کریمہ اہل بیت حضرت معصومہ (س) ، مختصر سوانح حیات 

کریمہ اہل بیت حضرت معصومہ(س) کی مختصر سوانح حیات

علی حسن شگری

ڈائریکٹر آف ریسرچ ڈیپارٹمنٹ

المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کراچی کیمپس

حضرت معصومہ قم کا حقیقی اسم مبارک فاطمہ ہے آپ کے نام سے زیادہ لقب معروف ہے اس کی وجہ یہ کہ دو آئمہ معصومین امام رضا ؑ اور امام محمد تقی نے آپکو اس لقب سے پکارا۔ آپ کے والد گرامی سلسلہ امامت کے ساتویں تاجدار حضرت موسی کاظم ؑ اور والدہ باعظمت خاتون حضرت نجمہ س تھیں (1)۔آپ کے القاب طاہرہ ،حمیدہ ،رشیدہ ،تقیہ،نقیہ،رضیہ،مرضیہ،سیدہ، اخت الرضا اور صدیقہ ہیں (2)
آپ کی ولادت یکم ذیقعدہ ۱۷۳ ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ نے دو آئمہ معصومین اپنے بابا حضرت امام موسی ٰ بن جعفر ؑ اور اپنے بھائی امام علی رضاؑ سے فیض حاصل کیا ۔بابا کے شہادت کے بعد، جب ستمگر حکمران نےآپکے برادرِ ارجمند امام رضا ؑ کو زبردستی خراسان بلوا لیا تو یہ بہن بھائی جنکی الفت و محبت حسین و زینب علیہم السلام کی سی تھی اور انکے لیے ایک دوسرے کے بغیر جینا محال تھا، لہذا امام رضاؑ نے پردیس میں ایک سال گزر جانےکے بعد بہن کو خط لکھ کر بلوا لیا ۔ بہن کی خوشی کی انتہا نہ رہی شوق دیدار ماہتاب امامت لیے سوئےخراسان عازم سفر ہوئیں ۔ چند بھائی اور غلاموں اور کنیزوں کے ہمرا ہ آپ مثل زینب س جابرو ظالم خونخوار بادشاہ کے چہرے پر پڑے نقاب کو عیاں کرتے ہوئے ساوہ پہنچیں مگر یہ سفر عشق ناتمام رہا اور وسط راہ میں عباسی خونخوار بھیڑیوں نے قافلہ معصومہ پر حملہ کر دیا ۔ہاشمی خون کے وارثوں اوران کےمخلص غلاموں نے دفاع کا حق آدا کرتے ہوئے جہاد کیا اور آخرکار جام شہادت نوش کیا (4) اس دوران بی بی کوبھی زہر کا جامپلا دیا گیا ۔(5)زہر کی اثر اور بھائیوں کے خاک و خون میں غلطاں لاشوں کے ساتھ خراسان کا سفر جاری رکھنا ممکن نہ تھا لہذا آپ نے استفسار کیا کہ قم یہاں سے کتنا دور ہے مجھے قم لے چلو میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ قم میں ہمارے محب اور شیعہ رہتے ہیں ۔ 23 ربیع الثانی کا دن وہ ہےجس دن آپ نے قم میں قدم رنجا فرمائے،آج بھی اس دن کی یادگار کے طور پر ہاتھوں میں پھول لیے بچے وخواتین بیت النور پہنچتے ہیں جہاں جناب معصومہ نے 17یوم تک مسلسل شبستانِ ہجرِ امام میں رب سے لو لگائے رہائش اختیار کی تھی ۔ خانوادہ امامت کا یہ چاند اپنے محبوب بھائی کے رخ انور کی زیارت کی پیاس لیے سسکیوں کے ساتھ آخرت میں ملاقات کے یقین کے ساتھ۱۰ ربیع الثانی سنہ 201 ھجری میں شہر قم میں چل بسیں۔ قم ماتم کدہ بن گیا جنازے کو کندھا دینے دو روپوش نمودار ہوئے اقوال علما ء کے مطابق وہ دونوں امام رضا اور اور ان کے بیٹے امام تقی ؑ تھے جو ان کو دفن کر کے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگئے۔ آپ کی قبر مبارک پر پہلی بار امام محمد تقی ؑ کی صاحبزادی جناب زینب بنت امام تقی س نے 256 ھجری میں روضہ تعمیر کروایا (6) یہ قول مشہور ہے کہ آپ نے کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی۔(7)

جناب معصومہ کی علمی مقام :

آپ دو آئمہ معصومینؑ کے سایہ تعلیم و تربیت میں رہیں اور آپ کی علمی حیثیت یقینا زقنی زقا زقا ہے ۔جس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ محبان آل محمؐد کا ایک گروہ حج ادا کرنے کے بعد تکمیل حج کے لیے امام موسی کاظم کی زیارت کے لیے آیا مگر آپ کے شہر میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے شرف ملاقات نہ ہو سکا ۔کئی دن تک شوق دیدار میں راہ تکتے رہے مگر آنکھیں پتھرا گئیں آنکھیں نور امامت کی زیارت سے محروم رہیں ۔ بیت امام کے سامنے ان عاشقوں کےشور گریہ سے مدینہ میں ہل چل مچ گئی ۔آہ و فغان کی صدا خانہ امام کی دیواروں کو چیرتی کریمہ اہل بیت کے کانوں سے ٹکرائی ،یہ امت کی ماں تھیں استسفار پر معلوم ہو ا یہ عشاق اہلبیت ایک طرف زیارت کی محرومی اور دوسری طرف سوالات شرعی اور دشمنوں کی طرف سے کئے گئے وہ سوالات ہیں جن کے جوابات بڑے بڑے علماء نہ دے سکے تھے انکے جوابات نہ ملنے پر پریشان ہیں ۔آپ نے سوالات طلب کر کے جوابات لکھ دیے جبکہ اس وقت آپ کی عمر مبارک دس سال تھیں ۔ جب کاروان مدینہ کے باہر پہنچا تو اما م سے ملاقات ہو گئی عرض حال کے بعد جب سوالات اور جوابات جو حضرت معصومہ نےتحریر کیے تھے،ا نکو توثیق کے لیے پیش کیا گیا، تو ہر سوال کا جواب دیکھنے کے بعد امام کاظمؑ فرماتے فداھا ابوھا
باپ اس پر فدا ہو – باپ اس پر فدا ہو – باپ اس پر فدا ہو .یہ جملہ تاریخ میں رسول اکرم ؐ نے اپنی لخت جگر فاطمہ زھرا س کے لیے کہایا امام معصوم نے حضرت معصومہ کے لیے ۔پھر امام نے ان جملوں میں جوابات کی توثیق کی میری بیٹی نے وہی جوابات دیے ہیں جو لوح محفوظ پر تحریر ہیں (8) ۔

حضرت معصومہ امام معصوم کی نظر میں

امام صادق ؑ نے حضرت معصومہ کی فضائل اور شرف کو اس وقت آشکار کیا جب آپ بلکہ آپ کے والد بھی دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے ۔ایک قافلہ رے سے حج کرنے کے بعد امام کی زیات کے لیے جب مسجد نبوی پہنچے تو دیکھا مسجد عاشقاں علم سے لبا لب بھری ہوئی ہے ۔دروازے پر کھڑے ہو کر آپ کے ارشادات کو سننے لگے،یکایک آپ نے درس کو روکا اور آنے والوں کو اپنے پاس بلا لیا اور پوچھا کہاں سے آئے ہو جواب ملا شہر رے سے تو آپ نے قم کی سرزمین اور معصومہ کی فضلیت کو یوں بیان کیا :جسے القاضى نور اللّه الشستری ؒنے یوں بیان کیا ہے کہ
عن الصادق عليه السلام قال:ان للّه حرماً و هو مكة ألا انَّ لرسول اللّه حرماً و هو المدينة ألا و ان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفه الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى عليهاالسلام و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة باجمعهم.(9)
کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے؛ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے؛ اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے. جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کی آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں. میری اولادمیں سے ایک خاتون جن کا نام فاطمہ ہوگا ، قم میں رحلت فرمائیں گی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے۔
زیارت معصومہ کی عظمت معصوم کی نظر میں
تین معصومین ؑنے آپ کی زیارت کو جنت کا معادل قرار دیا ہے ۔ ذیل میں چند احادیث مختصرا بیاں کرتے ہیں ۔
شیخ صدوق نے صحیح سند کے ساتھ حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ :”من زارہا فلہ الجنة” جو انکی زیارت کرے گا اسے جنت نصیب ہوگی ۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا ارشاد ہے:”من زارعمتی بقم فلہ الجنة “جس شخص نے بھی قم میں میری پھوپھی کی زیارت کی وہ جنتی ہے ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے : “ان زیارتہا تعادل الجنة “زیارت معصومہ جنت کے برابر ہے ۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے :یا سعد ! من زارہا فلہ الجنة او ہو من اہل الجنة “اے سعد جو شخص بھی ان کی زیارت کرے گا اسے جنت نصیب ہوگی یا وہ اہل بہشت سے ہے ۔
حیدر خوانساری لکھتے ہیں امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص میری زیارت کے لئے نہ آسکے رے میں میرے بھائی (حمزه ) کی زیارت کرے یا قم میں میری ہمشیره معصومہ کی زیارت کرے اس کو میری زیارت کا ثواب ملے گا(10)۔
امام رضا علیہ السلام نے سعد بن سعد اشعری کو مخاطب کر کے فرمایا :اے سعد تمھارے یہاں ہم میں سے ایک کی قبر ہے ” سعد نے کہا میں نے عرض کیا : میں قربان ! وہ دختر امام موسی کاظم علیہ السلام حضرت فاطمہ (ع)کی قبر ہے ؟ فرمایا ”
نعم من زارہا عارفا بحقہا فلہ الجنة ، فاذا اتیت القبر فقم عند راسہا مستقبل القبلة کبر اربعا و ثلاثین تکبیرة و سبح ثلاثا و ثلاثین تسبیحة و احمد اللہ ثلاثا و ثلاثین تحمیدة ثم قل : السلام علی آدم صفوة اللہ …. الخ
ہاں جس شخص نے ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کی وہ جنتی ہے ۔ جب تم قبر مطہر کے پاس جاؤ تو سر اقدس کے پاس قبلہ رخ کھڑے ہوکر ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر ٣٣ مرتبہ۔(11)
موجودہ زیارت نامہ بھی امام رضا ہی کی طرف سے منقول ہے ۔امام کی زبان سے کسی کے لیے زیارت نامہ نقل ہونا یہ کمال فضیلت کی علامت ہے ۔

حضرت معصومہ کی زیارت کا ثواب حضرت فاطمہ زھرا س کا ثواب

آیت اللہ العظمی سید شہاب الدین مرعشی نجفی (رہ) کے والد ماجد مرحوم آيت اللّہ سيّد محمود مرعشى نجفى(رہ)، حضرت سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی قبر شریف کا مقام معلوم کرکے ان کے قبر کی زیارت کرنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے ایک مجرب عمل و وظیفے کا تعین کیا تا کہ اس طرح معلوم ہوجائے کہ ام ابیہا سلام اللہ علیہا کی گمشدہ قبر کہاں ہے؟ چالیس راتیں انہوں نے اپنا ذکر جاری رکھا. چالیسویں شب انہوں نے عمل مکمل کرلیا اور دعا و توسل بسیار کے بعد آرام کرنے لگے تو آنکھ لگتے ہی عالم خواب میں حضرت امام محمد باقر(ع) يا حضرت امام جعفر صادق (ع) کی زیارت کا شرف حاصل کیا.
امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا:
عَلَيْكَ بِكَرِيمَةِ اَھل ِ الْبَیت ِ یعنی کریمہ اہل بیت کی زیارت کی پابندی کرو
انہوں نے سوچا کہ گویا امام علیہ السلام حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ کی زیارت کی سفارش کررہی ہیں. چنانچہ عرض کیا:«میں آپ پر قربان جاؤں میں نے اربعین یعنی 40 روزہ عمل اسی لئے انجام دیا ہے کہ میں حضرت فاطمة الزہراء سلام اللہ کی قبرکے صحیح مقام کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں.
امام علیہ السلام نے فرمایا: میری مراد حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر شریف ہے». پھر حضرت (ع) نے مزید فرمایا:«بعض مصلحتوں کی بنا پر خداوند متعال نے ارادہ فرمایا ہے کہ حضرت زہرا(س) کی قبر شریف مخفی ہی رہے. اگر مشیت الہی یہ ہوتی کہ سیدہ فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا کی قبر ظاہر ہو، تو خدا کی طرف سے اس کے لئے جو جلال و جبروت مقدر ہوتی وہی جلال و جبروت خدا نے حضرت معصومہ کے لئے مقدر کر رکھی ہے». آیت اللہ مرعشى نجفى جاگ اٹھے تو فورا قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی غرض سے قم روانہ ہوئے اور اپنے اہل و عیال کے ہمراہ نجف سے قم تشریف لائے. (12)
کرامات کریمہ اہل بیت
آستان قدس کریمہ اہل بیت قدیم الایام سے هی ہزاروں کرامات و عنایات ربانی کا مرکز و معدن رہا ہے، کتنے نا امید قلوب خدا کی فضل و کرم سی پر امید هوئی، کتنے تہی داماں، رحمت ربوبی سے اپنی جھولی بھر چکے؛ اور کتنے ٹھکرائے هوئے اس در پر آکر کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کے فیض و کرم سے فیضیاب ہوئے اور خوشحال و شادماں ہوکر لوٹے ہیں اور اولیاء حق کی ولایت کے سائے میں ایمان محکم کے ساتھ اپنی زندگی کی نئی بنیاد رکھی ہے ۔ یہ تمام چیزیں اسی کنیز خدا ؑکی روح کی عظمت اور خداوند متعال کی فیض و کرم کے منبع بے کراں کی نشاندہی کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں که سیده معصومہ (س) کریمہ اہل بیت (ع)ہیں (13)

بہ جز عشق دلبر نیست مارا غم دل ہست و یاور نیست مارا
بود این بارگاہ دختر امّا نشان از قبر مادر نیست مارا

حواله

1۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹
2۔ انوار المشعشین ،محمد علی بن حسین بھاالدین قمی ،ج ص 211
3۔زندگانی حضرت معصومہ / آقائے منصوری : ص/ ۱۴،
4۔قیام سادات علوی : علی اکبر تشید ص / ۱۶۸۔ وسیلة المعصومین میرزا ابوطالب ص68
5۔ وسیلہ المعصومہ بنقل نزھۃ الابرار
6۔ مہدی ‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۱۔
7۔ سفينه البحار 2/376؛ تاريخ قم /7 /مستدرک الوسائل ،ج ،10 ص 368
8۔ زبدة التصانيف، ج ٦، ص ١٥٩، بحوالۂ كريمۂ اہل بيت، ص ٣.
9۔ مستدرک الوسائل ،ج ،10 ص 368
10۔ كريمه اهل بيت، ص123٣
11۔ ‘ الابرار مستدرک الوسائل ،ج ،10 ص 368
12۔ كريمه اهل بيت، ص12
13۔ مہدی ‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۱۔
13 ۔ سفينه البحار 2/376؛ تاريخ قم /7 / كريمه اهل بيت، ص23

تبصرے
Loading...