رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

پیغمبر اکرمؐ لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں جن اصولوں کے پابند تھے ایک اعتبار سے ان کی تین قسمیں ہیں: ۱۔ وہ اصول جن کی آپؐ نے کافر و مسلمان دونوں کی نسبت رعایت کی۔ ۲۔ وہ اصول جو صرف مؤمنوں کے ساتھ برتاؤ میں آپؐ نے مد نظر قرار دئے۔ ۳۔ وہ اصول جو کفّار حربی اور فاسقوں کے ساتھ برتاؤ میں مد نظر قرار دئے۔

پیغمبر اکرمؐ ایسے معاشرہ میں رسالت پر مبعوث ہوئے جو اجتماعی اعتبار سے بہت سی مشکلات میں گرفتار تھا، دشمنی و عداوت، رقابت اور دائمی کشمکش اس میں نمایاں تھیں، پیغمبر اکرمؐ نے اسلامی تعلیمات کے سایہ میں کچھ ہی مدت میں جہالت و تباہی میں گرفتار معاشرہ میں ایسی تبدیلی لائی جس کے نتیجہ میں اجتماعی مفاسد، ہرج و مرج، نا امنی اور قومی لڑائی کے بجائے اتحاد، امنیت، برادری، محبت اور ایثار کا بول بولا ہونے لگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے مفسّر قرآن کے عنوان سے اسلام کی اقدار کو عملی جامہ پہنایا۔ عصرِ حاضر میں بھی پیغمبر اکرمؐ کی سیرت تمام مسلمانوں کے لئے نمونۂ عمل بن سکتی ہے اس مقام پر ہم آپؐ کی اجتماعی سیرت کے کچھ برجستہ اصول کی جانب اشارہ کر رہے ہیں:

پیغمبر اکرمؐ لوگوں کے ساتھ مہربانی و صداقت سے پیش آتے تھے آپؐ خود بھی خود نمائی اور تکلّف سے دوری اختیار کرتے تھے اور دوسروں کو بھی یہی حکم دیتے تھے۔ کیونکہ معاشرہ میں اگر صداقت نہ ہو تو اس معاشرہ کی بنیادیں لڑ کھڑا جاتی ہیں اور اجتماعی نظام اپنے اصلی راستہ سے خارج ہو جاتا ہے آپؐ نے اعلان کیا: قُلْ مَا أَسْئلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْر وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص/۸۶)۔  ترجمہ: اور پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا غلط بیان ہوں۔

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ نے جملۂ ” مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ” سے اپنے بارے میں تمام بناوٹی چیزوں اور خودپسندی کی نفی ہے۔ (طباطبائي، الميزان، ج 17، ص 225)۔ پیغمبر اکرمؐ اگر کسی کو نہیں چاہتے تھے تو اس سے اظہار ارادت بھی نہیں کرتے تھے اور اپنے مخالفین کے ساتھ صداقت سے پیش آتے تھے۔ ابوذر غفاری سے منقول ہے کہ ایک دن سلمان فارسی نے پیغمبر اکرمؐ کے پاؤں کا بوسہ لینے کا ارادہ کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ میں خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں اور میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو جیسے عجمی اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کا احترام: پیغمبر اکرمؐ صرف اسلام کو دین حق اور سیدھا راستہ سمجھتے تھے لیکن اسلام کی حقانیت اور عالمی دین ہونے کے باوجود دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کا بھی احترام کرتے۔ جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے تو وہاں بہت سے یہودی اور بت پرست بھی زندگی بسر کر رہے تھے لہذا کسی احتمالی واقعہ رونما ہونے کے پیش نظر آپؐ نے ایک اہم قرار داد لکھی جسے تاریخ اسلام میں یاد کیا جاتا ہے۔ آپؐ نے مسلمانوں کے ساتھ ہم پیمان گروہوں کے حقوق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اَلا مَن ظَلَمَ مُعاهِداً اَو اِنتَقَصَهُ اَو كلَّفَهُ فَوقَ طاقَتِهِ اَو أخذ مِنهُ شَيئاً بِغَيرِ طيبِ نَفسِهِ فَاَنَا حَجيجُهُ يومَ القيامَةِ” آگاہ ہو جاؤ کہ جو شخص مسلمانوں کے کسی ہم پیمان پر ظلم کرے یا اسے نقصان پہنچائے یا اسے ایسے کام کو انجام دینے پر مجبور کرے جو اس کی طاقت سے باہر ہے یا اس کی رضایت کے بغیر کوئی چیز لے لے تو روز قیامت میں اس سے بری ہوں۔

پیغمبر اکرمؐ اجتماعی تعلقات برقرار کرنے میں جس اصل کے پابند تھے اور اسے دوست و دشمن مسلمان و کافر سب کے حق میں رعایت کیا وہ عدالت اور حق مداری تھی بنیادی طور پر پیغمبر اکرمؐ کا ایک اہم مقصد معاشرہ کے تمام پہلوؤں میں عدالت کا نفاذ تھا۔ پیغمبر اکرمؐ نے عدالت طلبی اور نفاذ عدالت کے لئے نہایت اہم مقدمات انجام دئے منجملہ: ۱۔ تمام قسم کے ظلم و طبقہ بندی و اشرافیت سے مقابلہ کیا اور اس طرح کی صفات کی شدید مخالفت کی اور انسانوں میں برابری و برادری کے نعرہ سے تمام قسم کے ظلم و ستم کا خاتمہ کیا۔ آپؐ نے جاہلی غیر عادلانہ معیاروں کی مخالفت کرتے ہوئے انسانوں کی برتری کا ایک اور معیار قرار دیا جسے تقویٰ کہتے ہیں۔

پیغمبر اکرمؐ نے فتح مکہ کے دن اعلان کیا: ايّها الناس! انّ اللّه اذهب عنكم نخوة الجاهلية و تفاخرها بابائها، انّكم منِ آدم(عليه السلام)و آدم من طين الا انّ خير عباداللّه عبد اتقاه” ( كليني، الكافي، ج 8، ص 231) اے لوگو! خداوندمتعال نے خودپسندی اور جاہلیت کی طرح اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنے کو مٹا دیا، آگاہ ہوجاؤ کہ تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ کو خاک سے پیدا کیا گیا لہذا خدا کے بندوں میں سب سے برتر وہ ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ ۲۔ نفاذ عدالت کے لئے تلاش: پیغمبر اکرمؐ نے اجتماعی عدالت کے نفاذ میں بہت سی کاوشیں انجام دیں جن میں نمایاں اسلامی حکومت کی تشکیل تھی اور آپؐ کی نظر میں حکومت تشکیل دینے کا فلسفہ معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کا اجرا اور نفاذ عدالت تھا۔ اسی وجہ سے آپؐ ہمیشہ اپنی حکومت کے عہدیداروں کو بھی نفاذ عدالت کی بہت زیادہ تاکید کیا کرتے۔ آپؐ نے حتی بعثت سے پہلے بھی معاشرہ میں عدالت کے نفاذ اور ظلم و ستم کے مقابلہ کے بارے میں مکہ کے کچھ نوجوانوں کے ساتھ پیمان باندھا جسے “حلف الفضول” کہا جاتا ہے۔

پیغمبر اکرمؐ اجتماعی عدالت کے بارے میں اگر کسی شخص یا کسی گروہ کے ساتھ پیمان باندھتے تو اس پر پابند رہتے اور اسے ایک شرعی ذمہ داری سمجھتے تھے جس کا خدا نے حکم دیا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام آپؐ کی توصیف میں فرماتے ہیں: كان اجود الناسِ كفّاً و اجرء النّاس صدراً و اصدق الناسِ لهجةً و اوفاهم ذمةً (مجلسي، بحارالانوار، ج 16، ص 231) پیغمبر اکرمؐ سب سے زیادہ سخی، با جرأت، صادق اور لوگوں کے ساتھ باندھے گئے عہد و پیمان کے وفادار تھے۔ مؤرخین نے متعدد کتابوں میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے ساتھ آپؐ کے عہد و پیمان کو نقل کیا ہے۔

تبصرے
Loading...