دی ماہ 57 ھ کے آخری دنوں میں امام خمینی کے ساتھ

وطن عزیز ایران کے مختلف شہروں میں عوامی مظاہرے ولولہ انگیز انداز میں جاری ہے اور میری نظر میں یہ سب، مکرر عوامی ریفرنڈم ہے کہ ملت ایران کو شــاہ، اس کی حکومت اور اس کی سلطنتی کونسل، منظور نہیں ہے۔

(صحیفه امام؛ ج۵، ص۴۹۸)

پہلوی کے آخری ایام حیات ہے، تہران اور ملک کے تمام شہروں میں ہنگامہ خیز اور تشویش ناک دنوں گزر رہے ہیں۔

امام خمینی(رح) سالہا ایران سے نفی بلد ہوکر عراق میں جلاوطنی کے دوران گزارنے کے بعد، اس وقت فرانس میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہ غیرملکی نامہ نگاروں کےلئے نادر موقع ہے کہ آپ کے حضور سے ایران کے مستقبل کے بارے میں آپ ہی کے نظریات سے آگاہ ہوں۔

ملک کا کنٹرول، شاہ اور شاہی حکومت کے ہاتھ سے باہر ہوچکا ہے۔ وزیراعظم یکے بعد دیگرے جابجا کرایا گیا لیکن ملت کشتی انقلاب سے اترتی نہیں ہے۔ ادھر امام خمینی(رح) گرچہ میلوں وطن سے دور ہے لیکن اپنے پیغامات اور احکامات کے ذریعے کشتی کی پتوار مضبوطی سے تھامے، امت کو ساحل نجات کی طرف ہدایت فرما رہے ہیں۔

ولیم سلیوان، ایران میں امریکی آخرین سفیر، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے:

اسی ایام میں واشنگٹن سے ایک پیغام موصول ہوا کہ پہلی ہی فرصت میں شاہ کے ساتھ ملاقات کی جائے اور مطلع کروں کہ شاہ اور مملکت کی مصلحت کی بناپر، امریکی متحدہ ریاست اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ شاہ جلد ہی ملک سے باہر نکلے! البتہ اس پیغام سے پہلے، ذرائع میں شاہ کا ایران سے نکلنے کے بارے میں فیصلہ، شائع ہوچکی تھی لیکن سرکاری طورپر اعلان عام ہوا نہیں تھا۔ اس بناپر کچھ شبہات موجود تھیں۔

بہرحال، شہنشاہ اور ملکہ، ۲۶ دیماہ کو معینہ پروگرام اور سادہ سرکاری رسومات کے تحت شہنشاہی مہرآباد ہوائی اڈے گیٹ سے تہران کو روتے ہوا، خیرباد کہہ کر چلا گیا۔

خبریں ریڈیو پر نشر کیا گیا، تہران میں خوشیوں کا دھماکہ پھوٹ پڑا، ملت ہلہلہ کناں، گاڑیوں کے ہارن کی آواز بجھاتے ہوئے سڑکوں پر نکلے۔

دوسرا دن، ۲۷ دیماہ کو امام خمینی نے ایرانی قوم کے نام پیغام میں شاہ کا فرار کو مبارک باد دیتے ہوئے انہیں اپنے فرائض کے حوالے سے آگاہ فرمایا۔

اس پیغام میں آپ لکھتے ہیں:

ملک بھر میں پرجوش نوجوانوں کےلئے ضروری ہے کہ انتظام برقرار رکھنے کےلئے، انتظامیہ عملہ کے ساتھ جو آغوش ملت کی طرف پلٹ آئے ہیں بھرپور تعاون کریں اور تمام طاقت اور سنجیدگی کے ساتھ

افراتفری، تعدی اور عدم تحفظ ایجاد کرنے والے بدخواہ عناصر کو موقع نہ دیں۔

(صحیفه امام، ج‏۵، ص۴۸۶)

ملک سے شاہ کا فرار، ملت ایران کےلئے انصاف کے حصول کی نئی راہ اور امید کی کرن ہے اور غیرملکی نامہ نگاروں نے رفتہ رفتہ عوامی قیام کو تسلیم کرتے ہوئے امام خمینی کے ساتھ مختلف موضوعات نیــز انقلاب کے آئے دن کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔

۲۷ دی ماہ کو اکسپرس نشریہ کا نامہ نگار نے امریکہ، اسرائیل اور آزادی کے حدود سے متعلق، انقلاب کی پالیسی کے بارے میں امام سے سوال کیا۔

امام خمینی(رح) نے جواب میں فرمایا: ایک اسلامی نظام میں، آزادی واضح اور مکمل ہوگی۔ ہاں وہ آزادی جو لوگوں کے مفادات کے خلاف اور انسان کے وقار کو نقصان پہنچاتی ہو، وہ آزادی نہیں دی جا گئی۔

(صحیفه امام، ج‏۵، ص۴۸۹)

رہبر کبیر انقلاب اسلامی نے وطن واپسی سے متعلق، فرانسیسی ٹی وی رپورٹر کا سوال کے جواب دیتے ہوئے، فرماتے ہیں: جب بھی مصلحت سمجھا اور ایران جانا زیادہ کارساز نظر آئی تو ضرور جاؤں گا۔

(صحیفه امام، ج‏۵، ص۴۹۹)

امام خمینی(رح) نے رائے عامہ اور عوامی دباؤ کو قانونی حیثیت دیتے ہوئے فرمایا: وہ کہتے ہیں کہ ایران میں شاہی نظام رائے عامہ کی بناپر مستقر ہوا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، اب ہم کہتے ہیں کہ رائے عامہ قانون ہے اور اسی کے تحت وہ معزول ہے…

(سابقہ ماخذ)

آپ نے دیماہ کے آخری دنوں میں ملت ایران کے نام، پیغام میں فرماتے ہیں: اگرچہ آپ کی مقدس اسلامی تحریک، خون شہدا اور سخت وجانسوز مصائب کے ساتھ ہمراہ تھی لیکن آپ کی آزادی خواہی اور استقلال طلبی، تاریخ کی پیشانی پر ثبت وضبط ہوئی ہے… نیــز آپ نے ثابت کرچکے کہ آگاہ ملت کی طاقت، تمام سپرپاور طاقتوں کے ہتھیاروں پر کامیاب ہے۔

(صحیفه امام، ج‏۵، ص۵۰۱)

 

ماخذ: http://jplus.jamaran.ir

تبصرے
Loading...