دنیا کے عیسائیوں کے نام امام خمینی کا پیغام

اے مسیحیو! حضرت مسیح علیہ السلام کی مسیحائی شرافت کا دفاع کرو۔

حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر حضرت امام خمینی نے دنیائے مسیحیت کے نام اپنے ایک پیغام میں اس عید سعید کی مبارکباد دیتے ہوئے کچھ نکات کی جانب انکی توجہ مبذول کرائی ہے۔

23 دسمبر 1979 کو نشر ہونے والے اس پیغام کے ایک حصے میں آیا ہے:

حضرت مسیح جیسے عظیم الشان پیغمبر جو مظلوموں کی حمایت اور معاشرے میں عدل و انصاف کے نفاذ کیلئے مبعوث ہوئے تھے اور اپنے الہی کردار کے ذریعے ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ مظلوموں اور کمزوروں کی پشت پناہی کرتے تھے، کی ولادت کے موقع پر دنیا کی مظلوم قوموں اور پوری دنیا اور وطن عزیز کی کریسچن  کمونیٹی کے مسیحی مومنین  کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

اے چرچ کے متوالیو اور حضرت مسیح علیہ السلام  کے روحانی پیروکارو! عالمی اسکتبار کے پنجے میں دبے ہوئے دنیا کے مظلوموں اور مستضعفوں کی حمایت کیلئے اٹھ کھڑے ہوں اور خدا کی خوشنودی اور حضرت مسیح علیہ السلام کی پیروی میں ایران کی مظلوم عوام کی حمایت میں ستمگروں کے خلاف اپنی عبادتگاہوں کے ناقوس بجا ڈالو۔

صحیفه امام؛ ج11، ص375

وای ہو ان لوگوں پر جو حضرت مسیح اور تمام انبیاء الہی علیہم السلام کے دستورات کے بر خلاف ظالموں، جاسوسوں اور دنیا کی مختلف قوموں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے مفادات کیلئے جد و جہد کرتے ہیں۔

اے ملت مسیح اور حضرت عیسى روح اللَّه کے پیروکارو! حضرت مسیح علیہ السلام کی شرافت اور عیسائی قوم کے دفاع کیلئے قیام کرو اور ہرگز اس بات کی اجازت نہ دو کہ آسمانی تعلیمات کے دشمن اور الہی دستورات کے مخالف، اقوام عالم کے سامنے، عیسائی قوم اور حضرت عیسی کی روحانیت کا تعارف برے  اور مسخ شدہ انداز سے کریں۔

اے چرچ کے متوالیو! اٹھ کھڑے ہوں اور عیسى مسیح کو ان بھیڑیوں کے پنجے سے نجات دلاو۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ کے یہ عظیم پیغمبر ان ستمگروں سے بیزار ہیں جو دین اور مذہب کو ظلم کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور دعا کو لوگوں پر ستم روا رکھنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں جبکہ  آسمانی تعلیمات پر مشتمل الہی دستورات، مظلوموں کی نجات کیلئے عالم ملکوت سے نازل ہوئی ہیں۔

اے دینا کے مستضعفین! قیام کرو اور ایک دوسرے کے ساتھ  شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر ظالموں کی بساط لپیٹ دو، کیونکہ یہ زمین اللہ کی ہے اور اس کے وارث دینا کے مستضعفین اور کمزور لوگ ہیں۔

صحیفه امام؛ ج11، ص376

تبصرے
Loading...