ماہ مبارک رمضان، گناہ جھڑنے اور نیکیاں اگنے کا مہینہ

ماہ مبارک رمضان، گناہ جھڑنے اور نیکیاں اگنے کا مہینہ

 

تحریر: حجت الاسلام والمسلمین علی شیرازی

 

ہمارے عزیز اور مہربان خدا نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن میں سے سب سے زیادہ عمدہ اور اعلی نعمت اس عظیم ہستی کی معرفت اور شناخت ہے۔ ایک اور نعمت اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت ہے۔ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے مقدس وجود کا تمام مسلمانوں کیلئے نعمت ہونا ثابت شدہ اور یقینی ہے۔ خدا کی ایک اور نعمت “ہدایت” ہے۔ اسلامی انقلاب، ولایت فقیہہ، آزادی، خودمختاری، الہی نظام، یہ سب الہی نعمتیں ہیں۔ زندگی اور عقل خداوند متعال کی وہ عظیم نعمتیں ہیں جو اس نے انسان کو عطا کی ہیں۔ “انقطاع الی اللہ” (ہر چیز سے کٹ کر خدا کی جانب متوجہ ہو جانا) کی حالت بھی ایسی عظیم نعمت ہے جو خدا انسانوں کو عطا کرتا ہے۔ خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اولیاء الہی علیہم السلام، وحی، قرآن کریم اور قیامت پر ایمان نیز خدا سے عشق اور عمل صالح بھی الہی نعمتیں ہیں۔ ماں، باپ، بہن، بھائی، قریبی دوست، مخلص استاد بھی خدا کی عظیم نعمتیں ہیں۔ اچھی اور نیک زوجہ یا اچھا اور نیک شوہر خدا کی دیگر نعمت ہے۔ آنکھیں، کان، زبان، ہاتھ، پاوں، صحت مند بدن اور اچھی صحت بھی خداوند متعال کی نعمتیں ہیں۔ لذیذ کھانے اور پینے کی اشیاء، خوبصورت قدرتی مناظر، رنگ برنگ پرندے، مختلف قسم کے حیوانات، گاڑیاں، نقل و حمل کے وسائل، عظیم الجسہ جہاز اور چھوٹی اور بڑی کشتیاں بھی الہی نعمتیں ہیں۔

 

خداوند متعال سورہ ابراہیم کی آیت 34 میں فرماتا ہے: “اگر تم خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو گننا چاہو تو ہر گز انہیں گن نہیں سکتے۔” ہم کس قدر ان نعمتوں کی قدر کا احساس کرتے ہیں؟ کس قدر ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں؟ سورہ ابراہیم کی آیت 7 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: “اگر تم شکر کرو گے تو یقیناً نعمت میں اضافہ ہو گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت شدید ہے۔” پس ہم خود ان عطا کردہ نعمتوں میں اضافے کا باعث بھی بن سکتے ہیں اور انہیں کھو بھی سکتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: “خدا جسے بھی کوئی نعمت عطا کرتا ہے اس سے واپس نہیں لیتا مگر ایسے گناہوں کے باعث جن کے نتیجے میں وہ نعمت سے محروم ہونے کا مستحق قرار پاتا ہے۔” (بحار الانوار، جلد 73، صفحہ 339) ہر قسم کا گناہ نعمت سلب ہونے کا باعث بنتا ہے۔ چاہے یہ گناہ اعلانیہ ہو یا چوری چھپے ہو، عمل کی صورت میں ہو یا عقیدے کی صورت میں، صغیرہ ہو یا کبیرہ ہو۔ خداوند متعال سورہ انعام کی آیت 120 میں فرماتا ہے: “وہ افراد جو گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں بہت جلد اپنے اعمال کی سزا دیکھ لیں گے۔” اسی طرح سورہ شوری کی آیت 30 میں ارشاد خداوندی ہے: “اگر تم پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو ان اعمال کی وجہ سے ہے جو تم نے انجام دیے ہیں۔”

 

امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: “جب بھی بندے ایسے گناہ کرتے ہیں جو پہلے کبھی انجام نہیں پائے خداوند متعال بھی ان پر ایسی بلا نازل کرتا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔” (اصول کافی، جلد 2، صفحہ 275) اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: “ایسے افراد کی تعداد جو اپنے گناہوں کے باعث مر جاتے ہیں ان افراد سے کہیں زیادہ ہے جو موت کا مقررہ وقت آ جانے کے باعث مرتے ہیں۔” (امالی طوسی، صفحہ 701) امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: “ہر دن اور ہر رات خداوند متعال کی جانب سے ایک ندا دینے والا آواز دیتا ہے: اے خدا کے بندو، خدا کی نافرمانی سے پرہیز کرو کیونکہ اگر چرنے والے حیوانات، شیر خوار بچوں اور عمر رسیدہ افراد کا لحاظ نہ ہوتا تو خداوند متعال ایسا عذاب تم پر نازل کرتا کہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے۔” (میزان الحکمہ، حدیث 6540) اس درد کا علاج موجود ہے اور ہمیں اس کی دوا تلاش کرنی چاہئے۔ عظیم المرتبت صحابی حضرت عمار یاسر رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “میں ایک دن کوفہ کی گلیوں میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ دیکھا امیرالمومنین امام علی علیہ السلام بیٹھے ہیں اور کچھ افراد ان کے اردگرد جمع ہیں۔ آپ علیہ السلام ہر شخص کو اس کی شخصی خصوصیات کی بنیاد پر دستورات فرما رہے تھے۔ میں نے آپ علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: یا امیرالمومنین، کیا آپ کے پاس گناہ کیلئے بھی کوئی دوا موجود ہے؟

 

آپ علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں، بیٹھ جاو۔ میں دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ جب تمام افراد چلے گئے تو آپ علیہ السلام نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: میں تمہیں ایک نسخہ بتاتا ہوں اسے تیار کر لو۔ فقر کا پتہ، صبر کی جڑ، کتمان کی ہریڑ، رضا کی بریڑ، تفکر کا مشروم اور دکھ کا سچمونیا لے لو۔ انہیں اپنے آنسووں سے بھگو دو اور پریشانی کے برتن میں ڈال کر خوف کی آگ کے اوپر رکھ کر ابال لو۔ اس کے بعد اسے بے خوابی کے فلٹر سے گزارو اور (عشق اور جدائی کی آگ میں) جلتے ہوئے پی لو۔ یہ تمہاری دوائی ہے اے مریض۔” (مستدرک الوسائل، جلد 12، صفحہ 171) تفکر، صبر، خدا کی رضا پر راضی ہونا، دکھ، آنسو، خدا کا خوف، قبر اور قیامت سے پریشانی، شب بیداری اور خدائے عز و جل اور مہربان سے متصل ہو جانا گناہوں کے علاج اور الہی نعمتوں کی حفاظت کی دوا ہے۔ ہر چیز سے بے نیاز خدا کے مقابلے میں اپنے فقر پر توجہ دینا، خود کو کمزور، ذلیل، حقیر اور مسکین جاننا گناہ کے درد کی دوا ہے۔ انسان کی اس بیماری کی شفا کا بہترین وقت ماہ مبارک رمضان ہے۔ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: “رمضان کا نام اس لئے رمضان رکھا گیا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔” (کنز العمال، حدیث 23688)

 

رمضان مبارک توبہ، استغفار اور خدا سے دوستی کرنے کا مہینہ، گناہ سے پرہیز کا مہینہ، نفسانی خواہشات کو محدود کرنے کا مہینہ، گناہ معاف ہونے کا مہینہ، شب بیداری کا مہینہ، عبادت، روحانیت، تقوی، اخلاص اور خیر و برکت کا مہینہ ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت، مناجات، دعاوں، گریہ و زاری اور تضرع کا مہینہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: “اے لوگو، برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں کا مہینہ آیا ہے۔ یہ مہینہ خدا کی نظر میں بہترین مہینہ ہے۔ اس کے دن بہترین دن اور اس کی راتیں بہترین راتیں اور اس کے لمحات بہترین لمحات ہیں۔ آپ لوگ اس مہینے میں خدا کے حضور دعوت میں بلائے گئے ہیں اور خداوند متعال کی کرامتوں سے بہرہ مند ہونے والے افراد میں شامل کئے گئے ہیں۔” خاص طور پر ماہ مبارک رمضان میں جو راتیں شب قدر کے نام سے معروف ہیں گناہوں کی معافی اور خدا سے متصل ہونے اور الہی نعمتوں کے نزول اور حفاظت کیلئے بہترین راتیں ہیں۔ شب قدر وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ قرآن کریم نازل ہونے کی رات، قضا و قدر بننے کی رات اور مغفرت الہی کی رات ہے۔ شب قدر ملاقات کی رات اور دعا، تضرع اور مناجات کی رات اور گرویہ و زاری اور توبہ کی رات ہے۔ شب قدر مخلصانہ عبادت اور بندگی کی رات ہے اور اس رات میں کی جانے والی عبادت بے شمار فضیلت کی حامل ہے۔ اس رات سے بہرہ مند ہونا اگلے پورے سال کی خوش بختی میں انتہائی موثر ہے۔

 

خداوند متعال شب قدر کی رات انسان کے اگلے سال کی قضا و قدر مشخص کرتا ہے اور اس کی زندگی، موت، رزق، سعادت اور شقاوت سے متعلق امور طے پاتے ہیں۔ خداوند سورہ قدر میں فرماتا ہے: “اس رات خدا کے اذن سے فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں۔” یہ سب شب قدر کی رات انسانوں پر سلام اور درود بھیجتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔ عظیم انسان ہمیشہ خود کو شب قدر سے بہرہ مند ہونے کیلئے تیار کرتے ہیں اور اس رات بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رات انسان کو گناہ اور غفلت سے دور کر سکتی ہے۔ انسان کی نعمتوں میں اضافہ کر سکتی ہے اور اسے عطا ہونے والی الہی نعمتوں کی حفاظت کر سکتی ہے۔ خود شب قدر بھی ایک عظیم الہی نعمت ہے اور انسانی عقل اس کی حقیقت کو درک کرنے سے عاجز ہے۔ جیسا کہ خداوند متعال سورہ قدر میں فرماتا ہے: “تم کیا جانو شب قدر کیا ہے؟” ہم اس رات کے عظیم ثواب کو نہیں سمجھ سکتے۔ اولیاء الہی نے ہمیشہ اس رات شب بیداری کرنے، دعا اور مناجات کرنے، توسل کرنے اور نماز ادا کرنے پر تاکید کی ہے۔ شب قدر کی رات قرآن کریم نازل ہونے سے یہ نکتہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کی تقدیر قرآن کریم سے بندھی ہے۔ اگر ہم قرآن کریم سے مانوس ہوں، اس کی تلاوت کریں، اس میں غور و فکر کریں اور اس کی تعلیمات اپنی زندگی میں جاری و ساری کریں تو خداوند متعال ہم پر اپنی نعمتوں میں اضافہ کر دے گا۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی ایک بنیاد قرآن کریم کی تعلیمات سے بہرہ مند ہونا ہے۔ وہ بھی خاص طور پر ماہ مبارک رمضان اور شب قدر کی رات میں۔ اس رات زمین کا آسمان سے تعلق، عالم ملک کا عالم ملکوت سے تعلق، مادی دنیا کا ماورائے مادی دنیا سے تعلق استوار ہو جاتا ہے۔ خدا کی جانب آسانی سے پلٹا جا سکتا ہے اور روحانی ترقی کے مراحل طے کئے جا سکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم رمضان کے مبارک مہینے کے لمحے لمحے سے بہرہ مند ہوں اور اگر کوئی شخص اس مہینے میں بخشا نہ گیا تو پھر اس کا بخشا جانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: “جو ماہ رمضان میں بخشا نہ گیا تو پھر کس مہینے میں بخشا جائے گا؟” (امالی شیخ صدوق رح، صفحہ 52) آئیں ماہ مبارک رمضان میں خدا کی جانب متوجہ ہونے اور قلبی رابطہ پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیں اور اپنے گناہوں کو پاک کریں۔ ماہ مبارک رمضان گناہوں کے جلانے کا مہینہ ہے۔ گناہوں کے خاتمے سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔ گناہوں کے خاتمے سے کرونا وائرس کے باعث وبائی مرض کا خاتمہ ہو گا۔ گناہوں کی نابودی سے رکی ہوئی نعمتیں نازل ہو جائیں گی۔ گناہوں کے خاتمے سے الہی نعمتوں سے بہرہ مند ہونا آسان ہو جائے گا۔ گناہوں کی نابودی سے انسان کی زندگی میں آسانیاں اور سکون پیدا ہو گا۔ گناہوں کے ختم ہونے سے انسانی معاشرے کو درپیش مشکلات حل ہو جائیں گی۔ آئیں اور ماضی کے گناہوں اور غفلتوں سے توبہ کریں اور آئندہ گناہ سے دوری کریں۔ تمام گناہوں چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے کو ترک کر دیں۔ گناہ کے چھوٹے ہونے کو نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ کس کی نافرمانی کر رہے ہیں۔

تبصرے
Loading...