طاقتور اسلام، امت مسلمہ کی نجات کا واحد راستہ

ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے اپنے حالیہ خطاب میں چند انتہائی اہم اور بنیادی نکات بیان کئے، جن میں سے ایک “سیکولر اسلام” اور “طاقتور اسلام” کے بارے میں تھا۔ یہ نکتہ امت مسلمہ خاص طور پر عرب دنیا میں پیدا ہونے والے انقلابات اور اسلامی بیداری کی تحریک کیلئے واحد راہ نجات کی حیثیت کا حامل ہے۔ ایسا راستہ جس کا عملی میدان میں آغاز ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے ہوا اور اس سے پہلے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات و افکار میں پایا جاتا تھا۔ وہ امر جو ایران میں رونما ہونے والے انقلاب کو تاریخ میں رونما ہونے والے دیگر انقلابات سے مختلف بناتا ہے وہ اس کا “اسلامی” ہونا، اس کی اعتقادی اور اقدار پر مبنی حقیقت اور اسلام کے بارے میں ایک مخصوص نگاہ کا حامل ہونا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل اسلام کے بارے میں ایسی مختلف تعابیر اور تفاسیر موجود تھیں، جن کی کوئی اسلامی اور علمی بنیاد موجود نہ تھی۔ یہی تعابیر اور تفاسیر تاریخ میں رونما ہونے والی مختلف اسلامی تحریکوں میں بھی استعمال ہونے لگیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تحریکیں اقوام کی نجات کا باعث بننے کی بجائے ان کی ناامیدی اور شکست کا باعث بن گئیں۔ دوسری طرف مغربی طاقتوں نے بھی انہیں تعابیر اور تفاسیر کو رائج کرنے کی بھرپور کوشش کی اور مسلمانوں کو حقیقی اور انقلابی اسلام سے دور رکھ کر حقیقی اسلامی ماڈل کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ اسی زمانے سے برطانیہ کے بوڑھے استعمار نے اسلام کے خلاف اسلام بروئے کار لانے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔

مغربی تھنک ٹینکس اس نتیجے تک پہنچ چکے تھے کہ حقیقی اسلام سے مقابلہ کرنے کا واحد کامیاب طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس کے متبادل کے طور پر ایک جعلی اسلام رائج کر دیا جائے۔ مغربی ایشیا میں اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے مغربی طاقتوں کی پالیسیاں اسی نقطہ نظر پر استوار تھیں۔ البتہ بعض عرب ممالک جیسے سعودی عرب جو اسلام کے بارے میں وہابیت جیسی انحرافی سوچ کا مرکز تصور کئے جاتے تھے اور عالم اسلام میں اسی انحرافی سوچ کو رائج کرنے کیلئے دن رات کوشاں تھے، نے اس مغربی سازش اور منصوبے کو آگے بڑھانے میں انتہائی موثر کردار ادا کیا۔ آج بھی یہ ممالک وہابی طرز تفکر کی ترویج کی کوششوں کے ساتھ ساتھ تکفیری دہشت گرد گروہوں کی سیاسی اور فوجی حمایت اور مدد میں مصروف ہیں۔ “اسلامی انقلاب” اور “انقلابی اسلام” کی اہمیت جاننے کیلئے یہی کافی ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل پورا ملک امریکی حکام کی مغربی ایشیا اور اسلامی ممالک سے متعلق منصوبہ بندی اور پلان کے مطابق چل رہا تھا۔ اس زمانے میں بھی آج کے عربی انقلابات کی طرح اقوام کیلئے نجات بخش مزاحمتی ماڈل نہ ہونے اور واحد سیاسی اور اعتقادی نقطہ نظر نہ رکھنے کے سبب مغربی استعمار کے خلاف اٹھنے والی تمام تحریکیں ناکامی کا شکار ہوجاتی تھیں، جس کے نتیجے میں استعماری قوتوں سے ساز باز اور سیاسی لین دین کی طرف جھکاو بڑھ جاتا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خود ساختہ سیکولر اسلام اور اسلام کے بے حس اور اعتدال پسندانہ ماڈلز جو مغربی طاقتوں کے من پسند اور پسندیدہ بھی تھے، امت مسلمہ کے حقیقی اہداف و مقاصد کے حصول اور تکمیل میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے۔ آج بھی مغربی استعماری طاقتیں اسلام کے ایسے ماڈل کی ترویج کیلئے کوشاں ہیں، جو حقیقی اسلام کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہو اور اس کی اہمیت کم ہو جائے۔ ایسا ماڈل جسے مغربی طاقتوں نے ترکی کے ذریعے مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولر مفاہیم کے حامل اسلام کا دائرہ کار صرف شخصی اور انفرادی امور اور سرگرمیوں تک محدود ہوتا ہے۔ ایسے اسلام میں نہ تو مغربی طاقتوں سے مقابلے کی طاقت ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں استعماری قوتوں سے مقابلے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ لہذا آج اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پائے جانے والے تمام خطرات اور دشمنانہ سرگرمیوں کی بنیاد اسلام کے بارے میں نقطہ نظر کے اسی اختلاف پر استوار جانی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے مغربی طاقتوں کو شدید حد تک پریشان کر ڈالا اور 1979ء میں اس کامیابی سے لے کر آج تک امریکہ اور مغربی طاقتوں کے تمام تر منصوبوں اور پالیسیوں کا اصل ہدف اسلامی انقلاب کا خاتمہ اور خطے کی سیاسی محافل سے “انقلابی اسلام” کی اصطلاح کو ختم کرنے پر مبنی رہا ہے۔

کوئی اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ جب تک خطے کی اقوام امریکہ اور اسرائیل سے ساز باز کی پالیسی پر عمل پیرا رہنماوں سے راضی تھیں، انہیں سوائے مایوسی اور شکست کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کیا اس امر سے چشم پوشی اختیار کی جا سکتی ہے کہ عراق، شام اور لبنان سمیت خطے میں اسلامی مزاحمت کو حاصل ہونے والی تمام تر کامیابیاں “طاقتور اسلام” اور “انقلابی اسلام” کے زیر سایہ ہی حاصل ہوئی ہیں؟ کوئی فلسطین اتھارٹی سے پوچھے کہ گذشتہ تین عشرے سے اسرائیل سے مذاکرات اور گفتگو کے ذریعے انہیں سوائے توہین اور مظلوم فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی بربریت اور جارحیت میں اضافے کے کیا حاصل ہوا ہے؟ کیا فلسطین، لبنان، عراق اور شام میں اسلامی مزاحمت کی فوجی اور سیاسی طاقت امریکہ اور مغربی ممالک کے امن منصوبوں پر عمل پیرا ہونے یا بے حس سیکولر اسلام کی ترویج کا نتیجہ ہے یا قومی خود اعتمادی اور طاقتور حقیقی اسلام پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج حقیقی اسلام کی برکت سے خطے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے وقار اور اقتدار میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتیں تکفیری دہشت گرد عناصر اور آل سعود رژیم کے ذریعے سیکولر اسلام کے مردہ بدن میں نئی روح پھونکنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہیں، لیکن یہ مردہ سیکولر اسلام امریکی تعمیر کردہ عرب ٹاورز اور شہزادوں کے محل میں بوسیدہ ہوتا جا رہا ہے۔

مأخذ: اسلام ٹائمز

تبصرے
Loading...