مرسل اعظم (ص) کی یاد میں پورا عالم اسلام سوگوار

نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی جانگداز رحلت اور آپ کے بڑے نواسے حضرت امام حسن علیہ السلام اور پیشوائے ہشتم امام رضا (ع) کی شہادت کی مناسبت سے تسلیت پیش کرتے ہیں

 

مرسل اعظم (ص) کی یاد میں پورا عالم اسلام سوگوار

 

خدایا! ہم تیری بارگاہ میں عالم بشریت کی محرومیوں کا شکوہ لیکر حاضر ہیں وہ محرومی کہ جس کے مقابل دنیا کی تمام رحمتیں اور عنایتیں هیچ ہیں ، بهلا تیرے محبوب ترین و منتخب ترین رسول اور تیرے حبیب خاص و عزیز خاص بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے وجود اور موجودگی سے بڑی کوئی نعمت اور ان کے فراق و فقدان سے بڑی کوئی مصیبت اور محرومی ہوسکتی ہے تیرے مجسمۂ اخلاق و رحمت، پیکر دین و شریعت، صاحب قرآن و عترت ختمی مرتبت احمد مجتبی محمد مصطفی (ص) کی جدائی کے غم میں آج پوری کائنات سوگوار ہے تیرے رسول اعظم (ع) کی پوری امت حسرت دیدار کی آگ میں اشک فشاں ہے آج دنیا کے ایک ارب سے بهی زائد مسلمانوں کے گهروں میں نالہ ؤ فریاد کی آوازیں بلند ہیں ہم اپنی غریبی اور یتیمی پر جس قدر بهی نوحہ و ماتم کریں کم ہے ۔

 

خدایا! ہماری اشک آلود نگاہوں کو دیکه ، تیرے حبیب کی شان اقدس میں دشمنان اسلام کی جسارتیں ہمیں خون کے آنسو بہانے پر مجبور کررہی ہیں کچه بکے ہوئے دماغ اور خریدے ہوئے قلم اپنے حرمت شکن بیانوں تحریروں اور کارٹونوں کے ذریعے عاشقین رسول(ع) و پیروان عقول و اصول کے صبر و ضبط کا امتحان لے رہے ہیں ایسے میں دوستوں کی پشتپناہی اور دشمنوں کی بیخ کنی کے لئے اپنے رسول خاتم (ص) کی تصویر مجسم (عج) کو ظہور اور حکومت حق کی برقراری کی اجازت دیدے تا کہ ان کی آمد سوختہ دل مظلوموں اور محروموں کے لئے مرہم بن جائے “اللّہم نشکوا الیک فقد نبیّنا”۔

خدایا! تو یقینا رحیم و کریم ہے اور ہر شےء کی قدرت و توانائی رکهتا ہے ۔

28 صفر المظفر اسلام کے درخشاں ترین آفتاب خداوند عظیم کے عظیم ترین پیغامبر آخری سفیر وحی و رسالت رحمۃ للعالمین صاحب ” لو لاک لما خلقت الافلاک ” مرسل اعظم نبی مکرم (ص) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی جانگداز رحلت اور آپ کے بڑے نواسے علی(ع) و فاطمہ (س) کے لخت جگر سبط اکبر حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے اسی لئے آج پورا عالم اسلام بلکہ دنیائے بشریت بلکہ پوری کائنات ، آسمانوں اور زمین کے درمیان تمام مخلوقات غم و اندوہ کے سیاہ لباس میں غمگین و سوگوار ہے ۔

 

کیوں ؟ اس لئے کہ عبداللہ (ع) کے در یتیم کو دنیا سے رخصت ہوئے اگرچہ صدیوں کا فاصلہ گزرچکا ہے مگر آج بهی ان کا وجود سرچشمہ فیوض و برکات ہے اور محسوس ہوتا ہے وہ ہمارے درمیان اب بهی موجود ہیں آمنہ (ع) کا لال آج بهی اربوں انسانوں کے دلوں کی دهڑکن بنا ہوا ہے اور بعثت کے ابتدائی ایام کی مانند آج بهی امین و صادق محمد قرشی(ص) کا نام سنکر قلوب وجد میں آجاتے ہیں آنکهوں میں اشک حسرت و عقیدت اور لبوں پر اظہار عشق و ارادت کے ساته درود و صلوات کے نعرے فضاؤں میں گونجنے لگتے ہیں ۔ اگرچہ وقفے وقفے سے آج بهی کچه ابوجہل و ابوسفیان بڑے شیطانوں کی تحریک پر اس عظیم ہستی کی یاد اور نام کو اپنے ناپاک عزائم کی راہ میں رکاوٹ کے سبب بشریت کے دلوں اور دماغوں سے نکال دینے یا کم از کم گرادینے یا داغدار بنادینے کی کوششیں کیا کرتے ہیں کہ آپ کے حیات آفریں نقوش محو کردیں مگر وہ نہیں جانتے ۔

 

حضور اکرم (ص) کی ذات تاریخ کا کوئی دیومالائی افسانوی کردار، کسی مصور کے قلم و فکر کی تراشی ہوئی خیالی تصویر یا کسی شاعر کی ڈهالی ہوئی تخیلاتی غزل نہیں ہے کہ جس کی مقبولیت محبوبیت اور مرغوبیت کا رنگ وقت کے ساته بدنما ، بهدا اور پهیکا پڑ جاتا ہے کیونکہ مرسل اعظم (ص) احسن الخالقین کی خلقت کے سب سے پہلے حرف اور سب سے اعلی نقش کی حیثیت سے وہ قرآنی کردار ، خلق الہی کی تصویر اور عشق ربانی کی غزل ہیں جس کو اول و آخر میں خدائے سبحان نے اپنا ابدی اور جاوداں شاہکار قرار دیا ہے اور ہر عہد اور زمانے کے لئے اسوۂ و نمونہ بنایا ہے۔

 

رسول اسلام (ص) نے ہمیشہ درد و مصیبت میں مبتلا عالم بشریت سے عشق و دوستی کی بنیاد پر نبوت و رسالت کا عظیم و خطیر فریضہ اپنے کاندهوں پر اٹهایا اور جہل و نادانی ، فریب و مکر اور ظلم و استبداد میں اسیر عالم بشریت خصوصا” محروموں اور مستضعفوں کو حق و حقیقت کی راہ دکهائی اگرچہ اس راہ میں ان کو سخت ترین آزار و اذیت ، بے وطنی اور مسلسل جنگ و پیکار سے گزرنا پڑا خود مرسل اعظم (ص) فرماتے ہیں ۔

 

تبلیغ و ہدایت کی راہ میں مجه کو جن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے کسی نبی و وصی کو ان تکلیفوں اور اذیتوں سے نہیں گزرنا پڑا

چنانچہ آج بهی مکہ و مدینہ کے کوچہ ؤ بازار نبی اکرم (ص) کی غربت و مصیبت پر ماتم کناں ہیں انہیں یاد ہے کہ جس وقت ایک دنیا غفلت و جہالت کی گہری نیند سورہی تهی آپ نے بیداری و آگہی کی اذان بلند کی اور بارش نور و رحمت کے حیات آفریں قطروں سے دل و دماغ کے بنجرویرانوں میں ایمان و اخلاص کے پودے اگائے اور زندگیوں کو سرسبز و شاداب کردیا۔

 

حتی اپنی حیات مبارکہ کی آخری سانسوں میں بهی اپنی امت کو فراموش نہیں کیا قوم کو وصیت کردی ” امن و سلامتی کے دو محکم و استوار حصار ” ثقلین ” یعنی قرآن و اہلبیت کو تمہارے درمیان چهوڑ کر جارہا ہوں ہدایت و رہبری کی ان ریسمانوں کو مضبوطی سے پکڑے رہنا کیونکہ جب تک ان سے متمسک رہوگے گمراہ نہیں ہوسکتے ۔

 

خدایا ! تجهے واسطہ ہے تیرے حبیب حضرت محمد مصطفی کا ہم کو ان کا سچا پیرو قرار دے اور ان کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق کرامت فرما کیونکہ علامہ اقبال کے بقول :

 

تا شعار مصطفی(ص) از دست رفت                    قوم را رمز بقا از دست رفت

******

اسوۂ صبر و استقامت امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت

اسوۂ صبر و استقامت امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت عالم اسلام کے لئے عظیم مصیبت

 

مرسل اعظم (ص) نے اپنی وصیت میں اگرچہ قرآن و عترت سے تمسک کا حکم دیا تها مگر امت نے وصیت فراموش کردی اور عترت رسول (ص) کے تیسرے فرد سبط اکبر امام حسن علیہ السلام کو سینتالیس سال کی عمر میں 28 صفر المظفر سنہ 50 ہجری کو امیر شام کی سازش سے جعدہ بنت اشعث نے زہر دیکر مظلومانہ شہید کردیا اور آج بهی جنت البقیع میں آپ کی جدۂ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد اور آپ کے تین فرزند امام زین العابدین ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام کی اجڑی قبروں اور نبی اکرم کی کئی ازواج اور دیگر اعزہ ؤ اصحاب کے مزاروں کے ساته نواسۂ رسول (ص) کی ویران قبر آپ کی اور آل رسول (ص) کی مظلومیت کی داستان بیان کررہی ہے۔

 

امام حسن مجتبی علیہ السلام 15 رمضان المبارک سن تین ہجری کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے باپ امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب اور ماں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طرح اپنے نانا مرسل اعظم (ص) کی آغوش نبوت و رسالت میں پرورش پائی

مورخین کے بقول : آپ صورت و سیرت دونوں میں نبی اکرم (ص) سے سب سے زیادہ مشابہ تهے اور اخلاق و کرامت کا مکمل آئینہ تهے خدا کے رسول (ص) نے آپ سے محبت و مودت کی مسلسل تاکید کی تهی اور آپ کو اور امام حسین (ع) کو اپنی ” آنکهیں ” اور ” عرش الہی کے گوشوارے ” قرار دیا تها ،

 

امیرالمومنین (ع) کے دور حکومت میں بهی آپ تمام امور میں حضرت علی (ع) کے شریک و سہیم رہے جنگ جمل میں آپ ہی لشکر اسلام کے علم بردار تهے

سنہ 40 ہجری میں امیرالمومنین کی شہادت کے بعد عالم اسلام کی قیادت و امامت کی ذمہ داری آپ نے اپنے کاندهوں پر سنبهالی اور اسلامی روایات کے مطابق :” مسلمانوں نے اتنی بڑی تعداد میں آپ کی بیعت کی کہ اتنی تعداد میں کبهی کسی کی بیعت نہیں کی ” لیکن مسلمانوں کی عظیم بیعت کے برخلاف امیر شام نے ، دور امیرالمومنین کی طرح بغاوت اور سرکشی سے کام لیا اور جنگ کی تیاری شروع کردی، دولت لٹا کر لشکر اسلام میں اختلاف کے بیچ بوئے اور خود امام حسن (ع) کے سپہ سالار کو خرید لیا

 

اور اس طرح جنگ کے بغیر ہی امام حسن (ع) کو صلح پر مجبور کردیا اور امام حسن (ع) نے مومنین کے خون ناحق کی حفاظت کے لئے خود اپنی شرطوں پر مصالحت کرلی مگر امیر شام نے صلح کی شرطوں کا بهی پاس و لحاظ نہیں کیا اور ایک سازش کے تحت امام حسن (ع) کو زہر بهجوا کر بیوی کے ہاتهوں شہید کروادیا اور یزید پلید کی خلافت کے لئے تیاریاں شروع کردیں ۔

 

******

شهادت امام رضا(ع)

 

صفر المظفر کے آخری دن( 30 صفر)سنہ 203 ہجری قمری کو فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو شہید کردیا گیا ۔ آپ سن 148 ه ق میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اپنے والد بزرگوار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے ۔ سنہ 200 ه ق میں عباسی خلیفہ مامون نے آپ کو مرو آنے کی دعوت دی اور آپ کو اپنا ولی عہد منصوب کردیا جسے حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اکراہاً قبول کرلیا ۔ مامون جو اپنے بهائی امین کو قتل کرنے کے بعد مسند خلافت پر بیٹها تها در اصل اپنے اقتدار کو مضبوط بنانا چاہتا تها تا کہ اپنے اوپر مخالفین دباؤ کو کم کرسکے تا ہم امام علیہ السلام نے ولیعہدی کو قبول کرنے کے لئے جو شرائط عائد کے اس کیں اس سے حقیقی عزائم سب پر واضح ہوگئے ۔ مامون کو بهی پتہ چل گیا کہ اس نے جس مقصد کے لئے امام کو ولیعہدی سونپی ہے اس کا اسے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں لہذا اس نے امام کو اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور آپ کو زہر دے کر شہید کردیا ۔حضرت امام علیرضا علیہ السلام کا روضہ مبارک مشہد مقدس میں واقع ہے جہاں ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے ۔ لوگ دنیا کے کونے کونے سے آکر اپنی مرادیں پاتے ہیں ۔

 

علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کورضااس لیے کہتے ہیں کہ آسمان وزمین میں خداوندعالم ،رسول اکرم اورآئمہ طاہرین،نیزتمام دوست و دشمن آپ سے راضی تهے(اعلام الوری ص ۱۸۲)

 

علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ بزنطی نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آپ کے والدماجدکولقب رضاسے مامون رشیدنے ملقب کیاتها آپ نے فرمایاہرگزنہیں یہ لقب خداو رسول کی خوشنودی کاجلوہ بردارہے اورخاص بات یہ ہے کہ آپ سے دوست و دشمن سب راضی اورخوشنودتهے ۔

ایک روایت کے مطابق شہادت حضرت امام رضاعلیہ السلام کی شہادت ۲۳/ ذی قعدہ ۲۰۳ہجری مطابق ۸۱۸ء یوم جمعہ کوبمقام طوس واقع ہوئی ہے (جلاء العیون ص ۲۸۰،انوراالنعمانیہ ص ۱۲۷، جنات الخلود ص ۳۱) ۔جبکہ دوسری روایت کے مطابق 30 صفر کو ہوئی ، آپ کے پاس اس وقت عزاء واقربا اولادوغیرہ میں سے کوئی نہ تها ایک توآپ خودمدینہ سے غریب الوطن ہوکرآئے دوسرے یہ کہ دارالسلطنت مرومیں بهی آپ نے وفات پائی بلکہ آپ سفر کی حالت میں بعالم غربت فوت ہوئے اسی لیے آپ کوغریب ا لغرباء کہتے ہیں۔واقعہ شہادت کے متعلق مورخین نے لکهتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایاتها کہ “فمایقتلنی واللہ غیرہ” خداکی قسم مجهے مامون کے سواء کوئی اورقتل نہیں کرے گا اورمیں صبرکرنے پرمجبورہوں (دمعہ ساکبہ جلد ۳ص ۷۱) ۔علامہ شبلنجی لکهتے ہیں کہ ہرثمہ بن اعین سے آپ نے اپنی وفات کی تفصیل بتلائی تهی اوریہ بهی بتایاتها کہ انگوراورانارمیں مجهے زہردیاجائے گا(نورالابصارص ۱۴۴) ۔علامہ معاصرلکهتے ہیں کہ ایک روزمامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کواپنے گلے سے لگایااورپاس بٹهاکران کی خدمت میں بہترین انگوروں کاایک طبق رکها اوراس میں سے ایک خوشااٹهاکرآپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہاابن رسول اللہ یہ انگورنہایت ہی عمدہ ہیں تناول فرمائیے آپ نے یہ کہتے ہوئے انکارفرمایاکہ جنت کے انگوراس سے بہترہیں اس نے شدید اصرارکیااورآپ نے اس میں سے تین دانے کهالیے یہ انگورکے دانے زہرآلودتهے انگورکهانے کے بعد آپ اٹه کهڑے ہوئے ،مامون نے پوچهاآپ کہاں جارہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا جہاں تونے بهیجاہے وہاں جارہاہوں قیام گاہ پرپہنچنے کے بعد آپ تین دن تک تڑپتے رہے بالآخرانتقال فرماگئے (تاریخ آئمہ ص ۴۷۶) ۔ انتقال کے بعدحضرت امام محمدتقی علیہ السلام باعجازتشریف لائے اورنمازجنازہ پڑهائی اورآپ واپس چلے گئے مامون نے بڑی کوشش کی کہ آپ سے ملے مگرنہ مل سکا اس کے بعدآپ کوبمقام طوس محلہ سنابادمیں دفن کردیاگیا جوآج کل مشہدمقدس کے نام سے مشہورہے اوراطراف عالم کے عقیدت مندوں کا مرکزہے

تبصرے
Loading...