حضرت امام صادق (ع) کون تھے؟

شیعہ عقیدہ کے لحاظ سے آٹھویں معصوم اور رسولخدا (ص) کے منصوص مِنَ اللہ جانشین کے اعتبار سے چھٹے جانشین حضرت امام جعفر صادق (ع) مورخین کے بقول بروز جمعہ یا بروز سوموار 17/ ربیع الاول سن 80 ھ ق اور کو قحط کے سال مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے سال ولادت کے بارے میں مورخین اور علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن معتبر اور صحیح ترین قول اور نظریہ کے مطابق سن 80 ھ ق ہی آپ کا سال ولادت ہے۔

آپ کا نام جعفر بن محمد، آپ کے والد بزرگوار کا نام محمد بن علی الباقر، آپ کی والدہ ماجدہ کا نام ام فروہ ہے۔ آپ (ع کے متعدد القاب ہیں لیکن ان سب میں مشہور ترین لقب صادق (سچا) ہے۔ آپ (ع) کے دیگر القاب مندرجہ ذیل ہیں:

 فاضل (صاحب فضیلت و برتری)، قائم (ثابت، پائیدار، قیام کرنے والا اور استوار)، کامل (وہ ذات جو تمام عیوب اور نقائص سے پاک و منزہ ہو)، کلمة الحق (حق کی بات)، منجی (نجات دینے والا، کامیاب بنانے والا، نجات اور کامیابی کا راستہ) لسان الصدق (سچائی کی زبان) اور صابر (بردبار) ہے۔

شیعہ عقیدہ کی روشنی میں آپ خدا کی جانب سے منصوص امام اور رسولخدا (ص) کی جانشین ہیں۔ آپ کی امامت کا دور 34/ سال رہا بنے اور آپ کی امامت اموی حکومت کے اختتام اور عباسی حکومت کے اوائل میں تھی۔

امام جعفر صادق (ع) بنی امیہ کے پانچ خلفاء ہشام بن عبدالملک، ولید بن یزید بن عبدالملک،یزید بن ولید بن عبدالملک، ابراہیم بن واللہ، مروان بن محمد جو حمار سے مشہور تھا۔ اور بنی عباس کے ابوالعباس جو سفاح سے مشہور تھا اور ابوجعفر منصور دوانیقی سے مشہور دو خلیفہ کے دور میں تھے۔

امام جعفر صادق (ع) کا عصر فکری اور ثقافتی تحریک کا دور تھا اور گوناگوں فرق و مذاہب سے ٹکراو کا دور تھا۔ رسولخدا (ص) کے عصر کے بعد امام جعفر صادق (ع) کے دور کی طرح کوئی دور پھر نہیں آیا کہ جس میں خالص اسلامی ثقافت اور معارف کی تبلیغ اور ترویج ہو۔ بالخصوص اموی حکام کی طرف سے نقل حدیث پر پابندی لگانے اور ان کے دباو کی وجہ سے یہ حالت ہوئی تھی۔ لہذا اس وقت کے سماج اور معاشرہ میں ہر قسم کے علم و دانش اور معرفت کا فقدان اور خلا نظر آیا تھا۔ لہذا امام جعفر صادق (ع) نے اس وقت کی مناسب سیاسی فرصت اور معاشرہ کی شدید ضرورت سے فائدہ اٹھایا اور اپنے والد ماجد کی علمی، ثقافتی اور تربیتی تحریک کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا اور ایک بہت بڑے حوزہ علمیہ اور ایک عظیم یونیورسٹی قائم کی۔ اور علمی و نقلی مختلف شعبوں میں شاگردوں کی تربیت کی، آپ کے شاگردوں میں ہشام بن حکم، مفضل بن عمر کوفی، محمد بن مسلم ثقفی، ابان بن تغلب،مومن طاق اور جابر بن حیان و غیرہ سرفہرست اور ممتاز شاگرد ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے شاگردوں کی تعداد 4/ ہزار ہیں۔

اہلسنت کے چار فرقوں میں سے ایک فرقہ کے امام اور رئیس ابوحنیفہ بھی کچھ عرصہ تک آپ کی شاگردی میں رہے ہیں اور انہیں آپ کی شاگردی پر ناز اور فخر بھی تھا۔

امام صادق (ع) نے مختلف موقعوں اور گوناگوں مناسبتوں سے دین اسلام کی ترویج اور شیعیت کا دفاع کرنے کا ساتھ ساتھ اسلام کے صحیح علوم اور معارف کو نشر کرنے اور لوگوں تک پہونچانے کی کوشش کی۔ آپ کے مناظرات بھی گوناگوں فرقوں کے رئیسوں سے انہی موضوعات پر ہوئے ہیں۔ اور آپ نے محکم بالا جواب اور قوی استدلال سے ان کے غلط افکار اور باطل عقائد کی رد کی اور اسلام کی فضیلت اور برتری ثابت کی ہے۔ اسی طرح آپ (ع) نے فقہ اور احکام میں بھی کافی سرگرمی دکھائی اور اس سے متعلق ایک نئی شاہراہ کھولی ہے جو اب تک جاری و ساری ہے۔

عباسیوں کے دور میں شیعوں پر کافی دباو بڑھ گیا اور منصور دوانیقی کے حاکم بنتے ہی شیعوں کا سانس لینا دشوار ہوگیا۔ آپ کی عمر مبارک کے آخر لمحات بیحد گھٹن، اضطراب، دباو اور گوناگوں مشکلات کے ساتھ گذرے ہیں۔ اس کی وجہ سے خود حضرت اور آپ کی تحریک دوبارہ گمنامی کا شکار ہوئی اور آپ گوشہ نشین ہوگئے۔ منصور شیعوں پر کڑی نظر رکھتا تھا اور نوبت یہ آگئی کہ جب منصور کے پاس شیعوں کے امام اور انسانیت کے پیشوا کو نابود کرنے کا کوئی چارہ نہ رہ گیا تو اس نے اپنے کارگزاروں کی مدد سے آپ کو 68/ سال کی عمر میں 25 / شوال سن 148 ھ ق کو شہید کرادیا۔ اس کے بعد آپ کے اب و جد کے پہلو میں بقیع قبرستان میں سپرد لحد کردیا گیا۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:

امام جعفر صادق (ع) نے اپنے خاندان والوں اور رشتہ داروں کو جمع کرکے فرمایا: کل قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ میں امام صادق کی اولاد، بیوی یا بھائی اور رشتہ دار ہوں، وہاں یہ نهیں دیکھا جائے گا۔ وہاں عمل در کار ہوگا۔ لہذا تم سب اپنے نیک عمل کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں جاو۔ (صحیفہ امام، ج 9، ص 425)

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

1۔ جب کبھی کوئی تم سے کہے؛ تم اگر مجھے ایک گالی دوگے تو میں 10/ گالیاں دوں گا تو تم کہو اگر تم 10/ بد کلامی کروگے تو میں ایک کا بھی جواب نہیں دوں گا۔

2۔ جب بھی کوئی تمہاری برائی کرے اور تمہیں گالی دے تو اس سے کہو کہ اگر تمہاری بات سچ ہی تو میں خدا سے بخشش اور معافی کا طلبگار ہوں اور اگر تمہاری بات جھوٹ ہے تو میں تمہارے لئے خدا سے مغفرت طلب کروں گا۔

3۔ جب بھی کوئی تمہیں گالیاں دینے کی دھمکی دے تو تم اسے وعظ و نصیحت کرو اور اس سے احترام کی بات کرو۔

 

تبصرے
Loading...