تنقید کے غلط انداز
🔹یہ دنیا اختلافات کامسکن ہے۔جہاں ہزاروں مکاتب،ادیان اور نظریات موجود ہیں۔ہم میں سے ہرایک کسی نہ کسی نظریہ اورفکر پر تنقید اور اس بارے میں فیصلہ کرنے میں مصروف ہیں۔کسی نظریہ یاکسی کے حق میں جانتے ہوئے یاانجانے میں فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں۔تنقید کامنصب سنبھال کراورقاضی بن کرکبھی کسی نظریہ کومسترد کرتے ہیں توکبھی اس کوقبول ۔اگر ان تمام تنقیدوں اورفیصلوں کو حساب کرنے کی کوئی مشین وجود میں آئے تو معلوم ہوگا کہ صرف ایک سال میں کتنی تنقید یافیصلے کرتے ہیں۔
🔹کسی نظریہ پر تنقید کے وقت ہماری ذمہ داری ہے کہ اس نظریہ کو اس طرح بیان کریں جن کو تنقید کرنے والے پسند کریں۔اگر چہ ہم اس نظریہ کے شدید مخالف ہوں اور اس نظریہ کو کمزور سمجھتے ہوں تب بھی لازم نہیں ہم غلط انداز اور حقائق کوتوڑ موڑ کر پیش کریں۔
🔹کسی بھی نظریہ پر تنقید درست انداز میں ہونا چاہیے جب تک اس نظریہ یافکر کی اصل وحقیقت معلوم نہ ہو اس وقت تک تنقید ہی غلط ہے۔پس کسی نظریہ پر تنقید کی بنیادی شرط پہلے نظریہ کو درست انداز میں پیش کرنا ہے۔
*🎇کسی نظریہ کو بیان کرنے کے غلط❌ طریقے…۔🎇*
*1:❌ناقص طور پر کسی نظریہ کو نقل کرنا:*
بعض افرادکسی نظریہ یا واقعہ کو ناقص طریقے سے نقل کرتے ہیں۔کسی کے آدھے جملے کو بیان کرنا،کسی شرط یا قید کو نقل نہ کرنا،جیسے لاتقربوا الصلاۃ/فویل للمصلین۔کہہ کر باقی آیات کو حذف کرنا۔
*2:❌کسی کی جانب غلط نسبت دینا:*
کبھی کسی شخص کی جانب ایسے نظریہ یافکر یاقدام کی نسبت دینا جسے وہ خود قبول نہیں کرتا۔
*3:❌تفسیر رائے:*
کسی عقیدے یانظریہ وعمل کے بارے میں متعلقہ فرد کی نظریہ کو معلوم کرنے کی بجائے اپنی طرف سے تفسیر،تشریح اور مقصود بیان کرنا۔۔۔
*4:کمزور احتمال کا انتخاب:*
کسی نظریے کے بارے میں بہت سارے احتمالات میں سے کمزور احتمال کا انتخاب کرنا۔
🔹پس مقام نقد میں گرچہ ہمارا دشمن ہو تب بھی سب سے پہلے:
⏪اس نظریے کو درست شکل میں پیش کریں۔
⏪اس کے بعد ان دلائل کو ذکر کریں جو انہوں نے پیش کیا ہے۔
⏪ان دلائل کے سلسلے میں معقول عذر ہوتو ان کو بھی بیان کریں۔
⏪پھر مضبوط،مستحکم اور متقن دلائل کے ذریعے اس نظریہ یا عقیدے کو رد اور باطل کرے۔
حافظ اس بارے میں کہتاہے:
جب کبھی اپنے دشمن کی باتوں کو نقل کرنا چاہو تو اس طرح جامع وکامل انداز میں بیان کرو گویاوہ تمہارا ہی کلام ہے۔۔۔
(ماخذ:کتاب حقیقت ومدارا ازمحمداسفندیاری )