انقلاب اسلامی ایران، اعتراف حقیقت

انقلاب اسلامی ایران، اعتراف حقیقت

 

 

تحریر: ارشاد حسین ناصر

 

دنیا کی سیاست بدل دینے والے عظیم اسلامی انقلاب کی اکتالیسویں سالگرہ ان حالات میں آئی ہے کہ دنیا پر اس عظیم انقلاب کے اثرات اب کوئی چھپائے بھی تو چھپ نہیں سکتے، کوئی اسے روکے بھی تو روک نہیں سکتے۔ تمام تر تعصبات اور منفی پراپیگنڈہ کے باوجود یہ انقلاب اپنی سرحدوں سے باہر موجود ہے اور مستضعفین، محکومین، کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کی رہنمائی اور امید کا محور بن چکا ہے۔ استعمار اور اس کے نمک خواروں نے یہ پراپیگنڈہ کیا تھا کہ انقلاب کو بیرون ملک ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ خطرہ عرب ریاستوں کو دکھائی دیا۔ اسی وجہ سے نوزائیدہ انقلاب کو کئی مسائل میں الجھایا گیا، سب سے پہلے تو اس کی قیادتوں کو شہید کیا گیا، اس کے بعد اپنے مہرے صدام کے ذریعے جنگ مسلط کی گئی، جو آٹھ سال تک جاری رہی، اس میں لاکھوں لوگ شہید ہوئے۔ اہل ایران نے بے دست پا ہونے اور امریکی پابندیوں کے باوجود اپنے ملک کی حفاظت کی اور صدام اور کے سرپرستوں کا خواب چکنا چور کر دیا۔

 

انقلاب اسلامی کی راہ میں ہر قسم کی دیواریں کھڑی کی گئیں اور روڑے اٹکائے گئے، مگر روشنی کا یہ دھماکہ جسے انفجار نور کا نام دیا گیا تھا، اپنے نور کی کرنوں کو دنیا کے مختلف معاشروں پر منعکس کرتا آ رہا ہے، انسانوں کی آزادی کا جو پیغام انقلاب اسلامی نے دیا ہے، وہ حیات بخش ہے، اس میں شجاعت ہے، استقامت ہے، آزادی ہے، حریت ہے، غیرت و حمیت ہے، خود انحصار ی ہے۔ ان نظریات اور افکار کو قید کرنے کی کوششیں آج رائیگاں ہوتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ارب ہا ڈالرز لگا کر ان نظریات کو پابند کرنے کی جو سازش کی گئی، اس میں استعمار اور اس کے لے پالکوں کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ انقلاب آج اپنی تمام تر طاقت اور قوت کیساتھ دنیا کو اپنے افکار و نظریات کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے، اس انقلاب نے ایثار گری، قربانیوں، شہادتوں اور حریت کی جو مثالیں قائم کی ہیں، ان کو اپنا کر ہی آج اہل یمن اپنے وطن کا دفاع کر رہے ہیں اور سعودی قیادت میں بنے نام نہاد اسلامی اتحاد کا مقابلہ تن تنہا کر رہے ہیں۔

 

اہل یمن نے بھی اپنی شجاعت و حمیت کی داستانوں سے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ کہاں انتہائی غریب، بے بس، بھوکے پیاسے اور کپڑوں سے بے نیاز یمنی جن پر انسانی بنیاد ضروریات تک کی رسائی ناممکن بنا دی گئی ہے اور جن کے لاکھوں بچے بھوک اور دوائیں نہ ملنے کے باعث مر گئے ہیں، مگر ان کی غیرت کو شکست نہیں دی جا سکی۔ ان کی جرات و شجاعت کو فتح نہیں کیا جا سکا، ان کی بے مثال استقامت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا، یہ انقلاب اسلامی ایران کا ہی ایک نمونہ ہے، اس کے عالمی اثرات کا ایک معمولی نمونہ ہے، اہل لبنان کو دیکھیں، جن کو اسرائیل جیسی ایٹمی طاقت کے مقابلے میں فتح و کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور ان کا رعب، ان کا ڈر، ان کا خوف اہل صیہون پر اس قدر ہے کہ انہوں نے اپنی حفاظت کیلئے بنکروں کے زیر زمین شہر بنا رکھے ہیں۔ اہل لبنان بھی اگر کسی چیز میں طاقت محسوس کرتے ہیں تو ان کا وہ نظریہ ہے، جو انقلاب کی قیادت نے انہیں دیا ہے، وہ ڈھنگ اور طرز ہے جسے انقلاب سے لیکر انہوں نے اپنایا ہے۔

 

نائیجیریا میں اسلامی تحریک نے شیخ ابراہیم زکزکی کی قیادت و رہبری میں معاشرے پر جو اثرات مرتب کئے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں، استعمار ان سے اس قدر خائف ہوا کہ شیخ زکزکی اور اس کے پیروکاران کو بڑی تعداد میں ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔ شیخ زکزکی پر حملہ اور ان کے پیروکاران کی ان گنت شہادتوں کے بعد بھی استقامت و جوانمردی کیساتھ میدان عمل میں موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ انقلاب کے یہ فرزندان فتح و شکست کے اپنے معیارات کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور دشمن کے دانت کھٹے کر رہے ہیں۔ شیخ زکزکی کی عظیم قربانی دنیائے اسلام کیلئے ایک مثال ہے، جس نے اپنے چھ بیٹے قربان کرکے اپنے جسم میں گولوں کی بوچھاڑ کھا کر کلمہ حق کہنے سے اجتناب نہیں کیا، ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں، جب اس سرزمین پر بھی ان عظیم شہداء کے طفیل انقلاب کی پو پوٹھے گی اور ظلم و جبر کا خاتمہ ہو گا۔

 

اہل شام نے انقلاب، مزاحمت اور استعمار مخالفت میں جو قربانیاں دی ہیں، وہ اپنی الگ داستان رکھتی ہیں۔ انقلاب کی حمایت، مزاحمت اسلامی فلسطین کی مدد اور اسرائیل کی چودھراہٹ کے سامنے سینہ سپر ہونے کے جذبے سے سرشار اس سرمین کے حکمرانوں نے بھی استعماری مقاصد کی راہوں میں پہاڑ کھڑے کئے ہیں، اس سوچ و فکر اور نظریہ کے باعث ان کے ملک پر نوے ممالک کے دہشت گردوں کو لا کر حملہ کیا گیا اور قابض ہونے کی کوشش کی گئی ہے، مگر انقلاب اسلامی نے انہیں تنہا نہیں چھوڑا اور گذشتہ آٹھ برس سے استعمار کی اس سازش کا مقابلہ جاری ہے اور فتح کے جھنڈے گاڑتے ہوئے آج بھی معرکہ آرائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دشمن نے مقامات مقدسہ کو تہس نہس کرنے کی دھمکیاں دیں، مگر دنیا بھر کے محبان اہلبیت اطہار علیھم السلام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے دشمن کے دانت کھٹے کئے اور ایک حیرت کا سماں ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوگیا۔ اصل بات وہی ہے کہ انقلاب اسلامی سے اتصال اور تمسک نے ان کو استقامت و شجاعت کی جو راہیں دکھائیں ہیں، ان کی بدولت دنیا کی نام نہاد سپر پاور کو شکست سے دوچار کیا ہے۔

 

اہل عراق نے بھی اپنے ملک، اپنے ملک کے مقدسات کا دفاع کرنے کیلئے انقلاب کی راہوں کو اپناتے ہوئے مرجعیت کے فتوے کے بعد سفاک، ظالم دہشت گردوں سے اپنے ملک کو پاک کیا ہے، یہاں انقلاب اسلامی کی مدد، نصرت اور عملی موجودگی نے عراق کے اقتدار اعلیٰ کو محفوظ کرنے اور مقدس مقامات کے تحفظ کیلئے استعمار کے ارادوں کو خاک میں ملانے میں ایران نے جو کردار ادا کیا ہے، جتنی عملی رہنمائی و مدد کی گئی ہے، وہ ایران و عراق کو آٹھ سال تک لڑانے والوں کیلئے ایک عجوبے سے کم نہیں تھا۔ اب بھی اگر دیکھا جائے تو جو حالات درپیش ہیں، عراق سے امریکی فوجی انخلاء کیلئے ایران نے جو اقدام اٹھایا ہے، وہ بہت ہی کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی و شہید ابو مہدی المہندس کی المناک شہادت کے بعد ایران و حزب اللہ اور حشد الشعبی نے رہبر معظم کے سخت انتقام کی تشریح علاقے سے امریکی فوجی انخلا مراد لیا ہے۔

 

جس پر عمل درآمد کا سلسلہ اس دن شروع ہوگیا تھا، جب امریکی فوجی بیس پر ایران نے بیلسٹک میزائلز کی بارش کی تھی، انقلاب اسلامی ایران کا یہ اقدام دنیا کیلئے حیرت اور انگشت بہ دندان کے مترادف تھا، ایران کا میزائل حملہ امریکی طاقت کا غرور خاک میں ملانے کیلئے کافی ثابت ہوا ہے۔ اس کی جھوٹی طاقت اور دنیا کے سامنے اپنے اسلحہ کی طاقت و زور کے پروپیگنڈہ اور اس کی عالمی سطح پر فروخت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے، جو ایک پابندیوں زدہ ملک کے میزائلوں کو روکنے کی طاقت یا صلاحیت نہیں رکھتا تھا، یہی بات امریکہ سے اسلحہ کے ذخائر خریدنے والوں کیلئے کافی ہے، اگر ان کا دماغ کام کرتا ہو تو۔ میرے خیال میں دنیا بھر میں انقلاب اسلامی کے عظیم اور نورانی افکار و نظریات اور اس کی روشن کرنوں کا پہنچنا اور مستضعفین جہان کا دنیا کے استعمار اور طاقتوروں کو للکارنا انقلاب کو بیمہ کرنے کے مترادف ہے۔

 

اب کوئی بھی امام خمینی کی قیادت و رہنمائی اور ولی امر المسلمین امام خامنہ ای کی ولایت و رہبری میں امام زمانہ کے ظہور کی اس تحریک اور جہد مسلسل کو ناکام بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، ناکام بنانا تو دور کی بات ہے، اس کی راہوں کو مسدود کرنے اور اس کے راستے میں دیواریں کھڑی کرکے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آخر میں انقلاب اسلامی کی اکتالیسویں سالگرد پر تمام مستضعفین جہاں کو ہدیہ تبریک پیش ہے، انقلاب کی راہ کے تمام شہداء عظیم کی پاک ارواح کو دلی سلام، امید ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اگلا دور ان کی نام کی نسبت سے لکھا پڑھا اور بولا جائے گا۔ جن لوگوں نے اس عظیم انقلاب اور اس کی الہیٰ قیادت و رہبری کا ساتھ نہیں دیا، انہوں نے الہیٰ حجت کے ساتھ تعصب کیا، یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ اپنے مسائل میں گھری ہے اور اس کی باگیں آج بھی غیروں کے ہاتھ میں ہیں۔

تبصرے
Loading...