راہ حل کا پہلا قدم

راہ حل کا پہلا قدم

شہیدراہ حق سیدسعید حیدر زیدیؒ کا فکر انگیز مضمون

اپنی زندگی کے لئے کسی مقصد اور نصب العین کا تعین کر کے قدم اٹھانے والے افراد کی زندگیاں ان افراد کی زندگیوں سے یکسر مختلف ہوتی ہیں جو بغیر کسی مقصد وہدف کا تعین کئے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔
بامقصد زندگی بسر کرنے والے افراد کی جدوجہد اور کوششیں ایک متعین رخ پر ہوتی ہیں۔ان کی زندگی کامقصد اور نصب العین جس قدر اعلیٰ وارفع ہوتا ہے‘ اور اس سے ان کی وابستگی جتنی پختہ ہوتی ہے ‘اتنا ہی وہ اپنی زندگی میں اسے اہمیت دیتے ہیں‘اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ہر ممکن ذرائع تلاش کرتے ہیں‘ہر ممکن صلاحیت اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اور ہر ممکن کو ششیں بروئے کار لاتے ہیں۔یہ لوگ اگر کامیاب نہ رہیں تب بھی کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا‘اور وہ اپنے اعزہ واقرباء کے لئے قابل فخر ٹھہرتے ہیں۔

مذکورہ لوگوں کے برخلاف وہ لوگ جو اپنی زندگی کے لئے کسی مقصد کا تعین نہیں کرتے‘ان کے شب وروز بغیر کسی منصوبہ بندی کے یوں ہی گزر جاتے ہیں۔ان میں دوسرے لوگوں کی ہی طرح ایک پر آسائش ومطمئن زندگی کی طرف رجحان تو پایا جاتا ہے؛ لیکن وہ اپنی اس پسندیدہ زندگی کے لئے بھی کسی غیر مترقبہ موقع کے منتظر رہتے ہیں‘اب اگر انہیں کوئی مشکل درپیش ہو یا اپنے مفادات پر کوئی کاری ضرب پڑتی محسوس ہو تو اس کے برخلاف ردِ عمل میں عارضی طور پر متحرک ہوجاتے ہیں؛لیکن جوں ہی خود کو امان میں دیکھتے ہیں تو جدوجہد ترک کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جاتے ہیں۔

یہ تو افراد کی بات تھی‘قوموں کا معاملہ بھی یہی ہے ۔جو اقوام کسی مقصد ونصب العین کا تعین کرکے اس سے وابستہ ہوکر‘ اس کے حصول کے لئے کوشاں ہوتی ہیں وہ جلد یابدیر اپنا مقصد پالیتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر قوم کے اکابرین،اپنی قوم کے سامنے کوئی مقصد اور نصب العین رکھتے ہیں‘جو کبھی لادینی اقدار و نظریات پر مبنی ہوتا ہے اور کبھی مادی‘ معاشی‘ اور اقتصادی مفادات پر ۔ الغرض اچھے اور برے‘ درست اور غلط‘اعلیٰ اور پست مقاصد قوموں کے سامنے رکھے جاتے ہیں اور قائدین کی طرف سے ان کے حصول کے لئے منصوبہ بندی اور جدوجہد کا تقاضا کر کے قوم کو عمل پر ابھارا جاتا ہے۔
ملت جعفریہ پاکستان‘تقریباًنصف صدی پر محیط ملکی تاریخ کے حالیہ چند برسوں میں انتہائی درجے کی تشویش‘ اضطراب اور عدم تحفظ کا شکار ہے‘ جس کی سب سے بڑی وجہ ملت کے خاص وعام افراد کا چن چن کر قتل کیا جانا اور اس صورتحال کے تدارک میں حکومت و انتظامیہ کا کوئی سنجیدہ قدم نہ اٹھانا ہے.

گزشتہ چند برسوں سے شروع ہونے والی اس دہشت گردی کے نتیجے میں اب تک ملت کے سینکڑوں سپوت جام شہادت نوش کر چکے ہیں‘کتنے ہی گھرانے اجڑ چکے ہیں؛لیکن حکومت سے باہر کوئی دینی وسیاسی قوت اس قتل و غارت کے انسداد کے لئے سنجیدگی سے کوئی قدم اٹھانے پر تیار ہے اور نہ ہی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ۔

خود ملت کی بے حسی کا یہ عالم

خود ملت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی دن میں دس دس لاشے دفنانے کے بعد لوگ اطمینان سے گھر جاکے سو جاتے ہیں‘ملت میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوتا‘چارہ جوئی کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی‘ گنتی کے چند افراد جذبات سے مغلوب ہو کر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں؛ لیکن ان کمزور‘قلیل اور غیر منظم افراد کی صدائیں‘صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے ‘جن کا کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔

بے گنا ہ شیعوں کا قتل عام تو وہ مشکل ہے جو باہر سے ہم پر مسلط کی گئی ہے ‘جو ہماری رائے میں اسلام کے خلاف دشمن قوتوں کی سازش میں سے ایک سازش ہے ‘ جس میں ملوث نظر آنے والے مقامی افراد کا دراصل کوئی دین نہیں‘امت مسلمہ کے مفادات سے انہیںکوئی سروکار نہیں‘وہ صرف اور صرف استعماری قوتوں کا حق نمک ادا کررہے ہیں اور مسلم ممالک پر ان کے پنجے مضبوط کرنے کا باعث بن رہے ہیں؛
لیکن اگر داخلی طور پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ مختلف شعبوں میں ہماری اپنی کارگزاری کیا ہے ؟
تبلیغ دین‘قوم کی اصلاح وتعمیر‘ ملکی سیاست‘ امت مسلمہ کے مسائل وغیر وغیرہ جیسے میدانوں میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
تو بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ: ان میدانوں میں بھی ہمیں سنجیدہ اور شعوری کوششوں کا فقدان ہی نظر آتا ہے ۔

بعض دوستوں کے خیال میں قوم کی اس درماندگی کا سبب قیادت کا فقدان ہے ‘کچھ دوسرے دوست کہتے ہیں کہ ملت میں اتحاد نہیں اس لئے یہ دن دیکھ رہی ہے ۔

ہمارے خیال میں دونوں ہی وجوہ بنیادی نہیں۔جو دوست درست قیادت کے فقدان کو اصل اور بنیادی سبب قرار دیتے ہیں‘ان سے ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر کسی بھی فرد کا آگے بڑھ کے ملت کی قیادت کا علم سنبھال لینا قیادت کے خلا کو پر کرنا ہے ،تو گاہے بگاہے مختلف قائدین سامنے آتے ہی رہے ہیں اور ہمیشہ کچھ لوگوں نے قیادت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہوتا ہے.

بات اتحاد واتفاق کی

رہی بات اتحاد واتفاق کی‘تو اس کی اہمیت اور قوموں کی کامیابی میںاس کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا؛لیکن یہ بتائیے کہ کونسی قوم محض انتشار وافتراق سے محفوظ ہونے کی وجہ سے کامیاب ہوئی‘ اسکی کامیابی میں یقینا اپنی منزل کا شعور‘قیادت کی اتباع اور سخت جدوجہد کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔پھر کسی قوم میں کامل اتحاد کا پایا جانا بھی ایک محال امر ہے ۔

ہمارے خیال میں ملت جعفریہ پاکستان کی ابتر صورتحال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ملت میں کوئی ایسی قیادت نہیں ابھری جس نے اس کے سامنے بلند اور جامع نصب العین رکھا ہو‘اس کے حصول کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ہو‘لائق وسرگرم افراد کی ٹیم تیار کی ہو اور قوم کو متحرک کیا ہو۔

واضح رہے یہ نصب العین کوئی ایسی چیز نہیں جسے وضع کرنے کی ضرورت ہو‘بلکہ یہ شیعی عقائد اور اس کی تاریخ میں موجود ہے بس اسے طاق نسیاں سے نکالنے‘اس کو ازسرنو احیاء اور قوم میں اس کے حصول کا شوق و ولولہ پیدا کرنے اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس کی سمت قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اگر آپ کو ہماری بات پر شبہ ہو تو پاکستان میں گاہ بگاہ ابھرنے والی شیعہ تنظیموں اور تحریکوں کا مطالعہ کر لیجیے‘یہ تمام کی تمام کسی رد عمل کے نتیجے میں انتہائی محدود،وقتی اور عارضی مقاصد ومطالبات کے لئے وجود میں آئیں۔ملک گیر سطح کی دو تنظیموں‘امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور امامیہ آرگنائزیشن کا قیام گو کہ کسی ردعمل کا نتیجہ نہیں لیکن ان دونوں تنظیموں نے بھی قوم کے سامنے ایسا اجتماعی نصب العین پیش کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی جو قوم کو اسکی حقیقت سے جوڑتا ‘اس میں استحکا م بھی پیدا کرتا اور اس کی ترقی کا باعث بھی ہوتا۔

دینی مدارس

ہمارے دینی مدارس‘جن کی تعداد میں گزشتہ بیس بائیس برسوں میں کافی اضافہ ہوا ہے‘اس کی تاسیس بھی کیونکہ کسی ملی اور اجتماعی نصب العین کے شعور کے ساتھ نہیں ہوئی‘اس لئے وہاں سے فارغ ہونے والے طلبا بھی سوائے چند دینی احکام کی تلقین کے ملت کو کسی ارفع اجتماعی نصب العین کی طرف دعوت دیتے نظر نہیں آتے۔

ہمارے یہاں لٹریچر کے میدان میں بھی مقصدیت اور منصوبہ بندی کا فقدان صاف دکھائی دیتا ہے۔کسی ایک بھی ایسے اشاعتی ادارے کی طرف اشارہ نہیں کیا جاسکتا جو قوم کو کسی مقصد سے وابستہ کرنے‘اس کی تنظیم اور نسل نو کا دین سے رشتہ استوار کر کے اس کی ترویج کے لئے متحرک کرنے کی غرض سے سنجیدہ غور وفکر کے بعد لٹریچر تیار کر رہا ہو۔

ملت کی بنیادی مشکل

جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں ملت کی بنیادی مشکل یہی ہے اگر اکابرین ملت‘ علمائے کرام اور دانشور ملت جعفریہ پاکستان کے سامنے تشیع کے نصب العین اور مقصد کو اجاگر کریں اور اس کے حصول کے لئے اجتماعی جدوجہد کی داغ بیل ڈالیں‘تو اس طرح ایک طرف اس عمل سے ملت اپنے مذہبی فریضے سے سبکدوش ہوگی اور دوسری طرف یہ عمل ملی استحکام‘مضبوطی اور ترقی وپیشرفت کا باعث ہوگا۔

کسی مقصد اور نصب العین کا شعور اور اس سے وابستگی بکثرت ثمرات کا باعث ہوتی ہے مثلاً:
مقصد اور نصب العین قوم کی جدوجہد کی سمت معین کرتا ہے اور وہ عارضی مسائل ہی میں الجھی نہیں رہتی۔

منزل پیش نظر ہو تو اس تک پہنچنے کے ذرائع اور وسائل واضح ہوجاتے ہیں اور ان کا حصول، قوم کے استحکام کا باعث ہوتا ہے ۔

مقصد متعین ہو

مقصد متعین ہو تو اس کے حصول میں حائل رکاوٹیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں‘ اور ان کے تدارک کے لئے تدبیریں بھی کی جاتی ہیں۔
ارفع واعلیٰ مقصد سے وابستگی‘قوم کو بڑی مصیبت کے سامنے ثابت قدم رکھتی ہے اور وہ خندہ پیشانی سے اس کا مقابلہ کرتی ہے ۔
مقصد سے وابستگی قوم کو متحد ومنظم کرتی ہے ۔
مقصد قوم کو خو احتسابی کا پیمانہ فراہم کرتا ہے ۔
اوپر کی گئی پوری گفتگو کاخلاصہ یہ ہے کہ ملت کی تعمیر وتنظیم‘ اسکے استحکام اور اس کی ترقی کا جذبہ رکھنے والے علمائے کرام‘دانشوروں اور دینی کارکنوں پر لازم ہے کہ ملت کے سامنے ایک مقصد اور نصب العین رکھ کر‘ اس سے وابستہ کر کے‘اس کے حصول کے لئے متحرک کرنے کی غرض سے اپنی جدوجہد منظم کریں۔یہی تمام مسائل کے حل کی بہترین صورت بھی ہے اور ملت کو اس کے صحیح راستے پر ڈالنے کا ذریعہ بھی۔

تبصرے
Loading...