خمینی کا وصال یار فراق یاران

امام خمینی: حادثوں ہی سے عبارت ہوگئی ہے زندگی  //  انتظار دوست میں ہوں نیمہ خرداد سے

امام خمینی (رح) نے مشن، نظریات اور وہ تمام باتیں جو لوگوں تک پہنچانی تھیں، سب کچھ پہنچا دیا تھا اور عملی میدان میں بھی اپنی تمام ہستی اور وجود، الہی اہداف و مقاصد کی تکمیل کےلئے وقف کر دیا تھا۔ اب چار جون 1989ء کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستی کے وصال کےلئے آمادہ کر رہے تھےکہ جس کی رضا حاصل کرنے کےلئے آپ نے اپنی پوری بابرکت عمر صرف کردی تھی اور ان کا قامت رعنا سوائے اس عظیم ہستی کے حضور کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسی اور کےلئے اشک ریزی نہیں کی۔

خمینی کے عرفانی اشعار و غزلیں سب کی سب محبوب کے فراق کے درد و غم اور وصال محبوب کی تشنگی کے بیان سے ہی عبارت تھیں۔ خمینی کےلئے وہ عظیم اور ان کے شیدائیوں کےلئے وہ جانکاہ لمحہ آن پہنچا۔ آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں رقم فرمایا ہے:

“خدا کے فضل و کرم سے پر سکون دل، مطمئن قلب، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب کوچ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا کرتا ہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کردے اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرےگی اور پوری قوت و عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائےگی”۔

حیرت کی بات یہ ہےکہ امام خمینی نے اپنی ایک غزل میں اپنی رحلت سے کئی سال قبل یہ شعر کہا تھا:

” انتظار فرج از نیمہ خرداد کشم // سالہا می گذرد و حادثہ ہا می آید “

حادثوں ہی سے عبارت ہوگئی ہے زندگی  //  انتظار دوست میں ہوں نیمہ خرداد سے

13 خرداد 1368 ہجری شمسی، مطابق 3 جون 1989ء کی رات 10 بج کر بیس منٹ کا وقت محبوب سے وصال کا لمحہ تھا، وہ دل دھڑکنا بند ہوگیا جس نے لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنویت سے زندہ کیا تھا۔

امام خمینی کے چاہنے والوں نے ہسپتال میں نصب کیمرے کی مدد سے آپ کی علالت، آپریشن اور لقائے حق کے لمحات کو ریکارڈ کیا۔ جس وقت ان ایّام کی حضرت امام کے معنوی اور پر سکون حالات کے محض چند گوشوں کی متحرک تصویریں ٹیلی ویژن سے نشر ہوئیں لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور دلوں پر یہ تصویریں اتنا گہرا اثر چھوڑ گئیں کہ جن کا سمجھانا اور بیان کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ کوئی خود اس موقع پر موجود رہ کر ان معنوی کیفیات کو درک کرے۔ آپ کے ہونٹ مسلسل ذکر خدا میں مصروف تھے۔

زندگی کی آخری راتوں میں اور اس وقت جب آپ کے کئی بڑے آپریشن ہوچکے تھے عمر بھی 87 برس کی تھی؛ آپ نماز شب (تہجد) بجا لاتے اور قرآن کی تلاوت کرتے، عمر کے آخری لمحات میں آپ کے چہرے پر غیر معمولی اور روحانی و ملکوتی اطمینان و سکون تھا۔ ایسے معنوی حالات میں آپ کی روح نے ملکوت اعلیٰ کی جانب پرواز کی۔

جب حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کی سوزناک رحلت کی خبر نشر ہوئی گویا ایک زلزلہ آ گیا۔ لوگوں میں ضبط کا یارا نہ رہا اور پوری دنیا میں وہ لوگ جو روح اللہ سے محبت کرتے تھے، رو پڑے؛ ایران سمیت پوری دنیا میں آپ کے چاہنے والوں میں نالہ و شیون کا شور تھا۔

ایرانی عوام اور انقلابی مسلمان، سوگ و غم میں اپنے قائد کو آخری رخصت اور انہیں الوداع کہنے کےلئے طوفان سا سیلاب جو تاریخ نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا؛ دیکھایا۔ ان سوگواروں نے ایسی ہستی کو الوداع کہا کہ جس نے ان کی پائمال شدہ عزت کو دوبارہ بحال کردیا تھا جس نے ظالم و جابر شاہوں اور امریکی و مغربی لیڈروں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا؛ مسلمانوں کو عزت و وقار عطا کیا تھا۔ اسلامی جمہوری نظام کی تخلیق کی تھی؛ جس کی بدولت ایرانی مسلمان دنیا کی جابر اور شیطانی طاقتوں کے مدمقابل اٹھ کھڑے ہوئے اور دس برسوں تک بغاوت، سینکڑوں سازشوں اور ملکی و غیر ملکی آشوب و فتنہ کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہے اور آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران تاریخ شجاعت رقم کی، جبکہ مدمقابل ایسا دشمن تھا جس کی مشرق و مغرب کی دونوں بڑی طاقتیں وسیع حمایت کر رہی تھیں۔ لوگوں کا محبوب قائد، مرجع تقلید اور حقیقی اسلام کا منادی، ان سے جدا ہوگیا تھا۔

جو لوگ ان مفاہیم کو درک نہیں کرسکے اور یہ سارے واقعات ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں، اگر حضرت امام کی تدفین و تشییع جنازہ کی تصویریں اور رحلت کی خبر سن کر آپ کے دسیوں چاہنے والوں اور شیدائیوں کی حرکت قلب اچانک رک جانے اور تشییع کے دوران شدت غم سے سینکڑوں بیہوش سوگواروں کو لوگوں کے ہاتھوں ہسپتالوں تک پہنچائے جانے کے مناظر دیکھیں تو ان کی توصیف کرنے سے عاجز رہ جائیں گے لیکن جنہیں عشق حقیقی کی معرفت ہے ان کےلئے یہ ساری باتیں اور واقعات سمجھ لینا مشکل نہیں ہے۔ حقیقت میں ایران کے عوام حضرت امام کے عاشق تھے اور انہوں نے آپ کی پہلی برسی کے موقع پر کتنا خوبصورت نعرہ انتخاب کیا تھا “خمینی سے عشق تمام خوبیوں اور اچھائیوں سے عشق ہے”۔

بہرحال چودہ خرداد 1368 مطابق چار جون 1989ء ماہرین کی کونسل نے اپنا اجلاس تشکیل دیا اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے توسط سے امام کا وصیت نامہ پڑھے جانے کے بعد حضرت امام خمینی کے جانشین اور رہبر انقلاب اسلامی کے تعین کےلئے تبادلۂ خیال شروع ہوا اور کئی گھنٹوں کے صلاح و مشورے کے بعد حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو اتفاق آراء سے اس عظیم و خطیر ذمہ داری کےلئے منتخب کیا گيا۔

پندرہ خرداد 1368 مطابق 5 جون 1989ء کے موقع پر تہران اور ایران کے دیگر شہروں اور قصبوں و دیہاتوں سے آئے ہوئے دسیوں لاکھ سوگواروں کا ایک سیلاب تھا جو تہران کے مصلائے بزرگ میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ لوگ اس عظیم مرد مجاہد کو جس نے اپنی تحریک اور انقلاب سے ظلم و ستم کے سیاہ دور میں انسانی اقدار و شرافت کی خمیدہ کمر کو استوار کردیا تھا اور دنیا میں خدا پرستی اور پاک انسانی فطرت کی جانب واپسی کی تحریک کا آغاز کیا تھا، الوداع کہنے کےلئے آئے تھے۔ آپ کے جنازے کی آخری رسومات میں سرکاری رسومات کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔ ساری چیزیں عوامی اور عاشقانہ تھیں۔ امام کا پیکر مطہر جو سبز تابوت میں تھا کروڑوں سوگواروں اور ماتم کنان عزاداروں کے ہاتھوں پر ایک نگینے کی مانند جلوہ نمائی کر رہا تھا اور ہر کوئی اپنی زبان سے اپنے محبوب قائد سے وقت رخصت محو گفتگو تھا اور اشک غم بہا رہا تھا۔

6 جون 1989ء کی صبح ہوتے ہی دسیوں لاکھ سوگواروں نے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی گلپایگانی کی امامت میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیکر مطہر پر نماز جنازہ پڑھی۔

حضرت امام خمینی کے سوگواروں کا جم غفیر ” بہشت زہراء (س) تہران کے قبرستان” میں تدفین کے وقت اپنے مقتدا کی آخری جھلک دیکھنے کےلئے بے تاب تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے جس کی وجہ سے آپ کی تدفین ناممکن ہوگئی تھی؛ تمام سختیوں کے باوجود، اسی دن سہ پہر کے وقت سوگواروں فرط غم کے عالم میں حضرت امام کے جسد مطہر کی تدفین کی گئی۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت، ابدی و لافانی ہوتی ہے۔

تبصرے
Loading...