امام خمینی(رح) اور کار آمد اور مفید حکومت (۲)

“تمام حقوق میں سب سے عظیم ترین حق، رعایا [اور شہری] پر والی [اور حاکم] کا حق اور والی پر رعایا کا حق ہے جسے پروردگار نے ایک کو دوسرے کےلئے قرار دیا ہے اور اسی سے ان کی باہمی الفتوں کو منظم کیا ہے اور ان کے دین کو عزت دی ہے ۔۔۔ اب اگر رعایا نے والی کو اس کا حق دے دیا اور والی نے رعایا کو ان کاحق دے دیا تو حق دونوں کے درمیان عزیز رہےگا ۔۔۔ انصاف کے نشانات برقرار رہیں گے بقاء حکومت کی امید بھی کی جائےگی اور دشمنوں کی تمنائیں بھی ناکام ہوجائیں گی”

(مولا امیرالمومنین علی(ع)، خطبہ ۲۱۶)

سیاسی سوشیالو جیسٹ کے ماہرین کی نظر میں، کارآمد حکومت کے عوامل میں سے جس کے نتیجے میں حکومتیں پایدار اور مستحکم ہوتیں ہیں، شہریوں کے سیاسی حقوق، آزادی اور حق اختیار کی رعایت اور پاس رکھنا ہے۔ ان ماہرین کے اعتقاد میں آزادی بیان، اجتماعات کی آزادی، سیاسی میدان میں فوج کی محدود مداخلت، شفاف اور منصفانہ انتخابات، مذہبی مراسم کی آزادی، مستقل عدلیہ، پارٹیوں کو مقابلہ کی آزادی، عوام میں حکومت سے کسی قسم کی دہمکی یا ڈر کا خوف و اندیشہ نہ ہو، یہ تمام معیارات کارآمد، مفید اور محبوب حکومت کی کسوٹیاں ہیں۔

(دوگان، متی، دیدگاہہای مختلف نسبت بہ مسالہ مشروعیت، ص277)

امام خمینی(رح) بھی حکومت کا عوام کے حقوق اور آزادیوں سے دفاع اور حمایت کرنے کو حکومت کی بقا اور پایداری کے اسباب میں سے جانا اور معتقد ہیں:

شاہی سلطنت کے زوال اور ناپایداری کے عوامل میں سے ایک یہ تھا کہ شاہی حکومت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ رعب و دہشت، دباؤ، تشدد، جیل اور گرفتاریوں کے ذریعے ملت کے ساتھ برتاؤ کرے۔

(درجستجوی راہ ازکلام امام، ص274)

جبکہ امام خمینی(رح) کی نظر میں اسلامی عادل حکومت میں، عوام شرعی قوانین اور آئین کے دائرہ میں بالکل آزاد ہیں، یعنی شرعی قوانین کے مطابق عمل کرنے کے بعد کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان کی آزادی کو سلب کرے۔

(امام خمینی، ولایت فقیہ، ص61)

اسلام اور اسلامی حکومت میں تمام طبقات کےلئے آزادی ہے اور اسلامی حکومت طاقت کی زبانی استعمال نہیں کرسکتی۔

(درجستجوی راہ از کلام امام، ص270)

اسلامی حکومت میں: معاشرے کے تمام طبقات اپنے ثابت حقوق تک پہنچتے ہیں، ظلم، ستم اور زیادتیاں جڑ سے ختم ہوجاتیں ہیں۔

(صحیفہ امام، ج6، ص525)

درحقیقت امام خمینی(رح) کے اعتقاد میں “اگر کوئی ملک یہ چاہتا ہے کہ ایک مثالی، مضبوط اور با مستحکم مملکت رہے، وہ اس بات پر مجبور ہے کہ حاکم نظام اور عوام میں افہام و تفہیم کی فضا قائم کرے۔” یہ فضا بھی صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ “حکومت خود کو عوام سے الگ نہ سمجھے اور زیادتی، تشدد، دباؤ، دہمکی اور ایذا کی راہ اختیار نہ کرے”؛ اگر حکومت تشدد، دباؤ اور طاقت کی زبان استعمال اور عوام کے بنیادی حقوق پایمال کرے، یقیناً عوام بھی جتنا اس کے بس میں ہو حکومت کو کمزور اور کنارے پر لگانے کی کوشش کرے گی۔

چنانچہ اس سلسلہ میں امام خمینی(رح) فرماتے ہیں: “یہ تمام حکومتوں اور ادارجات کےلئے ایک سبق ہونا چاہیئے کہ کہیں بھی گورنمنٹ خود کو عوام سے الگ نہ کرے، عوام کو اپنا سمجھیں” تاکہ ” عوام بھی حکومت کو اپنا سمجھیں” چنانچہ”اگر یہ سوچ اور سمجھ قوم اور حکومت میں موجود ہو  یقیناً حکومت کا حامی و ناصر عوام ہے اور کبھی سقوط نہ ہوگی۔”

(صحیفہ امام؛ج 8،ص233)

تبصرے
Loading...