تہران میں امریکی سفارتخانے پر قبضہ اور امام خمینیی (رح) کا بیان

تہران میں امریکی سفارتخانے پر قبضہ اور امام خمینیی (رح) کا بیان

امام خمینی(رح) کی نظر میں امریکی ایمبسی پر قبضہ کے نتیجہ میں امریکی شور شرابے کا مطلب  یہ ہے کہ  ایرانی مادی و معنوی منافع ان کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں۔لہذا انہوں نے فرمایا: ” شیطان بزرگ یعنی امریکہ  کی جانب سے شور شرابے اور فریاد کرنے اور دنیا بھر کے شیاطین کو اپنا حامی بنانے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے منافع سے اس کے ہاتھ دور ہوچکے ہیں اسی وجہ سے وہ  ہمارے خلاف سازش کررہا ہے لہذا ہمارے جوانوں نے اس اڈے پر قبضہ جمالیا جوجاسوسی و سازش کا مرکزتھا۔

امریکہ کی جانب سے  شاہ کی  سازشوں اور جنایتوں سے صرف  نظرکرتے ہوئے  اس کی حمایت کرنے کے نتیجہ میں  جاسوسی اڈے پر قبضہ ، امام خمینی(رح) کی نگاہ میں یونیورسٹی کے طلاب کی جانب سے معمولی  رد ّ عمل کا اظہار تھا۔ امام خمینی(رح) فرماتے ہیں: امریکیوں کی توقع یہ تھی کہ وہ اسے ( امریکی ایمبسی ) کو جاسوسی کا  اڈّا بنا  لیں اور ہماری قوم اور ہمارے نوجوان بالخصوص ہماری یونیورسٹی کے نوجوان بیٹھ کر اس کا تماشا  دیکھیں یہ تبھی ہوسکتا تھا جب   خرابکاریاں نہ ہوتیں ، فسادات نہ ہوتے ، تمام لوگ آزاد ہوتے لیکن کیونکہ سازشیں ہورہی ہیں ، فسادات برپا کئے جارہے ہیں یہی وہ چیز ہے جو ہمارے نوجوانوں کو اکسا رہی ہے ، ہمارے نوجوانوں کو توقع ہے کہ جس ملک کے لئے انہوں نے اس قدر زحمتیں برداشت  کی ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ اسے اپنی پہلی حالت کی طرف لے جانا چاہتاہے تو  وہ ہرگز چپ نہیں بیٹھ سکتے۔

امریکی ایمبسی( جاسوسی اڈّا)ہماری قوم کے خلاف سازش  کا مرکز ہے ۔ امام راحل(رح) نے امریکی ایمبسی ( جاسوسی اڈا)کوسازش اور جاسوسی کا مرکز قراردیا  لہذا  اسی وجہ سے وہ  اس طرح کی تحریک کو ایک عادی تحریک سمجھتے تھے۔ اگر یہ مسئلہ ایمبسی سے مربوط ہوتا  تو  اس  پر  قبضہ  کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس میں ہماری قوم کے خلاف سازش کی جارہی تھی لہذا  ہمارے  نوجوانوں  نے  جو کارنامہ  انجام  دیا  یہ  ہماری  قوم کی چاہت تھی البتہ یہ عمل  خواہشات نفسانی  کی  پیروی  میں نہیں  بلکہ  یہ  ہماری قوم  کا  حق تھا ، ایمبسی کو ہر گز حق  نہیں  پہونچتا  کہ  وہ  ملک  کے  خلاف  جاسوسی  یا سازش  کرے۔

ایران میں امریکی ایمبسی کا رویہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی  اور ہماری قوم کے حقوق کی پایمالی ہے۔ حضرت امام(رح) کا عقیدہ تھا کہ امریکی ایمبسی کی جانب سے بین الاقوامی خلاف ورزیوں کی وجہ سے یہ مرکز بین الاقوامی و سیاسی حقوق کا حقدار نہیں اسی بنا پر امام خمینی(رح) نے فرمایا: امریکی ایمبسی کے نام سے جاسوسی اور سازش کا مرکز ، نیز وہ افراد جنہوں نے ہماری  اسلامی تحریک  کے خلاف سازش کی ہے وہ  بین الاقوامی  و سیاسی احترام کے حامل نہیں ہیں، امریکی دھمکیوں اور  پروپگنڈوں کی ہماری قوم کے نزدیک کوئی اہمیت  نہیں ہے  نہ  ہی  اس کی  فوجی  دھمکیاں اور  نہ  ہی  اقتصادی پابندیایوں کی کوئی اہمیت ہے  ۔

امریکی ایمبسی(جاسوسی اڈے) پر قبضہ ظالمانہ حکومتوں  کے امن و سکون کو چھیننا ہے  ستم دیدہ حکومتوں کو اسی کے نتیجہ میں امن و سکون حاصل ہوتاہے۔ ایک رپورٹر نے جب امام(رح) سے پوچھا: امریکی ایمبسی کے مسئلہ نے بہت سے ملکوں کو حیران و  پریشان کردیاہے اور  وہ سوچتے  ہیں اس کا نتیجہ بہت خطرناک ہوگا کیا  ایسا نہیں ہے؟ تو امام خمینی(رح) نے جواب دیا:  ” آپ کی نظر  میں جو  ملک  اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں  ان کی سوچ  کارٹر(امریکی صدر ) کی سوچ کی طرح ہے لیکن جب وہ مطالعہ کریں گے تو  انہیں معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کے اکثر ممالک مظلوموں کے ساتھ ہیں ، ظالموں کی تعداد بہت کم ہے اگر آپ کی مراد ظالموں کی ناراضگی ہے تو  یہ بات بالکل صحیح ہے  کیونکہ ظالمین اپنے جیسوں کے ساتھی ہیں  اور ہر وہ شخص ان کی جانب مائل ہوگا جو انہی کی مانند ہوگا۔

جاسوسی اڈے پر قبضہ  ایرانی قوم کا  توحیدی و معنوی جذبہ اور ظلم کے خلاف جنگ ہے۔امام خمینی(رح) کا عقیدہ ہے کہ  ایرانی قوم کو مادی مظاہر سے لگاؤ  نہیں ہے اور وہ اپنے حقوق کی خاطر ہر طرح کی فداکاری کے لئے تیار ہے۔ہم پائداری سے کام لیں گے اور ہم کسی چیز سے  نہیں ڈرتے، ہم اس اسلحہ سے  خوفزدہ نہیں جو بیوقوف کے ہاتھ میں ہے ہمیں کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس دنیا سے ہمیں زیادہ لگاؤ نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ  اس میں کچھ ہے ہی نہیں۔ یہاں بھوک وپیاس، بڑی طاقتوں کی طرف سے  ظلم کے سوا ہماری قوم کےلئے کچھ بھی نہیں  کہ جس کی وجہ سے ہم یا ہماری قوم خطرہ محسوس کرےلہذا ہم اپنے حقوق کے لئے سب کچھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں۔

امریکی ایمبسی(جاسوسی اڈے)پر قبضہ ایرانی قوم کا جذبہ اور سیاسی امور میں لوگوں کی واضح مداخلت کی ایک مثال ہے۔ تمام انقلابی مراحل میں لوگوں کا کردار،امام خمینی(رح) کی منجملہ اہم ترین خصوصیات میں سے ہے، اسی وجہ سے امام(رح)  کی نگاہ میں اس مشکل( امریکی ایمبسی پر قبضہ کے نتیجہ میں رونما ہونے والی مشکل)  کا راہِ حل مجلس شورائے اسلامی ( اسلامک کونسل) کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا امام راحل(رح) نے فرمایا: اس مسئلہ کا حل ایرانی قوم اور مجلس شورائے اسلامی( اسلامک کونسل) کے سوا کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے اور امریکہ کویہ جان لینا چاہئے کہ  تمام قسم کی جنایتوں و خیانتوں کے بعد فراری شاہ کی حمایت  کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

امریکی ایمبسی( جاسوسی اڈے) پر قبضہ ایرانی قوم کی قومی، انسانی اور اسلامی  قدرت  کا ایک جلوہ ہے۔ جاسوسی اڈے پر قبضہ اس چیز کا سبب بنا کہ  شکست کے بارے  میں امریکی پروپگنڈوں کے منفی نتائج، تمام لوگوں سے اذہان سے نکل جائیں ۔ امام راحل(رح)  نے اس سلسلہ میں فرمایا: امریکی ایمبسی میں قدم رکھنا اور اس پر قبضہ جمانا گزشتہ دور اور گزشتہ حکومت میں صرف ایک سوچ و خیال  نظر آتا تھا، یہ کیسے ممکن ہے کہ جس قوم کے پاس کچھ بھی نہیں ، جن جوانوں کے پاس کچھ بھی نہیں وہ جاکر امریکی ایمبسی پر کنٹرول کر لیں، امریکیوں کی یہ سوچ تھی کہ اگر ایسا واقعہ رونما ہوجائے تو ایرانی قوم ہوا میں اڑ جائے گی یہ ایسے پروپگنڈے تھے جو انہوں نے اپنی تبلیغات و شیطنت  کے ذریعہ لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا رکھے تھے اور لوگوں کو اپنی قومی، انسانی اور اسلامی طاقت سے غافل بنا رکھا تھا۔

امام خمینی(رح) نے تاکید کی کہ امریکی ایمبسی( جاسوسی اڈے) پر قبضہ نے یہ بتا دیا کہ امریکہ ،ہر طرح کی دھمکیوں کے باوجود ایران کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔امام(رح) نے فرمایا: امریکیوں کا خیال تھا کہ اگر ہم نے فوراً جاسوسوں کو ان کے حوالے نہ کیا تو نہ جانے کیا سے کیا ہوجائے گا، اس کام (ایمبسی پر قبضہ) کی قیمت اس وجہ سے مزید بڑھ جاتی ہے  کہ اس کے نتیجہ میں تمام قسم کے شبہات ذہنوں سے دور ہوگئے ، اب اس کام( جاسوسوں کو قیدی بنائے ہوئے) کو گزرے ہوئے ایک سال ہوگیاہے اور کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے نہ ہمارے اقتصاد پر آنچ آئی اور  نہ ہی ہماری مارکیٹ کو کوئی خطرہ محسوس ہوا۔

منبع : مرکز اسناد انقلاب اسلامی     

تبصرے
Loading...