ایک انقلابی فرد کی پانچ خصوصیات

ایک انقلابی فرد کی پانچ خصوصیات

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

 

رہبر انقلاب اسلامی نے ایک انقلابی فرد کی پانچ خصوصیات کا ذکر کیا کہ جن میں سے ایک یعنی “اسلامی انقلاب کے اصولوں کی پابندی” انقلابی ہونے کا دوسرا معیار، انقلابی امنگوں اور اہداف تک رسائی کے لئے بلند ہمت ہونا ہے۔ بلاشبہ عظیم اہداف کے حصول کے لئے عزم و ارادہ اور بلند ہمتی اور دوگنا تلاش و کوشش کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ہدف جتنا بھی بلند اور اعلیٰ ہو، وہ حاصل نہیں ہوسکتا- رہبر انقلاب اسلامی اس بارے میں فرماتے ہيں، دوسرا معیار یہ ہے کہ ہرگز بلند و بالا اہداف کو حاصل کرنے سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں اور دباؤ کے مقابلے میں تسلیم نہ ہو جائيں۔ البتہ آپ جب ایک ایسے راستے پر چل رہے ہوں کہ جس پر دشمن ہو اور وہ آپ کی راہ میں مشکلات کھڑی کرسکتا ہے، پھر بھی یہ چیز اس کا باعث نہیں بننی چاہیئے کہ آپ قدم آگے نہ بڑھائيں اور وہ راستہ ہی ترک کر دیں۔ آپ اس راہ پر چلیں اور دباؤ میں نہ آئيں ، حالات سے سمجھوتہ نہ کریں، کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں آپ کو پسپائی حاصل ہوگی۔”

انقلابی ہونے کی ایک اور اہم خصوصیت جو رہبر انقلاب نے بیان فرمائی وہ خود مختاری کا پابند رہنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سیاسی خود مختاری کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ ہم دشمن کی گونا گوں چالوں سے فریب نہ کھائیں، بلکہ ہر حالت میں دا‏خلی، علاقائی اور بین الاقوامی خود مختاری کی حفاظت کی فکر میں لگے رہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے دشمنوں بالخصوص امریکا کی حیلہ گری اور چالوں کا اشارتاً ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ہمیشہ دھمکیوں کا ہی سہارا نہیں لیتے، بلکہ بسا اوقات تبسم بلکہ پیار کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں، مثال کے طور پر خط ارسال کرتے ہیں کہ آیئے عالمی مسائل کو باہمی تعاون سے حل کریں، ایسے مواقع پر ممکن ہے کہ انسان لالچ میں پڑ جائے کہ چلئے بہت اچھا ہے، ہم عالمی مسائل کے تصفئے کے لئے ایک سپر پاور سے تعاون کرتے ہیں، جبکہ وہ اس بات سے غافل ہو جاتا ہے کہ دشمن در پردہ دوسرے اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔

اسلام ایک ایسا دین ہے، جو افکار و عقائد پر استوار ہے اور اسی سبب سے اسلامی انقلاب، ثفافتی خود مختاری کو بہت اہمیت دیتا ہے اور آيۃ اللہ خامنہ ای بھی اس پر تاکید فرماتے ہيں اور کہتے ہيں “ثقافتی خود مختاری اس ميں ہے کہ ہمارا طرز زندگی، اسلامی طرز زندگی ہونا چاہیئے اور طرز زندگی اپنانے میں مغرب اور اغیار کی تقلید، ثقافتی خود مختاری کے برخلاف ہے۔ رہبر انقلاب برسوں سے مغربی ثقافت کے خطرات سے آگاہ کرتے رہے ہيں۔ وہ نئے ذرائع ابلاغ اور سائیبر اسپیس کے جدید وسائل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ وسائل درحقیقت اطلاعات کو کنٹرول کرنے اور قوموں کی ثقافتوں پر مغرب کے غلبے کے وسائل ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وسائل نفع بخش بھی ہوسکتے ہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دشمن کے غلبے اور نفوذ پیدا کرنے والی چیزوں کو ان وسائل سے الگ کر دیا جائے اور اس طرح عمل کیا جائے کہ سائیبر اسپیس دشمن کے ثقافتی تسلط اور نفوذ کا ذریعہ نہ بننے پائے۔

یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ مثال کے طور پر فرض کریں کہ آپ کے پاس اپنے میڈیا ذرائع اور وسائل ہوں، لیکن آپ انہیں دشمن کے حوالے کر دیں۔ انٹرنیٹ بھی ایسا ہی ہے۔ انٹلی جنس اور معلومات فراہم کرنے والے وسائل بھی ایسے ہی ہیں، انہيں دشمن کے اختیار میں نہیں دیا جاسکتا، لیکن آج یہ چیزیں دشمن کے ثقافتی اثر و رسوخ اور تسلط کا وسیلہ و ذریعہ ہیں۔ ایک ملک جب تک اقتصادی نقطہ نظر سے کسی ملک سے وابستہ ہو، وہ سیاسی اور ثقافتی خود مختاری کا اچھی طرح تحفظ نہيں کرسکتا۔ اس لئے اقتصادی خود مختاری، ایک قوم کی عزت و خود مختاری کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے انقلابی ہونے کے تیسرے معیار یعنی ملک کی ہمہ جہتی خود مختاری کے التزام کی تشریح کرتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بیان فرمایا کہ اقتصادی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ خود کو عالمی برادری کے معاشی نظام میں ہضم ہو جانے سے بچایا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انقلابی ہونے کے چوتھے معیار یعنی دشمن کی طرف سے حساس رہنے کے بارے میں زور دیکر کہا کہ ہمیں ہمیشہ دشمن کی نقل و حرکت کی نگرانی کرنی چاہیئے اور اس کے اہداف و مقاصد کی شناخت کے ساتھ بھرپور چوکسی برتتے ہوئے دشمن کی سرگرمیوں کے ممکنہ زہر کا توڑ آمادہ رکھنا چاہیئے۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ایسے لوگوں پر شدید تنقید کی جو امریکا کی آشکارا اور مکرر مخاصمتوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے دشمن کے بارے میں کی جانے والی گفتگو کو توہم قرار دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران سے امریکا کی واضح، دائمی اور عمیق دشمنی کا انکار بذات خود ایک سازش ہے، جس کا مقصد شیطان بزرگ کے سلسلے میں چوکسی اور ہوشیاری کو کم کرنا ہے۔

آپ کا کہنا تھا کہ اسلامی انقلاب سے امریکا کی دشمنی اس کی ماہیت کا جز ہے۔ اس لئے کہ یہ تسلط پسندانہ نظام کی فطرت ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران جیسے نظام کا دشمن ہو، اس لئے کہ اس کے مفادات، ہمارے مفادات سے ایک سو اسّی درجہ فرق رکھتے ہیں۔ تسلط پسندانہ نظام خائن ہے، جنگ کو بھڑکانے والا اور دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے والا اور انہيں منظم کرنے والا ہے اور فلسطینی گروہ جیسے حریت پسند گروہوں اور مظلوموں کو سرکوب کر رہا ہے اور ان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ یہ تسلط پسندانہ نظام کی فطرت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے سامراج کی دشمنیوں کا ذکر کرتے ہوئے بعض سازشوں مثلاً فلسطین پر قبضے، یمن کے قتل عام کی حمایت، ایران میں شاہ کی ظالم حکومت کی حمایت، ایران پر حملے کے لئے عراق کے ڈکٹیٹر صدام کی مدد اور اس جیسے ديگر واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو بھی شخص یا جماعت اسلام کے لئے اور اسلام کے نام پر کام کر رہی ہے اور اگر اس نے امریکا پر اعتماد کیا تو بہت بڑی غلطی کی مرتکب ہوگی اور اس کا نقصان ضرور اٹھائے گی۔

آپ نے فرمایا کہ حالیہ برسوں کے دوران بھی علاقے کی بعض اسلامی تنظیموں نے “عقل سیاسی” اور “ٹیکٹک” کے نام پر امریکیوں سے تعاون کیا، لیکن آج شیطان اکبر پر اعتماد کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایک انقلابی مسلمان کی لازمی خصوصیات اور انقلابی ہونے کے آخری معیار یعنی دینی و سیاسی تقویٰ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ دینی تقویٰ یعنی اسلام نے معاشرے کے لئے جن اہداف کا تعین اور مطالبہ کیا ہے، ان سب کے حصول کے لئے محنت اور نگرانی کی جائے۔ آيۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرمایا کہ ایک انفرادی تقویٰ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اور آپ گناہ سے پرہیز کریں اور خود کو گناہ اور خدا کی معصیت سے محفوظ رکھیں، آتش دوزخ سے اور غیض و غضب الہیٰ سے محفوظ رکھیں، یہ انفرادی تقوی ہے اور ایک اجتماعی تقویٰ ہے، اجتماع  سے متعلق اسلامی تقویٰ یہ ہے کہ جن چیزوں کا اسلام نے ہم سے مطالبہ کیا ہے، ان کو عملی جامہ پہنائيں۔

آپ نے سماجی انصاف، محرومین و مظلومین کی حمایت، ظالم و مستکبر سے مقابلے کو دینی اور الہیٰ فریضہ قرار دیا اور فرمایا کہ سیاسی تقویٰ یہ ہے کہ انسان ان لغزشوں سے کہ جن سے دشمن استفادہ کرسکتا ہے، ان سے پرہیز کرے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای اسلامی انقلاب کے ان بنیادی معیارات پر عمل کے فائدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں “اگر بنیادی اقدار پر پابند رہا جائے تو انقلابی تحریک، کسی انحراف کے بغیر اور مسلسل جاری و ساری رہے گی اور حالات کی تند و تیز ہوائیں اس تحریک کا رخ نہیں بدل سکتیں۔ انہوں نے انقلابی معیارات پر عمل کے سلسلے میں امام خمینی (رہ) کو ان معیارات کا مکمل نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ مکمل اطمینان کے ساتھ ان معیارات کی پیروی کی جا سکتی ہے۔

تبصرے
Loading...