جناب ماحول بھی دیکھا کریں!

جناب ماحول بھی دیکھا کریں!

تحریر:محمد زکی حیدری

ہر نبی نے جب دین کا پیغام پہنچایا تو اسے پتھر لگے اسے لعن طعن کیا گیا مگر انہی انبیاؑ کے دین کی “حق” بات منبر نشین بتاتا ہے تو لوگ واہ واہ کرتے ہیں؟ کیوں؟ کیونکہ انبیا وہ کچھ بتاتے تھے جو “حق” ہو اور منبر نشین (اکثر) وہ کچھ بتاتے ہیں جو عوام سننا چاہتی ہے۔۔۔
میرے کسی محترم دوست نے بتایا کہ ایک ذاکر نے بھرے مجمعے میں کہا جب علی (ع) آسمان پر گیا تو اللہ بن گیا جب اللہ زمین پر آیا تو علی (ع) بن گیا۔۔۔ میں ان لوگوں کا ان ان پڑھ معصوموں کا، ان بھولے بھالے شیعوں کا، ان محبتِ اہلبیت سے سرشار لوگوں کا جنہوں نے ذاکر کی اس بات کو حق سمجھ کر اس پر واہ واہ کی ہوگی، کا سوچ رہا ہوں!۔۔۔ ان کا کوئی قصور نہیں وہ سارا دن محنت مزدوری کرتے ہیں، مجلس کو عبادت سمجھ کر آتے ہیں،قرآن و حدیث و تاریخ و منطق کا علم انہیں نہیں، انہیں ذاکر جا کر فضول باتیں بتا کر ان کے عقائد خراب کرتا ہے تو ہم لوگ جو کہ سب کچھ جانتے ہیں کیا کر رہے ہین؟؟؟ ذاکروں کو وظیفہ نہیں ملتا، ایران میں، نجف میں ذاکروں کا کوئی حوزہ علمیہ نہیں کہ جس سے ہر سال سینکڑوں ذاکر فارغ التحصیل ہوکر نکلیں، لیکن ان کے کام دیکھیں ذرا! آپ کی سوچ میں بھی نہیں تھا کہ شہادت ثلاثہ جیسا خرافاتی عقیدہ اتنا مضبوط ہوجائے گا کہ بات ہمارے مجتہدین تک جاکر پہنچے گی۔۔۔۔ ذاکر کا پھیلایا ہوا کچرا ہمارے مجتہد تک جاتا ہے لیکن ہمارا “کچرا صاف” کرنے کی کوئی رپورٹ مجتہدیں تک نہیں جاتی کہ جناب فلاں عقیدۂ باطل کو، فلاں خرافاتی رسم ورواج کو ہم نے پاکستان سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ نہیں ہم “نئی چیز” لانے سے ڈرتے ہیں چاہے وہ حق ہی کیوں نہ ہو ہم منبر پر بیٹھ کر بیبی صغریٰ (س) کو بیمار کہتے ہیں کیونکہ وہ عوام میں بیمار مشہور ہیں جو مدینہ میں رہ گئیں تھی، کوئی بتانے آئے بھی تو ہم سب مل کر اسی کی مخالفت کرتے ہیں کہ بھائی “ماحول کو بھی دیکھا کرو” ، کئی سیدزادیوں کے قرآن سے نکاح کردیئے گئے کنواریاں رہ گئی، اور اس طرح دیگر ذاتوں میں بھی لڑکیوں پر یہ ظلم روا ہے، سیدزادی کا نکاح غیرسید سے جائزہونے کا عوام کو نہیں بتاتے کیونکہ سادات ناراض ہوں گے “ماحول کو بھی دیکھا کریں” ہم مہندی کی جگ ہنسا رسم پر بات نہیں کرتے کیوں کہ “ماحول کو بھی دیکھنا پڑتا ہے” آپ مجھے بتائیے اس عالم دین کا کیا کہ جو 20 سال 25 سال سے منبر کا مشہور خطیب ہے اور ہے بھی حوزہ علمیہ کا پڑھا اس نے آج تک اپنے کیریئر میں کتنی خرافات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھیکنے کی بات کی ؟ اس نے جہالت کے اندھیرے میں گھرے ہوئے معاشرے کو اوپر لانے کیلئے کیا اقدام کیا؟
جب بھی اصلاح کی بات کرتے ہیں ہمیں یہ کہا جاتا ہے “ماحول کو بھی دیکھا کرو” کیا حسین (ع) کو آپ کے جتنی بھی عقل نہ تھی کہ ماحول کو دیکھتے، مستورات لے کر چلے گئے، کاش پیغمبر (ص) کو بھی جاہل عقائد کا لحاظ ہوتا، ابولہب، ابوسفیان، ابوجہل کی “فیلنگس” (جذبات و عقیدتمندی) کا احترام ہوتا، بتوں کو بیشک نہ مانتے لیکن چپ رہتے دوسروں کو تو نہ بتاتے، منبر پر چڑھ کر بولے کہ تمہارے عقیدے غلط، تمہارے باپ داد بھی غلط اور 360 بتوں میں سے ایک کا بھی لحاظ نہ کیا اٹھا کر سارے کے سارے ٹوڑ دیئے بلکل “ماحول کا لحاظ ” لوگوں کی “عقیدتمندی” کا لحاظ نہ کیا ۔۔۔ آج خرافات کے بت جنہوں نے ہماری عوام کو ذاکروں کی دولت کی حوس کے چنگل میں پھنسا کر انہیں اسلام ناب محمدی و امامت ناب علوی سے دور کر دیا، کے خاتمے کی بات آتی ہے تو تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود ہمارے مدرسے کے طلاب منبر پر “مصلحت ” سے کام لیتے ہیں جیسا چلتا ہے چلنے دو! “ماحول خراب نہیں کرنا”
ذاکر نے مجھے سکھایا ہے کہ عوام میں ہاضمے کی قوت ہے منبر سے جو بھی بتایا جائے عوام مانے گی لیکن بتانے والے ذاکر سینہ تان کر اپنی فضول باتیں، باطل عقائد بتاتے ہیں لیکن ہم حقیقی عقائد یہ بہانا بنا کر نہیں بتاتے کہ “ماحول خراب ہوگا” پاکستان اتنا بڑا ملک نہیں آپ اپنی تعداد دیکھو قم دیکھو نجف دیکھو، ابھی جو تحصیل علم میں مصروف ہو اور جو فارغ التحصیل ہو اپنی تعداد دیکھو اور آپ منبروں پر جاتے بھی ہو لیکن پھر بھی چند ذاکر اپنے عقیدے ببانگ دہل بیان کرتے ہیں آپ ڈرتے ہو، آپ اپنا عقیدہ پیش کرتے وقت مصلحتیں برتتے ہو ، اگر آپ ان سے زیادہ فعال ہوتے تو معاشرہ بہتری کی طرف جاتا ہوا نظر آتا مگر حالات کچھ الگ ہی کہانی بتاتے ہیں،! ۔ “بھائی معاشرہ ابھی ان باتوں کیلئے سازگار نہیں۔۔۔” اچھا بھائی کب سازگار ہوگا؟ کون سازگار کرے گا؟ آج تک آپ نے اسے سازگار بنانے کیلئے کیا اقدام کیئے ہیں؟ ہمیں روز غالیوں کی طرف سے کوئی نہ کوئی “خوشخبری” ملتی ہے مگر “عالیوں” کی طرف سے چپ۔۔۔! اور بات دور دور تک پھیل جانے کے بعد دفاع!
امام خمینی (رح) کے حالات زندگی پڑھیئے بزرگ مخالف ہوگئے، پوری روحانیت ان کے خلاف کھڑی ہوگئی کہ جناب “ماحول انقلاب کیلئے سازگار نہیں” امام ڈٹے رہے، صعوبتییں برداشت کیں، جلا وطن ہوئے امام کے فلسفے کے درس پر قم میں پاندی لگی، امام چھپ کر درس دیا کرتے۔ آخر جیت کس کی ہوئی “ماحول کا لحاظ” کرنے والوں کی یا نعرۂ حق بلند کرنے والے کی؟ 1963 میں آمریکا میں کالوں سے ہاتھ ملانا بھی جرم سمجھا جاتا تھا اس دور میں ایک کالا وکیل ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ آتا ہے اور کہتا ہے “میں دیکھ رہا ہوں کہ مستقبل قریب میں آمریکا میں کالے اور گورے نوجوان ہاتھوں میں ہاتھ دے کر گھومیں گے” اور آج دیکھیئے۔۔۔ میں جرآت و استقامت کے ساتھ حق کیلئے ڈٹ جانے والوں کی دسیوں مثالیں پیش کر سکتا ہوں چاہے وہ آئرلینڈ کا بابی سینڈس ہو، الجزائر کا احمد بن بلہ ہو، افغانستان کا شاہ مسعود ہو، کیوبہ کا کاسترو ہو، چی گوویرہ ہو، ہوچی منہ ہو یا کوئی اور۔۔۔ لیکن جن کے پاس حسین (ع) و زینب (س) جیسے انقلابی نمونے موجود ہوں انہیں کسی اور شخصیت یا “رول ماڈل” کی ضرورت نہیں۔
یاد رکھیں! ہم سب اگر متحد ہوکر عہد کرلیں کہ خرافات مٹاکر معاشرے کو باطل عقائد سے پاک کرنا ہے تو ایک میزائل بن کر تم اس باطل و خرافاتی عقائد کی عمارت کو تحس نحس کرسکتے ہیں، مگر میزائل بننے کیلئے ہمت چاہیئے جیسی ذاکر میں ہے، باطل پر ہوکر ہمارے لیئے روز نت نئے مسائل کھڑے کر دیتا ہے اور آپ ہو کہ “ماحول سازگار نہیں” ان کے لیئے ماحول سازگار ہے تمہارے لئے نہیں۔
قرآن چلا چلا کر کہہ رہا ہے : “وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ” ترجمہ : اور حق کو باطل کے ساتھ خلط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ” مجھے تو آپ یہ کہہ کر ٹال دوگے کہ یہ آیت اس کام پر دلالت نہیں کرتی ،اس کا ہمارے حالات پر صادر ہونا صحیح نہیں وغیرہ وغیرہ کیونکہ آپ “عالم” جو ٹھہرے لیکن جناب آگے بھی چلنا ہے جس امام زمانہ (عج) کی دال روٹی کھائی ہے اس کا حساب بھی دینا پڑے گا بھائی!
معاشرہ ہم لوگوں کا منتظر ہے جناب! ہمارے اندر صلاحیت بھی ہے لیکن ہم چپ ہیں صرف ذاکر کا دفاع کرتے ہیں اور پوری توانائی اسی میں صرف ہو جاتی ہے۔ آگے بڑھ کر حق بتائیں تا کہ ذاکر کی پوری زندگی گذر جائے اس کے دفاع میں لیکن وہ کبھی دفاع نہ کر پائے ، کیونکہ حق پر باطل کبھی غالب نہیں آسکتا۔ خدا را اٹھیں معاشرے کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اوپر لائیں، آج بیج بوئیں شجر کی آبیاری آنے والی نسلیں کریں گی، ذرا حرکت تو کریں۔۔۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں جوان طبقہ آپ کا ساتھ دیگا اور جوان آپ کے ساتھ آگیا تو اگلی نسل آپ کی ہے۔ حق بولیئے آپ کو کس کا ساتھ چاہیئے اللہ (ج) آپ کے ساتھ ، محمد (ص) آپ کے ساتھ ، علی (ع) آپ کے ساتھ امام زمانہ (عج) آپ کے ساتھ ۔۔۔ پھر بھی آپ “معاشرے کے سرداروں، ملکوں، چوہدریوں، پیروں، مرشدوں اور وڈیروں”خوفزدہ ہو تو آپ جانیئے اور زیارت عاشورہ کا وہ جملا جانے “وَٲَنْ یَرْزُقَنِی طَلَبَ ثارِی مَعَ إمامِ ھُدیً ظَاھِرٍ نَاطِقٍ بِالْحَقِّ ” نیز مجھے نصیب کرے آپکے خون کا بدلہ لینا اس امام کیساتھ جو ہدایت دینے والا مدد گار رہبرحق بات زبان پر لانے والا ہے۔ آپ حق کے امام کا ساتھ دیں گے لیکن وہ “ماحول کا خیال” کریں گے یا نہیں۔۔۔ یہ آپ ان کے آبا و اجداد کی زندگی پڑھ کر اندازہ لگائیں۔ حیف ہے ہم پر اتنے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن حق کہنے کہ بات آتی ہے تو “ماحول۔۔۔
آخری بات! مردہ مچھلی دریا کے بہاؤ کے ساتھ بہتی چلی جاتی ہے جب کہ زندہ مچھلی اپنی حرکت دکھا کر بہاؤ کے مخالف جاکر زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے آپ خود اپنے گریبان میں دیکھیں کیا آپ جاہل معاشرے کے بہاؤ میں بہتے چلے جا رہے ہیں یا اس سے خلاف جا رہے ہیں؟ اگر بہاؤ کہ مخالف ہو تو زندہ ہو نہیں تو افسوس کہ مردہ ہو اور مردہ سے امید لگانا فضول ہے۔

تبصرے
Loading...