تربیت میں حکومت کا کردار امام خمینی (رح) کی نظر میں

امام خمینی (رح) کی نظر میں انسان عالم ہستی کا ایک چھوٹا نسخہ ہے اور عالم وجود میں جو کچھ بھی ہے وہ “بالفعل” یا “بالقوه” انسان کے اندر بھی موجود ہے۔ بنابریں انسان کے اندر ظاہری، شہودی اور عادی پہلو بھی پایا جاتا ہے اور باطنی، روحانی اور غیبی پہلو بھی۔ انسان آغاز پیدائش میں ایک حیوان کی طرح ہی جو بلند و بالا حیات سے بے فیض ہوتا ہے انسان اپنی پیدائش کے آغاز میں استعداد اور قابلیت محض ہوتا ہے اور سعادت و بدبختی کو عملی جامہ پہنانے سے خالی اور قاصر ہوتا ہے لیکن ملکوتی طاقتوں اور معنوی تربیت کے ساتھ اس کے اندر انسانی اور الہی خلق و خو ایجاد کی جاسکتی ہے۔

انسان ابتدا میں مادی اور طبیعی قوتوں کا مالک ایک حیوان ہوتا ہے لیکن تبدیلی کے قابل ہے اس کے اندر پوشیدہ رحمانی اور شیطانی طاقتیں آخر تک عمل کرسکتی ہیں، اگر صراط مستقیم کی طرف رخ کرے اور اس راہ پر گامزن ہو تو خدا اور تمام خوبیوں کا نمائندہ ہوسکتا ہے، یعنی خدا کی معرفت حاصل کرے اور اس کی ساری رفتار اور سارا کردار الہی اور رضائے خدا کا باعث ہوسکتا ہے، یہی خلقت کا مقصد ہے۔

گوشت و پوست کا مجموعہ ایک حیوانی بشری ایک الہی، ربانی، لاہوتی اور روحانی انسان ہوسکتا ہے اور کثرت کا افق وحدت کے افق سے متصل ہوجائے۔ انسان اپنے کردار سے اس مقام پر پہونچ جائے کہ خداوند عالم کے جمال و جلال کا مظہر بن جائے اور صلاحیت صرف اور صرف انسان کے قلب میں پائی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے حیوانی قوی (غصب  اور شہوت) کو معنویتوں اور نیکیوں کے ماتحت نہ لائے تو حیوان سے پست تر ہوجائے گا۔

امام خمینی (رح) کی نظر میں اس طرح سے انسان معاشرہ میں شائستہ کمال تک پہونچ سکتا ہے۔ بنابریں “سیر الی اللہ” ضروری نہیں ہے کہ ایک گوشہ میں بیٹھ کر کہتا رہے کہ میں “سیر الی الله” چاہتا ہوں۔ انبیاء اور بالخصوص پیغمبر اکرم (ص) کی سیرت اور جو لوگ ان ہستیوں سے مربوط تھے کی سیرت “سیر الی اللہ” تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ امیر المومنین (ع) جس دن قتال میں مشغول تھے تو آپ کی سیر “سیر الی اللہ” نہ ہو اور جس دن اور جس وقت نماز میں مشغول ہوں خدائی سیر ہو ایسا ہرگز نہیں ہے۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:

اسلامی جمہوریہ کو تزکیہ و تربیت کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم کے تمام طبقات اور جملہ اقوام کو تزکیہ وتربیت کی ضرورت ہے، انبیاء  (ع) کی تعلیمات سے آراستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارا صرف یہ نعرہ کہ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ ہے، قابل قبول نہیں۔  ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ تب بن سکتا اور منزل کمال کو پہنچ سکتا ہے جب اس ملک اور اس قوم پر اﷲ تعالیٰ (کے قوانین) کی حکمرانی ہو یعنی حکومت کے ابتدائی نقاط سے لے کر آخری حدود پر اسلام کی حکمرانی ہو۔ سارے ارباب اختیار خدا کے تابع ہوں؛ سب حکمراں  حکم الٰہی کے پابند ہوں ؛ سارے ارباب حل وعقد خدا کے تابع فرمان ہوں ؛ نفس کے پھندے سے آزاد ہوں ؛ خود بینی سے مبرا ہوں  اور خود پسندی سے عاری ہوں  کیونکہ وہ کسی قسم کی خودی اور شخصیت کے حامل نہیں  بلکہ جو کچھ ہے اﷲ کی طرف سے ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۵۰۸)

اس لحاظ سے معاشرہ اور سماج میں جت تک اقتصادی، ثقافتی، سماجی سیاسی امور کا درست حل نہ نکالا جائے اس وقت انسان کے بلند و بالا مقاصد کی جلوہ گری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہ سارے امور اس وقت انجام پاسکتے ہین جب معاشرہ کی تربیت ہو اور وہ علم و عمل کے زیور سے آراستہ ہو۔ آپ کی نظر میں ملک اور سماج کی ساری مشکلات کی جڑ افراد کا تربیت نہ ہونا ہے اور اس کے برعکس یہ صحیح تہذیب و ثقافت اور انسان ساز تمدن ہی ایک قوم کی تمام خیرات، نیکیوں اور خوش بختی اور بدبختی کا سرچشمہ ہے۔

افلاطون کی طرح امام خمینی (رح) کا بھی نظر ہے کہ تعلیم و تربیت ملک کے تمام امور میں سر فہرست اور اولویت کے ساتھ ہوں۔ اگر ملک کے تقاضا کے مطابق تعلیم و تربیت کے مسائل حل ہوں تو دوسرے سارے مسائل آسانی کے ساتھ حل ہوجائیں گے۔ ان اوصاف  اور خصوصیات کے ساتھ اسلامی حکومت انسانوں کی آراستگی اور تربیت میں حیاتی اور اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان لوگوں نے فراموش کردیا ہے کہ انسان روحانیت اور ملکوتی ضرورتوں کی استعداد اور ظرفیت رکھنے والی موجود ہے۔ مغربی ممالک کے سربراہاں معاشرہ کی ایک صنعتی کارخانہ کی طرح رہبر کرنا چاہتے ہیں اور کررہے ہیں لیکن اسلامی حکومت انسانوں کی جسمانی اور ذہنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد جیسے فلاحی، اقتصادی، تحفظ اور عدالت جیسی ضرورتیں پوری کرنے کے اور ان کے عروج و کمال اور بلند مرتبہ پر فائز ہونے کی بھی فرک کرے۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:

وہ دن کتنا مبارک ہوگا جب ہم پہلے اپنی اصلاح کرسکیں  اس کے بعد ملک کی۔ ہر اصلاح کا آغاز خود انسان کی اصلاح سے ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کی اپنی تربیت نہ ہوئی ہو تو وہ دوسروں  کی تربیت نہیں  کرسکتا۔ آپ دیکھ چکے ہیں  کہ ان شاہی حکومتوں  کی ابتدا سے آج تک خاص کر آخری شاہی ادوار (جن کو آپ میں  سے بہت سوں  نے مکمل طورپر اور بعض نے جزوی طورپر دیکھا ہے) میں  حکومت تزکیہ وتربیت سے عاری لوگوں  کے پاس تھی۔ اسی عظیم بحران کی وجہ سے انہوں  نے ہمارے ملک کا وہ حشر کردیا جو آپ دیکھ رہے ہیں ۔ انہوں  نے ہماری ملت کا بھی وہ حشر کردیا ہے کہ اب اس کی اصلاح کیلئے سالہا سال در کار ہیں ۔ اس کے بعد انشاء اﷲ اصلاح ہوگی۔

بنابریں ، ہم سب پر لازم ہے کہ ہر کام سے پہلے اپنی اصلاح کریں  اور اس بات پر اکتفا نہ کریں  کہ وہی ظاہری حالت درست ہے۔ ہمیں  اپنے قلب اور اپنے مغز کی اصلاح سے کام کا آغاز کرنا ہوگا اور اس بات کی کوشش کرنی ہوگی کہ ہمارا ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہو۔ امید ہے کہ ہم سب اس باطنی مجاہدت میں  کامیاب ہوں گے اور اس کے بعد ملک کی تعمیر کی کوشش کریں گے۔(صحیفہ امام، ج ۱۵، ص ۴۹۱)

اسلامی اور انسانی حکومت کا دوسری تمام حکومتوں سے ایک فرق عدالت کا ہے کہ اسلامی اور انسانی حکومت میں عدالت ہے، صحیح ہے لیکن اجتماعی عدالت ہونی چاہیئے۔ انبیاء کی توحیدی حکومت کے علاوہ کسی بھی دنیاوی حکومتوں میں انسانوں کی معنویت اور روحانیت کی جانب توجہ نہیں دی ہے۔ اس کے لئے امام خمینی (رح) تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ انسان کے تزکیہ نفس کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ اس کے لئے فرد و معاشرہ کا حضرت باری تعالی سے استقامت اور توسل ہے کیونکہ انسان کو اپنے تقدیرات اور الہی سنتوں کی خبر نہیں رکھتا۔

تبصرے
Loading...