراق سے رواں ہوا تھا اور نواسہ رسول پاکستانی نہیں تھے۔ ہم حق کے متلاشی اور ہر فرزند زہراء (س) کی صدائے ھل من ناصر پر لبیک کہنے والے ہیں لہذا ہم حق کی خاطر اٹھنے والی ہر صدا، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے کیوں نہ اٹھے اس کا ساتھ دینا اور حق کے راستے میں صعوبتیں برداشت کرنا بھی ہماری ذمہ داريوں میں شامل ہے۔ دعا کرو کہ فرزند زہراء خمینی دشمنوں کی نظر بد سے محفوظ رہیں اور کوشش کرو کہ آپ کے افکار کاچرچا عام ہو۔ یاد رکھو کہ اگر خدا نخواستہ اس رہبر کو کچھ ہوگیا تو پھر کئی برس تک کوئی عالم دین صدائے حق بلند نہیں کرسکے گا اور اگر بفضل خدا انہیں کامیابی حاصل ہو گئی تو پھر اسلام سرخرو اور علماء سربلند ہوں گے لہذا توبہ کرو اور اپنے دل سے ان وسوسوں کو نکال دو”۔

آپ کے جذبات اور خلوص سے تمام طلباء بے حد متاثر ہوئے اور ان میں سے بعض امام خمینی کی اقتداء میں نماز مغربین میں شرکت کرنے لگے۔ کربلا کی زمین پر سید الشہداء کے مجاہد فرزند امام خمینی کی محبت بھی پروان چڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ آپ احباب کی محفل کے درمیان امام خمینی کا ایک جملہ نقل فرماتے ہی اشکبار ہوگئے کہ آج امام خمینی نے شاہ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ” میرا دل تیرے نیزوں سے چھلنی ہونے کے لئے حاضر ہے لیکن تیرے ظلم و ستم کو تسلیم کرنے کے لئے نہیں”۔

اس وقت جب امام خمینی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی خطرناک ہوا کرتا تھا۔ آپ امام خمینی کے پیچھے ایسے چلتے جیسا ان کے ذاتی محافظ ہوں۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر آپ کے کسی دوست نے بھری محفل میں کہہ دیا تھا کہ سید عارف حسین الحسینی نے انگیٹھی کو سینے سے لگایا ہوا ہے” آپ صرف امام خمینی سے عقیدت تک محدود نہ رہے بلکہ امام خمینی سے عقیدت رکھنے والے افراد بھی آپ کی محبوب شخصیات بن گئے جن میں اقا علی نائینی، آقا سید رضا برقعی، آقا دعائی اور آقا سید حسین یزدی سرفہرست ہیں۔

زمانہ طالب علمی میں آپ اپنے استاد آیت اللہ شہید مدنی سے بے حد متاثر تھے کیونکہ شہید مدنی بلند پایہ عالم دین ہونے کے علاوہ امام خمینی کے عاشق بھی تھے۔ آپ مدرسہ دارالحکمت میں آیت اللہ مدنی سے شرح لمعہ پڑھتے تھے اور درس ختم ہونے کے بعد انہی کے ساتھ سیدھا مدرسہ بروجردی جا کر امام خمینی کے پیچھے نماز مغربین ادا کرتے اور نمازظہرین بھی اکثر اوقات مسجد شیخ انصاری میں امام خمینی کی اقتداء میں ادا کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔

امام خمینی سے آپ کی عشق کی مثال کچھ یوں بھی سامنے آئی ہے کہ ١٩٧١ء میں جب ایران میں ڈھائی ہزار سالہ جشن شہنشاہی منایا جا رہا تھا تو امام خمینی نے نجف اشرف میں اس کے خلاف تقریر کی۔ یہ شاہ ایران کے آباواجداد کا جشن شہنشاہی تھا جس پر اربوں روپے خرچ کئے گئے تھے جس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔

اس بار ے میں امام خمینی نے فرمایا تھا کہ ” اے شہنشاہ ایران یہ ملک تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہے بلکہ امام زمانہ کاملک ہے۔ اس کے اربوں روپے تمہارے خاندانی جشن کے لیے نہیں بلکہ غریب و مظلوم عوام کے لئے ہیں” امام خمینی کی اس پرجوش تقریر کے بعد امام کے طرفدار طلباء اور علماء نے شاہ کو مذمتی ٹیلی گرام بھیجے۔ پاکستانی طلاب میں صرف سید عارف حسین الحسینی ہی تھے جنہوں نے شاہ کو پاکستانی طلباء کی جانب سے ٹیلی گرام بھیجا تھا۔ جب اس بات کا علم پاکستانی طلباء کو ہوا تو وہ ایک گروپ کی صورت میں نماز مغربین کے بعد صحن مطہر حضرت علی علیہ السلام میں اپ سے ملے اور اعتراض کیا ”آپکو کیا حق پہنچتا ہے کہ آپ تمام پاکستانی طلباء کی طرف سے شاہ کو مذمتی ٹیلی گرام ارسال کریں، ہمارا ان باتوں سے کیا تعلق ہے، ہم پاکستانی ہیں۔ ہم کسی ایرانی شخصیت کی حمایت اور ایرانی حکومت کی مذمت کیوں کریں؟ ہمیں تو ایران کے راستے پاکستان آنا جانا ہوتا ہے، اس طرح حکومت ایران ہمیں تنگ کرے گی”۔

پاکستانی احباب کی یہ باتیں سن کر آپ نے کافی دلائل دئیے مگر وہ بضد رہے۔ جب بات دلائل سے نہ بنی تو پھر متحمل مزاج عارف کے چہرے پر جلال نمودار ہوا اور آپ نے انتہائی سخت الفاظ میں انہیں باز رہنے کی تاکید کی۔ نوجوانی کے عالم میں غصہ پر قابو پانا آ پ کی صفات کا ایک حصہ تھا لیکن امام خمینی یا کسی مقتدر علمی شخصیات کی توہین برداشت کرنا آپ کے لئے مشکل ہوتا تھا۔”

ایک اہم واقعہ جو ١٩٧٣ء میں نجف اشرف کی سرزمین پر پیش آیا وہ یوں تھا کہ حسن البکر کی بعثی عراقی حکومت نے آقا محسن الحکیم کی انقلابی سرگرمیوں سے خائف ہو کر انہیں کوفہ میں نظر بند کر دیا اور ان کی ملاقات پر پابندی عائد کر دی۔ وفد آقا محسن الحکیم سے ملاقات کرنے کوفہ پہنچا جہاں طلباء کے جلوس اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔ اس جلوس میں سید عارف حسین الحسینی اور سید شبر حسن آف پاراچنار بھی موجود تھے۔ ان دونوں جوانوں نے پولیس سے خوب ہاتھاپائی کی اور چند پولیس والوں کو زخمی کردیا ۔ اس تصادم میں سیدعارف حسین کی عباء بھی پھٹ گئی۔ پھر آپ مسجد کوفہ پہنچے مگر پولیس نے مسجد میں گھس کر آپ کو گرفتار کر لیا۔

اس زمانہ میں امام خمینی کی حقیقی معرفت بہت کم افراد کو تھی اور بعض اوقات طلباء آپ سے اختلاف بھی کر لیتے تھے مگر سید عارف حسین الحینی کے سامنے کسی کو امام خمینی کی شان کے منافی ایک حرف کہنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ دل کو دل سے راہ ہونے کے مصداق شہيد حسيبی نے اگر امام خمینی جیسے گوہر یکتا کو اپنی باطنی بصیرت سے کشف کر لیاتھا تو امام خمینی کی روحانیت نے بھی آپ کا انتخاب فرمالیاتھا۔ لہذا جب آپ ١٩٧٣ء میں نجف اشرف سے پاکستان بغرض ترویج انقلاب آنے لگے تو امام خمینی نے آپ کو اپنا وکالت نامہ دیا جو ایران کی سرحد پر دوران تلاشی چھین لیا گیا۔

تبصرے
Loading...