بیت المال کے بارے میں امام خمینی(رہ) کی زندگی سے ایک سبق

امام خمینی(رح) کی نگاہ میں حضرات معصومین علیہم السلام کی ایک خاص اہمیت ومنزلت ہے اور ان کی زندگی کے مختلف حالات سے دین و مذہب کی پابندی کے نتیجہ میں دینداری کے متعدد نمونے{ان حضرات کے} قول وعمل میں پائے جاتے ہیں۔

واضح سی بات ہے کہ ان ہستیوں کی سماجی اور سیاسی زندگیاں  بعض افراد میں اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ جن میں پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی زندگی ہے جنہیں امام خمینی نے اپنے تفکرات اور عملی زندگی میں نمونہ عمل قرار دیا اور مستقل اسلامی نظام کے ذمہ دار افراد کو اس سیرت کا اتباع کرنے کا حکم دیتے رہے۔

ظلم ستیزی، عدالت محوری، اخلاص، مادیت سے اجتناب، دنیا طلبی سے پرہیز، تجمل گرائی سے دوری، لوگوں کے ساته تواضع اور بردباری، سادہ زیستی اور خلاصہ یہ کہ تمام تر خوبیوں بالخصوص بیت المال کے سلسلہ میں دقت بینی، یہ سب کے سب حضرت علی(ع) کی زندگی سے لینے والے وہ دروس تهے جو امام امت نے حاصل کئے۔

یقیناً اس پر بطور صحیح عمل پیرا ہو کر سماج کی تمام تر برائیوں کا سد باب کیا جاسکتا تها اور ہر طرف خوبی ونیکی کا چلن عام ہوتا، قابل دید تها لیکن… افسوس!

عید سعید غدیر کی مناسبت سے خمینی کبیر کے بیانات کی روشنی میں ہم حضرت علی علیہ السلام کی عدالت محوری بیان کریں گے اس امید میں کہ حالات مزید بہتر ہو سکیں۔

« عید غدیر ایک ایسا روز ہے جس دن پیغمبر اکرم(ص) نے حکومت معین فرمائی اور اسلامی حکومت کا نمونہ عمل رہتی دنیا تک پیش کر گئے کہ اسلامی حکومت کے بہترین نمونہ سے مراد ایک ایسی شخصیت ہے جو ہر شعبہ حیات میں مہذب اور معجزہ ہو۔

البتہ خود نبی اکرم(ص) کو معلوم تها کہ کوئی بهی شخص حضرت امیر(ع) جیسا نمونہ کامل نہیں بن سکتا لیکن حکومت کے لئے ایک نمونہ عمل رہتی دنیا تک کے لئے آنحضرت(ص) پیش کر گئے » (صحیفه امام، ج5، ص28)   

اور اب:

« آپ جو کہ حضرت علی(ع) کی پیروی کا دم بهرتے ہیں حد اقل اس انسان کامل کی زندگی کا مطالعہ کیجئے، سچ بتائیے کیا آپ واقعاً ان کی زندگی کا اتباع کرتے ہیں؟

کیا حضرت امیر(ع) کے زہد، تقوی اور سادہ زیستی جیسے صفات کا آپ نے اقتدا کیا؟

اسے کبهی عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی؟

کیا ظلم واستبداد، طبقاتی نظام اور مظلومین ومستضفین کے دفاع نیز محروم طبقات اور رنجور معاشرے کی دستگیری کے سلسلہ میں حضرت امیر(ع) کی سیرت آپ کو سمجه میں آتی ہے؟

کیا آپ اس پر عمل پیرا ہیں؟»

(جهاد اکبر، ص28)

دوسرے یہ کہ:

میں اس عید سعید اور عید اکبر کی تمام مستضعفین اور مسلمین جہان نیز ایرانی عوام کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ حضرت امیر(ع) کی حکومت علوی ہم مد نظر رکهیں اور وہ افراد جو اس حکومت کی اساس ہیں اور حکومت کی باگ ڈور سنبهالنے والے ہیں وہ حضرت کی سیرت اپنے سامنے رکهیں اور سوچیں انہیں کیا کرنا ہوگا۔

البتہ اس طرح عمل کرنا نہ فقط یہ کہ ہمارے بس میں نہیں بلکہ کسی سے بهی ممکن نہیں ہے۔ علماء نے تحریر کیا ہے کہ آپ نے اپنے عمال کو تحریر فرمایا:

قلم کی نوک باریک رکهو، سطور نزدیک ہوں اور ان چیزوں سے بچو جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

یہ ایک عام دستور العمل ہے جو کسی ایک سے مخصوص نہیں ہے یعنی ہر اس شخص کے لئے دستور العمل ہے جو بیت المال سے وابستہ ہے۔ اس طرح حضرت امیر(ع) اپنی حکومت کے دوران حکم فرماتے تهے۔

آپ ایک صفحہ پر دس سطر کے بجائے پانچ سطور کی تحریر سے ناراضی تهے۔ یہاں تک کہ اس وقت رائج قلم کی نوک بهی باریک رکهنے کا حکم فرماتے تا کہ استعمال ہونے والا جوہر کم مصرف ہو۔ بیجا الفاظ وکلمات استعمال نہ ہوں۔ یہ بهی ذکر ہوا ہے کہ آپ بیت المال کا حساب کتاب فرما رہے تهے ایک چراغ روشن ومنور تها کہ کوئی شخص آیا اور کسی اور موضوع سے متعلق آپ سے گفتگو کرنا چاہتا تها، آپ(ع) نے چراغ خاموش کردیا اور فرمایا یہ بیت المال ہے! تم کچه اور غیر مربوط گفتگو کے لئے آئے ہو۔

اب مسلمین کے بیت المال کے مقابلہ ہمارا کیا فریضہ ہے؟

اس بیت المال کے سلسلہ میں حکومتوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

یہ مسئلہ اس دور سے مخصوص نہیں بلکہ یہ رہتی دنیا اور قیامت تک کا دستور العمل ہے کہ تا حد امکان بیت المال کا غلط استعمال نہ ہو اس کا ایک ایک درہم قابل حساب وکتاب ہے۔ ہمیں کل حساب دینا ہوگا۔ کل خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے کئے کا اور بیت المال میں تصرف کا ہمیں جواب دینا ہوگا۔ کیوں؟ اگر بیجا اور غلط استعمال کیا ہوگا تو سزا ملے گی۔ مسلمین کے بیت المال کو اہمیت دیں۔ اسلامی حکومتیں مسلمین کے بیت المال کو اپنی جهوٹی شان وشوکت کے لئے خرچ نہ کریں، بیت المال کا استعمال وہاں ہو جو مسلمین کے حق میں مفید ہو۔ وزارت خانے جب جانتے ہیں کہ ان کے یہاں کام کرنے والے اسی بیت المال سے تنخواہ لیتے ہیں اور ان کی زندگی کا گزر بسر اسی سے ہوتا ہے وہ حضرت امیر کے اس فرمان کو اپنا آئین قرار دیں اور اسے ہرگز ہلکا نہ سمجهیں۔ مسئلہ بیت المال کا ہے اور دستور وقانون اسلام کا ہے۔

البتہ بات جہاں تک مقامات کی حفاظت کی ہے کہ ابهی ہم اس دور سے گزر رہے ہیں وہ یقیناً ایک اہم چیز ہے لیکن وہ بهی تا حد ضرورت۔

ہمارے نشریات بهی اس طرف متوجہ رہیں کہ جو چیز ہماری قوم کے لئے مفید نہیں اسے ضبط تحریر میں نہ لائیں، کاغذ بیجا استعمال نہ کریں اور وقت کی بربادی سے بچیں۔

ریڈیو اور ٹی وی چینلز بهی متوجہ رہیں کہ یہ بهی مسلمین کے بیت الما ل سے ہیں ایسا نہ ہو کہ جو چیزیں مسلمین کے حق میں مفید نہیں وہ ان سے نشر ہوں۔ ان سب کی بازپرس ہوگی۔

اعلی عہدے پر فائز افراد ضرورت کے مطابق مشورہ لیں، حسب ضرورت خادمین کا انتخاب کریں نہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق اور ہم سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہماری خواہشات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

صحیفه امام، ج‏19، ص: 375- 373

تبصرے
Loading...