عید غدیر کی فضیلت امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں

عید غدیر امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں

دین اسلام میں بعض ایسے دن ہیں جنہیں ایام اللہ کہا جاتا ہے ان میں عید فطر، عید قربان اور عید غدیر کا خاص مقام ہے لیکن تمام اعیاد میں جو مقام عید غدیر کو نصیب ہوا ہے وہ کسی دوسری عید کو نصیب نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ عید غدیر کو عید اکبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ۱۸ ذی الحجہ کا دن عید غدیر کے نام سے مشہور ہے جو صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دیگر مسلمانوں کے نزدیک بھی اسے روز عید شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے سب سے بڑی عید کہہ کر پکارا ہے، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے مقام ولایت پر فائز ہونے کی وجہ سے عید قرار دینے کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے لہذا یہ دن حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کے لئے خوشی و مسرت کا دن ہے۔ تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عظیم عید کی ابتداء پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ سے ہوئی ہے۔ اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غدیر کے صحرا میں خداوندعالم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو امامت و ولایت کے منصب پر فائز کیا، جس کی بنا پر اس روز ہر مومن شاد و مسرور ہوگیا اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس آکر مبارکباد پیش کی۔ مبارک باد پیش کرنے والوں میں خلیفہ اول و دوم بھی تھے اور اس واقعہ کو اہم قرار دیتے ہوئے اور اس مبارکباد کی وجہ سے حسان بن ثابت اور قیس بن سعد بن عبادہٴ انصاری وغیرہ نے اس واقعہ کو اپنے اشعار میں بھی بیان کیا ہے جنہیں تاریخ کے اوراق میں لکھا گیا ہے۔

ہجرت کے دسویں سال ۱۸ ذی الحجہ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو تمام مسلمانوں کے ولی اور سرپرست کے طور پر متعارف کرایا اور فرمایا “من کنتُ مولاہ فھذا علی مولاہ” جس جس کا میں مولی ہوں اس اس کے یہ علی مولی ہیں۔ البتہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین معین کیا تھا لیکن غدیر میں سب کے لئے عیاں کر دیا تا کہ کسی بھی مسلمان کے نزدیک کوئی شک و شبہ نہ رہ جائے۔ لہذا یہ دن تاریخ اسلام کا ایک اہم دن ہے اور اب کئی صدیاں گزرنے کے بعد شیعیان حیدر کرار ائمہ اطہار علیہم السلام کی جانب سے مخصوص اعمال و اذکار بجالاتے ہوئے اپنے مولی و امام سے تجدید عہد کرتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اپنا آخری حج انجام دینے کے بعد مدینہ کی جانب روانہ تھے تو غدیر خم کے مقام پر وحی نازل ہوئی اور خدا کی طرف سے حکم ملا کہ جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے انجام دیں۔

عید غدیر کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بانی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ غدیر اس زمانے (یعنی ہجرت کے دسویں سال) تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ ہر زمانے میں ہے اور اسے زندہ رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ چراغ جلائے جائیں، قصیدے پڑھے جائیں، محفلوں کا انعقاد کیا جائے بلکہ عید غدیر ہمیں اطاعت و فرمانبرداری کا طریقہ سکھاتی ہے۔ اس سلسلہ میں امام خمینی(رہ) مزید فرماتے ہیں کہ عید غدیر کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس نے حضرت علی علیہ السلام کو اہمیت بخشی ہو بلکہ خود حضرت علی علیہ السلام کے وجود بابرکت نے غدیر کو اہمیت عطا کی ہے۔ بانی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) کے نزدیک عید غدیر کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اس دن خدا کے حکم سے پیغمبر اکرم صلی اللہ کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو ایک عادل حکمران کے طور پر مسلمانوں کے سامنے متعارف کرایا گیا۔ امام خمینی (رہ) کا عقیدہ یہ ہے کہ غدیر نے اسلامی حکومت کے نمونے کو معین کیا ہے، ورنہ صرف حکومت کے مسئلہ کی وجہ سے اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ خود حضرت علی علیہ السلام اور آپؑ کے بعد آپ کی اولاد جس چیز کے پیچھے تھی وہ عدالت کا نفاذ تھا اور تمام انبیاء کا ایک اہم مقصد بھی یہی تھا لیکن زمانے کے حالات اور شرائط نے انہیں موقع نہیں دیا۔ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ غدیر خم کے اہم واقعے اور اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین یعنی حضرت علی علیہ السلام کو خلافت سے برخاست کر دینے کی وجہ سے انحراف پیدا ہوگیا کیونکہ ایک معصوم کی جگہ غیر معصوم افراد نے لے لی اور اس کے نتیجہ میں بعد میں یزید جیسے تخت خلافت پر بیٹھے اور انہوں نے خلافت کو سلطنت میں تبدیل کر دیا۔ امام خمینی (رہ) کے نزدیک اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی عقب ماندگی اور مشکلوں میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ وہی انحراف تھا جو علی علیہ السلام کو برکنار کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ 

اسلامی جمہوریہ کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) کے نزدیک اس عید کو زندہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اطاعت اور پیروی کرنے کا طریقہ سیکھیں اور اسے کسی ایک زمانے سے مخصوص نہ سمجھیں اور جو روش و طریقہ کار حضرت علی علیہ السلام نے اپنایا ہم اسے اپنانے کی کوشش کریں۔ بلکہ تمام مسلمان اور عہدیدار بھی اسی روش و طریقے کو اپنائیں۔

عید غدیر منانے کے ساتھ ساتھ اس عید کے پیغامات کو مد نظر رکھنا لازمی ہے، اس عید کا ایک اہم پیغام یہ ہے کہ ہر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے اور دین و شریعت کی پاسداری کرے۔ دوسرے یہ کہ انبیاء علیھم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ہوتا ہے جس کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا۔

تبصرے
Loading...