امام خمینی(ره) کی حکمت عملی

امام خمینی(ره)  نے ملک کے اندر لوگوں  کے ساتھ خندہ پیشانی اور بیرون ملک طاقتوں  کے ساتھ سختی کی پالیسی اختیار کی اور آخر عمر تک امام (ره)  اسی حکمت عملی پر کاربند رہے۔  وہ عوام کو کرہ ارض پر خدا کی جانشین اور خداوند عالم کے خاندان کے افراد سمجھتے تھے۔ امام (ره) کا عقیدہ تھا کہ عوام نیک پاک پاکیزہ اور جاں  نثار اور ہر قسم کے مثبت عمل کے لئے تیار ہوتے ہیں ، اسی بنا پر انہوں  نے ان کی تربیت کی اور انہیں  خلوص کی اعلیٰ منزلوں  سے ہمکنار کریا یہاں  تک کہ وہ پیغمبر اکرم(ص)  اور ائمہ طاہرین (ع) کے قریبی اصحاب کے نقش قدم پر چلنے لگے اور تاریخ اسلام کے بعض ماہرین ہمارے دور کے لوگوں  کو صدر اسلام کے عوام پر ترجیح دیتے ہیں ۔

امام خمینی(ره)  اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی فکر کے حامی ، محروم و مستضعف لوگ ہیں  اور ملک کے اندر انقلاب کے اصل اڈے امت مسلمہ کے افراد کے درمیان ہیں ۔  وہ پیغمبر اکرم (ص)کے اصل پیروکاروں  کو جانتے تھے جو عوام اور مستضعفین ہیں ۔ امام خمینی(ره)  کے سامنے انقلاب مشروطہ (آئینی تحریک)  کا تلخ تجربہ تھا ، اسی لئے امام (ره) کو علم تھا کہ جب تک علمائے اسلام میدان میں  حاضر ہیں  عوام بھی بھی میدان میں  رہیں  گے اوراگر علما کنارہ کشی اختیار کر لیں  تو عوام بھی گوشہ نشین ہوجائیں  گے۔  ان نکات کے علاوہ عوام پر حقیقی اعتماد کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت امام خمینی(ره)  کا طرز حکومت ملک کے اندر عوام کے ساتھ خندہ پیشانی کی بنیادوں  پر قائم تھا۔  امام خمینی(ره)  عوام کے لئے ایک خاص مقام و مرتبے کے قائل تھے اور حکومت کے تمام امور میں  ان کی رائے کا احترام کرتے تھے۔  وہ فرماتے تھے کہ : ’’ملک میں  انتخابات کا معیار عوام کی رائے ہے‘‘۔

امام خمینی(ره)  کی خندہ پیشانی کی پالیسی ایرانی عوام تک محدود نہیں  ہے بلکہ اسلامی ممالک کے عوام حتی کہ دنیاکے تمام مستضعفین پر اس کا احاطہ ہوتا ہے۔  یہ پالیسی قوم پرستوں  کے محدود نظریات کو رد کرتے ہوئے قوم اور قومیت سے بالاتر ہوکر دنیا کے تمام مظلوموں  پر اطلاق ہوتی ہے۔  عوام کے ساتھ خندہ پیشانی کا رویہ اختیار کرنے کی پالیسی کے بالمقابل امام خمینی(ره)  بیرونی ملک کی تسلط پسند اور استعماری طاقتوں  سے مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے جبکہ جن کو امام (ره)  آمروں  کے حامی سمجھتے تھے ان کو مسلسل مقابلہ یا سر تسلیم خم کرنے کی دعوت دیتے تھے۔

امام خمینی (ره)  شاہ ایران کے برعکس ، امریکہ کو امت مسلمہ کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہوئے اس سپر طاقت کو ایران اور عالم اسلام کے عوام اور تمام مستضعفین عالم کی بدبختی کا سبب سمجھتے تھے، اسی لئے وہ کہتے تھے کہ امریکہ کے ساتھ مقابلہ دنیا کے تمام مسلمانوں  پر فرض ہے۔

شاہ اور امام خمینی(ره)  کے طرزہائے حکومت کو دونوں  کے مخاطبین نے بھی بخوبی درک کیا اور مناسب عکس العمل کا اظہار کیا،  اسی لئے دنیا کی تمام تسلط پسند قوتیں  شاہ کی حامی بن گئیں  اور امریکہ اور اسرائیل اس کے قریبی دوستوں  میں  شمار ہونے لگے جبکہ پوری ایرانی قوم،  دنیا کے مسلمان اور مستضعفین ان کے سامنے صف آرا ہوگئے۔  دوسری طرف امریکہ،  اسرائیل اور تمام تسلط پسند قوتوں  نے امام خمینی(ره)  کے سخت دشمن بن کر آپ (ره) اور آپ کے نظرئیے کو نقصان پہنچانے کو اپنے دستور العمل میں  شامل کر لیا جبکہ ایرانی عوام اور دنیا کے مستضعفین اور مسلمانا ن عالم آپ(ره)  کے حامی بلکہ جان نثار بن گئے۔  امام خمینی(ره)  نے اس طرز حکومت کو اپنا کر دنیا میں  ایک نیا محاذ قائم کیا اور حکومتوں  کے لئے ثابت کر دکھایا کہ یا تو انہیں  عوامی حکومتیں  ہونی چائیں  یا اغیار سے وابستہ، بصورت دیگر تیسرا طرز حکومت موجود ہی نہیں  ہے۔

امام خمینی(ره)  کی عوام کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنے والی پالیسی کی بنیاد ان کی عوامی سوچ اور عوام کے ساتھ اسلام کے روئیے پر استوار ہے، اسلامی نظرئیے میں  اصل بنیاد عوام اور ان کی ہدایت اور راہنمائی ہے اور اس کی اتنی اہمیت ہے کہ خداوند عالم نے بہت سے پیغمبروں  کو لوگوں  کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔ اسی نظرئیے کے تحت نبوت اور امامت جو اسلام خاص کر شیعہ عقائد کے اصول میں  شامل ہیں ، صرف اور صرف عوام کی رہبری اور ہدایت کے لئے متعین کی گئی ہیں  تاکہ وہ دونوں  جہاں  میں  سعادت و فلاح اور نجات پاسکیں ۔ 

امام خمینی(ره)  ایک ممتاز مسلمان عالم دین تھے اسی لئے یہ فطری بات ہے کہ انہوں  نے دین مقدس اسلام میں  عوام کو حاصل اہمیت کے پیش نظر ان کو اسی زاوئیے سے دیکھا اور اپنی پوری زندگی ان لوگوں  کی آزادی کے لئے وقف کردی جو صدیوں  تک ظلم و ستم کی چکی میں  پستے رہے تھے۔

امام خمینی(ره)  کو ایران اور دنیا کے مسلمانوں  کی نیک نیتی اور خلوص پر یقین تھا اور ان کو پاک انسانی فطرے کے حامل سمجھتے تھے اور اپنی گہری اسلامی بصیرت کی وجہ سے ان کا عقیدہ تھا کہ اس پاک وپاکیزہ فطرت کے ذریعے سخت ترین عمل کی انجام دہی ممکن ہے اور اس کے ذریعے عوام کو صحیح راستے پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔  اسی نقطہ نگاہ کے تحت امام  خمینی(ره)  نے عوام پر اعتماد کرتے ہوئے عصر حاضر کے سب سے بڑے انقلاب کو پروان چڑھایا۔

شہید آیت اللہ مطہری پیرس سے واپسی کے وقت کا ایک واقعہ بیان کرتے تھے جو بہت اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ پیرس میں  امام خمینی(ره)  کو مشورہ دیتے تھے کہ عوام تھک گئے ہیں  لہذا تحریک کی رفتار کو سست کرنا چاہئے یا تو شاہی کونسل اور بختیار سے مذاکرات قبول کرنے چاہئیں ۔ ان لوگوں  کے جواب میں  امام (ره) نے فرمایا: ’’مجھے اس تحریک میں  خدا کا ہاتھ نظر آرہا ہے اور میں  مطمئن ہوں  کہ ہم کامیاب ہوجائیں  گے، لیکن اس کے وقت کا مجھے علم نہیں  ہے۔ اب بار بار یہ نہ کہیں  کہ عوام تھک گئے ہیں ۔ آپ لوگ عوام کو نہیں  جانتے ہیں  ، یہ آخر تک ہمارا ساتھ دیتے رہیں  گے ۔ ایران میں  جب بھی ہم علما میدان میں  اترے ہیں ، عوام بھی آمادہ رہے ہیں  اور جب بھی ہم پسپا ہوئے ہیں ، وہ بھی ہمارے ساتھ پیچھے ہٹے ہیں ، لہذا ابھی تک ایران میں  کوئی کام نہیں  ہوا قصوروار ہم علماء ہیں ‘‘۔

شہید مطہری (ره)  آگے چل کر کہتے تھے:  ’’میں  نے دنیا کے تمام بڑے رہنماؤں  کے سوانح حیات کا غور سے مطالعہ کیا ہے ، چاہے وہ مذہبی رہنما ہوں  یا غیر مذہبی اور مذہب مخالف لیڈر لیکن ان میں  سے کسی کو بھی امام خمینی(ره)  کی حد تک عوام پر بھروسہکرنے والا نہیں  پایا‘‘۔ 

 

تبصرے
Loading...