استنبول کے امام جمعہ؛ شام میں گرنے والا خون کا ہر قطرہ تمام مسلمانوں کا ہے

زينبیہ مسجد و اسلامی مرکز استنبول (Zeynebiye Camii ve Kültür Merkezi Istanbul) کے شیعہ امام جمعہ جناب صلاح الدین اوزگوندوز (Selahattin Ozgunduz) نے جمعے کے خطبوں کے ضمن میں شام کے خلاف ترک ذرائع ابلاغ کے رویے پر سخت نکتہ چینی کی۔

انھوں نے شام میں دہشت گردوں کے ہاتھوں عوام کے غیرانسانی قتل عام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: شام میں گرنے والا خون کا ہر قطرہ میرے، اور ہر مسلمان کا خون ہے۔

انھوں نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے شام کے حالات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے حالات سدھارنے کے لئے قرآن مجید سے رجوع کرنا پڑے گا اور شام کے بارے میں تقریبا تمام شیعیان اہل بیت (ع) کی رائے یہ ہے کہ اس ملک میں ـ نسل اور فرقے کی تمیز کے بغیر ـ ہر مسلمان اور غیر مسلم کے گرنے والے خون کا ہر قطرہ میرا اور تمام مسلمانان عالم کے خون کا قطرہ ہے۔

انھوں نے کہا: دشمنان اسلام کی کوشش ہے کہ ہمارے درمیان فتنہ انگیزی کرے اور تفرقہ ڈال دے وہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو قتل کریں اور اس سلسلے میں گرنے والا خون میرا خون ہے لیکن قابضیں اور باہر سے آنے والے دہشت گردوں اور قاتلوں کا خون میرا خون نہيں ہے۔

مسجد زینبیہ کے امام جمعہ نے کہا: شام کے عوام ایک ہی وجود اور ایک ہی ہویت کو تشکیل دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ قرآن اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی مسئلے پر زور دیا ہے اور خداوند متعال ایک آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ جس نے ناحق خون گرایا وہ ابدی عذاب کا مستحق ہے اور دوسری آیت میں فرماتا ہے: کہ “جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ہے” چاہے مقتول مؤمن ہو چاہے غیر مؤمن ہو۔

انھوں نے کہا: کل آپ کا ایک پڑوسی تھا جس کو آج آپ قتل کرنا چاہتے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دشمن نے فتنہ انگیزی کی ہے چنانچہ سوال یہ ہے کہ آپ کے اس کل والے ہمسائے کا گناہ کیا ہے؟ وہ جس دن سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان کے بچوں کا گناہ کیا ہے؟ انہیں کیوں مارا جارہا ہے؟ مشرکین اپنی بـچیوں کو زندہ در گور کرتے تھے؛ اگر آپ کہیں کہ ان کے بچے ان کی طرح ہیں اور انہیں بھی مارنا چاہئے تو اگر ایسی بات ہے تو پھر تو مشرکین کی بچیوں کو بھی مشرک گرداننا چاہئے تاہم یہ بات قرآن متصادم ہے کیونکہ قرآن کا فرمان گرامی یہ ہے کہ خداوند متعال ان قتلوں کے بارے میں پوچھے گا اور زندہ درگور کرنے کے ان تمام واقعات کے بارے میں پوچھے گا؛ آپ نے اگر اپنی بیٹی کو زندہ در گور کیا ہے تو خداوند متعال کو یہ جواب نہيں دے سکیں گے کہ “میں اس بچی کا باپ تھا اور میری مرضي میں اس کو زندہ رکھوں یا اس کو ماردوں! ہرگز نہیں، آپ کو مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ تشیع کی رائے ہے کیونکہ تشیع قرآن اور حضرت محمد (ص) کی نگاہ سے ان مسائل کو دیکھتا ہے۔

تبصرے
Loading...