امریکہ، عراق سے ٹیکٹیکل پسماندگی اور دھمکی آمیز لہجہ

تحریر: ہادی محمدی

امریکہ نے 2003ء میں عراق پر فوجی قبضہ کیا تھا۔ اس وقت امریکہ کی اسٹریٹجی آئندہ 7 برس میں خطے کے 5 بڑے ممالک پر فوجی قبضہ کر کے انہیں نابود کرنے پر مشتمل تھی۔ لیکن افغانستان اور عراق پر فوجی قبضے کے بعد امریکہ 2008ء میں شدید اقتصادی بحران کا شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں اسے 2010ء میں اپنے فوجیوں کی اکثریت عراق سے واپس بلانا پڑی۔ اس کے بعد جب خطے میں خود امریکہ کا ہی ایجاد کردہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش ابھر کر سامنے آیا تو امریکہ اس سے مقابلے کے بہانے ایک بار پھر عراق میں حاضر ہو گیا۔ امریکی حکام نے ہمیشہ اپنے حقیقی عزائم پوشیدہ رکھے ہیں لیکن موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اصل حقائق پوشیدہ نہ رکھ سکے اور انتہائی بے شرمانہ انداز میں کہہ ہی ڈالا کہ عراق اور شام میں ہمارا مقصد وہاں موجود خام تیل کے ذخائر ہیں۔ 2013ء سے اب تک عراق میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں اسی بے شرمی پر مبنی رہی ہیں اور امریکہ مسلسل عراق کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔ حالیہ چند دنوں میں یہ امریکی بدمعاشی اپنے عروج تک پہنچ چکی ہے۔

جب اسلامی جمہوریہ ایران کی مرکزیت میں اسلامی مزاحمتی فورسز فورسز اور عراق آرمی نے اس ملک میں داعش کا قلع قمع کر دیا اور امریکہ کے ہاتھ سے یہ اہم ہتھکنڈہ نکل گیا تو امریکہ نے اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کیلئے این جی اوز، جاسوسوں، مغرب نواز حلقوں اور بکے ہوئے عناصر کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ خطے سے متعلق امریکہ کا شیطانی منصوبہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سربراہ شہید ابو مہدی المہندس کے ہاتھوں شکست کا شکار ہوا تھا لہذا امریکہ نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ایک دہشت گردانہ اقدام کے ذریعے ان دونوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ اس دہشت گردانہ اقدام میں امریکہ نے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں اور حتی اقوام متحدہ نے اسے عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی اور غیر قانونی اقدام انجام دیا ہے۔ امریکی حکام کا خیال تھا کہ اکتوبر 2019ء میں ان کی منصوبہ بندی سے عراق میں شروع ہونے والے ہنگاموں اور شدت پسندی کے بعد اس ملک میں مغرب نواز حلقوں کے برسراقتدار آنے کے مقدمات فراہم ہو جائیں گے لیکن امریکہ کی یہ خوش فہمی بھی سراب ثابت ہوئی۔

عراق کی پارلیمنٹ نے شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد متفقہ طور پر عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء پر مبنی بل منظور کر لیا۔ اس کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے امریکہ کے عین الاسد فوجی اڈے پر میزائل حملہ امریکہ کے منہ پر زوردار طمانچہ ثابت ہوا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے عراق میں موجود سیاسی بحران کو طول دے کر اور نئی کابینہ تشکیل پانے کی راہ میں روڑے اٹکا کر اپنے شیطانی اقدامات کیلئے مناسب موقع حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن عراق میں قومی عزم پوری طاقت سے باقی ہے جبکہ ایران نے بھی امریکہ سے شدید انتقام کو اپنی پہلی ترجیح بنا رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایجنٹس کی جانب سے چلائی جانے والی مہم اور پروپیگنڈا بھی بے نتیجہ ثابت ہوا ہے جبکہ عراق آرمی اور حشد الشعبی کے مراکز پر ہوائی حملوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آج امریکہ اپنے ہی بنائے ہوئے کرونا وائرس کی لپیٹ میں آ کر اقتصادی بحران کی نئی لہر سے روبرو ہو چکا ہے جس کے باعث وہ عراق اور مغربی ایشیا کے دیگر حصوں میں فوجی سرگرمیوں پر دولت لٹانے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ ایسے طریقوں کی تلاش میں ہے جن سے کم اخراجات کے ذریعے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔

انہی میں سے ایک عراق میں نئی حکومت کی تشکیل کیلئے عدنان الزرفی کا انتخاب ہے۔ عراق میں عدنان الزرفی امریکی فوج کے نوکر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ اگلے دس دنوں میں عراقی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ البتہ اس کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ عراق میں موجود امریکی فوجی اس وقت کرونا وائرس جیسے بڑے چیلنج سے روبرو ہیں۔ عراق میں موجود امریکی فوجی اپنے اڈوں میں محصور رہتے ہیں کیونکہ انہیں شہر میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ کرونا وائرس سے بچنے کیلئے امریکہ نے عراق میں بڑے پیمانے پر فوجی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اور اپنے فوجیوں کو چھوٹے اڈوں سے نکال کر بڑے اڈوں میں منتقل کر رہا ہے۔ دوسری طرف اس صورتحال کا غلط فائدہ اٹھا کر امریکی حکام نے حشد الشعبی کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے امریکہ حشد الشعبی کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر جنرل سلامی نے خبردار کیا ہے کہ ایران ہر گز عراق میں اپنی اتحادی فورسز کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور مشکل وقت آنے پر ان کی بھرپور مدد اور حمایت کرے گا۔

تبصرے
Loading...