امام خمینی(رہ) حج اور فریاد برائت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آغـاز سخن
    بجا طورپر منشائے ایزدی سے اس کا نام ” روح اﷲ ” رکها گیا۔ وہ اسلام کے نیم مردہ جسم میں روح بن کر دوڑ گیا۔ اس نے واقعاً احیائے اسلام کا کام یوں کیا کہ ہر سننے،  دیکهنے اور محسوس کرنے والے کی سماعت، بصارت اور احساس نے اس کی گواہی دی۔
    اسلام کے احکام میں فقہا کی بصارت تو ضرور کچه نہ کچه باقی تهی لیکن اس کے پیچهے ان کے مقاصد کی بصیرت بہت حد تک عنقا تهی۔ جہاد، صبر، ایثار اور شہادت جیسے الفاظ تو باقی تهے لیکن ان کے اندر جیسے دل کو دهڑکانے والی تاثیر نہیں رہ گئی تهی۔ ایسے میں ”روح اﷲ” نے قیام کیا۔ معلمین احکام کو بصارت کے ساته بصیرت عطا کی اور مفاہیم انسانی واسلامی کے مبلغین کو دهڑکن عطا کر کے پهر سے زندہ کردیا۔ (ہاں! یہ حیات تازہ عطا کرنے والے امام خمینی ہیں)۔

    انہی احکام اور مفاہیم میں سے ”حج” بهی ہے۔ انہوں نے دیکها کہ بے کیف سے ارادے ہیں، بے دم سے سفر ہیں، بے جان سا طواف ہے، بے ہدف سے اجتماع ہیں اور شیطان کیلئے بے ضرر سی کنکریاں ہیں۔ تو وہ تڑپ اٹهے، بے قرار ہوگئے، ان کی زبان گویا ہوئی اور توانا قلم حرکت میں آگیا۔ انہوں نے اس الٰہی حکم کے مقاصد بیان کرنا شروع کئے۔ انہوں نے حج کو عظیم اسلامی کانفرنس قرار دیا۔ انہوں نے اس کی بے مقصدیت کو ختم کر کے اسے با مقصد بنانے کی دعوت دی، اس کا طریقہ بهی بتایا اور ماننے والوں کو اقدام کا حکم بهی دیا۔

یہاں ہم آپ قارئین کرام کو امام خمینی(رہ) کے چند اقوال کی طرف لے چلتے ہیں:

مشرقی ممالک اور اسلامی ممالک جب تک اسلام کو پا نہیں لیتے باعزت زندگی نہیں گزار سکتے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کی جستجو کریں۔ اسلام ان سے دور ہوگیا ہے۔ ہم آج نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے؟ مغرب والوں اور ان ظالموں نے ہمارے ذہن غلط افکار سے اس قدر بهردئیے ہیں کہ ہم نے اسلام کو گنوا دیا ہے۔ جب تک اسلام کو نہیں پالیتے، اصلاح ناممکن ہے۔ اس مرکز، یعنی کعبہ معظمہ کہ جہاں ہر سال مسلمان جمع ہوتے ہیں، سے لے کر اسلامی ممالک کے آخر تک اسلام کا نام ونشان نہیں ملتا۔ وہ نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے! یہی وجہ ہے کہ مسلمان مکہ معظمہ میں کہ جو ایسا مقام ہے کہ جسے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کے روحانی اجتماع کیلئے مرکز قرار دیا ہے۔ جمع تو ہوتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ وہ کیا کررہے ہیں! وہ اس سے اسلامی فائدہ نہیں اٹهاتے۔ اس سیاسی مرکز کو ایسے امور میں تبدیل کردیا ہے کہ جن کے سبب مسلمانوں کے تمام مسائل غفلت کا شکار ہوگئے ہیں۔
    اسلام کو تلاش کرنا چاہیے۔ مسلمان اگر حقیقت حج کو درک کرلیں، اسلام کی طرف سے حج میں جو سیاست اختیار کی گئی ہے، صرف اسی کو درک کرلیں تو حصول استقلال کیلئے کافی ہے۔ لیکن افسوس ہم نے اسلام کو کهودیا ہے۔ وہ اسلام جو ہمارے پاس ہے اسے سیاست سے بالکل جدا کردیا گیا ہے۔ اس کا سر کاٹ دیاگ یا ہے۔ وہ چیز کہ جو مقصود اصلی تهی اس سے کاٹ کر جدا کردی گئی ہے اور بچا کهچا اسلام ہمیں تهما دیا گیا ہے۔ ہم سب کو یہ دن دیکهنا پڑ رہے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ راز اسلام کیا ہے؟ ہم سب مسلمان جب تک اسلام کو درک نہیں کرلیتے، اپنی عظمت اور وقار حاصل نہیں کرسکتے۔

    عظمت اسلام، آغاز اسلام میں تهی کہ جب ایک چهوٹی سی جماعت نے دو سپر طاقتوں کو ختم کردیا تها۔ وہ عظمت اسلام، کشور کشائی کی وجہ سے نہیں تهی، بلکہ تعمیر انسانیت کی وجہ سے تهی۔ یہ خیال اشتباہ ہے کہ اسلام کشور کشائی کیلئے ہے۔ اسلام کشور کشائی نہیں کرتا، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمام ممالک کے لوگ انسان بن جائیں۔ اسلام خواہشمند ہے کہ جو انسان نہیں وہ انسان بن جائیں۔ ایک جنگ میں کچه لوگوں کو قیدی بنایا گیا، تاریخ میں لکها ہے کہ انہیں (مسلمانوں نے) بانده رکها تها، انہیں رسول اﷲ(ص) کے سامنے لایا گیا۔ آپ(ص) نے فرمایا: ”دیکهو مجهے چاہیے کہ میں ان لوگوں کو زنجیروں کے ساته جنت میں لے جاؤں”۔ اسلام معاشرے کی اصلاح کیلئے آیا ہے۔ اگر اس نے تلوار استعمال کی ہے تو وہ صرف اس لیے کہ جو لوگ فاسد ہیں اور انہیں چاہیے کہ معاشروں کی اصلاح ہو، انہیں ختم کیا جائے تا کہ دوسروں کی اصلاح ہوجائے۔
(صحیفہ امام، ج ١٠، ص٤٤٨ )

اب صرف عام لوگ ہی حج بیت اﷲ سے مشرف ہوتے ہیں، حکومتوں کے ذمہ دار افراد اور بزرگان قوم کہ جو موثر شخصیات ہیں اور وہاں پر جمع ہو کر اسلام ومسلمین کے سیاسی واجتماعی مسائل کا جائزہ لے سکتے ہیں، افسوس کہ وہ اس بات سے غافل ہیں۔ وہاں پر مشکلات کا جائزہ لینے کے بجائے کے بجائے اس میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو طاق نسیان کردیا ہے۔ وہ دوسروں کے زیر پرچم چلے گئے ہیں۔ ہم مسلمان اگر قرآن کریم کی صرف اس ایک آیت (وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعاً وَلاٰ تَفَرَّقُـوا) پر عمل پیرا ہو تو تمام سیاسی، اجتماعی، اقتصادی اور دیگر مشکلات، کسی غیر کی مدد کے بغیر، رفع ہوسکتی ہیں۔
(صحیفہ امام، ج ١٣، ص ٢٧٤)

    ایام حج کی آمد ہے۔ یہ عظیم عبادی، سیاسی اور اجتماعی فریضہ بڑی عبادات میں اہم خصوصیات کا حامل ہے اور خداوند تبارک وتعالیٰ نے دنیا کے مسلمانوں کو خاص شرائط کے ساته اس کی دعوت دی ہے تاکہ اس عظیم فریضے کو بجالاتے ہوئے ان امور سے کہ جو مسلم ممالک میں اجتماعی اور سیاسی حوالوں سے رونما ہوتے ہیں، با خبر ہوں۔ مشکلات کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کریں اور حتی الامکان انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔
    افسوس! اکثر مسلمانوں نے غلط پالیسیوں، بعض عناصر کی غلط فہمیوں، بعض مفادپرست ایجنٹوں کی چالبازیوں کی بنا پر اس عبادت کا سیاسی پہلو فراموش کردیا۔ (صحیفہ امام، ج ١٦، ص ٥١٥)

    ملت ایران (خدا اسے عزت دے) نے بہانوں کے تمام راستے بند کردئیے ہیں اور ثابت کر دکهایا ہے کہ بڑی طاقتوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اپنے انسانی حقوق کو واپس لیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حق تعالیٰ کی قدرت لایزال پر بهروسہ کریں کہ جس نے حمایت حق کی شرط پر نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ خوف کو اپنی راہ میں حائل نہ ہونے دیں، کیونکہ فرمان الٰہی ہے (اِنْ تَنْصُروا اﷲَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أقْدامَکُمْ) اسلامی اہداف کو حقیقی شکل دینے کیلئے ہمت کریں۔ اس کا مقدمہ یہ ہے کہ منحرف اہل اقتدار اور اسلام دشمنوں کے اسلامی ممالک پر تسلّط کا خاتمہ کریں۔ داخلی وخارجی رکاوٹوں کو دور کریں۔ ان پارٹیوں، حکومتوں، گروہوں اور اشخاص کا مقابلہ کریں جو اسلامی تحریکوں کے مخالف ہیں۔ اﷲ کا شکر ہے کہ اسلامی تحریکیں رشد وکمال کی طرف گامزن ہیں۔ ساری اسلامی تحریکوں کو چاہیے کہ ان کا مقابلہ کریں اور اسے اپنے پروگراموں کا سرنامہ قرار دیں۔ اطمینان رکهیں کہ خداوند تعالیٰ کے سچے وعدے کے ساته پیشرفت اور پیش قدمی کی توفیق حاصل ہوگی اور مظلوم، ظالموں سے نجات پالیںگے۔

 (صحیفہ امام، ج ١٩، ص ٢١)

    حج کے مبارک فریضے کی آمد آمد ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اس کے عرفانی، روحانی، اجتماعی، سیاسی اور ثقافتی پہلوؤں پر غور کریں تاکہ یہ بات دیگر موثر اقدامات کیلئے راہ کهولنے کا باعث بنے۔ ان موضوعات پر بہت سے فرض شناس دوستوں نے مطالب بیان کیے ہیں۔ میں بهی بعض پہلوؤں کی طرف صرف اشارہ کرتا ہوں شاید اس کی وجہ سے اس طرف کچه توجہ ہو۔
    ان پر اسرار اعمال میں اول احرام اور (لَـبِّیکَ اللّٰہُمَّ لَبِّیک) سے لے کر آخر مناسک تک عرفانی اور روحانی اشارے موجود ہیں کہ جن کی تفصیل اس گفتگو میں ممکن نہیں ہے، صرف تلبیہ کی طرف کچه اشارہ کرتا ہوں:
    لبیک لبیک کی تکرار ان افراد کی طرف سے حقیقت رکهتی ہے جنہوں نے حق کی آواز کو گوش جاں سے سنا ہے اور جو اﷲ تعالیٰ کی پکار کا جواب اسم جامع کے ساته دیتے ہیں۔ مسئلہ خدا کی بارگاہ میں حاضری اور محبوب کے جمال کے مشاہدہ کا ہے۔ گویا کہنے والا اپنے آپ سے بے خود ہو کر باربار اس کی پکار کا جواب دیتا ہے اور اس کے ساته ساته نہ صرف الوہیت میں شریک کی نفی کرتا ہے، بلکہ ہر قسم کے شریک کی مطلقاً نفی کرتا ہے۔

    لبیک لبیک کی تکرار ان افراد کی طرف سے حقیقت رکهتی ہے جنہوں نے حق کی آواز کو گوش جاں سے سنا ہے اور جو اﷲ تعالیٰ کی پکار کا جواب اسم جامع کے ساته دیتے ہیں۔ مسئلہ خدا کی بارگاہ میں حاضری اور محبوب کے جمال کے مشاہدہ کا ہے۔ گویا کہنے والا اپنے آپ سے بے خود ہو کر باربار اس کی پکار کا جواب دیتا ہے اور اس کے ساته ساته نہ صرف الوہیت میں شریک کی نفی کرتا ہے، بلکہ ہر قسم کے شریک کی مطلقاً نفی کرتا ہے۔ اس راز کو صرف اہل اﷲ ہی جانتے ہیں۔ اہل معرفت کی نظر میں اس میں شریک کی نفی کرنے سے دیگر مراتب کی بهی نفی ہوتی ہے، اس میں تمام مراتب پوشیدہ ہیں۔ ( إنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ) کہنے والا، حمد ونعمت کو ذات مقدس کے ساته مختص قرار دیتا ہے۔ اہل معرفت کی نظر میں توحید کی غرض وغایت یہ ہے کہ ہر قسم کے شریک کی نفی کی جائے۔ ہر حمد ونعمت جو اس جہان ہستی میں تحقق پاتی ہے وہ فقط خدا ہی کی ہے۔ یہ مفہوم اور مقصد اعلیٰ ہر موقف، مشعر، اور وقوف میں ہر حرکت وسکون اور عمل میں جاری ہوتا ہے۔ اس کے برعکس شرک کا ایک اور مفہوم ہے جو عام ہے، جس میں ہم دلوں کے اندهے سب مبتلا ہیں۔
(صحیفہ امام، ج ١٩، ص ٢٢)

ہم حضرت باری تعالیٰ کے الطاف عالیہ اور حضرت بقیۃ اﷲ امام زمان – کی دعاؤں کے بہت نیازمند ہیں۔
    خداوند تعالیٰ کی دعوت جو ابو الانبیاء حضرت ابراہیم – اور حضرت محمد مصطفی خاتم الرسل(ص) کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے کو قبول کرتے ہوئے ملت عظیم الشان ایران اور بیت اﷲ الحرام کے زائرین، ایک ایسے موقع پر وعدہ گاہ الٰہی کی طرف لبیک کہتے ہوئے وقار کے ساته۔ اس مقدس مقام پر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو رہے ہیں، اگرچہ ہر جگہ محضر خدا ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے۔ اسلام عظیم کا خورشید تابان دنیا کے شرق وغرب میں اپنا نور بکهیر رہا ہے۔ محمدی(ص) اور ابراہیمی(ع) پکار، دنیا کے گوشہ وکنار میں پهیل رہی ہے اور مسلمانوں عالم کے دل وجاں کو روح بخش رہی ہے۔ مسلمانوں کے تمام فرقوں اور گروہوں، دنیا کے مظلوموں اور محروموں کی صدائے وحدت نے پوری دنیا کو ہلا کے رکه دیا ہے۔
    ستمگروں اور عالمی لٹیروں کی آرزؤں کے محل منہدم ہو کر گرنے ہی والے ہیں۔ گویا حکومت مستضعفین کا وعدہئ الٰہی قریب الوقوع ہے۔ بیت اﷲ الحرام کے زائرین، عاشقان لقاء اﷲ اپنی خودی اور اپنے گهروں سے خداوند تعالیٰ اور اس کے رسول گرامی ؐ کی طرف ہجرت کرتے ہیں کہ جب کعبہ معظمہ حق وعدالت کے عاشق مسلمانوں اور دنیا کے بازی گر لٹیروں اور ظالموں کے خلاف ان کے باطل شکن نعروں کا استقبال کرنے کیلئے اپنا دامن پهیلائے ہوئے ہے۔ میزبانی کیلئے ان کا منتظر ہے۔ بیت اﷲ الحرام اور کعبہ معظمہ ان پیارے زائرین کو اپنے دامن میں لے رہا ہے کہ جنہوں نے حج کو سیاسی تنزل اور سیاسی انحراف سے نکال کر

    ستمگروں اور عالمی لٹیروں کی آرزؤں کے محل منہدم ہو کر گرنے ہی والے ہیں۔ گویا حکومت مستضعفین کا وعدہئ الٰہی قریب الوقوع ہے۔ بیت اﷲ الحرام کے زائرین، عاشقان لقاء اﷲ اپنی خودی اور اپنے گهروں سے خداوند تعالیٰ اور اس کے رسول گرامی(ص) کی طرف ہجرت کرتے ہیں کہ جب کعبہ معظمہ حق وعدالت کے عاشق مسلمانوں اور دنیا کے بازی گر لٹیروں اور ظالموں کے خلاف ان کے باطل شکن نعروں کا استقبال کرنے کیلئے اپنا دامن پهیلائے ہوئے ہے۔ میزبانی کیلئے ان کا منتظر ہے۔ بیت اﷲ الحرام اور کعبہ معظمہ ان پیارے زائرین کو اپنے دامن میں لے رہا ہے کہ جنہوں نے حج کو سیاسی تنزل اور سیاسی انحراف سے نکال کر اس کا رخ ابراہیمی(ع) ومحمدی(ص) حج کی طرف موڑ دیا ہے اور اسے نئی زندگی دی ہے۔ یہ زائرین شرق وغرب کے بتوں کو توڑتے ہیں۔ (قِیاماً لِلنّٰاس) کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مشرکین سے برائت کا حقیقی مفہوم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں (لاٰ شَرْقِیَّہ وَلاٰ غَرْبِیَّہ) کے وطن سے آنے والے زائرین کے جوش وخروش سے میقات کا دل مسرور ہے۔ خدا نے انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف جو دعوت دی ہے وہ اس دعوت کا جواب اپنی لبیک لبیک کے ساته دینے کیلئے یہاں آئے ہیں۔ شرق وغرب کے افکار اور قوم پرستی وفرقہ واریت جیسے انحرافی نظریات کو ٹهو کر مارتے ہوئے تمام قوموں کے ساته رشتہ وحدت استوار کرنے آئے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق کسی بهی رنگ، قومیت، علاقے یا جغرافیے سے ہو وہ آپ میں بهائی بهائی اور ایک دوسرے کے غمخوار ہیں۔ یک مشت ہو کر انسانیت کے دشمنوں، عالمی لٹیروں اور ظالموں پر ٹوٹ پڑنا ان کا مقصود ہے۔
    جمرات ان فداکاروں کا انتظار کرتی ہے جو ایسے وطن سے آتے ہیں کہ جس کی بہادر قوم نے بڑے چهوٹے اور درمیانی شیطانوں کو جرأت کے ساته اپنے وطن سے بهگا دیا ہے۔ ملکی ذخائر پر پڑنے والے ان کے ناپاک ہاته کاٹ دیئے اور اس مقدس مقام پر بهی سنگریزں اور باطل شکن نعروں کے ساته گروہ شیاطین کو ( أُمَّ الْقُریٰ وَمَنْ حَولَہـٰا ) یعنی دنیا سے پتهر مارمار کر بهگانے کیلئے آئے ہیں۔
    عرفات، مشعر اور منیٰ ان افراد کے مہماندار ہیں کہ جن کی مسلمان قوم نے عرفان اور سیاسی شعور کے ساته قیام کیا تاکہ اسلام کی آرزوؤں کو اپنے وطن اور دیگر تحت ستم مظلوم ممالک میں تحقق بخشیں اور جعلی سیاست بازوں کو رسوا وذلیل کریں کہ جو دهوکے اور فراڈ کے ساته دنیا کے مظلوموں پر مسلّط ہیں اور ان کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ 

(صحیفہ امام، ج ١٩، ص ٣٣٣)

    حج میں برائت کرنا ہر حال میں مبارزہ کیلئے تجدید میثاق اور مجاہدین کا جمع ہو کر کفر وشرک اور بت پرستی کے خلاف جنگ کو جاری رکهنے کی تمرین کرنا ہے اور یہ بات نعروں تک محدود نہیں ہے جو مبارزہ کا آئین عام ہے اور خداوند کی فوج کو ابلیس کی فوج اور ابلیس صفت افراد کے مقابلے میں منظم کرنے کا نقطہ آغاز ہے۔ اس کا شمار توحید کے اصول اولیہ سے ہوتا ہے۔ اگر خانہ خدا ”خانہ ناس” میں مسلمان، دشمنان خدا سے برائت کا اظہار نہیں کریں گے تو کہاں کریںگے اور اگر حرم، کعبہ ومحراب، خدا کے سپاہیوں اور حرم وحرمت انبیاء کا دفاع کرنے والوں کا مورچہ اور ان کی پشت پناہ نہیں ہے تو ان کی جائے امن وپناہ گاہ کہاں ہے؟

(صحیفہ امام، ج ٢٠، ص ٣١٦)

آج ہمارا مشرکین وکافرین سے برائت کا اعلان کرنا، ستمگروں کے ستم کے خلاف فریاد کرنا ایک ایسی امت کی فریاد ہے جس کی جان مغرب ومشرق خصوصاً امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کی جارحیت سے خطرے میں ہے۔ اس قوم کا گهر، وطن اور سرمایہ غارت ہوگیا ہے۔ ہماری فریاد برائت، افغانستان کے ستم دیدہ مظلوم عوام کی فریاد ہے۔ مجهے افسوس ہے کہ افغانستان کے بارے میں روس نے میری نصیحت اور تنبیہہ پر عمل نہیں کیا اور اس نے اسلامی ملک پر حملہ کردیا۔ بارہا کہہ چکا ہوں اور اب بهی متوجہ کرتا ہوں کہ افغانستان کے عوام کو اس کے اپنے حال پر چهوڑ دیں۔ افغانستان کے عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں اور اپنے حقیقی استقلال کی حفاظت کریں۔ انہیں کریملین یا امریکہ کی سرپرستی کی ضرورت نہیں۔ یقینا وہ اپنے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد کسی اور تسلّط کو قبول نہیں کریںگے، نیز امریکہ اگر ان کے ملک میں جارحیت یا مداخلت کرنا چاہتا ہو تو اس کے پاؤں توڑ دیںگے۔
    ہماری فریاد برائت افریقہ کے مسلمان عوام کی فریاد ہے۔ ہمارے ان دینی بہن بهائیوں کی آواز ہے جو سیاہ ہونے کے جرم میں بے ثقافت سیہ روز نسل پرستوں کے ستم جهیل رہے ہیں۔
    ہماری فریاد برائت لبنان، فلسطین، تمام اقوام وملل کی فریاد برائت ہے کہ جن کی طرف مشرق ومغرب کی قوتوں خصوصاً امریکہ اور اسرائیل نے چشم طمع لگا رکهی ہے۔ ان کا سرمایہ غارت کر کے لے گئے ہیں۔ ان پر اپنے نوکروں اور ایجنٹوں کو مسلّط کررکها ہے۔ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے ان کی سرزمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ان کے ملک کی بحری وبری حدود پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔
    ہماری فریاد برائت ان تمام لوگوں کی فریاد برائت ہے جو اب امریکہ کی فرعونیت اور اس کے تسلّط پسندانہ عزائم کو تحمل کرنے کی تاب نہیں رکهتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ نفرت وخشم کی آواز ہمیشہ کیلئے ان کے گلے میں دبی رہے، بلکہ انہوں نے ارادہ کررکها ہے کہ آزادی کے ساته زندگی گزاریںگے، آزاد مریںگے اور کئی نسلوں کیلئے آواز اٹهائیں گے۔

(صحیفہ امام، ج ٢٠، ص ٣١٨)

خدا تعالیٰ پر توکل کریں، مسلمانوں کی روحانی طاقت سے استفادہ کریں اور تقویٰ، جہاد، صبر اور استقامت کے اسلحے سے دشمنوں پر حملہ کریں کہ (إنْ تَنْصُرُوا اﷲَ یِنْصُرْکُم وَیُثَبِّتْ أَقْدامَکُم)۔ 

(صحیفہ امام، ج ٢٠، ص ٣١٨)

تبصرے
Loading...