امام خمینی(رح) کا قائدانہ کردار اور انقلاب اسلامی کے دشوار مراحل

روح اللہ الموسوی الخمینی یکم فروری 1979 کو  چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔

حضرت امام خمینی رحمت اللہ نہایت باریک بینی کے ساتھ معاشرے اور حوزہ علمیہ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کے بارے میں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ آپ یہ سمجھ گئے تھے آئينی انقلاب اور خاص طورپر رضا خان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد کی ذلت آمیز صورتحال سے نجات کا واحد راستہ حوزہ علمیہ کی بیداری اور علما کے ساتھ عوام کا معنوی رابطہ ہے۔

8 اکتوبر 1962ء کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کےلئے امیدوار کا مسلمان ہونے اور قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے کی شرط ختم کردی گئی۔ ان دو شرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی مسلک عناصر کو ملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کےلئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران، اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور بہائيت کے پیروکاروں کی موجودگی، اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کو یقینی بنا سکتی تھی۔

حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے قم اور تہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اور اس حساس صورتحال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں امام نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔

1 اپریل 1963ء کو اپنے ایک خطاب میں علما قم اور نجف اشرف اور دیگر اسلامی ملکوں کے علما کی طرف سے شاہ کے ظالمانہ اقدامات پر اختیار کی گئی خاموشی پر کڑی تنقید کی اور فرمایا:

” آج خاموشی کا مطلب ظالم و جابر حکومت کا ساتھ دینا ہے”۔

امام خمینی کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریئے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرنا چاہئے۔ چنانچہ لوگ بھی آپ کے فرمان پر ہمہ وقت اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔

حضرت امام خمینی نے 12 اردی بہشت 1342 کو شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کےلئے علما اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اور اسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی۔

محرم کے مہینے سے مصادف تھا؛ امام خمینی نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوام کی تحریک میں تبدیل کردیا۔ آپ نے عاشور کی شام، مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد کی تحریک کا نقطہ آغاز ثابت ہوا اور فرمایا:

” میں تجھے [شاہ ایران] نصیحت کرتا ہوں کہ اس طرح کے کاموں سے باز آ جا! تجھے بیوقوف بنایا جا رہا ہے! میں نہیں چاہتا کہ ایک دن سب لوگ تیرے جانے پر شکر ادا کريں … سن لے میری نصیحت”!

چودہ خرداد کی شام کو حضرت امام کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا۔ پندرہ خرداد کو صبح صادق سے پہلے ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز امام خمینی کے گھر کا محاصرہ کرلیتے ہیں اور آپ کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

 18 فروردین 1343 ( 7 اپریل 1964) کی شام کو کسی پیشگی اطلاع کے بغیر امام کو آزاد کرکے قم ان کے گھر پہنچا دیا گيا۔

عوام کو جیسے ہی روح اللہ کی رہائی کی اطلاع ملی، پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مدرسہ فیضیہ سمیت قم شہر کے گوشہ و کنار میں کئی دنوں تک جشن منایا گیا۔

حضرت امام خمینی نے ۴ آبان 1343 (26 اکتوبر 1964) کو اپنا انقلابی بیان جاری کیا اور فرمایا:

” دنیا کو جان لینا چاہئےکہ ایرانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمان، آج جس طرح کی بھی مشکلات اور مصائب میں گھرے ہیں اس کا باعث امریکہ اور بیرونی طاقتیں ہیں۔ مسلمان اقوام کو بیرونی طاقتوں سے عام طور پر اور امریکہ سے خاص طور پر نفرت ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتا ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کو مضبوط بنا رہا ہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائيں”۔

13 آبان 1343 (4 نومبر 1964) کی صبح کو ایک بار پھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے، حضرت امام کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور سخت پہرے میں مہرآباد ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گيا اور پھر وہاں سے ایک فوجی طیارے کے ذریعہ جو پہلے سے تیار کھڑا تھا، آپ کو ترکی جلاوطن کر دیا گیا!

اس خبر کے شائع ہوتے ہی پورے ملک میں گھٹن کے ماحول کے باوجود احتجاجی مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ترکی میں امام کی جلاوطنی کی مدت گیارہ مہینے کی رہی۔

تیرہ مہر 1343 (5 اکتوبر 1964) کو امام اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے۔ روح اللہ خمینی بغداد پہنچنے کے بعد کاظمین، سامرا اور کربلا میں ائمہ اطہار علیہم السلام اور شہدائے کربلا کی زيارت کےلئے روانہ ہوگئے اور ایک ہفتے کے بعد اپنی قیامگاہ یعنی نجف اشرف پہنچے۔

نجف اشرف میں آپ کے تیرہ سالہ قیام کا آغاز ایسے عالم میں ہوا کہ اگرچہ وہاں بظاہر ایران اور ترکی کی طرح بندش اور گھٹن نہیں تھی لیکن دشمن کے محاذ کی طرف سے مخالفتوں، آپ کے راستے میں رکاوٹوں اور طعنہ زنی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ عالم نما نام نہاد اور دنیا پرست عناصر کی طرف سے آپ کے خلاف اقدامات اور بیان بازیاں اس قدر وسیع پیمانے پر پہنچ گئی تھیں کہ آپ نے اپنے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود جس کےلئے آپ خاص شہرت رکھتے تھے، بارہا ان برسوں کو اپنی جدوجہد کے انتہائی سخت اور تلخ ترین سال سے تعبیر کیا لیکن یہ مصائب و آلام آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے۔

نجف اشرف پہنچتے ہی امام نے ایرانی عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی۔

چار جون سن انیس سو پچہتر عیسوی کو قم کے مدرسۂ فیضیہ میں ایک بار پھر انقلابی طلباء نے ایک شاندار احتجاجی اجتماع منعقد کیا۔ دو دنوں تک جاری اس ایجیٹیشن کے دوران “درود بر خمینی، مرگ بر پہلوی”، “خمینی زندہ باد، پہلوی مردہ باد” کے نعرے گونجتے رہے۔

مرداد ماہ 1356 مطابق انیس سو ستتر میں اپنے ایک پیغام میں اعلان فرمایا:

” اب ملکی اور غیر ملکی حالات اور شاہی حکومت کے جرائم کے عالمی اداروں اور غیر ملکی اخبارات میں بھی منعکس ہونے کی بنا پر علمی حلقوں، محب وطن شخصیتوں، ملک و بیرون ملک ایرانی طلباء اور اسلامی انجمنوں کو جہاں جہاں بھی ہوں یہ چاہئے کہ اس موقع سے فورا فائدہ اٹھائیں اور کھل کر میدان میں آجائیں”۔

یکم آبان  1356  مطابق انیس سو ستتر کو آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اور ایران میں ان کے ایصال ثواب کےلئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزيتی جلسے، ایران کے حوزہ ہای علمیہ اور مذہبی حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے۔

حضرت امام خمینی نے اسی وقت انتہائی حیران کن طریقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے “الطاف خفیہ” سے تعبیر کیا۔

شاہی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں امام روح اللہ کی شان میں اہانت آمیز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لینے کی کوشش کی، لیکن قم میں ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، رواں دواں انقلابی تحریک کو تیزی دینے کا باعث بنا۔

آیت اللہ خمینی نے نومبر انیس سو اٹھتر میں انقلابی کونسل تشکیل دی۔

شاہ سلطنتی کونسل کی تشکیل اور بختیار کی حکومت کےلئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سولہ جنوری انیس سو اٹھتر کو ملک سے فرار ہوگیا۔ شاہ کے فرار کی خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی اور لوگ یہ خبر سن کر جشن منانے کےلئے سڑکوں پر نکل آئے۔

جنوری انیس سو اٹھتر میں حضرت امام خمینی کی وطن واپسی کی خبریں نشر ہونے لگیں؛ جو بھی سنتا خوشی سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں۔ لوگوں نے 14 برسوں تک انتظار کی گھڑیاں گنی تھیں۔ ساتھ ہی امام خمینی کے چاہنے والوں کو آپ کی جان کی سلامتی کے بارے میں بھی تشویش تھی کیونکہ شاہ کی آلۂ کار حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔

حضرت امام نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا کہ وہ چاہتے کہ ان مستقبل ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں۔ بختیار کی حکومت نے جنرل ہایزر کی ہم آہنگی سے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کےلئے بند کردیا تھا! مگر حکومت نے بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ 

روح اللہ الموسوی الخمینی 12 بہمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو  چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔ ایرانی عوام نے آپ کا ایسا عدیم المثال اور شاندار تاریخی استقبال کیا کہ مغربی خبررساں ایجنسیاں بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینی کا والہانہ استقبال کیا۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی سے قبل، امام خمینی نے فرانس نوفل لوشاتو سے آیت اللہ مرتضی مطہری [شہید]، آیت اللہ محمد حسین بہشتی [شہید]، آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی [مرحوم] و غیرہ کی مانند مجاہد علما اور افراد پرمشتمل کمیٹی “شورائے انقلاب اسلامی” قائم کرنے کا حکم جاری فرمایا۔ حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای بھی امام خمینی کے حکم پر اس کمیٹی کے رکن بنے جو آیت اللہ مطہری نے امام خمینی کا پیغام آپ تک پہنچایا۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی کا پیغام ملتے ہی آپ مشہد سے تہران آ گئے اور انقلاب اسلامی کے دوران پیش آنے والے تمام مشکلات نیز استقبالیہ مراسم، اسی طرح ایران میں حکومتی باگ دوڑ، یہ سب کے سب اسی کمیٹی نے بہتر طریقے سے سنبھال کر، اسلامی جمہوریہ ایران کے احوالات کو سامان دی۔ والحمدللہ۔

 

التماس دعا

تبصرے
Loading...