بہشتی ایک ملت کی طرح تھے

امام خمینی (رح) کے پیروکار اور بنی صدر کی افواج کے درمیان وزیر اعظم کے الیکشن کے بعد بھی مقابلہ اسی طرح جاری رہا اور موسم گرما سن 1359 ھ ش جھگڑوں کا ابھی آغاز ہوا تھا۔

موسم خزاں سن 1359 ھ ش کے آخری دنوں میں بنی صدر کے قریبی ساتھیوں ، احمد سلامتیان اور حسن لاہوتی کی مشہد میں دونوں گروہ کے ماننے والوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا باعث ہوتی اور اسی سال  اسفند میں صدر جمہوریہ نے تہران یونیورسٹی میں اسفند کی تقریر سے اختلاف شدید ہوگیا۔ شدید اختلافات ہوجانے پر ان اختلافات کی رسیدگی کے لئے امام خمینی (رح) کی جانب سے  وفد سامنے آیا اور اخبار میں وارننگ دی گئی فتنہ پھیلانے والے مطالب شائع کرنے سے گریز کریں۔ لیکن اس آغاز کار بڑھتی تحریکات اور فتنوں کی روک تھام میں موثر نہیں ہوا۔

 اس دوران بنی صدر کے مجاہدین خلق سے روابط زیادہ بڑھ گئے اور مذکورہ ادارہ کی اپنی موجودیت بنی صدر کی حفاظت میں دیکھی کہ بنی صدر کے ساتھ ہونے ہی پر مسند اقتدار پر رہا جاسکتا ہے۔ 18/ خرداد 1360 ھ ش کو اپنی مکمل حمایت اور اتحاد کا اعلان کردیا۔ اس وقت اس ادارہ نے انقلابی تنظیموں اور مسئولین کی توہین اور بے احترامی کرنے شروع کردی۔ منجملہ امام خمینی (رح) کے توسط بنی صدر کے چیف کمانڈر کی پوسٹ سے معزول ہونے کے بعد 20/ خرداد 1360  ھ ش کو بنی صدر کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے صدر جمہوریہ کی حفاظت کی درخواست کی۔ اس اعلان میں ذکر ہوا ہے: مجاہدین خلق ایران نے انقلاب قطعی وارننگ دی کہ صدر جمہوریہ کی جان کو کسی طرح کا کوئی خطرہ نهیں ہونا چاہیئےاور ایران کی تمام جنگجو اور مجاہد قوم سے میدان مقابلہ میں حاضر ہونے کا مطالبہ کیا اور اسے حالات میں صدر جمہوریہ کی جان کی حفاظت کو پورے ملک میں ایک شدید انقلابی فریضہ سمجھتے تھے۔

اسی وقت شورائے اسلامی کابینہ کی جانب سے بنی صدر کی سیاسی نااہلی کی تجویز پاس کرکے مجاہدین خلق ادارہ دوبارہ اس کی حمایت کرتے ہوئے ایک دھمکی بھرے اعلان میں صدر جمہوریہ کی نالہلی کے جلسہ بررسی اور تحقیق میں نمائندوں کی شرکت پر پابندی لگادی۔ اس اعلان میں ذکر ہوا تھا:  ادارہ مجاہدین خلق پارلیمنٹ میں شرکت کرنے والے تمام نمائندوں کو وارننگ دے رہا ہے کہ صدر جمہوریہ کی معزولی سے متعلق وسیع پیمانہ پر تمام نتائج کی نسبت سے آگاہ کررہاہے۔ اس لحاظ سے پارلیمنٹ اور قانون گذاری کے ادوار کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران عصر حاضر کی تاریخ میں ڈیکٹیٹری پر تمام ہورہاہے ۔ میں یہاں موجود تمام نمائندوں سے فردا فردا بالخصوص انہیں جو ایرانیوں کی نسبت ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں، کو یاد دہانی کررہاہوں کہ خود کو ایرانی عوام کی دائمی نفرت اور بد دعا کا مستحق نہ بنائیں اور پارلیمنٹ کے مقابلہ میں جعلی زیادتی کرنے والوں سے مرعوب نہ ہوں۔

اس کے با وجود مجلس شورائے اسلامی میں خرداد سن 1360 ش بروز منگل کو بنی صدر کی نااہلی کی تحقیق ہوئی ۔ تیر ماہ کے پہلے دن امام خمینی (رح) نے بنی صدر کے ریاست عظمی کے عہدہ سے معزولی کا حکم صادر فرمایا۔

مجاہدین خلق ادارہ نے ان واقعات کے بعد مورخہ 30/ خرداد سن 1360 ھ ش کو اعلان کیا کہ اس ادارہ کی سرگرمی نظامی شعبہ میں بھی شروع ہوگئی ہے اور اس گروہ کے ممبران جو سرد و گرم اسلحوں سے لیس تھے سڑکوں پر آگئے اور لوگوں کو قتل کرنے، زخمی کرنے، پاسداروں اور نظامی افواج کو مارنے کاٹنے پر اتر آئے اور وسیع عمومی اموال میں لوٹ مار مچادی۔

یہ اندھا دھند مارکاٹ اس زمانہ میں ادارہ کی افسوسناک کاروائی تھی۔ ان قتل و غارت کا سلسلہ اتنا وسیع تھا کہ گلی، کوچہ اور سڑکوں پر عام لوگوں سے لیکر حکومتی مسئولین تک کو اپنے لپیٹ میں لئے ہوا تھا۔ 6/ تیر 1360 ش سازمان منافقین کے ایک عامل جواد قدیری نے تہران کی ابوذر مسجد میں بم رکھ کر آیت اللہ خامنہ ای کی جان کو نشانہ بنادیا۔

البتہ یہ مڈر کی سازش ناکام رہ گئی۔ دوسرے دن یعنی 7/ تیر سازمان نے محمد رضا کلاہی کی مدد سے سرچشمہ تہران میں واقع پارٹی کے مرکزی دفتر کو اڑادیا۔ اپنے با اثر کارکن جمہوری اسلامی پارٹی میں جو آیت اللہ بہشتی اور امام کے راہ پر چلنے والے 72/ ساتھیوں کی شہادت پر تمام ہوا۔

امام خمینی (رح) نے اپنے اس ساتھی کے سوگ میں فرمایا: ملت ایران نے اس عظیم حادثہ میں 72/ بے گناہ شہیدوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بہشتی مظلوم تھے، مظلوم شہید ہوئے اور زندگی بھر اسلام دشمن عناصر کی آنکھ کا کانٹا رہے۔ بہشتی ہماری ملت کے لئے ایک ملت کی طرح تھے۔ جہاں تک میں ان لوگوں کو پہچانتا ہوں یہ لوگ نیک افراد میں تھے اور ان سب میں سر فہرست شہید بہشتی ہیں۔ بہشتی کی شہادت ان کی مظلومیت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔  میں شہید بہشتی کو ایک مجتہد، دیندار، قوم کا دوست اور امت مسلمہ کا ہمدرد اور معاشرہ کے لئے مفید جانتا تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: 7/ تیر کے شہداء کے خون نے بے خطر انقلاب کی ضمانت دی، 7/ تیر کا حادثہ انقلاب کے شعلوں کے زیادہ سے زیادہ فروزان ہونے اور لوگوں کی صفوں میں استحکام کا باعث ہوا۔ بہشتی ان 72/ شہداء کے خصوصیات کا مظہر اور علامت تھے۔ یہ حادثہ امام کے مشن کی مطلق حقانیت کی پہچان کا سبب بنا۔  7/ تیر کے شہداء انقلاب کے تحفظ اور اس کی بقاء میں بڑا کردار رکھتے ہیں۔ اس واقعہ سے انقلاب کو معراج ملی۔ اس روز کے حادثہ نے ثابت کردیا کہ اب انقلاب کا شعلہ خاموش نہیں ہوگا۔

 

یہ غم انگیز حادثہ اور پئے در پئے شہادتوں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں سرعت بخشی ۔ جس ملت کے لئے شہادت سعادت ہے وہ قوم اور ملت کامیاب ہے۔

تبصرے
Loading...