امام خمینی(رہ) کے مکتب فکر اور عالمی حالات کا جائزہ

اسلامی انقلاب کے معمار حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی پچیسویں برسی کے موقعے پر پورے ایران سے عاشقان امام خمینی، آپ کے روضہ اقدس پر جمع ہوئے۔ اس اجتماع میں شکوہ و شوکت، استقامت و عزت و وقار اور اسلامی انقلاب سے گہرے عشق کے بے نظیر مناظر دکهائی دیئے اور عاشقان امام خمینی نے اپنے امام سے کئے گئے میثاق کی تجدید کی۔

اس باعظمت و نشاط و تازگی سے سرشار اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کی شکل میں ترقی کی راہ پر گامزن اٹل حقیقت کی شناخت کے سلسلے میں قوموں کے تجسس اور اشتیاق کے علل و محرکات کا جائزہ لیا اور اسلامی شریعت اور اس شریعت کے بطن سے نکلنے والی جمہوریت کو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مکتب فکر کے دو بنیادی ستون قرار دیا۔

قائد انقلاب اسلامی نے اس جدید سیاسی و تمدنی نظام کے تئیں ایران کے عوام اور حکام کی وفاداری پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکا کی مخالفتیں اور رخنہ اندازی اور عظیم الشان امام خمینی کی تحریک کی روح اور سمت و جہت میں کسی بهی طرح کی تبدیلی کے امکانات ملت ایران کے سامنے دو اہم چیلنج ہیں اور ایرانی عوام ان چیلنجوں کے مکمل ادراک اور کنٹرول کے ساته امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے باافتخار اور سعادت بخش راستے پر اپنا سفر جاری رکهیں گے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پرشکوہ اجتماع سے خطاب میں دنیا کی اقوام اور بالخصوص مسلمانوں کے درمیان امام خمینی اور اسلامی جمہوریہ کی مسلسل بڑهتی مقبولیت کو ایک اہم حقیقت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے معمار کی رحلت کے پچیس سال بعد مختلف طبقات اور خاص طورپر اسلامی دنیا کی ممتاز شخصیات اور نوجوان بڑے والہانہ انداز میں اور خاص دلچسپی کے ساته دینی جمہوریت، ولی امر مسلمین سے متعلق نظریئے اور اسلامی انقلاب کے دیگر مسائل سے آگاہی کے خواہشمند ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تها کہ اسلامی جمہوریہ پر دشمنوں کے ہمہ گیر اور متواتر سیاسی و تشہیراتی حملے اسلامی انقلاب کے بارے میں لوگوں کا تجسس بڑهنے کی اہم وجہ بنتے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ عالم اسلام کی رائے عامہ میں اس حکومت کی ماہیت و حقیقت سے آشنائی کا اشتیاق اور بڑه گیا ہے جو مربوط حملوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے اور عالم اسلام اس حکومت کی استقامت و کامیابی کا راز سمجهنے کا خواہاں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی بیداری اور سامراج مخالف جذبات کو اسلامی انقلاب کے سلسلے میں قوموں کے تجسس اور درست ادراک کا نتیجہ قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ سامراجی محاذ نے ایک اسٹریٹیجک غلطی کے تحت یہ تصور کر لیا ہے کہ اس نے اسلامی بیداری کی بیخ کنی کر دی ہے مگر جو شعور و ادراک اسلامی بیداری کا سرچشمہ بنا ہے وہ ختم ہونے والا نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت بہت جلد یا کچه تاخیر سے چاروں طرف پهیل جائے گی۔

رہبر معظم نے ملت ایران کی دائمی پیشرفت اور مسلسل بڑهتی قوت کو اسلامی جمہوریہ اور دینی جمہوریت کے سلسلے میں قوموں کے اندر بڑهتے تجسس کی ایک اور وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عالم اسلام کی نوجوان نسل اس اہم اور تاریخی سوال کا جواب تلاش رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پینتیس سال تک دشمنوں کی وحشیانہ سیاسی، عسکری اور تشہیراتی یلغار اور امریکا کی عدیم المثال پابندیوں کا سامنا کرنے کے باوجود کیسے اپنی جگہ ڈٹا رہا اور کسی کی خوشآمد کئے بغیر بهی کیونکر مسلسل ترقی اور استحکام کے راستے پر آگے بڑه رہا ہے؟

آپ نے اسلامی جمہوریہ کی کشش میں اضافے کے اسباب و علل کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ قومیں اور عالم اسلام کی نوجوان نسل اور ممتاز ہستیاں خلائی و فضائی شعبے میں ملت ایران کی پیشرفت کا مشاہدہ کر رہی ہیں، متعدد جدید ٹکنالوجیوں کے میدان میں دنیا کے دس پیشرفتہ ممالک میں ایران کا نام دیکه رہی ہے، دنیا کی علمی ترقی کی اوسط رفتار کی تیرہ گنا زیادہ رفتار سے ایران کی علمی ترقی کے مظاہر ان کی نگاہوں کے سامنے ہیں، انہیں بخوبی علم ہے کہ علاقائی سیاست میں ملت ایران پہلی پوزیشن پر ہے اور صیہونی حکومت کے مد مقابل بهرپور استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظلومین کا دفاع اور ظالم کی اعلانیہ مخالفت کر رہی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ یہ حقائق ہر انسان میں تجسس اور اسلامی جمہوریہ کی تفصیلی شناخت حاصل کرنے کا اشتیاق پیدا کر دیتے ہیں۔

قائد نے گزشتہ پینتیس سال کے دوران منعقد ہونے والے 32 انتخابات اور ان میں عوام کی تحسین انگیز وسیع شراکت، اسی طرح اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ کے جلوسوں اور یوم قدس کے مظاہروں میں وسیع عوامی شرکت کو بیرونی دنیا کے لئے ایران کی ایک اور جاذب نظر حقیقت قرار دیا۔

آپ نے فرمایا کہ ہم ان چیزوں کے عادی ہوگئے ہیں لہذا ان کی عظمت و شکوہ کا ہمیں احساس نہیں ہوتا لیکن یہ پرکشش حقائق عالمی مبصرین اور دیگر ممالک کے عوام کے لئے حیرت انگیز اور تجسس پیدا کرنے والے ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ یہ تمام حوصلہ افزاء اور دلنشیں حقائق اسلامی انقلاب کے عظیم معمار یعنی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی قوت بازو اور بے نظیر فکر کے ثمرات ہیں۔

آیت اللہ نے اپنے خطاب میں امام خمینی کے مکتب فکر کی مختصر مگر واضح تصویر کهینچی۔ آپ اپنے خطاب میں سب سے اہم نکتے کے طورپر اس حقیقت کو پیش کیا کہ منزل تک پہنچنا ہے تو راستے سے قدم ہٹنا نہیں چاہئے اور صحیح راستے کا سفر طے کرنے کے لئے دور رس نگاہیں رکهنے والے اور خوش فکر معمار کے منصوبے کے درست ادراک کی ضرورت ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی عقل و دانش کی بنیاد پر سیاسی و تمدنی نظام کی تعمیر کو امام خمینی کا اصلی منصوبہ اور نصب العین قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اغیار کے آلہ کار، بدعنوان اور ڈکٹیٹر شاہی نظام کے خاتمے اور اس نظام کے اثرات و خصوصیات کے ازالے کے بعد اس عظیم عمارت کی تعمیر کے مقدمات کی فراہمی کا مرحلہ تها جسے امام خمینی نے اپنی با عظمت ہمت و حوصلے اور عوام کے تعاون سے سر انجام دیا۔

اسی طرح امام خمینی کے مد نظر سیاسی و تمدنی نظام کے ستونوں اور بنیادوں کی تشریح کرتے ہوئے دو انتہائی کلیدی اور ایک دوسرے سے وابستہ نکات پر زور دیا۔

پہلا نکتہ اسلامی شریعت تهی جو اسلامی جمہوریہ کی روح کا درجہ رکهتی ہے۔

دوسرا نکتہ جمہوریت اور انتخابات کے ذریعے امور کو عوام کے سپرد کرنا تها۔

آپ نے فرمایا کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ امام خمینی نے الیکشن کو مغربی ثقافت سے اخذ کیا اور اسے اسلامی نظریئے سے ملا دیا کیونکہ اگر خود اسلامی شریعت کے متن سے الیکشن اور جمہوریت کو اخذ کرنا ممکن نہ ہوتا تو ہمیشہ واشگاف الفاظ اور دو ٹوک انداز میں اپنا موقف بیان کرنے والے ہمارے عظیم الشان امام خمینی اس بات کو ضرور بیان کر دیتے۔

قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ امام خمینی کے مکتب فکر میں اسلامی شریعت اسلامی نظام کی حقیقت و ماہیت کی حیثیت سے تمام امور، قانون سازی کے عمل، پالیسی سازی کے عمل، عہدیداروں کو منصوب یا معزول کرنے کے عمل، عمومی برتاؤ اور دیگر مسائل میں پوری طرح ملحوظ رکهی جانی چاہئے اور اس سیاسی و تمدنی نظام میں جملہ امور اسی شریعت سے ماخوذ جمہوریت کی اساس پر انجام پاتے ہیں اور عوام براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملک کے تمام عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی کے بقول اسلامی شریعت کی پابندی کے نتیجے میں چار اصلی عناصر یعنی خود مختاری، آزادی، انصاف اور روحانیت کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام کی سعادت بخش شریعت پر عمل آوری شخصی و اجتماعی آزادی فراہم کرنے کے ساته ہی سامراجی طاقتوں کے جال سے پوری قوم کی رہائی یعنی قومی خود مختاری کو بهی یقینی بناتی ہے، سماجی انصاف قائم کرتی ہے اور معاشرے کو روحانیت سے آراستہ بهی کرتی ہے

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مکتب فکر کے ایک اور نکتے کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

امام خمینی(رہ) کے مکتب فکر میں طاقت اور اسلحہ کے ذریعے حاصل ہونے والا غلبہ قابل قبول نہں ہے بلکہ وہی طاقت اور اقتدار قابل قبول اور قابل احترام ہے جو عوام کے انتخاب سے حاصل ہو اور پهر ایسے اقتدار کے مقابل کسی کو مزاحمت نہیں کرنی چاہئے ورنہ یہ مزاحمت فتنہ قرار پائے گی۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی کی جانب سے پیش کئے جانے والے سیاسی و تمدنی نظام کو عالمی سیاست میں ایک نیا باب قرار دیا اور اس جدید نظام کے ایک اور اہم عنصر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مظلوم کی مدد اور ظالم کا مقابلہ امام خمینی کے مکتب فکر کی اہم خصوصیت ہے.

قائد نے اس سلسلے میں امام خمینی کی طرف سے مظلوم فلسطینی عوام کی دائمی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ظالم کے مقابل استقامت اور ظالموں کی ہیبت کے طلسم کو توڑ دینا، امام خمینی کے مکتب فکر کے اہم اصول ہیں جن پر ایران کے عوام اور حکام کو ہمیشہ توجہ دینا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی کے سیاسی و تمدنی نظام کے عملی جامہ پہن لینے کو صرف تصورات تک محدود رہنے والے مکاتب فکر اور امام خمینی کے مکتب فکر کا بنیادی فرق قرار دیا اور یہ سوال اٹهایا کہ امام خمینی نے جو کارنامہ پوری کامیابی کے ساته انجام دیا کیا وہ آئندہ بهی جاری رہے گا؟ آپ کا کہنا تها کہ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے مگر کچه شرطوں سے مشروط ہے۔

عظیم الشان اسلامی رہبر نے فرمایا کہ امام خمینی کے خوبصورت اور پرکشش لائحہ عمل میں فطری طور پر کچه خانے خالی ہیں جنہیں پر کرنا اور اس فیصلہ کن راستے پر آگے بڑهنا ممکن ہے مگر اس کی شرط بلند ہمتی، قومی آگاہی اور اس راستے کے اہم عناصر کو ملحوظ رکها جانا ہے۔

ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کے بانی، امام خمینی کے اہداف کے تئیں ملت ایران کی وفاداری کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی رحلت کے بعد پچیس سال کے عرصے میں ایران کے عوام نے جو طرز عمل اختیار کیا اس سے ثابت ہو گیا کہ اس لائحہ عمل کے سارے خالی خانے پر ہو جائیں گے اور امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر آگے بڑهتے ہوئے ایران اذن پروردگار سے قوت و اقتدار کے اوج پر پہنچ جائے گا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تمام حاضرین اور ملت ایران کی توجہ ایک اساسی نکتے کی جانب مبذول کرواتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی کے راستے پر چلنا اور اس عظیم ہستی کے اہداف کی تکمیل کے سلسلے میں بهی وہ مشکلات اور چیلنج موجود ہیں جو ہر بڑے ہدف کی راہ میں موجود ہوتے ہیں۔ لہذا اگر ہم انہیں نہ سمجهیں اور برطرف نہ کریں تو یہ سفر دشوار یا غیر ممکن ہو جائے گا.

قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں اندرونی اور بیرونی دو قسم کے چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نوجوان، دانشور اور اہل علم و فکر حضرات کو چاہئے کہ ان چیلنجوں پر توجہ دیں اور ان کا جائزہ لیں۔ آپ نے بیرونی مسائل اور چیلنجوں کی تشریح کرتے ہوئے عالمی استکباری طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کی ریشہ دوانیوں اور رخنہ اندازی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض مغربی سیاسی نظریہ پرداز بهی کہہ چکے ہیں کہ اس رخنہ اندازی کا کوئی فائدہ نہیں ہے مگر پهر بهی امریکا اپنی اس سازش پر کام کر رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں نے دنیا کے ملکوں کی گروہ بندی کرتے ہوئے سیاسی شخصیات اور دهڑوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ وہ ممالک جو مطیع و فرمانبردار ہیں، وہ حکومتیں اور دهڑے جن سے عارضی طور پر رواداری برتی جا رہی ہے اور وہ حکومتیں اور دهڑے جو تابعداری کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تابعدار اور فرمانبردار حکومتوں اور حلقوں کے سلسلے میں امریکا کا رخ مکمل حمایت اور عالمی برادری کے درمیان ان کی قبیح حرکتوں کی توجیہ اور تائید پر مبنی ہے، البتہ اس بے دریغ حمایت کے عوض وہ اپنے مفادات کے مطابق ان حکومتوں کو نچوڑ لیتا ہے۔

قائد نے اپنے خطاب میں امریکا کی جانب سے بهرپور حمایت حاصل کرنے والی رجعت پسند اور استبدادی حکومتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکا ایسے ملکوں کو جہاں نہ کوئی الیکشن ہوتا ہے اور نہ عوام کو لب کشائی کی جرئت ہوتی ہے، آمرانہ نظام والے ملک تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق امریکا کی اس گروہ بندی میں دوسرے گروہ میں وہ ممالک ہیں جن کے ساته امریکا اپنے مشترکہ مفادات کی وجہ سے عارضی طور پر رواداری دکها رہا ہے لیکن اگر اسے ذرا سا موقعہ ملے تو ان کے سینے میں اپنا خنجر اتار دیتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اس گروہ کے ملکوں کی مثال میں یورپی ممالک کا نام لیا اور فرمایا کہ یورپ کے ساته امریکی اپنی مفاد پرستانہ رواداری کے ساته ساته یورپی شہریوں کی نجی زندگی کی جاسوسی بهی کرتے ہیں اور معذرت خواہی کے لئے بهی تیار نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یورپ نے امریکی مفادات کی حفاظت کی وجہ سے بہت بڑی اسٹریٹیجک غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس سے خود ان کے اپنے قومی مفادات کو دهچکا لگا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تها کہ امریکا کی گروہ بندی کے مطابق تیسرے گروہ میں وہ ممالک ہیں جو ہرگز کسی دباؤ میں نہیں آتے۔ آپ نے فرمایا کہ ان ملکوں کے سلسلے میں امریکا کی پالیسی یہ ہے کہ انہیں اکهاڑ پهینکنے کے لئے ہر ممکنہ ذریعے سے ان پر ضرب لگائی جائے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے واشنگٹن کو غنڈہ ٹیکس دینے سے صاف انکار کر دینے والے ممالک کے خلاف امریکا کی معاندانہ روش کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ البتہ عراق اور افغانستان پر حملوں کے نتیجے میں پہنچنے والے شدید نقصانات کی وجہ سے امریکا نے لشکرکشی کو اپنے ایجنڈے کی ترجیحات سے نکال دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نافرمانی اور استقامت کا مظاہرہ کرنے والے ان ممالک کے سلسلے میں امریکا کی ایک اور اسٹریٹیجی ان ملکوں سے تعلق رکهنے والے عناصر کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بغاوت کے وسائل فراہم کرنا اور عوام کو سڑکوں پر لانا ملکوں کے داخلی عناصر کے امریکی استعمال کی مثالیں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا کے کسی بهی ملک میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کی اس ملک کے وہ محدود لوگ مخالفت کرتے ہیں جنہوں نے اسے ووٹ نہیں دیا ہے، امریکا ایسے ہی لوگوں کی مدد لیتا ہے اور انہی مخالفین میں سے کچه رہنماؤں کے ذریعے عوام کے ایک حصے کو سڑکوں پر لے آتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس کی ایک مثال یورپ کے ایک حصے میں واضح طور پر دیکهی جا سکتی ہے، البتہ اس معاملے میں ہمارا کوئی فیصلہ نہیں کرتے، مگر سوال یہ ہے کہ مخالفین کے احتجاجی مظاہروں میں امریکی سنیٹروں کی موجودگی کا کیا مطلب ہے؟

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استقامت کا مظاہرہ کرنے والے ممالک کے خلاف استعمال ہونے والی امریکا کی ایک اور روش دہشت گرد تنظیموں کو متحرک کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عراق، افغانستان، بعض عرب ممالک اور وطن عزیز ایران سب سے زیادہ امریکا کی اس روش کی بهینٹ چڑهے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے خلاف سرگرم منافقین کی دہشت گرد تنظیم ایم کے او کیلئے امریکا کی حمایت اور امریکی حکومتی اداروں منجملہ کانگریس سے اس دہشت گرد تنظیم کے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان منافقین کو جنہوں نے ایران کے عوام، علما، دانشوروں اور سیاسی و علمی شخصیات کی بڑی تعداد کو قتل کیا ہے، امریکا کی بهرپور پشت پناہی حاصل ہے۔

قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تها کہ غنڈہ ٹیکس نہ دینے والے خود مختار ممالک کے خلاف امریکا کا ایک حربہ ان ملکوں کی قیادتوں کے اندر اختلاف اور تفرقہ ڈالنا اور عوام کے ایمان و عقیدے کی بنیادوں میں انحراف اور تزلزل پیدا کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فضل پروردگار سے ملت ایران کے مقابلے میں امریکیوں کے یہ سارے حربے ناکام ہو گئے اور ان کی ساری سازشیں منجملہ فوجی بغاوت کی کوشش، فتنہ پرور عناصر کی پشت پناہی، عوام کو سڑکوں پر لانے کا منصوبہ، اعلی حکام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش عوام کی بیداری اور جذبہ ایمانی کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔

قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کو درپیش بیرونی چیلنجوں کی تشریح کرنے کے بعد داخلی مسائل اور اندیشوں کا جائزہ لیا اور فرمایا کہ یہ خطرے اور مسائل اس وقت سامنے آئیں گے جب حکام اور عوام امام خمینی کی تحریک کی سمت و جہت اور خاص جذبے کو ترک اور فراموش کر دیں گے۔ آپ نے اسی ضمن میں دوست اور دشمن کی پہچان میں غلطی اور اصلی و معمولی دشمن کی شناخت میں غلطی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بات سب یاد رکهیں کہ گوناگوں تغیرات کے موقعے پر کبهی بهی اصلی دشمن سے نظر ہٹنے نہ پائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اصلی اور معمولی دشمنوں میں خلط ملط کرنے کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے بعض جاہل و نادان تکفیری سلفی گروہوں کی جانب سے شیعوں کے خلاف انجام دیئے جانے والے مذموم اقدامات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ بات سب ذہن نشین کر لیں کہ اصلی دشمن اغیار کی انٹیلیجنس ایجنسیاں اور وہ لوگ ہیں جو ان گروہوں کو اکساتے اور مالیاتی و اسلحہ جاتی مدد فراہم کرتے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بیشک جو بهی اسلامی جمہوریہ پر ضرب لگانے کا تصور بهی کرے گا اسے ملت ایران کے فولادی گهونسے کا سامنا کرنا پڑےگا، لیکن اس کے ساته ہی ہمارا یہ نظریہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے گتهم گتها کر دینے والے دشمن جن کی حرکتیں اب کچه زیادہ پوشیدہ بهی نہیں رہی ہیں، ہمارے اصلی دشمن ہیں، یہ فریب خوردہ گروہ نہیں۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قومی یکجہتی میں پیدا ہونے والی خلیج، تساہلی، جوش و جذبے کی کمی، کوتاہی، مایوسی اور قنوطیت نیز خود کو بے بس اور ناتواں سمجهنے کے غلط تصور کو بهی اسلامی نظام کے داخلی مسائل اور چیلنج قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے فرمایا، ‘ہم توانائی رکهتے ہیں’ کے تصور، قومی عزم اور مجاہدانہ مینیجمنٹ کی مدد سے تمام گرہیں کهل جائیں گی اور ساری مشکلات حل ہو جائیں گی۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ بزرگوار امام خمینی کا مبارک نام اور اس عظیم معمار کا منصوبہ فضل پروردگار سے ہر مرحلے میں ملت ایران کا مددگار ثابت ہوگا اور امید و نشاط کا جذبہ بیدار کرکے وطن عزیز ایران کے تابناک مستقبل کو یقینی بنائےگا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رہبر عظیم الشان آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب سے قبل آستانہ مقدس امام خمینی(رہ) کے متولی، یادگار امام(رح) حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے اسلامی جمہوریہ کے بانی کے زائرین اور عشاق کو خیر مقدم کہا اور محرومیت دور کرنے، مستضفین کی مدد اور فقر و غربت کے خاتمے کو امام خمینی کے اصلی اہداف قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ قائد انقلاب اسلامی نے بهی ہمیشہ ان اساسی اہداف پر خاص تاکید کی ہے جو سب کے لئے ایک اہم سبق ہے۔

حجت الاسلام و المسلمین حسن خمینی نے کہا کہ اقتصادی مشکلات کے ازالے کے لئے تدبر اور دانشمندانہ روش اختیار کرنے، عدلیہ، مقننہ اور حکومت کے باہمی تعاون اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ معیشت کو محرومیت دور کرنے کی ثقافت سے جوڑ دینا چاہئے۔

تبصرے
Loading...