عالمی یوم فلسطین اس مقدس جہاد میں سب ملکر فلسطینیوں کی مدد کریں، امتِ مسلمہ کو رہبر انقلاب کی 7 نصیحتیں

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عالمی یوم فلسطین کے حوالے سے قومی ٹیلیویژن پر براہ راست خطاب میں عالم اسلام کو عید سعید فطر کی پیشگی مبارکباد پیش کرتے ہوئے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو انتہائی اہم 7 نصیحتیں کی ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد امام خمینیؒ کی جانب سے عالمی یوم فلسطین کے اعلان کو فلسطین کی آزادی کے رستے میں کھلنے والا ایک نیا باب اور خطے میں طاقت کے توازن کو فلسطینی مجاہدین کے حق میں پلٹا دینے والا نیا محاذ قرار دیا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو 7 نکات پر مشتمل اپنے اہم نصائح بیان کرتے ہوئے تاکید کی کہ ان کی اصلی ترین نصیحت، جدوجہد کا جاری رکھا جانا اور جہاد کی قلمرو کا تمام فلسطینی سرزمینوں تک پھیلا دیا جانا ہے جبکہ بیشک جوانوں کی ہمت، ایمان اور غیرت کے ذریعے اس خطے سے صیہونی وائرس کا وجود عنقریب ہی ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے امام خمینیؒ کی جانب سے عالمی یوم قدس کے اعلان کو سب مسلمانوں کے لئے اتحاد اور قدس شریف و مظلوم فلسطین کے لئے مل کر آواز بلند کرنے کا ذریعہ قرار دیا اور اس حوالے سے اقوام عالم کی طرف سے عالمی یوم فلسطین کے خیرمقدم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی استکباری طاقتوں اور صیہونزم کی اصلی سیاست اسلامی معاشروں کی اجتماعی سوچ میں مسئلۂ فلسطین کو غیر اہم بنا کر آہستہ آہستہ بھلا دیا جانا ہے لہذا (مسلم معاشروں کی) فوری ذمہ داری اس خیانت کے ساتھ مقابلہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ مسلم اقوام کی مسلسل بڑھتی غیرت، خوداعتمادی اور ذہانت مسئلۂ فلسطین کو ہرگز فراموش نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے فلسطینی مملکت کے غصب اور اس کی جگہ انواع و اقسام کی فجیع ترین قتل و غارت اور دوسرے جرائم کے ذریعے صیہونی ناسور کی تشکیل اور پھر دسیوں سالوں تک ان جرائم کے جاری رکھے جانے کو انسان کی درندگی اور شیطان پرستی کا ایک نیا ریکارڈ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس انسانی المیے کے اصلی ترین محرک اور ذمہ دار مغربی ممالک اور ان کی شیطانی سیاست ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی حکومتوں اور وہاں کی یہودی کمپنیوں کی جانب سے اس خطے کے اندر صیہونی حکومت کی تشکیل اور اس کو انواع و اقسام کے، حتی ایٹمی اسلحے کے ساتھ لیس کرنے کا اصلی مقصد خطے کے اندر ایک مستقل اڈہ قائم کرنا اور خطے کے ممالک میں مداخلت اور ان پر حکمرانی کا ایک رستہ کھولنا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر عرب حکومتیں اپنی ابتدائی مزاحمت کے بعد نہ صرف بتدریج گھٹنے ٹیک چکی ہیں اور اپنی انسانی، اسلامی و سیاسی ذمہ داری اور عربی غیرت و حمیت کو بھلا چکی ہیں بلکہ دشمن کے مقصد میں اس کی مددگار بھی بن چکی ہیں۔

مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے رہبر انقلاب اسلامی کی پہلی نصیحت “مسئلۂ فلسطین کو صرف فلسطینی یا زیادہ سے زیادہ عربی مسئلہ قرار دے کر محدود نہ کیا جانا” ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد پہلے تو جہاد فی سبیل اللہ اور اسلامی فریضہ ہے اور دوسرے ایک انسانی مسئلہ بھی ہے جبکہ وہ لوگ جو کچھ فلسطینی باشندوں کی طرف سے چند ایک عرب حکام کے ساتھ مل بیٹھنے کو اس عظیم اسلامی و انسانی مسئلے سے گزر جانے کا جواز سمجھتے ہیں، نہ صرف اس مسئلے کی سمجھ بوجھ میں شدید غلطی پر ہیں بلکہ (مسئلۂ فلسطین کے ساتھ) خیانت کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے اہنی دوسری نصیحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس جدوجہد کا ہدف بحر تا نہر (بحیرہ روم سے دریائے اردن تک کی) تمام فلسطینی سرزمین کی آزادی اور تمام فلسطینی باشندوں کی اپنے گھروں کو واپسی ہے لہذا اس عظیم جدوجہد کے مقصد کو صرف فلسطینی حکومت کا قیام قرار دینا اور وہ بھی فلسطینی سرزمین کے صرف ایک کونے میں، نہ حق پرستی کی علامت ہے اور نہ ہی حقیقت پسندی کی۔ انہوں نے کہا کہ آج کروڑوں فلسطینی مسلمان ایسے فکری و تجرباتی مراحل تک پہنچ چکے ہیں کہ جن کے باعث وہ کسی بھی وقت اس عظیم جہاد پر اپنی کمر ہمت باندھ سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالی کی نصرت کے ذریعے حتما انہیں ہی آخری فتح نصیب ہو گی۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو اپنی تیسری نصیحت میں اس عظیم و مقدس جہاد کے دوران غیور و دیندار مسلم معاشرے کی طرف سے اللہ تعالی پر توکل، اپنی اندرونی قوت و اپنے زورِ بازو پر تکیہ اور ظالم مغربی حکومتوں، معاشروں اور خطے کی بعض مغربی کاسہ لیس بےغیرت حکومتوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے پرہیز پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کے محدود اعداد و شمار کو پوری دنیا بار بار گن رہی ہے لیکن کیوں کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ان ممالک کے لاکھوں شہداء، قیدیوں اور گمشدہ لوگوں کا ذمہ دار کون ہے جن میں امریکہ و یورپ نے جنگ کی آگ بھڑکا رکھی ہے؟ کیوں آج دنیا یہ نہیں پوچھتی کہ فلسطین میں اس قدر وسیع پیمانے پر ہونے والے غصب، تخریبکاری اور ظلم و ستم کا ذمہ دار کون ہے؟

امام خامنہ ای نے اپنی چوتھی نصیحت میں عالم اسلام کی اہم سیاسی و عسکری شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و صیہونی سیاست کا ہدف جنگ کو مزاحمتی محاذ کے پیچھے منتقل کرنا اور مزاحمتی محاذ کو مصروف رکھنے کے لئے خانہ جنگی کی آگ بھڑکانا ہے تاکہ غاصب صیہونی رژیم کو مزید فرصت مل جائے؛ بالکل وہی کام جو انہوں نے شام، یمن اور عراق کے اندر داعش کو بنا کر انجام دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس گھناؤنی سیاست سے مقابلے کا رستہ اسلامی دنیا کے اندر جوانوں کے مطالبے میں سنجیدگی اور امام خمینیؒ کے اس عظیم فرمان میں موجود ہے کہ آپ کو جتنا للکارنا ہے، امریکہ کو للکاریئے! البتہ غاصب صیہونی دشمن کو بھی للکاریئے!

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی پانچویں نصیحت میں خطے کے اندر موجود امریکی پٹھوؤں کی طرف سے صیہونی رژیم کے ساتھ معمول کے دوستانہ تعلقات استوار کئے جانے اور غاصب صیہونی رژیم کو ایک واقعیت قرار دے کر قبول کروائے جانے کی گھناؤنی امریکی سیاست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ مہلک اور ضرر رساں واقعیت کا مقابلہ کریں اور بالکل ایسے ہی جیسے آج باشعور لوگ کرونا وائرس کے ساتھ مقابلہ ضروری گردانتے ہیں قدیم صیہونی وائرس کے ساتھ مقابلہ بھی انتہائی ضروری ہے جبکہ جوانوں کی ہمت، ایمان اور غیرت کے ذریعے خطے سے اس مہلک (صیہونی) وائرس کی جڑیں اکھڑنے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو پیش کی جانے والی اپنی نصیحتوں میں جدوجہد کے جاری رکھے جانے اور جہادی قلمرو میں توسیع پر مبنی اپنی چھٹی نصیحت کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی نصیحت میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس مقدس جہاد میں سب مل کر فلسطینیوں کو مدد پہنچائیں جبکہ ایران اس رستے میں ہر وہ کام فخر کے ساتھ انجام دے گا جس پر وہ طاقت رکھتا ہو گا، کہا کہ اس حوالے سے ایک روز مشخص ہو گیا کہ فلسطینی مجاہدین کے پاس دین، غیرت اور شجاعت تو موجود ہے لیکن ہتھیار نہیں، لہذا اللہ تعالی کی مدد کے ساتھ اس سلسلے میں منصوبہ بندی کی گئی جس کے باعث فلسطین کے اندر موجود عسکری توازن میں خاطرخواہ تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج غزہ اپنے صیہونی دشمن کی کسی بھی عسکری جارحیت کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کر کے اس پر فتح حاصل کر سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فلسطین کے اندر عسکری قوت میں آنے والی یہ تبدیلی مسئلۂ فلسطین کو عنقریب ہی اپنے آخری مراحل میں داخل کر دے گی جبکہ اس حوالے سے فلسطینی حکومت کے کاندھوں پر انتہائی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کہا کہ وحشی دشمن کے ساتھ طاقت اور مضبوط پوزیشن کے علاوہ کسی زبان میں بات نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بحمدللہ بہادر اور ڈٹ جانے والی فلسطینی قوم کے اندر اس طاقت کا بھرپور زمینہ موجود ہے جبکہ آج فلسطینی جوان اپنی عزت کا دفاع کرنے کے لئے بےچین ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ فلسطین میں حماس و جہاد اسلامی اور لبنان میں حزب اللہ نے سب پر حجت تمام کر دی ہے جبکہ دنیا مجرم صیہونی فوج کا حزب اللہ کی کاری ضربوں کے سائے میں جنوبی لبنان سے عقب نشینی پر مجبور ہو جانا کبھی نہیں بھولے گی درحالیکہ وہ سیز فائر کے لئے التماس کر رہی تھی؛ یہی ہے وہ بھرپور وار اور طاقتور موقف۔

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے امتِ مسلمہ کے نام اپنی ساتویں نصحیت میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ فلسطین تمام فلسطینیوں کا ہے اور اسے انہی کی مرضی سے چلایا جانا چاہئے، اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے پیش کردہ تمام مذاہب پر مبنی ریفرنڈم کے راہ حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حل ظاہر کرتا ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے کیا جانے والا یہودی دشمنی پر مبنی دعوی بالکل بےبنیاد ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ وہ فریق جس کو اپنی بساط سمیٹنا ہے قطعی طور پر غاصب صیہونی نظام و صیہونزم ہے، شیخ احمد یسین، فتحی شقاقی، سید عباس موسوی سے لے کر مزاحمتی محاذ کے عظیم سپہ سالار شہید جنرل قاسم سلیمانی اور عظیم شہید ابومہدی المہندس سمیت قدس شریف کے تمام شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔

تبصرے
Loading...