امام خمینی (ره) اورتحریک عاشورا

اللہ کے لئے قیام کرنے میں جو چیز زیادہ اہمیت رکھتی ہے ، عبادت کا دوسرا جز ہے ، یعنی ’’خدا کے لئے‘‘ کہ قیام کے مقصد کا پتہ دینے والا ہے اور اس کی عرفانی اہمیت اولیائے خدا کی نظر میں بھی اسی باب سے جلوہ گر ہوئی ہے ، امام خمىنى (ره)  حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے اس خوبصورت کلام سے ’’ ما راىنا الاّ جمیلا‘‘ دلیل  سے استشہاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ ایک کامل انسان حسین بن علی‘‘ کی شہادت اولیاء خدا کی نظر میں جمیل ہے ، نہ اس وجہ سے کہ جنگ کی ہو اور مار دیا جائے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یہ جنگ خدا کے لئے جنگ تھی اور قیام ، خدا کے لئے قیام تھا۔‘‘

(صحیفہ امام خمینیؒ ج۲۰، ص۲۰۴)

امام کی نظر میں اللہ کے لئے قیام کی اہم ترین خصوصیت اس کا شکست قبول نہ کرنا ہے ، اسی لئے ہے کہ شہادت خواہ کتنی ہی ظاہری لحاظ سے شکست لگ رہى ہو ، لیکن حقیقت اور باطنی لحاظ سے کامیابی، بلکہ حقیقی کامیابی، وہی اللہ کے لئے قیام کی توفیق ہے۔‘‘ خداوند تبارک و تعالی کے سارے مواعظ  مىں سے اسى ایک موعظہ کو انتخاب کیا ہے : ’’ قل انما اعظکم بواحدۃ ‘‘ یعنی میں نصیحت کر رہا ہوں ، کیونکہ ساری چیز یہاں ہے ’’ انما اعظکم بواحدۃ ان تقوموا للہ‘‘ اللہ کے لئے قیام کرنے میں ساری چیزیں اللہ کی معرفت عطا کرتی ہیں، اللہ کے لئے قیام اللہ کے لئے قربانی عطا کرتا ہے اللہ کے لئے قیام اسلام کے  لئے اللہ کے لئے اس قیام میں ىہ ساری چیزیں موجود ہیں لہذا خداوند عالم نے تمام مواعظ میں سے جو واحد موعظہ انتخاب کیا ہے، یہی موعظہ ہے ’’ ان تقوموا للہ  مثنی ، فرادی، اللہ کے لئے اجتماعی اور انفرادی دونوں صورتوں میں  اللہ کے لئے قیام کرو، انفرادی قیام اللہ کی معرفت تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے اور اجتماعی قیام اللہ  کے مقاصد تک پہنچنے کے لئے ‘‘۔

(صحیفہ امام خمینیؒ ، ج۱۸، ص۱۲۶)

امام خمینیؒ نے دو فصل میں تحریک کے مسئلہ کو عاشوراء کے مسئلہ سے ربط دىا ہے : ایک تحریک کی پہلی فصل میں یعنى   ۴۲ ش کے ایام محرم میں کہ تحریک کے مسائل کا بیان، عزا خانوں ، مجالس عزاء، مرثیہ خوانی، سینہ زنی اور نوحہ خوانی اور مصیبت بیان کرنے  والے مذہبی لوگوں کا ذریعہ بن گیا اور دوسرے تحریک کی آخری فصل سے (یعنی ۵۷ ش کا محرم) کہ امام خمینیؒ نے اعلان کر دیا: ماہ محرم کی زیادہ سے زیادہ تعظیم و تکریم کی جائے اور لوگ مجالس عزا برپا کریں ، آپ نے اس ماہ کا عنوان خون کی شمشیر پر کامیابی قرار دیا اور دوبارہ وہی عوامی عمومی عظیم طوفان برپا ہو گیا یعنی تحریک کا واقعہ جس میں حسینی روح اور جہت موجود تھی امام حسین علیہ السلام کے جانسوز واقعہ اور آپ کی غم انگیز داستان سے اس انقلاب کا اٹوٹ رشتہ ہو گیا ۔

امام  بزرگوار عمومی قیام کا درس اور اسلامی تحریک کا الفباء مذکورہ آیہ  کرىمہ اور سید الشھداء کے قیام کو مد نظر  رکھتے ہوئے اس طرح یاد کرتے ہیں:

جب دیکھو کہ اللہ کا دین خطرہ میں ہے تو خدا کے لئے قیام کرو۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام دیکھتے ہیں کہ دین الہی خطرہ میں ہے اور معاویہ دین الہی کو برعکس بنا بر رہا ہے (اس کی ساری اقدار کو خاک میں ملا رہا ہے کسی بھی ناموس شریعت کا کوئی پاس نہیں ہے) تو امیر المؤمنین علىہ السلام نے خدا کے لئے قیام کر دیا اسی طرح ۔ سید الشھداء علیہ السلام نے بھی خدا کے لئے قیام کر دیا۔ جب بھی دیکھو (یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کسی مخصوص زمانے سے تعلق رکھتی ہو، بلکہ خداوند عالم کا موعظہ دائمی ہے) جب بھی دیکھا کہ اسلام کے خلاف٬ انسانیت (اسلام) اور اللہ کے  خلاف قیام کیا جا رہا ہے اور اسلام کا خاتمہ ہو رہا ہے تو یہاں پر خدا کے لئے قیام واجب ہے اور اس بات سے خوف نہ کرو کہ شاید ہم نہ کر سکیں، شکست کھائیں اور نا کام ہو جائیں نہیں اس میں شکست اور نا کامی نہیں ہے۔

(صحیفہ امام، ج۸، ص۱۰)

نتیجہ پر نظر کئے بغیر اپنے فریضہ پر عمل کرنا امام خمینیؒ کے فکری اور عرفانی اصول میں سے ایک اصل ہے کہ  ا س نے رہبری کے طریقہ میں ایک اہم کردار ادا کیا نیز شاہی نظام سے مقابلہ کرنے اور اس کے چہرہ سے باطل کی نقاب الٹنے میں کافی مؤثر رہی ہے یہ اصل خود ہی ایک دوسری اصل سے ماخوذ ہے یعنی الہی قیام کے نا کام نہ ہونے سے ، آدمی قیام کرنے کا ذمہ دار ہے خواہ اس قیام کا نتیجہ مثبت ہو یا منفی، کامیابی یا نا کامی، اس کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا، اصل قیام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، بہر صورت فریضہ پر عمل ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ کے لئے قیام کرنے والا کبھی ہارتا نہیں کامیابی ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی ہے؛ کیونکہ امام کی آخرت پر نظر رکھنے والی نگاہ میں بات اسی دنیا میں تمام نہیں ہو جاتی،اس کے لئے ایک دوسری جگہ بھی ہے جہاں حقیقی کامیابی ہے یہی نظریہ اور طرز فکر تھا جس نے امام کو عملی میدان میں اس  درجہ قوی اور بے خوف بنا دیا کہ آپ خدا کے سوا کسی طاقت سے ڈرتے نہیں تھے آپ کے دل میں اور آپ کی ڈکشنری میں خوف کا کوئی مفہوم ہی نہیں تھا کہ ، ہاں  اس قلبی اعتقاد نے ان کو اس درجہ جوش و ولولہ اور اعتماد بخشا کہ ان کوعمل میں اٹل اور بے پرواہ کر دیا تھا کہ ایک پلک جھپکنےبھر بھی آپ کو مقصد تک پہنچنے میں کوئی مانع نہ رہ گیا۔

تبصرے
Loading...