امام خمینی(رح) ایک مرد عارف

حضرت امام خمینیؒ کے بارے میں عام طور پر جو بات ہمارے ہاں زیادہ مشہور ہے وہ یہ کہ آپ نے ایک ملوکیت اور بادشاہت کا خاتمہ کرکے ایک اسلامی اور مذہبی حکومت قائم کی۔ لوگ یہ بهی جانتے ہیں کہ آپ استعماری طاقتوں کے خلاف تهے اور استعماری طاقتوں نے آپ کی حکومت کے خاتمے کے لیے اپنے پورے وسائل بروئے کار لائے لیکن وہ اس میں ناکام ہو گئیں۔ ہم یہ بهی جانتے ہیں کہ امام خمینیؒ بہت شجاع اور بہادر تهے۔ ہمیں یہ بهی معلوم ہے کہ آپ نے ناجائز طور پر قائم صہیونی حکومت کے خاتمے اور فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کے لیے بهی آواز بلند کی۔ آپ مستضعفوں اور محروموں کے حقوق کے بهی علمبردار تهے۔ آپ نے اتحاد امت کے لیے ایک زور دار آواز بلند کی۔ ہم یہ بهی جانتے ہیں کہ آپ ایک عالم اور فقیہ تهے اور آپ کی تقلید کی جاتی تهی۔ بعدازاں آپ کا دیوان بهی چهپا اور پاکستان میں بهی بہت سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ صاحب دیوان شاعر بهی تهے، لیکن ابهی تک جو پہلو کم شناختہ یا ناشناختہ ہے وہ یہ ہے کہ آپ ایک بلند پایہ عارف تهے اور شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہو کہ آپ کے وجود سے پهوٹنے والی تمام تر خوبیوں کا سرچشمہ یہی امر ہے کہ آپ ایک عارف باللہ اور عاشق الٰہی تهے اور اس سلسلے میں نظری اور عملی طور پر نہایت عمق اور گہرائی کے مقام پر فائز تهے۔

    ہم مثال کے طور پر عرض کریں گے کہ امام خمینیؒ جو نہایت شجاع تهے اور موت سے ہرگز نہ ڈرتے تهے، اس کی وجہ یہی تهی کہ وہ اپنے پروردگار پر عارفانہ ایمان رکهتے تهے۔ اس امر کو عصر حاضر کے ایک اور عارف آیت اللہ جوادی آملی جو امام خمینی ؒ کے شاگردوں میں سے ہیں، یوں بیان کرتے ہیں:

    امام خمینی ؒ کی ایک واضح خصوصیت یہ تهی کہ آپ موت سے نہ ڈرتے تهے کیونکہ آپ ارادی موت کا تجربہ کرچکے تهے۔ جب کوئی شخص ارادی موت کا تجربہ کرچکا ہو اور اسے موت کا خوف نہ ہو اور موت سے اس کی کوئی چیز ضائع نہ ہوتی ہو تو پهر دیگر مسائل اس کے لیے حل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 15خرداد (5جون ء1963) کے واقعے کے بعد اپنی جلاوطنی کے بارے میں فرماتے تهے:

یہ لوگ (حکمران) ڈرتے تهے، میں نہ ڈرتا تها۔

    یونہی 25 شوال کے واقعے میں جب پہلوی حکومت کے کارندوں نے بعض طلاب کو شہید کر دیا تو بہت سے علماء ڈر گئے، وہ کہتے تهے کہ یہ تقیہ کا وقت ہے، وہ خاموش ہوگئےو جب کہ امام نے اگلے روز حکومت سے خطاب کرتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں یہ عبارت تهی: تمهارے ظلم نے منگولوں کا چہرہ بهی سفید کر دیا۔

    جب انسان اپنی ذاتی آرزوؤں کو مار لیتا ہے اور اپنی خواہشوں کی بنیاد پر حرکت نہیں کرتا۔ اپنی ہوس کے لیے حرکت نہیں کرتا، اپنی آرزو کے لیے متحرک نہیں ہوتا بلکہ متحرک بالولایۃ ہوتا ہے تو وہ موت سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ جب موت سے ڈر نہ ہو تو پهر ایسا ہوتا ہے جیسے امام خمینیؒ تهے۔ دوسروں کو اپنی ذمے داری ادا کرنے سے جو چیز روک دیتی تهی وہ یہی موت سے خوف تها۔ انہی دنوں میں جب امام ظلم کے خلاف سینہ سپر تهے و میں ایک مرجع کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جو میرے اساتذہ میں سے تهے، میں نے دیکها کہ انهوں نے علامہ مجلسی مرحوم کی (حدیث کی کتاب) بحار کهول رکهی ہے اور تقیہ کے موضوع کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ ممکن تها کہ وہ جہاد، معرکے اور ایثار کے موضوع پر بات کرتے لیکن وہ جہاد کا ذکر کرتے ہوئے بهی تقیہ کے بارے میں سوچ رہے تهے و لیکن امام جہاد کی بات کرتے تهے تو جہاد کے بارے میں ہی سوچتے تهے۔ ان کا دل جہاد کے لیے بے قرار تها۔ ان میں یہ خصوصیت تهی ان میں یہ ہنر تها۔۔۔ امام معارف اسلامی کے ایک پہلو سے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب میں سے نہ تهے و بلکہ یومنون بالشهادۃ میں سے تهے۔ ہم عام طور پر مومنین بالغیب میں سے ہوتے ہیں۔۔۔ یہ جو قرآن نے فرمایا ہے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب یہ کم سے کم صورت کا بیان نہ کہ یہ معیار کمال ہے۔ یعنی قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس سے پیچهے نہ رہناو وگرنہ یہ جو (امیرالمومنین حضرت علیؑ نے) فرمایا ہے ’’لو کشف الغطا ما ازددت یقینا‘‘ یعنی اگر پردے ہٹا دیئے جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا، یہ ایمان بالشہادۃ کا بیان ہے۔

   بہت سے اہل نظر کی یہ رائے ہے کہ امام خمینیؒ خود محی الدین اور محی العرفان تهے۔ انهوں نے دلدادگی اور دلبری کے رموز مکتب قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کے غیبی خزانوں سے حاصل کئے تهے۔ اس سلسلے میں ان کی کتاب سرالصلوٰۃ قابل مطالعہ ہے۔ انهوں نے اپنی ایک اور کتاب مصباح الهدایۃ میں شریعت، طریقت اور حقیقت کا باہمی تعلق ایک مرتبہ پهر واضح طور پر بیان کیا۔ بہت سے افراد کے نزدیک عرفان اور اس کے حقائق ناقابل تعلیم، ناقابل ترویج اور ناقابل انتقال ہیں، لیکن امام خمینیؒ کی عرفانی خصوصیات میں سے ایک یہ بهی ہے کہ آپ نے عرفان کی ترویج کی اور اپنے خاص اسلوب سے یہ بات ثابت کی کہ عرفان اسلام کی ایک خاص شناخت کا نام نہیں بلکہ یہ قرآن کے حقائق اور انبیاء و اولیاء کا مقصود اعلٰی ہے۔ آپ اپنے عام خطابات میں بهی عرفانی مطالب کو نہایت عمدگی اور سادگی سے بیان کر دیتے تهے اور عرفانی حالت عام طور پر آپ کے وجود پر طاری ہوتی تهی۔ امام کی عرفانی خصوصیات میں سے یہ بهی ہے کہ آپ کا اس امر پر اصرار تها اور آپ نے بارہا اس کی تصریح کی کہ روش عرفانی عقل صریح اور برہان فصیح کے مخالف نہیں ہے۔ ان امور کو آپ نے تقریر و تحریر میں واضح کیا ہے۔

   امام خمینی ؒ نے شریعت اور طریقت و حقیقت کے باہمی تعلق کو نہایت عمدگی سے بیان فرمایا ہے۔ آپ نے فصوص الحکم کی شرح بهی لکهی ہے۔ فص ایوبی میں آیۃ شریفہ ’’ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ‘‘ کے ذیل میں فرماتے ہیں: کہ مراد یہ ہے کہ اگر وہ شریعت کے پیروکار ہوں، تورات و انجیل و دیگر کتب الٰہی پر عمل کریں تو ان کے لیے طریقت اور علم حقیقت کا حصول ممکن ہوجائے گا۔ یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طریقت و حقیقت کا مقام شریعت کے بغیر ہاته نہیں آتا۔ خود آپ نے اپنے الفاظ میں اس کی وضاحت یوں کی ہے:

وان الظاهر طریق الباطن، بل یفهم منہ ان الظاهر غیر منفک عن الباطن۔۔۔ومن اراد ان یصل الی الباطن من غیر طریق الظاهر۔ کبعض عوام الصوفیۃ۔ فهو علی غیر بینۃ من ربہ۔

یقیناً ظاہر باطن تک پہنچنے کا راستہ ہے بلکہ اس سے یہ سمجه آتا ہے کہ ظاہر کو باطن سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔۔۔اور جو ظاہر کے راستے کے بغیر باطن تک پہنچنا چاہیں جیسا کہ بعض عام صوفیہ، تو اس کے پاس اپنے رب کی طرف سے کوئی دلیل نہیں۔

    امام خمینیؒ نے اپنی تقریروں میں دعاؤں اور مناجات کی تلاوت پر جتنا زور دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے اہل بیت ؑ رسالت سے منقول بعض دعاؤں کا بار بار ذکر کیا۔ آپ نے مناجات شعبانیہ، دعائے عرفہ اور دعائے کمیل کی تلاوت پر بہت زور دیا۔ آپ آئمہ اہل بیتؑ کی ان دعاؤں کو ’’قرآن صاعد‘‘ کا نام دیتے تهے۔ آپ کی برکت سے دنیا کے بہت سے ممالک میں اجتماعی اور انفرادی طور پر مناجات کی تلاوت کا رواج پیدا ہوا۔ یہ سب بهی امام خمینی کے مقام عرفانی ہی کا ترشح تها۔ بلند ترین سیاسی مقام پر ہونے کے باوجود آپ کی سادہ زیستی، آپ کا چهوٹا سا گهر، پاؤں میں معمولی سا چپل، چهوٹے سے کمرے میں جہاں ایک سادہ سا صوفہ پڑا ہوتا تها، میں دنیا بهر سے آنے والے حکمرانوں سے ملاقات اور آپ کی نشست کے اوپر آویزاں کتبہ جس پر یہ آیت لکهی ہوتی تهی’’ کَلِمَۃُ اللّٰہِ هِیَ الْعُلْیَا‘‘ آپ کے عشق الٰہی اور مسلک عرفان ہی کا غماز تها۔

    آپ کا دیوان اور آپ کی شاعری عشق الٰہی کے زمزموں اور نغموں سے معمور ہے۔ اس کے مطالعے سے یوں لگتا ہے کہ ایک عاشق دل باختہ ہمہ وقت اپنے محبوب سے باتیں کر رہا ہے اور اس کے وصال کے لیے بے قرار ہے، اس کی ہر ادا میں اسے حسن ہی حسن نظر آتا ہے۔ امام خمینیؒ کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:

عاشقم عاشقم مریض تو ام   ==    زین مرض من شفا نمیخواہم

از تو جانا جفا وفا باشد   ==    پس دگر من وفا نمیخواہم

           میں عاشق ہوں، میں عاشق ہوں اور میں تیرا مریض ہوں، میں اس مرض سے شفا کا طلبگار نہیں۔ اے محبوب تری تو جفا بهی میرے لیے وفا ہے۔ لہٰذا میں تجه سے وفا طلب نہیں کرتا۔

   جوں جوں آپ کی رحلت کا وقت قریب آتا چلا جاتا تها، آپ کی شاعری میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی چلی جاتی تهی۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے بہار آنے کو ہے اور ایک عاشق بے قرار کی اپنے محبوب سے ملاقات اور مرحلہ وصال نزدیک آچکا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

بہار آمد جوانی را پس از پیری زسر گیرم  ==    کنار یار بنشینم زعمر خود ثمر گیرم

بگلشن باز گردم با گل و گلبن در آمیزم   ==     بطرف بوستان دلدار مہوش راببرگیرم

بہار آگئی ہے، پیری کے بعد مجهے پهر سے جوانی ملا چاہتی ہے، محبوب کے پہلو میں بیٹهوں گا اور عمر بهر کا ثمر اب حاصل کروں گا۔ گلشن کی طرف لوٹ جاؤں گا اور پهول بوٹوں سے ملاقات کروں گا۔ باغ کی طرف لوٹ جاؤں گا اور چاند جیسے دلدار کے ساته جا ملوں گا۔

 ایک اور غزل کے دو شعر:

آید آن روز کہ خاک سر کویش باشم       ==       ترک جان کردہ و آشفتہ رویش باشم

ساغر روح فزا از کف لطفش گیرم    ==      غافل از ہر دو جہان بستۂ مویش باشم

وہ دن آئے کہ میں تیرے کوچے کی خاک بن جاؤں، اپنی جان دے دوں اور تیرے چہرے کا دیوانہ بن جاؤں، تیرے لطف کے ہاته سے روح فزا ساغر لوں اور دونوں جہان سے غافل تیری زلف کا اسیر بن جاؤں۔

جنهیں امام خمینی کے عرفان، مقام عرفانی اور مسلک عرفانی سے سروکار ہو، وہ کم ازکم امام خمینی کے ان عرفانی مکتوبات کا مطالعہ ضرور کریں، جن کا اردو میں ترجمہ دستیاب ہے۔ اس حدیث عشق کے کہنے کے لیے بہت کچه ہے، لیکن یہ کہنے سے زیادہ کسی اور چیز کی متقاضی ہے۔

 ur.shafaqna.com

تبصرے
Loading...