اس حادثہ کے بعد چند ماہ سے زیادہ ظالم حکومت باقی نہ رہی

مورخہ17/ شہریور سن 1357ش میدان شہداء میں تہران کے لوگوں کا قتل عام ہوا۔ یہ اسلامی ایران کی تاریخ  کا ایک سیاہ دن تھا۔ اس دن لوگوں کا بے دردی کے ساتھ قتل عام شاہ اور شاہی حکومت کا حقیقی چہرہ دکھا رہا ہے۔ اس نے دھوکہ دھڑی اور فریب سے لوگوں کے درمیان مصلحت آمیز، امن دوست اور صلح و سلامتی کا چهرہ دکھانے کی اور آزادی کا طالب اور فسادات کا مخالف بتانے کی کوشش کی۔

17/ شہریور کا قیام شاہی پہلوی ظالم حکومت کے خاتمہ کا دن تھا کہ اس حادثہ کے بعد چند ماہ سے زیادہ باقی نہ رہی۔ تاریخ عالم انسانیت میں ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی کہ ہر عصر کی حکومتیں ظلم و جور کے ساتھ زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہیں اور ظالم اور ظالمانہ حکومتوں کا زوال ہو ہی گیا اور پوری دنیا میں رسوا ہوگئی ہیں۔ وقت لگتا ہے لیکن اب انجام ایسا ہی ہوا۔  خواہ ظلم انفرادی صورت میں کیا جائے یا اجتماعی اور حکومتی سطح پر کیا جائے۔ ظالم کا انجام بہت برا اور بھیانک ہوا ہے۔

ظاہر ہے کہ جو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل اور دنیا پرستی کے جلووں سے دوستی اور محبت کی خاطر انسانیت کا خون کرے اور ایسا قدم اٹھائے وقت ذرہ برابر نہ سوچیں کے جس کے ساتھ ہم ظلم کررہے ہیں وہ بھی ہمارے ہی جیسا انسان ہے اور اس کے بھی کچھ تقاضے اور احساسات ہیں۔ پوری تاریخ انسانیت میں حق و باطل اور صاحبان حق اور اہل باطل کے درمیان ہمیشہ کشمکش اور نزاع رہی ہے۔ حق اور حق پرست افراد باطل اور باطل پرستوں سے ٹکر لیتے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ یہ بھی سچ ہے کہ حق ہمیشہ سربلند رہا ہے اور باطل نے ہمیشہ منہ کی کھائی ہے اور باطل نے جب بھی حق کے لئے قیام کرنے والوں کو کچلنے کی کوشش کی ہے اتنا ہی حق اپنی آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے۔

یہ پست فطرت اور گندے لوگوں کی سوچ ہے کہ کسی کو ماردینے، اس کی جان و مال اور عزت و ناموس پر حملہ کردینے سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے، ہرگز نہیں! یہ صرف چند روز ایسا لگتا ہے لیکن باطل اور ظالم، ظلم کرنے کے بعد سے مضطرب اور بے چین رہتا ہے۔ کسی حق کے قیام کو کچلنا دوسرے بڑے انقلاب اور قیام کا مقدمہ بنتا ہے اور اس سے بڑی اور منظم تحریک کو جنم دیتا ہے۔

17/ شہریور کو مظلوم عوام کے خون سے ہولیاں کھیلی گئیں، لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا گیا۔ اور یہ بھول گئے کہ یہ خون ناحق ہے رنگ لائے گا۔ اسلامی اصول کے خلاف انسانیت کے ساتھ کھلواڑ ہے حق کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ مغربی نوازی اور جدت پسندی کسی کام کی نہیں ہے۔ اگر حاکم انسانوں کا خادم نہیں ہے تو اس کی حکومت باقی رہنے والی نہیں ہے۔ ظالم و ستمگر کے حامی اور ظالموں کے اشاروں پر چلنے والے ایک نہ ایک دن نابود ہوہی گئے ہیں۔ ان کی شہنشاہی خاک میں مل گئی ہے بلکہ انہیں دنیا کی کسی سرزمین پر عزت نہیں ملی ہے۔ تاریخ آدم سے آج تک تمام ظالموں اور ظالم حکومت پر ایک نظر تو ڈالئے، اندازہ ہوجائے کہ ظلم و بربریت، تشدد اور ستمگری کا انجام کیا ہوا ہے۔

شاہ نے اپنے زعم ناقص میں اس انقلاب کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور اسے خاموش کرنے کے لئے ہر حربہ کو آزمالیا لیکن نتیجہ کیا ہوا۔ ایرانی عوام اور متحد اور منظم ہوگئی، مضبوط اور قوی ہوتی گئی، اس کے جوش  و ولولہ میں اضافہ ہوتا گیا اور گذرتے دنوں کے ساتھ ایرانی  کی شاہی حکومت کا منافقانہ چہرہ اور باطل پرستی کھل کر سامنے آتی گئی۔ پہلوی شاہ مغرب کا دلدادہ تھا۔ وہ عیش و نوش کا خوگر اور ہوسرانی کا مظہر تھا۔ اسے ایرانی عوام اور مظلوم و بے چارہ انسانوں کی پرواہ نہیں تھی۔ اسے صرف اپنی درندگی اور ہوس کی پیاس بجھانے کی فکر تھی۔ اسے اغیار کی غلامی میں خوشی ملتی تھی۔ وہ عوام اور انسانوں کا خادم ہونے کے بجائے مغربی ممالک کے غنڈوں، بد معاشوں، ظالموں اور انسانوں کا خون پینے والوں کی فکر تھی۔ اسے چاپلوسی میں عیش و خوش کا سامان نظر آرہا تھا۔ لہذا اس نے اپنے آقاؤں کی خوشی کے لئے لوگوں کا بے دردی کے ساتھ قتل عام کیا ۔ انسانیت دوست بے چارہ اور مظلوم عوام کا خون بہایا۔ انسانوں اور خمینی (رح) جیسے انقلابی اور شجاع انسان دوست عوام کے خیر خواہ عالم با عمل اور مرجع تقلید کو جیل میں ڈالنے، ملک بدر کرنے اور نت نئے مظالم کا مرتکب ہوا۔ آپ کے طرفداروں سے جیل بھری شاہ کا ظلم جتنا بڑھتا گیا اتنا ہی عوامی انقلاب مضبوط تر ہوتا گیا، لوگوں میں اتحاد و یکجہتی آئی، مساجد، محافل اور دیگر مجمعوں میں لوگوں نے وسیع پیمانہ پر اتحاد کا مظاہر کیا۔ اسلام اور انقلاب کی طاقت اور پڑھی۔ علماء اور روحانیت کا حوصلہ بلند سے بلند تر ہوا اور آخر کار شاہ جیسے ظالم و جابر، فاسد اور باطل حکمراں کو ملک سے فرار کرنا پڑا۔

امام خمینی (رح) 17/ شہریور کے حادثہ کو “ایام اللہ” میں شمار کرتے ہیں اور ہمیشہ ایرانی عوام کو تاکید کی کہ اس دن کے جانگذاز واقعہ کی یاد منائی جائے۔ اس واقعہ کی عظمت اور ایرانی عوام کی جانفشانی کا ذکر کیا جائے۔ یہ ایام اللہ انسان بناتے هیں۔ انہی ایام نے ہمارے جوانوں کو عشرت کدوں سے باہر نکالا اور میدان جنگ کی طرف روانہ کیا ہے یہی ایام اللہ ہماری ملت کو بیدار کرتے ہیں۔ لوگوں کو ایام اللہ کی یاد دلاؤ۔

تبصرے
Loading...