امام(ره) کا مکتب (1)

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آپ کا مکتب بنیادی طور پر عرفانی اور تربیتی ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی، تعلیمی، نیز اصولی اور عملی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے دینی تعلیمی مراکز اور مدارس کے فقط نظرئیے خشک عقل و استدلال اور تعلیم پر قناعت نہ کی بلکہ آپ نے اس جانب توجہ دی کہ تعلیم، عمل اور حکمت عملی سے قبل تزکیہ نفس ضروری ہے ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ملاصدرا نے فلسفہ و عرفان کے نظریات میں  اور مختلف فکری اور فلسفی مکاتب میں  جمع پیدا کردی ویسے ہی امام خمینی(ره)  بھی اس جامعیت  کے حامل تھے۔  آپ اس جامعیت کو سیاست اور معاشرت کے میدان میں  لے آئے اور پیغمبروں  کی طرح اسے خواص سے عوام میں  منتقل کردیا۔  آپ نے خصوصاً یورپ کے اس مسلمہ نظرئیے کے برخلاف کہ عرفان اور سیاست کو یکجا نہیں  کیا جا سکتا ہے ان دونوں  کو یکجا کر دکھایا اور سیاست کو معنویت اور سیاست میں  عوامی شرکت کو دینی رنگ عطا کیا۔  اس لئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آپ نے فرانس کے میشل فوکو کہ جو ایک صحافی کے طور  پر انقلابی تحریک کے زمانے میں  ایران میں  موجود تھا اور اس نے معنویت و سیاست کو یکجا اور سیاست میں  لوگوں  کی شرکت کو قریب سے دیکھا ، جیسے پوسٹ ماڈرن کے نمایاں  مفکریں  کو متاثر کیا۔

یہاں  مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم امام خمینی(ره)  کے خطبات اور تحریروں  کی جانب رجوع کریں  تاکہ مختلف مواقع پر آپ کے فکری و سیاسی نظریات اور مواقف سے آشنائی حاصل ہوسکے اور دینی اصلاح پسندی کی خصوصیات ، خصوصاً اسلامی ریڈیکل ازم اور اسلامی قدامت پسندی کے اختلافی امور کے آپ کے نظریات کی روشنی میں  تلاش کر سکیں ۔ پہلے مرحلے میں  یہ دیکھنا چاہئے کہ امام خمینی(ره) کے نزدیک مسلمانوں  کے موجودہ مسائل اور مشکلات کی کیا وجوہات ہیں  اور آپ مسلمانوں  کے زوال و انحطاط کے علل و اسباب کن چیزوں  کو قرار دیتے ہیں ؟

آپ ایک جامع اور ہمہ گیر بیان میں  فرماتے ہیں : 

’’ماضی میں  چونکہ ہم نے حکومت کی تشکیل اور خائن اور جابر حکمرانوں  کا تختہ الٹنے کی مل کر کوئی کوشش نہیں  کی بعض نے کاہلی سے کام لیا، اسلامی نظریات اور نظامات کی تبلیغ اور اس کے بارے میں  گفتگو تک کرنے سے اجتناب کیا بلکہ اس کے بر خلاف ظالم حکمرانوں  کو دعائیں  دیں  اس لئے یہ حالات پیدا ہوئے اور معاشرے میں  اسلامی حاکمیت اور اثر و رسوخ کم ہوگیا۔ اسلامی امت ناتوانی کا شکار اور پارہ پارہ ہوگئی۔  اسلامی احکام کا نفاذ نہ ہو سکا ان میں  تغیر و تبدل واقع ہوگیا۔  سامراجیوں  نے اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کے لئے اپنے پٹھوؤں  کے ذریعے مسلمانوں  کے درمیان اغیار کے قوانین کا نفاذ اور ثقافت کو رائج کیا اور لوگوں  کو مغرب زدہ بنادیا۔  اس سب کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا کوئی قائد نہیں  تھا جو کہ ہم کو منظم کرتا ۔ ہم ایک صالح حکومت کے خواہاں  ہیں ۔ یہ بات واضح امور میں  سے ہے‘‘۔  (ولایت فقیہ، ص ۵۰ و ۵۱)

حضرت امام خمینی(ره) نے پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی(ع)  کے دور حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

’’خالص اسلامی حکومت قائم ہوئی‘‘۔   (صحیفہ امام، ج۱۰، ص ۱۶۸)

آپ اپنے سیاسی، الٰہی وصیت نامہ کے آغاز میں  فرماتے ہیں:

’’حضرت علی ؑ کی شہادت کے بعد سے ایسے افسوس ناک مسائل کا سلسلہ شروع ہوگیا جن پر خون کے آنسو بائے جانے چاہئیں ۔  خود غرض لوگوں  اور طاغوتیوں  نے قرآن کریم کو اپنی قرآن دشمن حکومتوں  کے لئے ایک وسیلہ بنالیا اور قرآں  کریم کے حقیقی مفسروں  اور حقائق سے آگاہ ہستیوں  کو۔۔۔ پس پشت ڈال دیا۔ انہوں  نے قرآن کو جو حوض کوثر پر پہنچنے تک کے لئے مادی و معنوی زندگی کا عظیم ضابطہ ہے۔ میدان سے باہر نکال دیا اور اس مقدس کتاب کے ایک مقصد یعنی عدل الٰہی کی بنیاد پر استوار حکومت پر خط تنسیخ کھینچ دیا۔  دین خدا اور کتاب  وسنت سے اعراض کی بنیاد رکھی۔ نوبت ایسے مسائل تک پہنچ گئی کہ جن کے بیان سے قلم شرم محسوس کرتا ہے اور یہ ٹیڑھی بنیاد جوں  جوں  اوپر اٹھتی گئی گمراہوں  اور انحرافات  میں  اضافہ ہوتا گیا یہاں  تک کہ قرآن کریم کو ۔۔۔ میدان سے یوں  باہر نکال دیا گویا ہدایت کے سلسلے میں  اس کا کوئی کردار ہی نہیں  اور نوبت یہاں  تک پہنچ گئی کہ قرآن کریم جابر حکومتوں  اور طاغوتیوں  سے بھی برتر خبیث ملاؤں  کے ہاتھوں  ظلم و فساد کا ذریعہ اور حق تعالیٰ کے دشمنوں  اور ظالموں  کی بداعمالیوں  کے جواز کا وسیلہ بن کر رہ گیا‘‘۔  (صحیفہ انقلاب، ص ۱و ۲)

حضرت امام خمینی (ره) کے نزدیک معاویہ اور یزید کا ’’غصب خلافت‘‘ اور ’’قتل سید الشہداء (ع)‘‘  سے بڑا گناہ یہ تھا کہ ’’انہوں  نے اسلام کو بادشاہت میں  تبدیل کردیا تھا ۔  معنویت کو طاغوت میں  بدل دیا تھا ۔ انہوں  نے رسول اللہ ؐ کے خلیفہ ہونے کے نام پر اسلام کو ایک طاغوتی حکومت میں  بدل ڈالا تھا‘‘۔  (صحیفہ امام، ج۱۷، ص ۳۶)

’’افسوس کہ ہم اسلام کو کھو چکے ہیں  جو اسلام اس وقت ہمارے پاس ہے اسے سیاست سے بالکل جدا کردیا گیا ہے۔  اس کا سرکاٹ دیا گیا ہے۔  اصلی حصے کو کاٹ کر الگ کر دیا گیا اور باقی ہمیں  دے دیا گیا ہے۔ ہمارا آج یہ حال اس لئے ہے کہ ہم راز اسلام کو نہیں  جانتے ہیں ۔۔۔ جب تک ہم اسلام کو تلاش نہ کر لیں  جب تک تمام مسلمان اسلام کو ڈھونڈ نہ لیں  اس وقت تک ہم اپنی عظمت کو حاصل نہیں  کر سکتے ہیں ‘‘۔  (صحیفه امام، ج۱۰، ص ۱۱۶ و ۱۱۷)

اسلام شروع سے ہی نہ صرف مسلمانوں  کے عام افراد اور عوام میں  بیگانہ رہا ہے بلکہ حتی خواص اور  ’’ہمارے اسلام شناس بھی اسلام سے آگاہ نہیں  ہیں ‘‘    اس لئے امام خمینی(ره)  اس بات پر زور دیتے ہیں  کہ اسلام کے بارے میں  سنجیدہ تحقیق کرنے اور ’’اسلام کا سنجیدگی سے جائزہ لینے‘‘   کی ضرورت ہے اور یہ کہ ہم سب کو ’’قرآن کریم کے ا حیاء ‘‘ ’’پیغمبر اسلام (ص) کی سنت کے احیاء‘‘ اور ’’خالص محمدی (ص) اسلام ‘‘ کی جانب بازگشت کے لئے اقدام کرنا اور اس کے لئے اٹھ کھڑا ہونا چاہئے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۷، ص ۲۶؛ نیز ، ج۲۱، ص ۵۹)

حقیقت یہ ہے کہ حضرت امام خمینی(ره)  بھی اپنے سے پہلے دینی مفکرین اور مصلحین کی مانند قائل تھے کہ اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے ’’نقص مسلمانوں  میں  پایا جاتا ہے‘‘   اور یہ کہ اسلامی ثقافت بے نیاز ترین ثقافتوں  میں  سے رہی ہے اور اب بھی ہے لیکن ’’ افسوس کہ مسلمان اس سے فائدہ نہیں  اٹھا سکے ہیں ‘‘  مسلمانوں  نے مختلف طبقات خصوصاً خواص میں  سے ہرگروہ اسلام کے مختلف پہلوؤں  اور جہات میں  سے کسی ایک پہلو اور جہت سے چمٹ گیا اور اسی کو مکمل اسلام قرار دینے لگا  یوں  ان لوگوں  نے اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے او ر پارہ پارہ کردیا۔ ایک گروہ نے اسلام کی فقط مادی، معاشرتی اور سیاسی جہت کو لے لیا تو دوسرے نے صرف معنوی جہت کو ، حالانکہ یہ دونوں  ایک ساتھ ہیں  ۔

حضرت امام خمینی(ره)  نے اسلامی بنیاد پرستوں  کے برخلاف فلاسفہ، عرفاء، مفسرین ، فقہا اور مسلمانوں  کے ان دیگر طبقات کو کہ جنہوں  نے اپنے اپنے خاص اسلوب کے تحت اسلام کی تشریح کی ہے اور اس کا تعارف کرایا ہے،  کافر قرار دئیے بغیر ان کی افراط وتفریط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ عرفاء، فلاسفہ اور ظاہر پرستوں  میں  سے بعض نے مادیات سے رخ پھیر لیا ہے اور بعض نے اپنی توجہ مادیات پر مرکوز کرلی ہے۔ تفسیر قرآن کریم میں  اگر تمام آیات نہیں  تو اکثر آیات کو انہوں  نے ان عرفانی ، فلسفی اور معنوی جہات کی طرف پلٹادیا ہے اور دنیوی زندگی اور اس عالم کی حیات سے سرے سے انکھیں   بند کر لی ہیں ،  اگرچہ عرفا کی خدمات اچھی تھیں  لیکن وہ ہر چیز کو اس طرف پلٹاتے رہے ’’اس لئے اسلام عرفا کے ہاتھوں  قید ہو کر رہ گیا‘‘  ۔ اس کے بر خلاف دوسرا گروہ اسلام کو دنیا طلبی اور کشور کشائی کی جانب پلٹاتا رہا۔  فلاسفہ نے اسلام کا ادراک  ایک فلسفہ کی صورت میں  اور ایک فلسفی مکتب کے طور پر کیا۔  جبکہ عرفا نے اسے ایک عرفانی مکتب کے طور پر پیش کیا اور بعض نے اس کا تعارف ایک مادی مکتب کے طور پر کرایا ۔  (صحیفہ امام، ج۲، ص  ۱۵۳)

تبصرے
Loading...