قرآنی تفاسیر سے آشنائی

قرآنی تفاسیر سے آشنائی

” عبداللہ بن عمر بیضاوی ” ساتویں صدی ہجری کے شافعی فرقے کے فقیہ ، مفسر اور متکلم گذرے ہیں ۔ بیضاوی جنوبی ایران کے صوبے فارس کے شہر بیضا میں ایک علم پرور خاندان میں پیدا ہوئے ۔ بیضاوی کی معروف تفسیر “انوارالتنزیل و اسرارالتاویل ” ہے ۔ بیضاوی کی یہ تفسیر ، تفسیر بیضاوی کےنام سے بھی مشہور ہے البتہ تفسیر بیضاوی کو “مختصر کشاف ” کا بھی نام دیا گيا ہے کیوں کہ یہ تفسیر زمخشری کی تفسیر کشاف سے بہت زیادہ متاثر ہے ۔ تفسیر بیضاوی فقہی اور کلامی مسائل میں تفسیر کبیر فخر رازی سے بہت زیادہ مشابہ ہے ۔

تفسیر بیضاوی کا ماضی اور حال میں بھی قارئین نے بہت زیادہ خیر مقدم کیاہے ۔ یہ تفسیر قدیم اور جدید مفسرین کے نزدیک بھی بہت اہیمت اور خاص اثر کی حامل رہی ہے ۔ بیضاوی کی تفسیری روش نہ صرف احادیث پر مشتمل ہے اور نہ ہی صرف عقل اور تاویل سے مختص ہے بلکہ یہ سب چیزیں پوری تفسیر ميں قابل مشاہدہ ہیں ۔ انہوں نے آیات کی تفسیر میں ادبی ، تاریخی ، کلامی اور فقہی نکات کا ذکر کیا ہے ۔شیعہ علماء نے بھی تفسیر بیضاوی پر تقریبا بیس کے قریب توضیحات اور حاشیے تحریر کئے ہیں کہ جن ميں سے شیخ بہائی اور قاضی نوراللہ شوستری کے حاشیوں کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔

دیگر معروف مفسرین میں ” جلال الدین سیوطی ” صاحب تفسیر ” ترجمان القرآن ” ہیں۔ سیوطی اس سبب سے کہ اس کام کو بڑے حجم کا اور بار خاطر تصورکررہے تھے اس لئے یہ فیصلہ کیا کہ اس تفسیر کو جو مکمل روایات واحادیث پر مشتمل تھی خلاصہ کریں اور اس کا نام انہوں نے ” الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ” رکھا ۔ سیوطی کی الدر المنثور ، صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن نسائی ، ترمذی و ابی داؤد ، مسند احمد بن حنبل ، تفاسیر طبری اور چند دیگر منابع و مآخذ کی بنیاد پر تحریر میں لائی گئی ہے ۔ سیوطی نےکہ جنہیں حدیث کی شناخت ميں بہت زیادہ تبحر حاصل تھا، اپنی کتاب میں تفسیری روایات ذکر کرنے کے بعد مذکورہ روایات کے بارے میں کوئی جائزہ اور توثیق نہيں پیش کی ہے ۔

گیارہویں صدی ہجری کے معروف مفسرین میں سے ” ملا محسن فیض کاشانی ” کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔ عارف ، حکیم ، محدث اور معروف مفسر فیض کاشانی کی پیدائش 1007 ہجری قمری ميں ہوئی ۔ فیض کاشانی اپنی عمر کے آغاز میں شہر قم میں رہائش پذیر تھے پھر انہوں نے قم سے شیراز کا سفر کیا اور علم حدیث کو سید ماجد بحرانی اور فلسفہ و عرفان کو حکیم و عارف صدرالمتالہین سے سیکھا ۔ اس عظیم شخصیت نے اپنی عمر بابرکت میں بہت زیادہ تالیفات انجام دی ہیں اور اسی سبب سے ،کثرت تالیف سے معروف ہيں ۔ تفسیر صافی ، فیض کاشانی کی تفسیر ہے ۔ یہ تفسیر روایت و احادیث اورعرفانی مسائل پر مشتمل ہے ۔ اس تفسیر کے بارہ مقدمات ہیں جو قرآنی علوم کے بارے ميں ہیں منجملہ ان ميں سے قرآن سے تمسک کی فضیلت ، اہل بیت اطہار علیھم السلام کے نزدیک قرآنی علوم ، متشابہات اور تاویل آيات کے باب میں تحقیق ، اور قرآن کی تفسیر بالرائے جیسے گرانبہا مطالب ہیں ۔ تفسیر صافی کا زیادہ تر حصہ تفسیر بیضاوی سے ماخوذ ہے ۔ البتہ فیض اپنی تفسیر ميں جدت عمل لائے ہیں جیسا کہ ہر آیت سے مربوط روایات کو اسی آيت کے ذیل میں بیان کیا ہے ۔ فیض کاشانی 1091 ميں اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔

لیکن عصر حاضر میں بھی بہت ایسے عظیم مفسر پیدا ہوئے ہيں کہ جن ميں سے ایک تعداد، ایرانی مفسرین کی بھی ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہےکہ ایرانی مسلمانوں نے قدیم زمانوں سے لے کر اب تک ، تفسیر آيات الہی کی نسبت انتہائی شوق و اخلاص اور ایمان کا مظاہرہ کیا ہے ۔ منجملہ ان ایرانی مفسرین میں سے ایک ، علامہ سید محمد حسین طباطبائی ہيں ۔ علامہ طباطبائی 1321 ہجری قمری میں پیدا ہوئے جن کا شمار عظیم مفسرین قرآن میں ہوتا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تفسیر کی تدوین کے آغاز سے لے کر چودہویں صدی تک تفسیریں تحریر کئے جانے کی روش میں کوئی نمایاں روش یا تبدیلی کا مشاہدہ نہيں کیا گيا ۔ اگرچہ ہر تفسیر کو مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے لکھا گیا ہے تاہم چودھویں صدی ميں تفسیر لکھنے کی روش ميں اہم تبدیلی رونما ہوئی اور اس نئی روش کے خالق علامہ طباطبائی ہیں ۔

سید محمد حسین طباطبائی کی مشہور تفسیر “المیزان” ہے ۔ علامہ اپنی تفسیر کے مقدمے ميں اس طرح سے فرماتے ہیں : میں نے اس مقصد سے کہ اہل بیت اطہار کی روش پر تفسیر لکھی ہو صرف مندرجہ ذیل مسائل کو بیان کیا ہے ۔

1 ۔ وہ معارف جو خداوند عالم کے اسماء اور صفات پروردگار کے ناموں سے متعلق ہیں ۔

2 ۔ وہ معارف جو خداوند عالم کے افعال اور اس کے ارادہ و مشیت ، ہدایت و گمراہی ، قضا و قدر ، جبر و تفویض وغیرہ سے مربوط ہيں 3 ۔ وہ معارف جو ان واسطوں کے بارے ميں ہيں جو خدا اور انسان کے درمیان قائم ہیں اور بعض مفاہیم جیسے پردہ ، لوح و قلم ، عرش ، آسمان و زمین اور ملائکہ اور شیاطین وغیرہ پر مشتمل ہيں ۔ 4 ۔ وہ معارف جو دنیا میں انسانوں سے اور اسی طرح دنیا کے بعد کے عوالم یعنی عالم برزخ اور قیامت سے متعلق ہیں ۔ 5 ۔ اور آخر کار نیک اخلاق ، بندگي کی راہ ميں اولیاء الہی کے درجات ، اسلام ، ایمان ، احسان اور اخلاص وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا ہے ۔

تفسیر المیزان کا ماضی کی تفسیروں کی روش کے لحاظ سے ایک اہم امتیاز یہ ہے کہ ماضی کی تفسیروں ميں اس طرح سے معمول رہا ہے کہ ایک آيت کے بارے میں دو تین معنی بیان کئے جاتے اور مختلف امکانات کو نقل کیا جاتا رہا ہے لیکن آخر یہ واضح نہیں ہوپاتا تھا کہ مصنف نے کس معنی کو ترجیح دی ہے اور اپنے مقصود کو بیان کیا ہے ۔ لیکن المیزان نے قرآن کی قرآن سے تفسیر کی روش کے ذریعے، آيت کے چند معانی میں سے ایک معنی کو آیات کی مدد سے ترجیح دی ہے اور آیت کے مقصود کو واضح کیا ہے ۔ یہ امتیاز ، ایک مضبوط تفسیری روش کا آئینہ دار ہے ۔ کہ جس کا علامہ طباطبائی نے انتخاب کیا اور قرآنی تفسیر کو تفسیر بالرائے کی آفت سے دور رکھا ہے ۔ علامہ نے دینی اور قرآنی اصطلاحات جیسے دعا کی قبولیت ، توحید ، توبہ اور جہاد کی آیات کی مدد سے وضاحت کی ہے ۔ علامہ، قرآنی آیات کو روایات کا صحیح معیار قرار دیتے ہیں لہذا جب اہل بیت اطہار علیھم السلام سے منسوب روایات کا، آیات قرآن سے موازنہ کرتے ہیں تو جتنی بھی روایات اس سلسلے میں نقل کی گئی ہيں ان کا جائزہ لیتے ہيں اوراگر وہ آیات کے ساتھ سازگار نہ ہوں تو انہیں بیان کرنے سے گریزکرتے ہيں ۔

تفسیر المیزان ، شیعہ تفسیروں ميں ایک انتہائی اہم اور جامع تفسیر ہے جو شیعہ امامیہ کے نزدیک ، حالیہ صدی کی ایک اہم ترین تفسیر ہے ۔ یہ تفسیر علامہ طباطبائی کی بیس سالہ پیہم کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ اس وقت تفسیر المیزان بیس جلدوں میں شائع ہوچکی ہے اور ان تمام بیس جلدوں کا، عربی زبان سے فارسی ميں ترجمہ کیا گيا ہے ۔ علامہ طباطبائی 1402 ہجری قمری میں انتقال کرگئے ۔

تبصرے
Loading...