خانہ کعبہ میں علیؑ کی ولادت

خانہ کعبہ میں علیؑ کی ولادت

جناب خدیجہ (س) کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شادی اس چیز کا سبب بنی کہ آپؐ اپنی زندگی میں مزید استقلال سے مستفید ہوں اور اپنی زندگی کو اسی بنیاد پر قائم کریں اور یہ واقعہ آپؐ کی پچیس سال کی عمر میں واقع ہوا لیکن آپؐ کی زندگی کے تیسویں سال میں اس سے اہم ایک اور واقعہ ذکر کیا جاتا ہے جس کی مانند تاریخ نے کسی واقعہ کو قید نہیں کیا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کے مشہور علماء کی جانب سے منقولہ روایات کے مطابق آپؐ کی زندگی کے تیسویں سال میں علی ابن ابی بطالب علیہ السلام جناب ابو طالبؑ کے گھر میں دنیا میں تشریف لائے۔ یہ تاریخی واقعہ مختلف اعتبار سے حتی خودِ خلقت کے اعتبار سے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی سے مربوط ہے اور ولادت کے ایک دو سال بعد بچپنے میں ہی امام علی علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر منتقل ہوگئے اور ایک بیٹے کی مانند امام علیہ السلام نے آپؐ کے گھر میں پرورش پائی۔ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ و آلہ و سلم تیس سال کے ہوئے تو شہرِ مکہ میں ایک عظیم الشان و بے نظیر واقعہ رونما ہوا یہ عظیم الشان واقعہ خانہ کعبہ میں حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کاواقعہ کے نام سے مشہور ہے جس کے بارے میں شیعہ علماء کے علاوہ متعدد علمائے اہل سنت نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔

عصر حاضر کے جلیل القدر عالم دین جناب آقا بزرگ تھرانی لکھتے ہیں: عصر حاضر کے عالم آقا مھدی بن محمد تقی بن ابراھیم نقوی جو سید دلدار علی ھندی کے پوتے ہیں اور جن کی تاریخ پیدائش ۱۳۱۶ ھ،ش ہے نیز وہ ہندوستان میں شیعہ مشہور فقیہ مانے جاتے ہیں وہ ۴۴ صفحوں پر مشتمل اپنی کتاب “علی و الکعبۃ”  میں علمائے اہل سنت کی ۲۲ کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں مذکورہ علماء نے صراحتاً نقل کیا ہے علی علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔

نیز وہ لکھتے ہیں: نجف اشرف میں عصر حاضر کے عالم دین علامہ مرزا محمد علی اردوباردی کہ جن کی تاریخ پیدائش ۱۳۱۲ ھ،ش ہے انہوں نے ” امیر المومنین و الکعبۃ” نامی ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت امیر المومنینؑ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی ہے اور یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔

علامہ امینی نے کعبہ میں حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے انہوں نے جلیل القدر عالم دین حاکم نیشابوری سے اپنی کتاب مستدرک صحیحین ج۳ ص۴۸۳ میں نقل کیا ہے کہ متواتر احادیث ہیں کہ فاطمہ بنت اسد امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت کے وقت خانہ کعبہ میں تشریف لائیں اور علی علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔

 انہوں نے کتاب ” کفایۃ” میں شافعی گنجی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ابن نجار سے اور انہوں نے حاکم نیشابوری سے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام مکہ  میں شب جمعہ ماہ رجب کی تیرھویں تاریخ سن تیس عام الفیل کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے قابل ذکر ہے کہ نہ ہی اس سے پہلے کوئی بیت اللہ الحرام میں پیدا ہوا اور نہ ہی اس کے بعد، لہذا یہ فضیلت علی علیہ السلام سے ان کے عظیم الشان مقام کی خاطر مخصوص ہے۔

ان کی پیروی کرتے ہوئے عبدالعزیز دھلوی کے والد کتابِ ” تحفۃ اثنی عشریہ” کے مصنف  شاہ ولی اللہ دھلوی کے نام سے مشھور احمد بن عبدالرحیم دھلوی نے اپنی کتاب ” ازالۃ الخفاء” میں تحریر کیا ہے: متواتر احادیث کی بنا پر فاطمہ بنت اسد نے ولادت علیؑ کے وقت خانہ کعبہ کا رخ کیا اور ان کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔ حضرت علیؑ روز جمعہ ماہ رجب کی تیرھویں تاریخ سن تیس عام الفیل کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی بھی خانہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔

تفیسر کبیر کے مصنف شھاب الدین سید محمود الوسی نے کتاب “شرح قصیدۃ عینیۃ” میں مدح علی علیہ السلام میں اس شعر ” انت العلی الذی فوق العلی رفعا ببطن مکۃ عندالبیت اذ وضعا” کے ذیل میں لکھتے ہیں: امیر المومنینؑ کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا دنیا میں ایک مشھور و معروف واقعہ ہے اور شیعہ و اہل سنت دونوں فریقین نے اس کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ یہاں تک کہ کہتے ہیں: امیرالمومنین علی علیہ السلام کے علاوہ خانہ کعبہ میں کوئی پیدا نہیں ہوا اور کتنی خوش قسمتی کی بات ہے کہ امامِ ائمہ کی ولادت ایسی جگہ ہو جو مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ سبحان من یضع الاشیاء فی مواضعھا و ھو احکم الحاکمین۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ ہستی جو تمام چیزوں کو اپنی جگہ قرار دیتی ہے اور وہ بہرتین حاکم ہے۔

اہل سنت کے عظیم الشان مفسّر اور جلیل القدر عالم دین جناب شھاب الدین کی گفتگو کی تکمیل میں ہم کہتے ہیں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام ائمہ حضرت امیر المومین علیہ السلام ہی وہ شخصیت ہیں جو تمام مسلمانوں کے قبلہ یعنی خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور آخر کار خانہ خدا یعنی مسجد کوفہ کے محراب میں آپؑ کے سر اقدس پر ضربت لگنے کے نتیجہ میں آپؑ کی شھادت ہوئی۔ پوری دنیا کے شیعوں کے لئے یہ چیز باعث فخر ہے کہ وہ اس با برکت وجود کو مسلمانوں کا پہلا امام اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بلافصل خلیفہ تسلیم کریں۔       

علمائے اہل سنت کے مشھور عالم دین جلال الدین محمد دوانی، کہ جن کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں شیعہ ہوگئے تھے، اپنی کتاب ” نور الھدایۃ فی اثبات الولایۃ” میں لکھتے ہیں: تمام صحابہ میں صرف علی (علیہ السلام) کو کرم اللہ وجھہ کہنے کے سلسلہ میں اہل سنت مشھور کے درمیان دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل یہ کہ تمام صحابیوں میں صرف علی علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے بلوغ سے پہلے اسلام کو تسلیم کیا اور انہوں نے ہز گز بتوں کے سامنے سجدہ نہیں کیا۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ علی علیہ السلام کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد جب حاملہ تھیں تو جب بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لاتے تو آپ ان کے احترام میں کھڑی ہوجاتیں۔ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے ماں آپ حاملہ ہیں اور ایسی حالت میں، میں راضی نہیں کہ آپ میرے احترام میں کھڑی ہوں تو فاطمہ بنت اسد نے جواب دیا: خدا کی قسم جب بھی میں آپ کی زیارت کرتی ہوں تو میرے شکم میں بچہ اس طرح ہلنا شروع ہوجاتا ہے کہ میں اٹھنے پر مجبور ہوجاتی ہوں۔ جب حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کا وقت آیا تو فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئیں اور کہا: اے پرووردگار! تجھے اس گھر کی عظمت اور اس کے بانی کی عظمت کا واسطہ دے کر تیری بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ یہ مشکل مجھ پر آسان کر دے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اچانک دیوار کعبہ شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور اس کے بعد دیوار کا شگاف مٹ گیا۔ اور یہ موضوع پورے مکہ میں من و عن ہر ایک مرد و عورت کی زبان پر تھا اور سب اس انتطار میں تھے کہ اس داستان کا انجام کیا ہوگا۔ آپ تین دن خانہ کعبہ میں رہیں اور چوتھے دن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جس جگہ سے دیوار کعبہ شق ہوئی تھی اسی جگہ سے دوبارہ شق ہوئی اور آپ ایک نومولود کو اپنی آغوش میں لئے خانہ کعبہ سے باہر تشریف لائیں۔ اسی اثنا میں آپ نے تمام حاضرین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: اے لوگو! خداوندمتعال نے مجھے اس پاک و پاکیزہ نومولود کی وجہ سے دوسری خواتین پر برتری دی ہے کیونکہ خانہ کعبہ میں وضع حمل کی کسی بھی خاتون کو خدا نے اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد آپ گھر تشریف لائیں پیغمبر اسلام صلی علیہ و آلہ و سلم کو خبر ملی تو آپؐ جناب ابو طالب کے گھر تشریف لائے اس وقت تک نومولود نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں رسول خداؐ نے نومولود کو اپنی آغوش میں لیا جیسے ہی نومولود آپؐ کی آغوش میں آیا تو آنکھیں کھولیں۔ آپؐ نے چہرے کا بوسہ لیا اور اس نومولود کا نام “علی” رکھا  اور یہ خوشخبری دی کہ آئندہ یہ نومولود عظیم الشان فضیلت کا مالک ہوگا۔

منبع: حوزہ نٹ

تبصرے
Loading...